Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا
: پھر جب
جَنَّ
: اندھیرا کرلیا
عَلَيْهِ
: اس پر
الَّيْلُ
: رات
رَاٰ
: اس نے دیکھا
كَوْكَبًا
: ایک ستارہ
قَالَ
: اس نے کہا
هٰذَا
: یہ
رَبِّيْ
: میرا رب
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَفَلَ
: غائب ہوگیا
قَالَ
: اس نے کہا
لَآ
: نہیں
اُحِبُّ
: میں دوست رکھتا
الْاٰفِلِيْنَ
: غائب ہونے والے
پس یوں ہوا کہ جب رات نے اس کو ڈھانپ لیا ‘ اس نے ایک تارے کو دیکھا ‘ بولا کہ یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا ‘ اس نے کہا ! میں ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰکَوْکَبًا ج قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ۔ فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ۔ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَآ اَکْبَرُ ج فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌمِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ۔ (الانعام : 76۔ 77۔ 78) (پس یوں ہوا کہ جب رات نے اس کو ڈھانپ لیا ‘ اس نے ایک تارے کو دیکھا ‘ بولا کہ یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا ‘ اس نے کہا ! میں ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ پھر جب اس نے چاند کو چمکتے دیکھا ‘ بولا ! یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا ‘ اس نے کہا ! اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہوں میں سے ہو کر رہ جاؤں گا۔ پھر جب اس نے سورج کو چمکتے دیکھا ‘ بولا ! یہ میرا رب ہے ‘ یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں ان چیزوں سے بری ہوں ‘ جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو) ان آیات کریمہ میں ستارے ‘ چاند اور سورج کو مدار بحث اور مدار دلیل بنایا گیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ‘ یوں تو بیشمار بتوں کو پوجا کرتی تھی۔ لیکن ان کے شرکاء میں سب سے زیادہ جن کی پوجا ہوتی اور جن کی طاقت کو اپنی زندگی میں موثر مانا جاتا تھا وہ ستارے چاند اور سورج تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ مظاہر فطرت کو ان کی زندگیوں میں دیوتائوں کی حیثیت حاصل تھی اور بادشاہ کو بھی انہی میں سے کسی دیوتا کا اوتار مان کر اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے عام دعوت میں انہی کو اپنے سامنے رکھا اور موضوع بحث بنایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کے کسی موقع پر لوگ کسی جشن یا تقریب میں جمع ہوں گے اور زہرا ان کے سروں پر چمک رہا ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ادھر جا نکلے۔ آپ چونکہ ایک بڑے باپ کے بیٹے بھی تھے اور اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے شہرت بھی پاچکے تھے ‘ اس لیے لوگوں نے انھیں گھیر لیا تو آپ نے اس موقع کو غنیمت جان کر ایک خاص انداز میں ان کے سامنے اپنی دعوت پیش فرمائی اور ان کے تمام مذہبی خیالات کا دارومدار جن مظاہر فطرت کی پرستش پر تھا ‘ ان کا بطلان بھی کیا۔ وہ چونکہ ستاروں میں سے زہرا کی پوجا کرتے تھے اور اس وقت اتفاق سے سر پر زہرا چمک رہا تھا ‘ اسی کی طرف متوجہ ہو کر ان کو سناتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں آپ نے فرمایا : ھٰذَا رَبِّیْ ” یہ ہے میرا رب “ یعنی تمہارے خیال کے مطابق ‘ یہی میرا رب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تمام ستاروں میں اسی کی چمک اور اسی کی درخشندگی سب سے نمایاں ہے۔ لوگوں نے ان کی زبان سے یہ بات سن کر ایک اطمینان اور خوشی محسوس کی کہ یہ نوجوان تو اللہ کے سوا کسی اور کو مانتا ہی نہیں۔ اب اگر اس نے زہرا کو اپنا رب کہا ہے تو اس سے بڑھ کر اطمینان بخش بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ زہرا کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور ہوسکتا ہے اس کی چمک دمک کی تعریف بھی کی ہو ‘ تاکہ سننے والوں میں یہ بات اچھی طرح راسخ ہوجائے کہ زہرا کی ربوبیت کی اگر کوئی وجہ ہوسکتی ہے تو اس بلند آسمان پر اس کا وجود اور اس کی درخشندگی ہے۔ اس کی یہ نور افشانی اور اس کی یہ رعنائی اور دلکشی ‘ یقینا بےسبب تو نہیں ہوسکتی۔ جس میں یہ چمک دمک اور عظمت ہو اسے ضرور رب ہی ہونا چاہیے۔ زہرا چونکہ باقی ستاروں میں جلدی ماند پڑجانے والا ستارہ ہے۔ چناچہ جب کچھ دیر کے بعد وہ روشنی کھونے لگا ‘ حتٰی کہ وہ ڈوب گیا تو آپ نے خود کلامی کے انداز میں لیکن انھیں سناتے ہوئے فرمایا کہ میری پسندیدگی کی وجہ یا اس کو رب کہنے کا سبب ‘ اس کا طلوع ہونا اور اس کا بلندیوں پر چمکنا تھا۔ لیکن اگر یہ بھی بےنور ہوجاتا اور ڈوب جاتا ہے تو ایسی بےثبات چیزوں سے میں دل نہیں لگا سکتا۔ ڈوب جانے والی چیزیں تو مجھے یوں بھی پسند نہیں ‘ چہ جائیکہ میں انھیں اپنا رب بنا لوں۔ غور فرمایئے کہ اس میں دعوت کا انداز بالکل نہیں سننے والوں سے بالکل خطاب نہیں کیا جا رہا۔ البتہ ایک خاص طریقے سے ایک بات ضرور کہہ دی گئی ہے ‘ جس سے سننے والے دل و دماغ اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلے موقع سے اتنا ہی فائدہ اٹھانا مقصود تھا۔ تاکہ اس قوم کو بھڑکنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن سننے والے ضرور سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔ پھر رات کے کسی ایک ایسے ہی موقع پر چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ستارہ تو صرف دمکتا ہے ‘ ٹمٹماتا ہے ‘ زہرا کی درخشندگی نسبتاً نمایاں ہوتی ہے۔ لیکن چاند تو اپنی خوبی، رعنائی اور اپنی چمک دمک میں ستاروں سے کہیں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر اپنے مخصوص انداز میں خود کلامی کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ ہوگا میرا رب “ یعنی جیسے تم اس کو رب سمجھتے ہو بلکہ تم تو اوروں کو بھی سمجھتے ہو ‘ لیکن یہ ان میں چونکہ نمایاں ہے۔ اس لیے ممکن ہے ‘ یہ میرا رب ہو۔ لیکن صاف نظر آتا ہے کہ یہ چاند کے رب ہونے کا اعتراف نہیں بلکہ ان کے عقیدے کو ان کے سامنے بیان کر کے ان کی کمزوری کو واشگاف کرنا مقصود ہے۔ انداز وہ اختیار کیا گیا ہے ‘ جس سے وہ لوگ مشتعل ہونے کی بجائے یہ سمجھ کے قریب آئیں کہ شاید انہی کی بات کو مانا جا رہا ہو۔ لیکن جب چاند بھی اپنے وقت پر ڈوب گیا تو اب آپ نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ لیکن خطاب ان سے پھر بھی نہیں فرمایا۔ صرف اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تو اس کی چمک دمک کا اسیر ہوگیا تھا اور اس کے حسن نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ سارا حسن اور اس کی یہ روشنی بھی فریب نظر یا خدمت کی انجام دہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ چمکتا ہے تو خود نہیں ‘ بلکہ اسے کوئی اور چمک دیتا ہے۔ لیکن یہ ڈوب جانے کے لیے اسی طرح مجبور ہے ‘ جس طرح ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ ڈوب جانے والوں کو اگر رب مان لیا جائے تو اس سے بڑی گمراہی اور کیا ہوگی۔ لیکن اس کے حسن کی تاثیر نے ایک دنیا کو مبہوت کر رکھا ہے۔ وہ صرف اس کا حسن اور رعنائی دیکھتی ہے۔ وہ اس کے اختتام اور اس کے ڈوب جانے کو نہیں دیکھتی اور یہ مرحلہ اتنا گراں ہے کہ اس میں میرے رب نے اگر میری رہنمائی نہ کی تو میں بھی شاید راہ راست پر نہ رہ سکوں۔ پہلی آیت میں ستارے کے ڈوبنے پر صرف اتنا ہی فرمایا تھا کہ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس آیت میں سوچنے والوں کو قدم آگے بڑھانے کا اشارہ دیا ہے کہ ڈوبنے والوں کو پسند کرنا تو صرف غلطی ہوگی۔ لیکن ان کو رب بنا لینا ‘ یہ تو ضلالت اور گمراہی ہے اور کسی ضلالت کا ارتکاب کرنا ‘ یہ ایسی بات نہیں کہ جسے آرام سے قبول کرلیا جائے۔ یہ تو نہایت تأسف کی بات ہے۔ اس لیے میں خود بھی اسے اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اور اختیار کرتا ہے تو اس پر دکھ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تیسری آیت کریمہ میں سورج کا ذکر فرمایا گیا۔ پہلے دونوں واقعے تو رات کے ہیں ‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسی روز دن کے وقت تبلیغ و دعوت کا کوئی موقع ہاتھ آیا تو آپ نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا لب و لہجہ پہلے سے کچھ بدلا ہوا ہے اور تیکھا ہوگیا ہے۔ کیونکہ آپ نے سورج کو دیکھ کے فرمایا ‘ جو پوری آب و تاب سے آسمان پر چمک رہا تھا کہ ” یہ ہوگا میرا رب “ اور ساتھ ہی طنز کیا کہ یہ سب سے بڑا جو ہے۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس قوم کو جس چیز نے دھوکہ دے رکھا ہے ‘ وہ ان ستاروں کا آسمان کی بلندیوں پر ہونا ‘ پھر ان کا آب و تاب سے چمکنا۔ یہ ان کی عظمت کے دلائل ہیں اور جہاں بھی عظمت پائی جاتی ہو ‘ وہاں ربوبیت بھی پائی جانی چاہیے۔ اس لیے انھوں نے ان کو اپنا رب بنا رکھا تھا۔ آپ نے انھیں طنز کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو ! یہ سورج سب سے زیادہ چمکدار بھی ہے اور سب سے بڑا بھی لیکن میں تمہیں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اپنی چمک دمک اور بڑائی کے باوجود کیا اپنی حالت کو قائم رکھ سکتا ہے ؟ ظاہر ہے ‘ وہ بھی اپنی حالت کو کیسے قائم رکھ سکتا ہے۔ اپنے وقت پر وہ بھی ڈوب گیا۔ اس طرح گویا آسمان پر ان کے سارے معبود جب ایک ایک کر کے زوال کا شکار ہوگئے اور ان کی عظمتیں فنا ہوگئیں تو تب آپ ان سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے ‘ اے قوم ! میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم اللہ کے شریک ٹھہراتے ہو۔ اس طرح آپ نے پہلی دونوں آیتوں میں اپنی فطرتِ سلیم کا آئینہ ان کے سامنے رکھا ‘ تاکہ وہ لوگ اس آئینہ میں اپنے منہ دیکھ لیں اور ساتھ ساتھ دلائل سے ان کو قائل بھی کرتے گئے اور جب یہ دلائل مکمل ہوگئے اور بات اپنے انجام کو پہنچ گئی تو آپ نے صاف طور پر انھیں دعوت دیتے ہوئے ان کی گمراہی پر توجہ دلائی اور پھر وہ کلمہ حق جس سے پوری طرح راہ راست کھل کر سامنے آجائے ‘ اس کا واشگاف انداز میں اعلان فرمایا : اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ (الانعام : 79) (میں نے تو اپنا رخ بالکل یکسو ہو کر اس کی طرف کیا ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں ) یہ ملت ابراہیم اور اسلام کا وہ کلمہ جامعہ ہے ‘ جس سے اسلام کے اساسی عقیدے ‘ یعنی عقیدہ توحید کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جب نماز کی نیت باندھتے ہیں اور نماز چونکہ سب سے زیادہ بندے کی عبدیت اور اللہ کی الوہیت کو دل و دماغ میں راسخ کرتی ہے ‘ تو ہم اسی آیت سے نماز کا آغاز کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے اسی کلمہ اسلام کو پیش فرمایا ‘ جس میں آپ کی پوری دعوت بھی سمٹ آئی ہے اور اپنے بارے میں بھی پوری طرح بات کو کھول دیا گیا ہے اور اس دلیل کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے ‘ جس سے ان کا پوری طرح بطلان ہوجاتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے یہ بات فرمائی کہ تم نے اپنی پوری زندگی تقسیم کر رکھی ہے۔ تم اللہ کو مانتے بھی ہو ‘ لیکن زندگی کے تمام فیصلے اور زندگی کے تمام رویوں میں اس کے احکام ماننے کی بجائے غیر اللہ کی اطاعت کرتے ہو اور جابجا ان کی پرستش بھی کرتے ہو۔ اس لیے میری دعوت کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ میں نے اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ کیونکہ یہاں ” وَجَّھْتُ “ اَسْلَمْتُ کے معنی میں ہے۔ میری زندگی کا کوئی لمحہ ‘ اس کی بندگی سے آزاد نہیں۔ جس طرح میری عبادت اس کے لیے ہے ‘ اسی طرح میری اطاعت بھی اسی کے لیے ہے۔ جس طرح میں عبادت گاہ میں اس کے سامنے جھکتا ہوں ‘ اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی میرا وہی آستانہ ہے۔ جس سے میں راہنمائی طلب کرتا ہوں۔ پھر اس پر دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم آسمانوں کی بلندیوں پر چمکنے والے ستاروں کی چمک دمک کے اسیر ہو کر ان کی پوجا کرتے ہو اور زمین پر تخت و تاج کے مالک بندوں کے سامنے سر جھکاتے ہو اور نجانے کتنی زمینی قوتیں ہیں ‘ جن کو تم اپنے معبود سمجھتے ہو۔ حالانکہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو صرف اللہ ہے۔ تم جن قوتوں کو اپنا معبود سمجھتے ہو ‘ وہ تمہاری طرح اللہ کی بےبس مخلوق ہیں۔ اس لیے اس کی موجودگی میں ‘ یعنی خالق کے ہوتے ہوئے ‘ مخلوق کو رب کیسے مانا جاسکتا ہے ؟ ایک دوسری جگہ بھی قرآن کریم نے اسی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ (حم السجدہ : 37) (سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ‘ اس اللہ کو سجدہ کرو ‘ جس نے ان کو پیدا کیا ہے) پھر حنیف کا لفظ کہہ کر توحید کی گرفت کو مزید واضح فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنا آپ اللہ کے سپرد کردیا ہے کہ اب میرا کوئی ایسا تعلق غیر اللہ کے ساتھ نہیں ہوسکتا ‘ جو اللہ کے تعلق سے متصادم یا اس کو کمزور کرنے والا ہو۔ کیونکہ جس طرح غیر اللہ کی عبادت کرنا اور ان کی غیر مشروط اطاعت کرنا اور اللہ کی ذات وصفات میں کسی حد تک بھی شریک کرنا شرک ہے ‘ اسی طرح اس کی عبادت و اطاعت میں کسی کو اس طرح شریک کرنا کہ جس سے اللہ کے تعلق کو نقصان پہنچتا ہو اور عبدیت کے مزاج میں شکست و ریخت پیدا ہوتی ہو ‘ وہ بھی سراسر عقیدہ توحید کے خلاف ہے اور شرک کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ کہا میں ان میں سے کسی بھی گمراہی کے لیے تیار نہیں کیونکہ میں ایک موحد ہوں ‘ مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ یہ سارے شرک کے انداز ہیں اور میں ان سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اللہ کے نبیوں نے جب بھی بگڑی ہوئی قوم کے سامنے اپنی دعوت توحید پیش کی ہے اور ان کے شرک کی تردید کی ہے تو قوم نے کبھی بھی اسے آسانی سے قبول نہیں کیا۔ بلکہ جہاں تک ان کا بس چلا ‘ انھوں نے دعوت کا راستہ بھی روکا اور دعوت پیش کرنے والے کو اذیتیں بھی پہنچائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بھی اس دعوت کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے لیے انھوں نے ہر وہ حربہ اختیار کیا ‘ جو مشرک قومیں اختیار کرتی رہی ہیں۔ اگلی آیات کریمہ میں اسی کا ذکر ہے۔ فرمایا : وَحَآجَّہٗ قَوْمُہٗ ط قَالَ اَتُحَاجُّوْٓنِّیْ فِی اللہِ وَ قَدْ ھَدٰنِ ط وَلَآ اَخَافُ مَاتُشْرِکُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ رَبِّیْ شَیْئًا ط وَسِعَ رَبِّی کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا ط اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ ۔ وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِ اللہ ِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا ط فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (الانعام : 70۔ 81) (اور اس کی قوم ‘ اس سے جھگڑنے لگی۔ اس نے جواب دیا : کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو ؟ درآنحالیکہ اس نے میری رہنمائی فرمائی اور میں ان سے نہیں ڈرتا ‘ جن کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ مگر یہ کہ کوئی بات میرا رب ہی چاہے۔ میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ تو کیا تم لوگ دھیان نہیں کرتے ؟ اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں ‘ جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے ایسی چیزوں کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے ‘ جن کے باب میں اس نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ تو ہم دونوں گروہوں میں سے امن و اطمینان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو ؟ ) جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ایک جھگڑالو قوم تھی ‘ بال کی کھال اتارنا اور بات بات میں الجھنا ‘ یہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت میں بھی انھوں نے اسی رویے سے کام لیا۔ اللہ کے بارے میں قسم قسم کی باتیں کہنے لگے ‘ جیسے ہر دور کے مشرکین کہتے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ تم اللہ کے بارے میں مجھ سے کس بنیاد پر جھگڑتے ہو ؟ کیونکہ اللہ کی ذات وصفات کے بارے میں کچھ بھی جاننے کا ذریعہ وحی الٰہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ‘ جسے وضعی علوم کے واسطے سے جان لیا جائے وحی الٰہی صرف اللہ کے رسولوں پر اترتی ہے۔ انہی کے واسطے سے دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی ذات کیسی ہے ‘ اس کی صفات کیا ہیں ‘ وہ وحدہٗ لاشریک ہے ‘ کسی کو اس کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ‘ کوئی بھی اس کی ذات میں شریک نہیں ‘ وہ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ یہ سراسر وہ علم ہے ‘ جو رسولوں پر نازل ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ نے نبوت دی ہے مجھ پر وحی اترتی ہے۔ اس لیے اللہ کی راہنمائی کے مطابق اور اس کے دیئے ہوئے علم سے میں تمہاری رہنمائی کرسکتا ہوں۔ لیکن تم اس علم سے بالکل بیخبر ہو تو پھر تم مجھ سے اللہ کے بارے میں کس طرح جھگڑتے ہو کیونکہ راستے کا جاننے والا اور راستے سے بیخبر ‘ دونوں برابر تو نہیں ہوتے۔ اگر منزل پر پہنچنا مقصود ہو تو عقل کی بات یہ ہے کہ جو راستے سے واقف ہو اسی کو راہنما بنایا جانا چاہیے۔ وہ چھوٹا بھی ہو تو محض اس لیے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ چھوٹا ہے بڑے اس کے پیچھے کیسے چلیں۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ کسی راستے پر چلنے والے بھی ‘ چلنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اس راستے کو جاننے والا ہے ؟ اور اگر ان میں سے کوئی بھی چھوٹا ہونے کے باوجود راستے کو جاننے والا ہو تو اسی سے کہا جاتا ہے کہ تم آگے چلو اور ہمیں راستہ دکھائو۔ جو لوگ اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ‘ ہمیشہ راستے کی بھول بھلیوں میں الجھ کر منزل گم کر بیٹھتے ہیں۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہی فرما رہے ہیں کہ مجھے اللہ نے ہدایت دی ہے۔ میں بتاسکتا ہوں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور توحید کا صحیح تصور کیا ہے۔ تم بےعلمی سے اگر میری بات قبول کرنے سے انکار کرو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ کہی جا رہی ہے کہ ان لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے نام نہاد معبودوں سے ڈرانا شروع کیا کہ ہم نے اللہ کے ساتھ جن کو شریک بنا رکھا ہے تم اگر ان کی تردید کرتے ہو اور ہمیں بھی ان کو معبود ماننے اور اللہ کی صفات میں ان کو شریک جاننے سے روکتے ہو تو یاد رکھو کہ یہ بہت پہنچے ہوئے لوگ ہیں ان میں بڑی قوتیں ہیں یہ تمہیں نقصان پہنچائیں گی تم پر ان کی مار پڑ سکتی ہے تم کسی نہ کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس آیت کریمہ میں یہ فرما رہے ہیں کہ جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے میں ان سے نہیں ڈرتا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ باقی مخلوقات کی طرح بےبس مخلوق ہیں۔ وہ نفع و نقصان کی مالک نہیں ‘ اللہ کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ اگر اللہ نہ چاہے تو وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں ! اگر اللہ کو منظور ہو کہ مجھے کوئی نقصان پہنچے تو پھر کسی کے ذریعے بھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر اللہ میری حفاظت فرمائیں تو دنیا کی ساری مخلوق بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے جن سے تم مجھے ڈراتے ہو میں ان سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اللہ کی قدرت بےپناہ ہے اور اس کے مقابلے میں کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں اسی طرح اس کا علم بھی ہر چیز کو محیط ہے۔ وہ میری کسی ضرورت اور کسی کمزوری سے بیخبر نہیں ‘ وہ میری ہر حالت سے آگاہ ہے۔ اس لیے اگر اسے میری بھلائی منظور ہے تو کوئی مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی بیخبر ی میں مجھے کوئی نقصان پہنچائے۔ نقصان پہنچانے والے بیخبر ہوسکتے ہیں ‘ لیکن اللہ کی ذات کسی چیز سے بیخبر نہیں۔ اس کی قدرت بھی بےپناہ ہے اور اس کا علم بھی بےپایاں۔ جس آدمی کو اللہ کے علم اور قدرت پر بھروسہ ہو اور وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کرچکا ہو اس کو اللہ تعالیٰ دل کا ایسا اطمینان اور ایسی قوت سے مشرف فرماتے ہیں کہ راہ حق میں بڑی سے بڑی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں بدل سکتی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دنیا بھر کی مخالفت بھی اس کو کبھی پریشان نہیں کرسکتی۔ وہ اس راستے میں ہر آنے والی تکلیف کو اللہ کا انعام سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں اس کی نگاہوں میں ہوں اور اس کی حفاظت ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ مجھے اگر پھر بھی کوئی نقصان پہنچتا ہے تو یہ میرے کسی گناہ کا نتیجہ ہے۔ مجھے اپنے گناہوں کی فکر ہونی چاہیے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کی حفاظت مجھ سے اٹھ جائے۔ چناچہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جن کو اس طرح کا یقین میسر آجاتا ہے وہ اللہ کے راستے میں سر تو کٹوا دیتے ہیں ‘ لیکن دشمن اپنی ساری طاقتوں کے باوجود انھیں کلمہ حق کہنے سے روک نہیں سکتا اور نہ انھیں جھکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ صلاح الدین شہید مدیر ” تکبیر “ ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی میں میرے مہمان تھے۔ انھوں نے بتایا کہ افغان مجاہدین نے مجھ سے کہا کہ آپ کی زندگی کو بہت خطرہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے تحفظ کے لیے کوئی انتظام کریں۔ صلاح الدین صاحب نے ان سے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ ‘ زندگی موت اللہ کے قبضے میں ہے۔ جب تک اس کو منظور ہے ‘ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر ان سے انھوں نے ایک سوال کیا کہ آپ مجھے یہ بتایئے کہ کیا آپ مصر کے صدر انوار السادات جیسا میرا تحفظ کرسکتے ہیں یا ہندوستان کے وزیراعظم اندراگاندھی جیسی سکیورٹی مجھے فراہم کرسکتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ یہ تو ہم سے ممکن نہیں۔ صلاح الدین صاحب نے کہا : دیکھ لیجئے ! اس قدر سکیورٹی کے باوجود ‘ وہ دونوں اپنی موت کو نہ روک سکے اور میرا بھی جو موت کا وقت مقرر ہے ‘ مجھے بھی آپ اس سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس کے بعد کی آیت کریمہ میں اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ کس قدر عجیب بات ہے کہ تم اللہ جیسی عظیم ذات کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک ٹھہرا رہے ہو اور پھر ان کے ساتھ وہ معاملہ کر رہے ہو ‘ جو تمہیں اللہ کے ساتھ کرنا چاہیے۔ ان سے امیدیں باندھتے ہو ان سے خوف کھاتے ہو ‘ ان کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہو ان کے سامنے سرجھکاتے ہو ‘ غرضیکہ تم نے انھیں اللہ کی صفات میں شریک کر رکھا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کوئی دلیل تم پر نازل نہیں کی۔ جس کی بنیاد پر تم نے انھیں اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے۔ ذرا غور کرو ! اس سے بڑھ کر اور کیا جرم ہوگا ؟ اگر تم دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ساتھ کسی اور کو اس کے اختیار میں شریک قرار دے کر اس کے ساتھ ویسے ہی ادب و احترام اور خوف و رجا کا معاملہ کرنے لگو ‘ جیسے بادشاہوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور بادشاہ کے اختیارات تم اپنے تئیں اسے سونپ دو تو جب بادشاہ کو اس کی خبر ہوگی کہ تم نے اس طرح کی حرکت کی ہے تو اندازہ کرسکتے ہو کہ بادشاہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ حالانکہ بادشاہ بھی باقی انسانوں کی طرح ایک انسان ہے۔ وہ بھی احتیاجات سے پاک نہیں۔ کسی اور کو اس کا ہمسر بنادینا ‘ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ بھی نہیں۔ بایں ہمہ اس کی غیرت جوش میں آئے گی تو وہ تمہیں وہ سزا دے گا ‘ جو دوسروں کے لیے عبرت بن جائے۔ لیکن اللہ جیسی عظیم ذات جو خالق کائنات ‘ ہر طرح کی احتیاج سے پاک اور ہر طرح کی ہمسری سے ماورا ہے ‘ تم اس کے ساتھ اس کی مخلوقات میں سے کسی کو شریک کرتے ہو۔ جبکہ اس نے تمہیں اس شرکت کا حق نہیں دیا تو کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اس پر تمہاری گرفت ہوسکتی ہے اور تمہیں کسی خطرناک انجام سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے ؟ بلکہ تمہاری جسارت کا عالم یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تم اپنے انجام سے ڈرو ‘ تم اپنے نام نہاد شرکاء کے عتاب سے مجھے ڈرا رہے ہو حالانکہ وہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہیں ‘ جو احتیاجات میرے ساتھ لگی ہیں ‘ ان سے وہ بھی مبرا نہیں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ تم یہ معاملہ اس صورت میں کر رہے ہو کہ تم اللہ کے وجود کو مانتے بھی ہو ‘ اس کی قدرتوں کے بھی قائل ہو یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ کائنات کا خالق وہی ہے اور زندگی اور موت اسی کے قبضے میں ہے۔ اس ایمان کے اعتبار سے تو میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ لیکن میں صرف اس کی ذات اور اس کی چند صفات ہی کو تسلیم نہیں کرتا ‘ بلکہ اس کو ہر طرح وحدہ لاشریک بھی سمجھتا ہوں اور اسی کو اس کائنات کا اور اپنا حقیقی حکمران جانتا ہوں۔ اب تم ہی بتائو کہ اپنے انجام سے ڈرنا مجھے چاہیے یا تمہیں ؟ ہم دو گروہ ٹھہرے ‘ تم ہی فیصلہ کرو ‘ ہم دونوں میں سے کون سا گروہ ہے جو اللہ کے عتاب اور غضب سے اور اس کے عذاب سے امن میں ہے ‘ میں یا تم ؟ کیا تم اتنی واضح باتوں کے بعد بھی ہوش میں نہیں آئو گے اور اپنی گمراہیوں پر اور اپنے انجام پر غور نہیں کرو گے جبکہ اس کی ذات وصفات کا معاملہ اس قدر نازک ہے اور وہ اس معاملے میں اس قدر غیرت مند ہے کہ اس میں معمولی کمی بیشی بھی انسان کو خوفناک انجام سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے ارشاد فرمایا :
Top