Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
نُرِيْٓ
: ہم دکھانے لگے
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
مَلَكُوْتَ
: بادشاہی
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَلِيَكُوْنَ
: اور تاکہ ہوجائے وہ
مِنَ
: سے
الْمُوْقِنِيْنَ
: یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے ‘ (تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے) اور کاملین یقین میں سے بنے
وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔ (الانعام : 75) (اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے ‘ تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور کاملین یقین میں سے بنے ) اس آیت کریمہ میں مختلف حقائق کی طرف راہنمائی فرمائی گئی ہے۔ ان کا ذکر کرنے سے پہلے صرف ایک لفظ کی وضاحت ضروری ہے۔ اس آیت میں ” ملکوت “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ملکوت کا لفظی مفہوم عزت و اقتدار ‘ بادشاہی اور سلطنت ہے۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ خدا کی اس تکوینی بادشاہی کے لیے استعمال ہوا ہے ‘ جو آسمان اور زمین بلکہ ہر چیز پر قائم و دائم ہے۔ فطرت سلیم کے مالک انسان کو اللہ کی ذات کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی اس آیت میں غور کرنے سے سب سے پہلی جو چیز سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسانی ارواح کو پیدا فرمایا تھا تو انسانی ارواح سے ایک عہد لیا تھا۔ آپ اسے عہد فطرت کہہ لیجئے یا عہد الست۔ اس میں روحوں سے پوچھا گیا تھا کہ بتلائو کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟ سب نے بیک زبان کہا تھا کہ آپ یقینا ہمارے رب ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ دنیا میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے ‘ وہ اپنے ساتھ اس عہد کی یادداشت لے کر آتا ہے۔ اگر ماحول ‘ والدین کی تربیت اور تعلیم اسے نہ بگاڑیں تو اس کے تحت الشعور ‘ اس عہد کی یاد زندہ رہتی ہے۔ جب کبھی وہ اس کائنات پر غور کرتا ہے تو وہ یقینا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ومالک ہے۔ لیکن جب والدین کی تربیت ‘ تعلیم اور ماحول اس کی فطرت کو بگاڑ دیتے ہیں تو اس کا یہ عہد طاق نسیان میں چلا جاتا ہے اور اس وقت تک اس کے دل و دماغ میں تازہ نہیں ہوتا ‘ تاوقتیکہ پیغمبرانہ تبلیغ و دعوت سے دوبارہ اس عہد کو یاد نہ دلایا جائے۔ اللہ کے نبی چونکہ نخل فطرت کے بہترین ثمر ہوتے ہیں ‘ وہ ماحول کی گندگی میں رہنے کے باوجود اپنی فطرت سلیم کے اثرات سے کبھی بےنیاز نہیں ہوتے۔ وہ نبوت سے پہلے بھی عصمت کے حصار میں رہتے ہیں۔ قدرت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ پتھروں کے ڈھیر میں ‘ ہیرے کی مانند چمکتے رہتے ہیں چونکہ ان کی فطرت اپنی سلامتی پر قائم رہتی ہے ‘ اس لیے قدرت ان پر نبوت سے پہلے ایک انعام کا آغاز کرتی ہے اور پھر نبوت کے ساتھ اس انعام کی تکمیل کردیتی ہے۔ نبوت تو انبیاء کی خصوصیت ہے لیکن یہاں میں جس انعام کا ذکر کرنے لگا ہوں ‘ وہ صرف انبیاء کی خصوصیت نہیں ‘ بلکہ جس کی فطرت سلیم عہد الست پر قائم ہو قدرت کا یہ انعام برابر اس پر بھی جاری رہتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن کریم توجہ دلاتا ہے : اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْض (کیا انھوں نے آسمانوں اور زمین میں خدا کی بادشاہی پر غور نہیں کیا ؟ ) یعنی غور و فکر کا یہ انعام اللہ تعالیٰ ہر اس بندے پر فرماتے ہیں جو اپنی فطرت کی سلامتی پر قائم ہوتا ہے۔ اس کی فطرت چونکہ بار بار اس کے عہد الست کو یاد کراتی ہے اس لیے وہ بار بار اپنی اس متاع کو تلاش کرتا ہے ‘ جس کی یاد اس کے تحت الشعور سلگتی رہتی ہے اور وہ اللہ کے ملکوت میں برابر غور و فکر کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کلید اس کے ہاتھ آتی ہے ‘ جس سے صحیح فکر اور صحیح عمل کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی سے زندگی کا سرا بھی ہاتھ آتا ہے اور اسی سے اس کے منتہا کا بھی پتا چلتا ہے۔ اقبال شاید ایسی ہی کسی کشمکش میں مبتلا تھا ‘ جب اس نے یہ بات کہی تھی ؎ خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداء کیا ہے کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہاء کیا ہے اسی فکر میں سوچنے والا برابر یہ سوچتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خالق ہے یا خود بخود وجود میں آگئی ہے ؟ اگر کوئی خالق ہے تو کیا وحدہ لا شریک ہے یا اس کا کوئی اور شریک بھی ہے ؟ پھر یہ دنیا کبھی ختم بھی ہوگی یا ہمیشہ قائم رہے گی ؟ اگر اس کا کوئی خالق ومالک ہے تو اس کی صفات و خصوصیات کیا ہیں اور کس لیے اس نے اتنا بڑا عالم کھڑا کردیا ہے ؟ اس دنیا میں حق و باطل کے لیے کوئی معیار ہے یا یہ کوئی اندھیر نگری ہے ؟ آسمانوں اور زمین میں ایک ہی قادر قیوم کی تدبیر حکمت کارفرما ہے یا اس کے اندر الگ الگ مشیتیں اور الگ الگ ارادے زور آزمائی کر رہے ہیں ؟ یہ اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے سوالات ہیں جن کے صحیح حل پر ہی صحیح فکر اور صحیح عمل کی بنیاد ہے۔ ایک سلیم الفطرت آدمی اللہ کے اس انعام سے جب نوازا جاتا ہے تو برابر یہ غور و فکر جاری رکھتا ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ خالق کائنات کے وجود سے آشنا ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی نبوت سے پہلے سب سے زیادہ اس انعام سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے معصوم ہونے کی وجہ سے یوں تو ہر شرک اور ہر گناہ کی آلودگی سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کی فطرت ہر طرح کے برے تاثر سے بچی رہتی ہے۔ لیکن غور و فکر کا یہ سلسلہ اللہ کی ذات کو جاننے کے لیے نہیں بلکہ اس کی صفات کو پہچاننے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کے لیے برابر جاری رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی انعام سے نوازا تھا اور اس طرح نوازا تھا کہ وہ پتھروں کے اس ڈھیر میں ہیرے سے بڑھ کر روشنی دینے لگے تھے۔ یہاں رک کر ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ کائنات پر غور و فکر اور تفکر کا یہ انداز جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ‘ یہ تو اللہ کے نیک بندوں اور انبیاء کرام کا حصہ ہے۔ لیکن جہاں تک کائنات پر محض غور و فکر کا تعلق ہے ‘ وہ تو ایک سائنسدان بھی کرتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ سائنسدان کی نگاہ اپنی ذات اور اپنے محدود ماحول کے محور تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسے صرف اشیاء کے خواص کو جاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے سوا اور کسی بات کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ چمن میں کھلے ہوئے گلاب کو دیکھتا ہے ‘ لیکن صرف اس کے فوائد کو تلاش کرتا ہے اور وہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ جس طرح اس سے گلقند تیار ہوتا ہے ‘ کیا کوئی اور چیز بھی اس سے بنائی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ لیکن اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اگر صرف اس سے گلقند بنانا ہی مقصود ہوتا تو اس کے لیے پھول کے حسن و جمال اور اس کی رعنائی و دلکشی اور اس کی عطر بیزی و شادابی کی آخر کیا ضرورت تھی ؟ پھول کی ایک ایک پنکھڑی پر جس طرح فیاضی کے ساتھ گلکاری کی گئی ہے کیا یہ بھی گلقند کے لیے ضروری تھی ؟ لیکن ایک سائنسدان ‘ ان باتوں پر غور نہیں کرتا کہ اس کا صانع کون ہے اور اس کو یہ رعنائی اور دلکشی عطا کرنے والی ذات کون سی ہے۔ وہ کبھی اس پردے کے پیچھے جھانک کر اس ہاتھ کو یکھنے کی کوشش نہیں کرتا ‘ جس نے پھول کو حسن و جمال سے نوازا ہے۔ نیوٹن نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو اس کے ذہن میں معاً یہ خیال آیا کہ آخر یہ سیب زمین ہی پر کیوں گرتا ہے ‘ خلا تو اس کے چاروں طرف ہے ‘ کسی اور طرف کیوں نہیں گرتا ؟ اس سے اس کے ذہن میں زمین کی کشش کا تصور پیدا ہوا ‘ جو آگے چل کر بہت سی تحقیقات اور انکشافات میں معاون ثابت ہوا اور اس نے یہ بات ثابت کی کہ زمین میں ایک کشش ہے اور یہاں ایک قانون جذب و کشش کارفرما ہے اور یہیں تک اس کی نگاہ رک کے رہ گئی۔ لیکن اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ آخر وہ کون ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو جذب و کشش کے اس قانون سے باندھ رکھا ہے۔ بس سائنسدان اور اللہ والوں کے غور و فکر میں یہی فرق ہے کہ سائنسدان کی سوچ پر صرف مفاد کا غلبہ ہے اور ذمہ داری کے احساس کا فقدان ہے۔ لیکن اللہ والے ‘ جب اس تفکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں تو وہ شے کی حقیقت کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اس کے خالق تک پہنچ جاتے ہیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت کے فیضان کی پہلی صورت یہی رہی ہے کہ باقی انبیاء کی طرح انھوں نے زمین و آسمان کے ملکوت پر غور جاری رکھا۔ وہ اللہ کے وجود سے عہد فطرت کے باعث آشنا تھے۔ لیکن اب اس کی تفصیلات جاننے کی فکر میں تھے۔ جیسے آنحضرت ﷺ عمر کے ساتھ ساتھ تنہائی پسند ہوتے گئے اور مسلسل تحنث میں مبتلا رہے۔ علماء کہتے ہیں ” تحنث “ اللہ کے ملکوت میں غور و فکر کا نام ہے۔ آپ اللہ کو یاد کرتے ‘ اس سے محبت کرتے تھے۔ لیکن محبت کے طریقے اور یاد کی ادائوں کو جاننا چاہتے تھے۔ آپ اس فکر میں تھے کہ آخر انسانی زندگی کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہی حال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا۔ پھر اس انعام کی تکمیل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے مشرف فرمایا اور جس راز کو وہ جاننا چاہتے تھے وحی الٰہی کی صورت میں وہ راز ان پر واشگاف کردیا گیا۔ اب اس راز سے آگاہی کی ہر پیغمبر کے لیے ابتداء تو وحی الٰہی کی صورت میں ہوتی ہے جس سے وہ یقین کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں لیکن یقین کی چونکہ کیفیت ایک نہیں ‘ اس لیے یہ یقین آئے دن بڑھتا رہتا ہے ‘ تاآنکہ انھیں ان مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کی ایک شکل معراج بھی ہے۔ ہر پیغمبر کو اس کی شان کے مطابق معراج سے نوازا گیا ہے۔ تاکہ وہ جب دنیا کی ہدایت کے لیے اٹھے تو اللہ کی ذات اس کی صفات ایمانیات سے متعلق تمام تفصیلات اللہ کے وعدوں اس کی وعیدوں اور آنے والی دنیا کے بارے میں ایک ایک چیز سے متعلق وہ اس یقین سے بہرہ ور ہو ‘ جو اللہ کے نبیوں کی خصوصیت رہی ہے۔ یقین کے تین درجات جہاں تک ایمان کا تعلق ہے ‘ وہ تو صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس میں علمی اعتراف بھی کافی ہوتا ہے۔ لیکن یقین اس سے بڑھ کر ایک چیز کا نام ہے ‘ جسے اہل علم تین کیفیتوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کبھی وہ علم الیقین ہوتا ہے ‘ کبھی عین الیقین اور کبھی حق الیقین۔ اس کو مثال سے یوں سمجھئے کہ آدمی دور سے کسی اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر ایک یقین پیدا ہوتا ہے کہ کہیں آگ سلگ رہی ہے اور اس یقین کی بنیاد یہ علم ہوتا ہے کہ دھواں ہمیشہ آگ ہی سے اٹھتا ہے۔ اسے علم الیقین کہتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے والا جہاں آگ سلگ رہی ہے وہاں جا کر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ واقعی آگ سلگ رہی ہے۔ اب اسے جو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد یقین حاصل ہوگا ‘ اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ پھر اگر وہ اس آگ میں انگلی ڈال کر دیکھے اور اس کی انگلی جل جائے تو آگ کی یہ تپش اور انگلی کی جلن اس کو جو یقین دے گی ‘ اسے حق الیقین کہتے ہیں۔ اللہ کے نبی ان تینوں طرح کے یقینوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ فلسفی اور پیغمبر میں فرق یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رہے کہ اندازوں ‘ ظن وتخمین اور قیاسات کی مدد سے بعض علمی نتائج تک پہنچ جانا اور غور و فکر کے نتیجے میں بعض تصورات قائم کرلینا ‘ یہ کسی بھی پڑھے لکھے آدمی اور کسی بھی فلسفی کے لیے ہر وقت ممکن ہے اور تمام فلسفی ہمیشہ اسی سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی میں اور اللہ کے رسول میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فلسفی اگر اپنی علمی حدود سے واقف ہے تو وہ اپنے نتائج فکر کو یہ کہہ کر پیش کرے گا کہ میرا گمان ہے کہ ایسا ہوگا۔ لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعی ضرور ایسا ہوگا کیونکہ اس کی فکری کاوشیں اسے ایک گمان تو دے سکتی ہیں ‘ یقین نہیں دے سکتیں۔ لیکن اللہ کے نبی چونکہ غور و فکر کی نعمت کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی اور ملکوت کے مشاہدے سے بھی نوازے جاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ انھیں یقین و اذعان کی دولت سے مشرف فرماتے ہیں اور یہی وہ یقین کی قوت ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر کی مخالفتوں کا سامنا کرتے ‘ دکھ اٹھاتے اور مصیبتیں برداشت کرتے ہیں ‘ لیکن انھیں کبھی ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ممکن ہے ہماری دعوت وہ نتائج پیدا نہ کرے جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی ایک ایک بات کے بارے میں پوری طرح یقین کی دولت سے بھرپور ہوتے ہیں اور پھر یہی وہ دولت ہے ‘ جو دنیا میں تقسیم ہوتی اور برگ و بار پیدا کرتی ہے اور قیامت تک اسی سے ہدایت کے پھول کھلتے رہیں گے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسے ہی یقین و اذعان کی دولت سے مالا مال فرمایا گیا تھا اور اسی کے نتیجے میں آپ سے وہ حیران کن کارنامے ظہور پذیر ہوئے جو اگر ایک طرف آپ کی عبدیت کی ہمیشہ زندہ رہنے والی مثالیں ہیں تو دوسری طرف اللہ پر بےپناہ یقین اور اذعان کا اظہار بھی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ پر یقین و ایمان اللہ کی توحید کی دعوت کے نتیجے میں جن اذیتوں سے آپ کو گزرنا پڑا ‘ حتیٰ کہ آپ کو آگ کے الائو میں ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ایسے ہر نازک موقع پر آپ نے اللہ پر جس بےپناہ اعتماد کا ثبوت دیا وہ سراسر اللہ پر یقین اور اذعان ہی کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ انسانی ہمت ‘ استقامت ‘ صبر اور استقلال کی ایک حد ہے جس سے آگے بڑھنا پڑے تو انسانی قوت کو شکست ہونے لگتی ہے۔ لیکن اللہ کا نبی بالخصوص حضرت ابراہیم۔ ‘ جس طرح ان مراحل سے آسانی سے گزرے ‘ وہ صرف اللہ کے ساتھ ان کے قریبی تعلق اور اس پر بےپناہ یقین اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اس سے بڑھ کر اور زندہ مثال کیا ہوگی کہ جب آپ کو آگ کے الائو میں پھینکا جانے لگا تو روایات میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آکر کہا : ” اے اللہ کے خلیل ! سامنے آگ کا الائو روشن ہے۔ چند لمحوں کے بعد آپ اس کی نذر ہونے والے ہیں۔ اتنی بڑی آگ میں گرائے جانے کے بعد بچ جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں یہ آگ کا الائو بجھا دوں یا آپ کو اٹھاکر لے جاؤں یا کسی اور طرح آپ کی مدد کروں ؟ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس نازک موقع پر بھی کس قدر ایمان محکم کا ثبوت دیا ‘ نہایت اطمینان سے فرمایا : ” جبرائیل ! یہ بتایئے پروردگار میری حالت سے آگاہ ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ آگاہ ہیں اور یقینا ہیں ‘ کیونکہ کوئی چیز ان کے علم سے باہر نہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ان کی بجائے آپ سے مدد طلب کروں ؟ اگر انھیں میرا بچانا منظور ہے تو خود بچا لیں گے اور اگر منظور نہیں تو پھر مجھے بھی منظور نہیں “۔ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے یہ اطمینان اور اللہ پر بےپناہ بھروسہ ‘ یہ ابراہیمی یقین ہے ‘ جو آج بھی اس امت میں ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے اسی کی مثال دیتے ہوئے کہا ؎ یقیں مثل خلیل آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بےیقینی یہ یقین و اذعان کی اعلیٰ ترین مثال ہے ‘ جس سے اللہ کے رسول نوازے جاتے ہیں اور اسی قوت کے بل بوتے پر وہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یقین و اذعان کی یہ نعمت اللہ کے نبیوں کی معرفت اہل دنیا کو نصیب ہوتی ہے اور اسی دولت کو لٹانے کے لیے دنیا میں اللہ کے رسول مبعوث کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ جب تک دنیا اس دولت سے بہرہ ور نہیں ہوتی ‘ اسے اللہ کی صفات کی معرفت تو کیا نصیب ہوگی ‘ وہ اس کی ذات سے معمولی تعلق بھی پیدا نہیں کرسکتی اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگی کا پورا نظام اور زندگی کے تمام اہداف بےسمت اور بےمنزل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد سے بیگانہ ہو کر بہیمانہ زندگی اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن اس کا آغاز اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اللہ کے نبی اور رسولوں پر ایمان لایا جائے۔ چناچہ ہر نبی سب سے پہلے ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ جو اس دعوت کو قبول کرلیتا ہے ‘ وہ اس راستے کا مسافر بن جاتا ہے اور پھر بقدر ہمت اور بقدر توفیق اس راستے میں منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی یہی دعوت اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور انھیں اللہ پر آخرت پر اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جو مشرکانہ زندگی اختیار کرچکے ہو ‘ اس کی تمہاری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں جبکہ تم اللہ کو مانتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ اس کائنات کا خالق وہی ہے اور ساری قوتیں اسی کے پاس ہیں تو پھر تم نے یہ چھوٹے بڑے اس کے ساتھ شریک کیوں بنا رکھے ہیں ؟ تم مظاہرِ قدرت کو کس طرح اس کی قوتوں میں شریک سمجھتے ہو ‘ حتیٰ کہ تم نے انہی کو اور ان کا اوتار سمجھ کر بادشاہ کو اپنا رب بنا رکھا ہے اور انہی کی پوجا کرتے ہو اور پوری زندگی کے معاملات تم نے انہی کے ہاتھ میں دے رکھے ہیں۔ جب آپ یہ دعوت لے کر اٹھے تو آپ نے اس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا ‘ وہ دعوت کے عام طریقوں سے ہٹا ہوا طریقہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اپنے اندر چند خصوصیات رکھتی تھی اور دراصل یہ ان کی خصوصیت نہیں ہر قوم کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور اس کی چند نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی بھی چند خصوصیات تھیں۔ ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے حجت بازی سے کام لیتی تھی۔ ہر بات کو سمجھنے کے لیے دلیل طلب کرنا اور پھر دلیل میں الجھائو پیدا کرنا اور میں میخ نکالنا ‘ یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا اس عادت بد کا شکار تھا۔ چناچہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خود بادشاہِ وقت ‘ جو نمرود کے نام سے معروف ہے۔ اس سے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تو اس نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اس بات پر دلیل طلب کی کہ رب تو میں ہوں ‘ تم کس رب کی ربوبیت کی دعوت دیتے ہو ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ یعنی زندگی اور موت اس کے قبضے میں ہے۔ تو اس الجھے ہوئے دماغ والے نے کہا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ ایک بےگناہ کو مار ڈالا اور ایک پھانسی کے مستحق کو رہا کردیا۔ کہا دیکھو ! میں بھی زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ شخص بات کو الجھانا چاہتا ہے اور سیدھے طریقے سے سمجھنا شاید اس کے بس میں نہیں۔ اس لیے آپ نے اپنی دلیل پر اصرار کی بجائے فوراً ایک دوسری دلیل پیش کی ‘ جس میں الجھائو پیدا کرنا نمرود کے لیے آسان نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو مشرق سے سورج کو نکالتا ہے۔ تم اگر رب ہو تو مغرب سے نکال کر دکھائو۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اب یہ کافر مبہوت اور ہکا بکا ہو کر رہ گیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے لوگوں کا یہ ایک مخصوص مزاج تھا۔ دوسری ان کی خصوصیت یہ تھی کہ جب وہ کسی بات کو ماننا نہیں چاہتے تھے یا دلیل سے مطمئن نہیں ہوتے تھے تو مشتعل ہو کر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اصل بات اور اصل دعوت دھری کی دھری رہ جاتی اور لڑائی کا خاتمہ اور حالات کا سدھار ایک مسئلہ بن جاتا ‘ لوگ اسی میں الجھ کے رہ جاتے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اپنی قوم کے مزاج سے آشنا تھے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دعوت پیش کرتے ہوئے ان چیزوں کا پوری طرح خیال رکھا۔ انھوں نے کوشش کی کہ میں اپنی دعوت مدلل انداز میں قوم کے سامنے پیش کروں۔ لیکن دلیل کا انداز ایسا ہونا چاہیے ‘ جسے الجھانے کا ان کو موقع نہ مل سکے اور دھیرے دھیرے اپنی دلیل کو اس طرح آگے بڑھایا جائے کہ وہ خود اس کی گرفت میں آ کر رہ جائیں اور دوسری یہ بات کہ انداز ایسا اختیار کیا جائے ‘ جس میں ان کو مشتعل ہونے کا موقع نہ ملے۔ بجائے اس کے کہ براہ راست انھیں دعوت دی جائے اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید کی جائے۔ بات کو خود کلامی کے انداز میں ‘ لیکن انھیں سنا کر پیش کیا جائے۔ چناچہ آگے آنے والی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کو جس طرح مدلل انداز میں پیش فرمایا ہے ‘ اس میں یہ دونوں احتیاطیں صاف نظر آتی ہیں اور اگر ان کو ذہن میں رکھا جائے تو دلیل کا اسلوب سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اس سے پیشتر کہ ہم ان آیات کو پڑھیں اور اس پر غور کریں ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ گزشتہ سے پیوستہ آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ پر ایمان لانے کی دعوت اپنے باپ کے سامنے پیش کرچکے ہیں اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید بھی فرما چکے ہیں تو یہاں کیا اس کا اعادہ کیا جا رہا ہے یا کوئی نئی بات کہی جا رہی ہے ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جب ہم تاریخ دعوت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو سب سے پہلے خاموش تبلیغ کا حکم دیا گیا اور جستہ جستہ لوگوں تک بات پہنچانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اپنے قریبی عزیزوں کو دعوت دینے کا حکم دیا گیا۔ عام دعوت کا حکم بہت دیر سے آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالعموم انبیاء کی دعوت ان تین مراحل سے ہو کر گزرتی ہے۔ یقینا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو بھی انہی تینوں مراحل سے گزارا گیا ہوگا۔ یہاں اب جو دعوت پیش کی جا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسرا اور آخری مرحلہ ہے۔ یعنی عام لوگوں میں دعوت کا آغاز کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی ابتداء آنحضرت ﷺ کی طرح ایک پہاڑی پر چڑھ کر نہیں کی گئی بلکہ آہستہ آہستہ خاص انداز میں لوگوں میں نفوذ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی لیے کبھی ہمیں یہاں رات کو دعوت دینے کا منظر نظر آتا ہے اور کبھی دن کو اور کبھی ستارے کو مدار دلیل بنایا جا رہا ہے اور کبھی چاند اور سورج کو۔ یہ وضاحتیں پیش نظر رہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے انداز تبلیغ کو سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔ اب ہم ان آیات کو پڑھتے ہیں۔
Top