Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے ‘ (تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے) اور کاملین یقین میں سے بنے
وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔ (الانعام : 75) (اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے ‘ تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور کاملین یقین میں سے بنے ) اس آیت کریمہ میں مختلف حقائق کی طرف راہنمائی فرمائی گئی ہے۔ ان کا ذکر کرنے سے پہلے صرف ایک لفظ کی وضاحت ضروری ہے۔ اس آیت میں ” ملکوت “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ملکوت کا لفظی مفہوم عزت و اقتدار ‘ بادشاہی اور سلطنت ہے۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ خدا کی اس تکوینی بادشاہی کے لیے استعمال ہوا ہے ‘ جو آسمان اور زمین بلکہ ہر چیز پر قائم و دائم ہے۔ فطرت سلیم کے مالک انسان کو اللہ کی ذات کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی اس آیت میں غور کرنے سے سب سے پہلی جو چیز سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسانی ارواح کو پیدا فرمایا تھا تو انسانی ارواح سے ایک عہد لیا تھا۔ آپ اسے عہد فطرت کہہ لیجئے یا عہد الست۔ اس میں روحوں سے پوچھا گیا تھا کہ بتلائو کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟ سب نے بیک زبان کہا تھا کہ آپ یقینا ہمارے رب ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ دنیا میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے ‘ وہ اپنے ساتھ اس عہد کی یادداشت لے کر آتا ہے۔ اگر ماحول ‘ والدین کی تربیت اور تعلیم اسے نہ بگاڑیں تو اس کے تحت الشعور ‘ اس عہد کی یاد زندہ رہتی ہے۔ جب کبھی وہ اس کائنات پر غور کرتا ہے تو وہ یقینا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ومالک ہے۔ لیکن جب والدین کی تربیت ‘ تعلیم اور ماحول اس کی فطرت کو بگاڑ دیتے ہیں تو اس کا یہ عہد طاق نسیان میں چلا جاتا ہے اور اس وقت تک اس کے دل و دماغ میں تازہ نہیں ہوتا ‘ تاوقتیکہ پیغمبرانہ تبلیغ و دعوت سے دوبارہ اس عہد کو یاد نہ دلایا جائے۔ اللہ کے نبی چونکہ نخل فطرت کے بہترین ثمر ہوتے ہیں ‘ وہ ماحول کی گندگی میں رہنے کے باوجود اپنی فطرت سلیم کے اثرات سے کبھی بےنیاز نہیں ہوتے۔ وہ نبوت سے پہلے بھی عصمت کے حصار میں رہتے ہیں۔ قدرت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ پتھروں کے ڈھیر میں ‘ ہیرے کی مانند چمکتے رہتے ہیں چونکہ ان کی فطرت اپنی سلامتی پر قائم رہتی ہے ‘ اس لیے قدرت ان پر نبوت سے پہلے ایک انعام کا آغاز کرتی ہے اور پھر نبوت کے ساتھ اس انعام کی تکمیل کردیتی ہے۔ نبوت تو انبیاء کی خصوصیت ہے لیکن یہاں میں جس انعام کا ذکر کرنے لگا ہوں ‘ وہ صرف انبیاء کی خصوصیت نہیں ‘ بلکہ جس کی فطرت سلیم عہد الست پر قائم ہو قدرت کا یہ انعام برابر اس پر بھی جاری رہتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن کریم توجہ دلاتا ہے : اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْض (کیا انھوں نے آسمانوں اور زمین میں خدا کی بادشاہی پر غور نہیں کیا ؟ ) یعنی غور و فکر کا یہ انعام اللہ تعالیٰ ہر اس بندے پر فرماتے ہیں جو اپنی فطرت کی سلامتی پر قائم ہوتا ہے۔ اس کی فطرت چونکہ بار بار اس کے عہد الست کو یاد کراتی ہے اس لیے وہ بار بار اپنی اس متاع کو تلاش کرتا ہے ‘ جس کی یاد اس کے تحت الشعور سلگتی رہتی ہے اور وہ اللہ کے ملکوت میں برابر غور و فکر کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کلید اس کے ہاتھ آتی ہے ‘ جس سے صحیح فکر اور صحیح عمل کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی سے زندگی کا سرا بھی ہاتھ آتا ہے اور اسی سے اس کے منتہا کا بھی پتا چلتا ہے۔ اقبال شاید ایسی ہی کسی کشمکش میں مبتلا تھا ‘ جب اس نے یہ بات کہی تھی ؎ خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداء کیا ہے کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہاء کیا ہے اسی فکر میں سوچنے والا برابر یہ سوچتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خالق ہے یا خود بخود وجود میں آگئی ہے ؟ اگر کوئی خالق ہے تو کیا وحدہ لا شریک ہے یا اس کا کوئی اور شریک بھی ہے ؟ پھر یہ دنیا کبھی ختم بھی ہوگی یا ہمیشہ قائم رہے گی ؟ اگر اس کا کوئی خالق ومالک ہے تو اس کی صفات و خصوصیات کیا ہیں اور کس لیے اس نے اتنا بڑا عالم کھڑا کردیا ہے ؟ اس دنیا میں حق و باطل کے لیے کوئی معیار ہے یا یہ کوئی اندھیر نگری ہے ؟ آسمانوں اور زمین میں ایک ہی قادر قیوم کی تدبیر حکمت کارفرما ہے یا اس کے اندر الگ الگ مشیتیں اور الگ الگ ارادے زور آزمائی کر رہے ہیں ؟ یہ اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے سوالات ہیں جن کے صحیح حل پر ہی صحیح فکر اور صحیح عمل کی بنیاد ہے۔ ایک سلیم الفطرت آدمی اللہ کے اس انعام سے جب نوازا جاتا ہے تو برابر یہ غور و فکر جاری رکھتا ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ خالق کائنات کے وجود سے آشنا ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی نبوت سے پہلے سب سے زیادہ اس انعام سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے معصوم ہونے کی وجہ سے یوں تو ہر شرک اور ہر گناہ کی آلودگی سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کی فطرت ہر طرح کے برے تاثر سے بچی رہتی ہے۔ لیکن غور و فکر کا یہ سلسلہ اللہ کی ذات کو جاننے کے لیے نہیں بلکہ اس کی صفات کو پہچاننے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کے لیے برابر جاری رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی انعام سے نوازا تھا اور اس طرح نوازا تھا کہ وہ پتھروں کے اس ڈھیر میں ہیرے سے بڑھ کر روشنی دینے لگے تھے۔ یہاں رک کر ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ کائنات پر غور و فکر اور تفکر کا یہ انداز جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ‘ یہ تو اللہ کے نیک بندوں اور انبیاء کرام کا حصہ ہے۔ لیکن جہاں تک کائنات پر محض غور و فکر کا تعلق ہے ‘ وہ تو ایک سائنسدان بھی کرتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ سائنسدان کی نگاہ اپنی ذات اور اپنے محدود ماحول کے محور تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسے صرف اشیاء کے خواص کو جاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے سوا اور کسی بات کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ چمن میں کھلے ہوئے گلاب کو دیکھتا ہے ‘ لیکن صرف اس کے فوائد کو تلاش کرتا ہے اور وہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ جس طرح اس سے گلقند تیار ہوتا ہے ‘ کیا کوئی اور چیز بھی اس سے بنائی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ لیکن اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اگر صرف اس سے گلقند بنانا ہی مقصود ہوتا تو اس کے لیے پھول کے حسن و جمال اور اس کی رعنائی و دلکشی اور اس کی عطر بیزی و شادابی کی آخر کیا ضرورت تھی ؟ پھول کی ایک ایک پنکھڑی پر جس طرح فیاضی کے ساتھ گلکاری کی گئی ہے کیا یہ بھی گلقند کے لیے ضروری تھی ؟ لیکن ایک سائنسدان ‘ ان باتوں پر غور نہیں کرتا کہ اس کا صانع کون ہے اور اس کو یہ رعنائی اور دلکشی عطا کرنے والی ذات کون سی ہے۔ وہ کبھی اس پردے کے پیچھے جھانک کر اس ہاتھ کو یکھنے کی کوشش نہیں کرتا ‘ جس نے پھول کو حسن و جمال سے نوازا ہے۔ نیوٹن نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو اس کے ذہن میں معاً یہ خیال آیا کہ آخر یہ سیب زمین ہی پر کیوں گرتا ہے ‘ خلا تو اس کے چاروں طرف ہے ‘ کسی اور طرف کیوں نہیں گرتا ؟ اس سے اس کے ذہن میں زمین کی کشش کا تصور پیدا ہوا ‘ جو آگے چل کر بہت سی تحقیقات اور انکشافات میں معاون ثابت ہوا اور اس نے یہ بات ثابت کی کہ زمین میں ایک کشش ہے اور یہاں ایک قانون جذب و کشش کارفرما ہے اور یہیں تک اس کی نگاہ رک کے رہ گئی۔ لیکن اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ آخر وہ کون ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو جذب و کشش کے اس قانون سے باندھ رکھا ہے۔ بس سائنسدان اور اللہ والوں کے غور و فکر میں یہی فرق ہے کہ سائنسدان کی سوچ پر صرف مفاد کا غلبہ ہے اور ذمہ داری کے احساس کا فقدان ہے۔ لیکن اللہ والے ‘ جب اس تفکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں تو وہ شے کی حقیقت کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اس کے خالق تک پہنچ جاتے ہیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت کے فیضان کی پہلی صورت یہی رہی ہے کہ باقی انبیاء کی طرح انھوں نے زمین و آسمان کے ملکوت پر غور جاری رکھا۔ وہ اللہ کے وجود سے عہد فطرت کے باعث آشنا تھے۔ لیکن اب اس کی تفصیلات جاننے کی فکر میں تھے۔ جیسے آنحضرت ﷺ عمر کے ساتھ ساتھ تنہائی پسند ہوتے گئے اور مسلسل تحنث میں مبتلا رہے۔ علماء کہتے ہیں ” تحنث “ اللہ کے ملکوت میں غور و فکر کا نام ہے۔ آپ اللہ کو یاد کرتے ‘ اس سے محبت کرتے تھے۔ لیکن محبت کے طریقے اور یاد کی ادائوں کو جاننا چاہتے تھے۔ آپ اس فکر میں تھے کہ آخر انسانی زندگی کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہی حال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا۔ پھر اس انعام کی تکمیل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے مشرف فرمایا اور جس راز کو وہ جاننا چاہتے تھے وحی الٰہی کی صورت میں وہ راز ان پر واشگاف کردیا گیا۔ اب اس راز سے آگاہی کی ہر پیغمبر کے لیے ابتداء تو وحی الٰہی کی صورت میں ہوتی ہے جس سے وہ یقین کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں لیکن یقین کی چونکہ کیفیت ایک نہیں ‘ اس لیے یہ یقین آئے دن بڑھتا رہتا ہے ‘ تاآنکہ انھیں ان مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کی ایک شکل معراج بھی ہے۔ ہر پیغمبر کو اس کی شان کے مطابق معراج سے نوازا گیا ہے۔ تاکہ وہ جب دنیا کی ہدایت کے لیے اٹھے تو اللہ کی ذات اس کی صفات ایمانیات سے متعلق تمام تفصیلات اللہ کے وعدوں اس کی وعیدوں اور آنے والی دنیا کے بارے میں ایک ایک چیز سے متعلق وہ اس یقین سے بہرہ ور ہو ‘ جو اللہ کے نبیوں کی خصوصیت رہی ہے۔ یقین کے تین درجات جہاں تک ایمان کا تعلق ہے ‘ وہ تو صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس میں علمی اعتراف بھی کافی ہوتا ہے۔ لیکن یقین اس سے بڑھ کر ایک چیز کا نام ہے ‘ جسے اہل علم تین کیفیتوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کبھی وہ علم الیقین ہوتا ہے ‘ کبھی عین الیقین اور کبھی حق الیقین۔ اس کو مثال سے یوں سمجھئے کہ آدمی دور سے کسی اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر ایک یقین پیدا ہوتا ہے کہ کہیں آگ سلگ رہی ہے اور اس یقین کی بنیاد یہ علم ہوتا ہے کہ دھواں ہمیشہ آگ ہی سے اٹھتا ہے۔ اسے علم الیقین کہتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے والا جہاں آگ سلگ رہی ہے وہاں جا کر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ واقعی آگ سلگ رہی ہے۔ اب اسے جو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد یقین حاصل ہوگا ‘ اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ پھر اگر وہ اس آگ میں انگلی ڈال کر دیکھے اور اس کی انگلی جل جائے تو آگ کی یہ تپش اور انگلی کی جلن اس کو جو یقین دے گی ‘ اسے حق الیقین کہتے ہیں۔ اللہ کے نبی ان تینوں طرح کے یقینوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ فلسفی اور پیغمبر میں فرق یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رہے کہ اندازوں ‘ ظن وتخمین اور قیاسات کی مدد سے بعض علمی نتائج تک پہنچ جانا اور غور و فکر کے نتیجے میں بعض تصورات قائم کرلینا ‘ یہ کسی بھی پڑھے لکھے آدمی اور کسی بھی فلسفی کے لیے ہر وقت ممکن ہے اور تمام فلسفی ہمیشہ اسی سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی میں اور اللہ کے رسول میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فلسفی اگر اپنی علمی حدود سے واقف ہے تو وہ اپنے نتائج فکر کو یہ کہہ کر پیش کرے گا کہ میرا گمان ہے کہ ایسا ہوگا۔ لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعی ضرور ایسا ہوگا کیونکہ اس کی فکری کاوشیں اسے ایک گمان تو دے سکتی ہیں ‘ یقین نہیں دے سکتیں۔ لیکن اللہ کے نبی چونکہ غور و فکر کی نعمت کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی اور ملکوت کے مشاہدے سے بھی نوازے جاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ انھیں یقین و اذعان کی دولت سے مشرف فرماتے ہیں اور یہی وہ یقین کی قوت ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر کی مخالفتوں کا سامنا کرتے ‘ دکھ اٹھاتے اور مصیبتیں برداشت کرتے ہیں ‘ لیکن انھیں کبھی ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ممکن ہے ہماری دعوت وہ نتائج پیدا نہ کرے جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی ایک ایک بات کے بارے میں پوری طرح یقین کی دولت سے بھرپور ہوتے ہیں اور پھر یہی وہ دولت ہے ‘ جو دنیا میں تقسیم ہوتی اور برگ و بار پیدا کرتی ہے اور قیامت تک اسی سے ہدایت کے پھول کھلتے رہیں گے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسے ہی یقین و اذعان کی دولت سے مالا مال فرمایا گیا تھا اور اسی کے نتیجے میں آپ سے وہ حیران کن کارنامے ظہور پذیر ہوئے جو اگر ایک طرف آپ کی عبدیت کی ہمیشہ زندہ رہنے والی مثالیں ہیں تو دوسری طرف اللہ پر بےپناہ یقین اور اذعان کا اظہار بھی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ پر یقین و ایمان اللہ کی توحید کی دعوت کے نتیجے میں جن اذیتوں سے آپ کو گزرنا پڑا ‘ حتیٰ کہ آپ کو آگ کے الائو میں ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ایسے ہر نازک موقع پر آپ نے اللہ پر جس بےپناہ اعتماد کا ثبوت دیا وہ سراسر اللہ پر یقین اور اذعان ہی کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ انسانی ہمت ‘ استقامت ‘ صبر اور استقلال کی ایک حد ہے جس سے آگے بڑھنا پڑے تو انسانی قوت کو شکست ہونے لگتی ہے۔ لیکن اللہ کا نبی بالخصوص حضرت ابراہیم۔ ‘ جس طرح ان مراحل سے آسانی سے گزرے ‘ وہ صرف اللہ کے ساتھ ان کے قریبی تعلق اور اس پر بےپناہ یقین اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اس سے بڑھ کر اور زندہ مثال کیا ہوگی کہ جب آپ کو آگ کے الائو میں پھینکا جانے لگا تو روایات میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آکر کہا : ” اے اللہ کے خلیل ! سامنے آگ کا الائو روشن ہے۔ چند لمحوں کے بعد آپ اس کی نذر ہونے والے ہیں۔ اتنی بڑی آگ میں گرائے جانے کے بعد بچ جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں یہ آگ کا الائو بجھا دوں یا آپ کو اٹھاکر لے جاؤں یا کسی اور طرح آپ کی مدد کروں ؟ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس نازک موقع پر بھی کس قدر ایمان محکم کا ثبوت دیا ‘ نہایت اطمینان سے فرمایا : ” جبرائیل ! یہ بتایئے پروردگار میری حالت سے آگاہ ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ آگاہ ہیں اور یقینا ہیں ‘ کیونکہ کوئی چیز ان کے علم سے باہر نہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ان کی بجائے آپ سے مدد طلب کروں ؟ اگر انھیں میرا بچانا منظور ہے تو خود بچا لیں گے اور اگر منظور نہیں تو پھر مجھے بھی منظور نہیں “۔ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے یہ اطمینان اور اللہ پر بےپناہ بھروسہ ‘ یہ ابراہیمی یقین ہے ‘ جو آج بھی اس امت میں ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے اسی کی مثال دیتے ہوئے کہا ؎ یقیں مثل خلیل آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بےیقینی یہ یقین و اذعان کی اعلیٰ ترین مثال ہے ‘ جس سے اللہ کے رسول نوازے جاتے ہیں اور اسی قوت کے بل بوتے پر وہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یقین و اذعان کی یہ نعمت اللہ کے نبیوں کی معرفت اہل دنیا کو نصیب ہوتی ہے اور اسی دولت کو لٹانے کے لیے دنیا میں اللہ کے رسول مبعوث کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ جب تک دنیا اس دولت سے بہرہ ور نہیں ہوتی ‘ اسے اللہ کی صفات کی معرفت تو کیا نصیب ہوگی ‘ وہ اس کی ذات سے معمولی تعلق بھی پیدا نہیں کرسکتی اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگی کا پورا نظام اور زندگی کے تمام اہداف بےسمت اور بےمنزل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد سے بیگانہ ہو کر بہیمانہ زندگی اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن اس کا آغاز اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اللہ کے نبی اور رسولوں پر ایمان لایا جائے۔ چناچہ ہر نبی سب سے پہلے ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ جو اس دعوت کو قبول کرلیتا ہے ‘ وہ اس راستے کا مسافر بن جاتا ہے اور پھر بقدر ہمت اور بقدر توفیق اس راستے میں منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی یہی دعوت اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور انھیں اللہ پر آخرت پر اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جو مشرکانہ زندگی اختیار کرچکے ہو ‘ اس کی تمہاری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں جبکہ تم اللہ کو مانتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ اس کائنات کا خالق وہی ہے اور ساری قوتیں اسی کے پاس ہیں تو پھر تم نے یہ چھوٹے بڑے اس کے ساتھ شریک کیوں بنا رکھے ہیں ؟ تم مظاہرِ قدرت کو کس طرح اس کی قوتوں میں شریک سمجھتے ہو ‘ حتیٰ کہ تم نے انہی کو اور ان کا اوتار سمجھ کر بادشاہ کو اپنا رب بنا رکھا ہے اور انہی کی پوجا کرتے ہو اور پوری زندگی کے معاملات تم نے انہی کے ہاتھ میں دے رکھے ہیں۔ جب آپ یہ دعوت لے کر اٹھے تو آپ نے اس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا ‘ وہ دعوت کے عام طریقوں سے ہٹا ہوا طریقہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اپنے اندر چند خصوصیات رکھتی تھی اور دراصل یہ ان کی خصوصیت نہیں ہر قوم کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور اس کی چند نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی بھی چند خصوصیات تھیں۔ ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے حجت بازی سے کام لیتی تھی۔ ہر بات کو سمجھنے کے لیے دلیل طلب کرنا اور پھر دلیل میں الجھائو پیدا کرنا اور میں میخ نکالنا ‘ یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا اس عادت بد کا شکار تھا۔ چناچہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خود بادشاہِ وقت ‘ جو نمرود کے نام سے معروف ہے۔ اس سے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تو اس نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اس بات پر دلیل طلب کی کہ رب تو میں ہوں ‘ تم کس رب کی ربوبیت کی دعوت دیتے ہو ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ یعنی زندگی اور موت اس کے قبضے میں ہے۔ تو اس الجھے ہوئے دماغ والے نے کہا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ ایک بےگناہ کو مار ڈالا اور ایک پھانسی کے مستحق کو رہا کردیا۔ کہا دیکھو ! میں بھی زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ شخص بات کو الجھانا چاہتا ہے اور سیدھے طریقے سے سمجھنا شاید اس کے بس میں نہیں۔ اس لیے آپ نے اپنی دلیل پر اصرار کی بجائے فوراً ایک دوسری دلیل پیش کی ‘ جس میں الجھائو پیدا کرنا نمرود کے لیے آسان نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو مشرق سے سورج کو نکالتا ہے۔ تم اگر رب ہو تو مغرب سے نکال کر دکھائو۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اب یہ کافر مبہوت اور ہکا بکا ہو کر رہ گیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے لوگوں کا یہ ایک مخصوص مزاج تھا۔ دوسری ان کی خصوصیت یہ تھی کہ جب وہ کسی بات کو ماننا نہیں چاہتے تھے یا دلیل سے مطمئن نہیں ہوتے تھے تو مشتعل ہو کر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اصل بات اور اصل دعوت دھری کی دھری رہ جاتی اور لڑائی کا خاتمہ اور حالات کا سدھار ایک مسئلہ بن جاتا ‘ لوگ اسی میں الجھ کے رہ جاتے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اپنی قوم کے مزاج سے آشنا تھے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دعوت پیش کرتے ہوئے ان چیزوں کا پوری طرح خیال رکھا۔ انھوں نے کوشش کی کہ میں اپنی دعوت مدلل انداز میں قوم کے سامنے پیش کروں۔ لیکن دلیل کا انداز ایسا ہونا چاہیے ‘ جسے الجھانے کا ان کو موقع نہ مل سکے اور دھیرے دھیرے اپنی دلیل کو اس طرح آگے بڑھایا جائے کہ وہ خود اس کی گرفت میں آ کر رہ جائیں اور دوسری یہ بات کہ انداز ایسا اختیار کیا جائے ‘ جس میں ان کو مشتعل ہونے کا موقع نہ ملے۔ بجائے اس کے کہ براہ راست انھیں دعوت دی جائے اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید کی جائے۔ بات کو خود کلامی کے انداز میں ‘ لیکن انھیں سنا کر پیش کیا جائے۔ چناچہ آگے آنے والی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کو جس طرح مدلل انداز میں پیش فرمایا ہے ‘ اس میں یہ دونوں احتیاطیں صاف نظر آتی ہیں اور اگر ان کو ذہن میں رکھا جائے تو دلیل کا اسلوب سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اس سے پیشتر کہ ہم ان آیات کو پڑھیں اور اس پر غور کریں ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ گزشتہ سے پیوستہ آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ پر ایمان لانے کی دعوت اپنے باپ کے سامنے پیش کرچکے ہیں اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید بھی فرما چکے ہیں تو یہاں کیا اس کا اعادہ کیا جا رہا ہے یا کوئی نئی بات کہی جا رہی ہے ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جب ہم تاریخ دعوت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو سب سے پہلے خاموش تبلیغ کا حکم دیا گیا اور جستہ جستہ لوگوں تک بات پہنچانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اپنے قریبی عزیزوں کو دعوت دینے کا حکم دیا گیا۔ عام دعوت کا حکم بہت دیر سے آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالعموم انبیاء کی دعوت ان تین مراحل سے ہو کر گزرتی ہے۔ یقینا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو بھی انہی تینوں مراحل سے گزارا گیا ہوگا۔ یہاں اب جو دعوت پیش کی جا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسرا اور آخری مرحلہ ہے۔ یعنی عام لوگوں میں دعوت کا آغاز کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی ابتداء آنحضرت ﷺ کی طرح ایک پہاڑی پر چڑھ کر نہیں کی گئی بلکہ آہستہ آہستہ خاص انداز میں لوگوں میں نفوذ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی لیے کبھی ہمیں یہاں رات کو دعوت دینے کا منظر نظر آتا ہے اور کبھی دن کو اور کبھی ستارے کو مدار دلیل بنایا جا رہا ہے اور کبھی چاند اور سورج کو۔ یہ وضاحتیں پیش نظر رہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے انداز تبلیغ کو سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔ اب ہم ان آیات کو پڑھتے ہیں۔
Top