Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور یاد کرو ! جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا : تم بتوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو ؟ میں تو تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں
تمہید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت آپ کے زمانے کے حالات اور آپ کی دعوت کی ہمہ گیری اور اس کی تفصیل آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب ایک اور بات جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے ‘ وہ یہ ہے کہ کوئی قوم چاہے کس قدر بگڑی ہوئی بھی کیوں نہ ہو ‘ وہ اپنے غلط سے غلط طرز عمل کے بارے میں بھی یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی دلیل کا سہارا تلاش کرے کیونکہ جاہل سے جاہل آدمی کی بھی فطرت میں اللہ نے حیاء کا ایک مادہ رکھا ہے ‘ جس کی وجہ سے بےدلیل بات پر اڑنا اس کے لیے آسان نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی صحیح بات ‘ کسی غلط آدمی کو بھی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ جواب میں یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری صحیح بات کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں اور مجھے اپنی غلط بات پر اصرار ہے بلکہ وہ اپنی غلط بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلیل کی شکل میں یا کسی اور صورت میں سہارا تلاش کرتا ہے اور اس کو اپنے لیے پناہ بنا لیتا ہے۔ مشرکینِ مکہ بھی اپنی بت پرستی پر مبنی غلط طرز عمل میں ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے جب مسلسل ان کی بت پرستی اور ان کے غلط طرز عمل پر بھرپور تنقید فرمائی تو انھوں نے جواب میں جس بات پر اصرار کیا اور جسے اپنے لیے بہت بڑا سہارا سمجھا ‘ وہ یہ بات تھی کہ ہم اصلاً ملت ابراہیمی پر قائم ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت صرف ان کی نگاہ ہی میں نہیں بلکہ تمام مذاہب کی نگاہ میں ایک مسلم واجب الاحترام قائد کی سی تھی ‘ جس سے کسی کو بھی انکار نہیں تھا کیونکہ بنی اسرائیل اس سے پہلے ہدایت کے دعویدار اور اللہ کی کتاب اور اس کے دین کے وارث تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو اپنے جدِّ امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے واسطے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وارث سمجھتے تھے اور قریش بھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث تھے اور خود اسلام کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ نبی کریم کو ملت ابراہیم پر مبعوث کیا گیا ہے اور آپ ان کے دین کی تجدید کے لیے تشریف لائے ہیں۔ قریش مکہ چونکہ براہ راست حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کے بنائے ہوئے اللہ کے گھر کے متولی ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ان کا زیادہ وارث سمجھتے تھے اور غلط فہمی یہ تھی کہ وہ جو دین اپنے پیچھے چھوڑ کے گئے تھے ‘ ہم آج تک اس پر قائم ہیں اور یہ ہماری بت پرستی اصلاً حضرت ابراہیم کی وراثت ہی کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے ‘ ایسی مسلمہ قیادت کی موجودگی میں ‘ وہ آنحضرت ﷺ کی بات سننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اسی حوالے سے کیا جا رہا ہے کہ تم اپنے آپ کو بیشک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے سمجھو ‘ اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ لیکن تمہارا یہ کہنا کہ تم ان کے دین کے وارث ہو ‘ یہ سراسر ایک غلط فہمی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس دعوت کو لے کر اٹھے تھے اور جس دین کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے اور جس دین کا مرکز انھوں نے بیت اللہ کو بنایا تھا ‘ وہ وہ دین نہیں ‘ جس پر تم قائم ہو ‘ بلکہ اس کو زندہ کرنے کے لیے تو رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا گیا۔ تمہارا جو طرز عمل ہے اور تم جس طرح بت پرستی کو اپنا دین بنا چکے ہو ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو اسے بدلنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ تمہارا دین ٹھیک وہی ہے ‘ جو ان کی قوم کا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا دین وہ ہے ‘ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا۔ اس لیے تم اپنے طرز عمل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث نہیں ہو۔ بلکہ ان کی اس کافر قوم کے وارث ہو ‘ جس کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کشمکش پیش آئی اور بالآخر انھیں اپنا وطن چھوڑ کر نجانے کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑی۔ اب اگر یہ بات قریش مکہ سمجھ جائیں کہ ان کا طرز عمل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے بالکل برعکس ہے تو ان کا وہ سارا سرمایہ افتخار اور ان کی دینی زندگی کا سہارا ‘ یعنی ملت ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ اس کا طلسم پاش پاش ہوجاتا ہے کیونکہ ملت ابراہیمی بت پرستی نہیں ‘ بت شکنی ہے۔ تمام مشرکانہ عقائد کو چھوڑ کر اور مشرکانہ رویوں سے توبہ کر کے خالصتاً اللہ کے راستے کو اختیار کرنا ہے اور یہ وہ طریقہ ہے جس کی دعوت لے کر حضور ﷺ اٹھے ہیں۔ لیکن مشرکینِ مکہ آپ کے ساتھ وہی کچھ کر رہے تھے ‘ جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ چناچہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت اور دعوت کے اثبات کے لیے ان کی پیش کردہ دلیل کو بیان کیا جا رہا ہے۔ تاکہ مشرکینِ مکہ کو پوری طرح اپنی غلطی کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ چناچہ ارشاد فرمایا : وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً ج اِنِّیْٓ اَرٰکَ وَ قَوْمَکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (الانعام : 74) ” اور یاد کرو ! جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا : تم بتوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو ؟ میں تو تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں “۔ اس آیت کریمہ میں متعدد باتیں توجہ طلب ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام صراحت کے انداز میں آزر لیا گیا ہے ‘ جبکہ ہمارے کئی محترم مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر نہیں بلکہ تارخ ہے۔ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نہیں ‘ بلکہ چچا تھے اور عربی زبان میں چچا کو والد کے نام سے یاد کرنا ایک معروف بات ہے اور دوسری یہ بات کہ آزر کو بطور خاص اس لیے ذکر کیا جا رہا ہے کہ وہ نمرود کے وزیر اور اس شہر کے سب سے بڑے بت خانے کے نگران پجاری تھے اور وہ صرف بت پرست ہی نہیں تھے بلکہ بت گر بھی تھے اور اس معاشرے میں بت گری چونکہ ایک معزز اور وسیع ذریعہ معاش کے طور پر متعارف تھا اور پھر اس بت خانے کا انچارج پجاری ہونا ‘ یہ ایسے ہی تھا جیسے بادشاہ کے بعد دوسرے نمبر کا آدمی۔ تو آزر کی اس حیثیت کی وجہ سے جو اسے اس کے اپنے خاندان اور ملک میں حاصل تھی ‘ اس کو یہاں حضرت ابراہیم کے باپ کے طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام اصل میں تارخ تھا ‘ لیکن آزر ان کا تخلص تھا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا تخلص یا خطاب اس کے نام پر غالب آجاتا ہے اور اسی کی شہرت ہوجاتی ہے۔ جب بھی اس آدمی کا تذکرہ ہوتا ہے تو عموماً معروف لقب یا خطاب سے ہوتا ہے۔ نام بالعموم ذکر نہیں کیا جاتا۔ ہمارے یہاں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ حسرت موہانی کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے ‘ شورش کا شمیری کا نام کتنے لوگ جانتے ہیں ‘ نسیم حجازی کے نام کو گھر والوں کے سوا شاید ہی کوئی جانتا ہو ‘ نعیم صدیقی صاحب کے نام سے ان کے عمر بھر کے ساتھی واقف ہوں تو ہوں ‘ لیکن عام پڑھنے والے بالکل نہیں جانتے۔ اسی طرح آزر کا نام اگر متروک ہوگیا ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ دونوں رائیں اپنے نزدیک قابل احترام اور اہمیت کے قابل ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے یہاں جس صراحت کے ساتھ آزر کو بطور نام کے ذکر کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا عام انداز یہ نہیں کہ وہ اس قدر قطعی انداز میں کسی کا نام لے اور مزید یہ کہ قرآن کریم کی حیثیت چونکہ مہیمن کی ہے ‘ یعنی وہ پہلی آسمانی کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے ‘ جو ان کے حاملین نے ان میں پیدا کردی تھیں۔ یہاں بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ آج بھی اگر ہم تورات کے مختلف تراجم دیکھیں تو اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کے نام کا تلفظ ہر ترجمے میں ہمیں مختلف ملے گا۔ اس لیے یہاں قرآن کریم نے اصلاح فرماتے ہوئے قطعی انداز میں فرمایا کہ اس کا نام آزر تھا۔ اس لیے یہی بات زیادہ اپیل کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام تارخ نہیں ‘ بلکہ آزر تھا۔ دوسری بات جو اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ کہ یوں تو اللہ کے رسولوں کی تاریخِ دعوت اور ان کی شخصیتوں میں قدم قدم پر اللہ کی شان اور اس کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات عموماً جو دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ جب قوموں کا بگاڑ انتہائی شدت اختیار کرجاتا ہے تو اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے کسی رسول کو بھیجتے ہیں اور اس کی معرفت کلمہ حق کی زندگی کا سامان کرتے ہیں تو یہ نعرہ حق بلند وہاں سے ہوتا ہے ‘ جہاں سے اس کا سان گمان بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اہل مصر کی اصلاح کے لیے بھیجا تو ان کی پرورش کا سروسامان وہاں کیا گیا جو اس معاشرے کی ساری خرابیوں کا مرکز تھا ‘ یعنی فرعون کا گھر۔ وہاں آپ کی تربیت ہوئی وہیں آپ پلے بڑھے اور وہیں سے کلمہ حق کا آغاز ہوا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ عراق میں جس طرح مظاہرِ فطرت کی پوجا ہو رہی تھی اور بت پرستی مختلف صورتوں میں جس طرح پورے جوبن پر تھی ‘ اس کو بدلنے کی کوئی کوشش اس بگڑے ہوئے معاشرے میں بظاہر ناممکن سی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اللہ نے جب اس قوم کی اصلاح کا ارادہ فرمایا تو اپنا رسول ‘ اپنی معروف سنت کے مطابق اور اپنی قدرت ِ بالغہ کے اظہار کے طور پر وہاں سے اٹھایا جو بت پرستی کا مرکز اور اس برائی کا سرچشمہ تھا۔ یعنی آزر کا گھر۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ وہ سب سے بڑے بت خانے کا سب سے بڑا افسر تھا اور نمرود کے بعد اسے دوسری حیثیت حاصل تھی اور پھر جس جرأت کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے سامنے کلمہ حق بلند فرمایا ‘ اس سے اللہ کی اس شان کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ دعوت حق تیسری بات جو اس آیت میں نمایاں ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولوں کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ اپنی دعوت کا آغاز ہمیشہ اپنے خاندان اور اپنے گھر سے کرتے رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو بھی حکم دیا گیا تھا وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ اَلْاَقْرَبِیْنَ کہ سب سے پہلے اپنے خاندان کو اور اپنے قریبی عزیزوں کو ان کے برے انجام اور اللہ کے عذاب سے ڈرائو۔ چناچہ اسی لیے آپ نے اپنے خاندان کو اپنے گھر میں دعوت دی اور ان کے سامنے اپنی دعوت ہدایت پیش فرمائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اسی سنت کے مطابق سب سے پہلے اپنے گھر سے اس کا آغاز کیا۔ گھر کے بڑے ہونے کی حیثیت سے اپنے باپ کے سامنے سب سے پہلے اس دعوت کو رکھا اور نہایت قطعیت و حکمت کے ساتھ اس کی اور اس کی قوم کی برائی کو واضح کیا اور اپنی دعوت کو صاف صاف پیش فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں تو وہ دعوت اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہے لیکن سورة مریم میں اس کو زیادہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا : اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا۔ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا۔ یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۔ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذابٌمِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا۔ قَالَ اَرَاغِبٌاَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓاِبْرٰھِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا۔ (یاد کرو ! جب اس نے اپنے باپ سے کہا : اے میرے باپ ! آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں ‘ جو نہ سنتی ہیں ‘ نہ دیکھتی ہیں اور نہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں ؟ اے میرے باپ ! میرے پاس وہ علم آیا ہے ‘ جو آپ کے پاس نہیں آیا ‘ تو میری پیروی کیجئے ‘ میں آپ کو سیدھی راہ دکھائوں گا۔ اے میرے باپ ! شیطان کی بندگی نہ کیجئے۔ شیطان خدائے رحمان کا بڑا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ ! میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو خدائے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپکڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن کے رہ جائیں۔ اس نے جواب دیا ‘ ابراہیم ! کیا تم میرے معبودوں سے منحرف ہو رہے ہو ؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ اب تم میرے پاس سے یک دم دفع ہوجاؤ) (مریم : 42-46) یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو دعوت دیتے ہوئے سب سے پہلے اس کی اور اس کی قوم کی بنیادی برائی کا ذکر فرمایا کہ آپ نے بتوں کو خدا بنا رکھا ہے ‘ لیکن یہاں جو بات اختصار سے کہی گئی ہے ‘ اسے سورة مریم میں اور بعض دوسرے مقامات پر کھول دیا گیا ہے ‘ تاکہ یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو کہ بت پرستی محض بتوں کے سامنے جھک جانے کا نام نہیں ‘ بلکہ اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں سب سے پہلے اس برائی کی جو ظاہری صورت ہے اس پر تنقید فرمائی اور اس کے بعد اسے کھلی کھلی ضلالت اور گمراہی قرار دے کر دوسرے مقامات پر اس کی وضاحت فرما دی گئی کہ یہ پتھر کے بتوں کے سامنے جھکنا ‘ محض ایک علامت ہے۔ حقیقت میں اس کے پیچھے ایک بہت بڑی گمراہی کارفرما ہے ‘ جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اس ظاہری گمراہی پر تنقید کرتے ہوئے دوسری جگہ بھی فرمایا : اَ تَعَبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ” کیا تم پوجتے ہو ان چیزوں کو ‘ جن کو خود اپنے ہی ہاتھوں گھڑتے ہو “ ( الصّٰفّٰت : 95) اپنیگمراہی اور بےعقلی ملاحظہ کرو کہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر تم اپنے کارخانے میں لے آتے ہو اور ان کو ایک شکل دے کر اس کی پوجا کرنا شروع کردیتے ہو۔ حالانکہ خدا تو کائنات کا خالق ہے ‘ وہ ہر مخلوق کی تخلیق فرماتا ہے۔ خود تمہیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کی ساتھ اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے بتوں کو شریک کرتے ہوئے تمہیں اپنی حماقت کا ذرا احساس نہیں ہوتا کہ ایک پتھر ‘ پتھر ہے چاہے اسے کیسی ہی خوبصورت شکل کیوں نہ دے دی جائے اور سورة مریم میں اس تنقید کو مزید کھول دیا گیا ہے کہ آدمی جب کسی کے سامنے جھکتا ہے اور اپنی بندگی اور اس کے الوہیت کا اقرار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر ضرورتوں اور کمزوریوں کا شکار ہوتا ہے۔ کبھی مصیبتیں آگھیرتی ہیں ‘ کبھی مالی دشواریاں پریشان کرتی ہیں ‘ کبھی اور چند در چند ضرورتیں ہیں ‘ جو انسان کو بےبس کر کے رکھ دیتی ہیں۔ جس ذات کو انسان اپنا الہٰ اور خدا بناتا ہے ‘ اس کے بارے میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری ایسی تمام ضرورتوں اور حاجتوں اور میری بےبسی اور بےکسی میں ‘ وہ ذات میرے لیے سہارا ہوگی۔ میں تکلیف میں ہوں گا تو وہ تکلیف دور کرے گی ‘ مجھے نقصان سے بچائے گی اور جب مجھے کسی فائدے کی ضرورت ہوگی اور میں دست سوال اس کے سامنے دراز کروں گا تو وہ مجھے مالا مال کر دے گی۔ لیکن ابا جان آپ اور آپ کی قوم اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کے سامنے جھکتے ہو دست سوال دراز کرتے ہو مرادیں مانگتے ہو ‘ اپنی سب امیدیں ان سے وابستہ کرتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو وہ نہ تمہیں دیکھتے ہیں نہ وہ تمہاری بات سنتے ہیں اور نہ کسی ضرورت میں وہ تمہارے کام آسکتے ہیں تو پھر ان پتھروں سے سر پھوڑنے کا فائدہ۔ یہ تو وہ تنقید ہے جو ان کی ظاہری برائی پر کی گئی ہے کیونکہ دیکھنے والی نگاہ انھیں پتھروں کے سامنے ہی جھکتا ہوا دیکھتی ہے۔ بت پرستی کی آڑ میں دراصل شیطانی اور طاغوتی قوتیں اپنی پرستش کرواتی ہیں لیکن اگلی آیات میں اس کی حقیقت بھی کھولی گئی کہ یہ پتھروں کے خدا اصل میں یہ مقصود نہیں ہیں۔ ان کے پردے میں شیطانی اور طاغوتی قوتیں اپنی بندگی کرواتی ہیں۔ دنیا کا ہر استبدادی نظام اور تمام مفاد پرست گروہ اور مشیخیت کے دعوے دار اور مذہب کے نام پر فوائد حاصل کرنے والے لوگ سب اپنے اپنے دائرے میں ایسے ہی پردوں میں اپنی بندگی کرواتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو دلوں میں اتار کر اپنی پوجا کروانا اپنی بڑائی اور عظمت کا ایک طلسم طاری کر کے اپنے مفادات کو محفوظ کرنا یہ اسی بت پرستی کی شاخیں ہیں۔ دنیا میں جب کبھی بت پرستی ہوئی ہے تو عوام کو تو جانے دیجئے خواص نے کبھی بھی پتھروں کو پتھر سمجھ کے نہیں پوجا وہ جانتے ہیں کہ یہ پتھر ‘ یہ مجسمے ‘ یہ بظاہر بت ‘ خدا رسیدہ شخصیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے پردے میں ہم ان کو پوجتے ہیں اور جب وہ خوش ہوجاتے ہیں تو ہم پر انعامات کی بارش کرتے ہیں اور کبھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ کچھ اوتار ہیں دیوتائوں کے جن کی یہ شکلیں ہیں اور بادشاہ بھی چونکہ کسی نہ کسی دیوتا کا اوتار سمجھا جاتا تھا اور اسی حوالے سے ان مذہبی پروہتوں سے ان کی ملی بھگت ہوتی تھی اور وہ انہی کا سہارا لے کر اپنی ربوبیت کا صور پھونکتے تھے اور آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو اس بت پرستی نے اگرچہ شکل بدل لی ہے ‘ لیکن اس کی روح آج بھی کار فرما ہے۔ یہ ہیرو ورشپ ‘ یعنی شخصیتوں کی پوجا۔ ان کے مجسموں کا احترام ‘ ایئر ٹائٹ شیشوں کے بکسوں میں ان کی لاشوں کی حفاظت اور پھر طریقے طریقے سے دلوں میں ان کے زندہ رکھنے کی کوشش اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو پر اپیگنڈے کے زور سے لوگوں کے سامنے معصوم بنا کر پیش کرنا اور سادہ دل عوام کو یہ یقین دلا دینا کہ تمہارا لیڈر کبھی غلطی نہیں کرسکتا اور ان سے ہر طرح کی قربانیوں کا مطالبہ کرنا اور انہی کے حوالے سے خیر و شر کی تمیز میں ان کو فیصلہ کن حیثیت دے دینا ‘ یہ آج کی وہ بت پرستی ہے ‘ جو پوری آب و تاب سے آج بھی زندہ ہے۔ مسلمان قوم جو توحید کی علمبردار اور اپنے پیغمبر کی ذات کی فداکار ہے ‘ وہ بھی اس سحر سے محفوظ نہیں۔ ہمارے معاشرے کی بت پرستی ہم آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر ‘ اسلامی مسلمات کا انکار کرتا ہے ‘ عبادات کا مذاق اڑاتا ہے ‘ اخلاص و عمل کو بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کا نام دے کر مسترد کردیتا ہے اور صاف صاف باطل قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے ‘ حتیٰ کہ ملک کی آئینی سرحدیں بھی اس کے ہاتھوں محفوظ نظر نہیں آتیں ‘ بایں ہمہ بیشمار لوگ اسے نہ صرف سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اسے اپنی محبت و عقیدت کا مرجع سمجھتے ہیں۔ غور فرمایئے ! اس سے بڑی بت پرستی اور کیا ہوگی۔ اس زمانے کی بت پرستی بھی انسان سے خدا پرستی اور اس کا دین چھینتی تھی ‘ آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تنقید فرما رہے ہیں اور اس تنقید کا دائرہ چونکہ زندگی کے ہر زاویئے پر محیط تھا ‘ اس لیے ان کے والد نے شروع ہی میں سخت ترین طرز عمل اختیار کیا۔ آپ کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی اور پوری قوم آپ کی دشمنی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی اور آپ کی دعوت کا مطالعہ کرتے ہوئے ‘ دماغ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں جو کچھ دیکھتا ہے ‘ اس کے والدین جیسی اس کی تربیت کرتے ہیں ‘ اس کی تعلیم جو اسے سکھاتی ہے اور معاشرے میں جن باتوں کا چلن ہوتا ہے ‘ ایک بچہ تربیت کے تمام مراحل میں انہی باتوں کو قبول کرتا ہے اور اس کی زندگی انہی کی تصویر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم نے بت پرستی اور بت گری کے مرکز میں آنکھ کھولی ‘ اپنے چاروں طرف اسی کی کارفرمائی دیکھی ‘ ان کی تربیت انہی بنیادوں پر ہوئی ‘ معاشرے کو اسی دلدل میں دھنسا ہوا دیکھا اور پورے معاشرے میں اس کے برخلاف کہیں سے کوئی ایک آواز بھی کبھی سنائی نہ دی سوچنے کی بات ہے کہ شرک کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں انھوں نے توحید کی روشنی کہاں سے لی ؟ وہ گندگی میں پلنے والے کیڑوں میں رہ کر خوشبو کے ذوق سے کیسے آشنا ہوئے۔ اگلی آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے :
Top