Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ
: اور وہی
الْقَاهِرُ
: غالب
فَوْقَ
: پر
عِبَادِهٖ
: اپنے بندے
وَيُرْسِلُ
: اور بھیجتا ہے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
حَفَظَةً
: نگہبان
حَتّٰٓي
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
جَآءَ
: آپ پہنچے
اَحَدَكُمُ
: تم میں سے ایک۔ کسی
الْمَوْتُ
: موت
تَوَفَّتْهُ
: قبضہ میں لیتے ہیں اس کو
رُسُلُنَا وَهُمْ
: ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ
لَا يُفَرِّطُوْنَ
: نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ تم پر اپنے نگران مقرر رکھتا ہے ‘ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو ہمارے فرستادے ہی اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ اس کام میں کوتاہی نہیں کرتے
وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ط حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ۔ ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ ط اَلَا لَہٗ الْحُکْمُ قف وَھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ ۔ (الانعام : 61۔ 62) (اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ تم پر اپنے نگران مقرر رکھتا ہے ‘ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو ہمارے فرستادے ہی اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ اس کام میں کوتاہی نہیں کرتے ‘ پھر وہ سب اپنے مولائے حقیقی ‘ اللہ ہی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ خبردار کہ فیصلے کا سارا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ سب سے زیادہ تیز حساب چکانے والا ہے ) اللہ نے انسانوں پر اپنے نگران مقرر کر رکھے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات صرف کمال علم سے متصف نہیں یعنی وہ ہر چیز کو جانتی تو ہو لیکن ضروری نہیں کہ ہر چیز اس کے قبضہ اختیار میں بھی ہو اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح وہ کائنات کے ایک ایک ذرے اور نوع انسانی کے ایک ایک فرد سے آگاہ ہے اسی طرح وہ اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک پر حاوی بھی ہے۔ قاہر کا معنی پیچھے گزر چکا۔ قاہر کا معنی ہوتا ہے کنٹرولر ‘ یعنی وہ اپنے بندوں پر اور بندوں میں صرف نوع انسانی ہی نہیں تمام مخلوقات شامل ہیں پوری طرح حاوی ہے ‘ ان پر نگران ہے ان پر گرفت کرسکتا ہے ‘ اپنے احکام دینے کا حق رکھتا ہے اور تکوینی احکام سے تو مخلوقات میں سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ مخلوقات میں سے ہر مخلوق زندگی اور موت، زندگی کی ضروریات ‘ زندگی کے امکانات اور اپنی قسمتوں کے بارے میں اللہ کے احکام کی پابند ہے اور پھر ایسا نہیں کہ وہ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد پوری طرح ان کے وجود اور ان کی ضروریات سے آگاہ نہ ہو۔ جس طرح کسی بھی گلے کا چرواہا اپنی بھیڑوں کو بعض دفعہ گم کر بیٹھتا ہے اور اس کی نگاہ ہٹ جانے کی وجہ سے بعض دفعہ کوئی بکری اور بھیڑ ادھر ادھر بھاگ نکلتی ہے۔ اللہ اپنی کسی بھیڑ سے بیخبر نہیں۔ وہ مخلوقات کا ایسا نگران ہے کہ اس کا علم بھی مکمل ہے اور اس کی گرفت اور اسکا کنٹرول بھی کامل ہے۔ یہاں تک کہ اس نے کارکنان قضا و قدر اور اپنے غیر مرئی حفاظتی دستوں کو نوع انسانی کے جسم و جان اور ان کی ضروریات کی حفاظت کے لیے اس طرح مقرر کر رکھا ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی ان دیکھے خطرے کا شکار ہوتا ہے یا اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے تو اس کے یہ غیبی لشکر برابر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے سائنسدان بتاتے ہیں کہ اربوں کی تعداد میں روزانہ زمین کی طرف شہاب ثاقب گرتے ہیں جن میں سے بعض دفعہ ایک ایک شہاب ثاقب ٹنوں وزن کا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے انھیں زمین پر آنے سے کون روکتا ہے اگر اللہ تعالیٰ راستے میں حفاظتی قوتوں کو مقرر نہ فرماتا تو زمین اور اس پر بسنے والی مخلوق اشہب ثاقب کی بارش سے تباہ ہوجاتی۔ خود زمین کی حرکتوں کا توازن اور زمین سمیت تمام کروں کا اپنے محور میں سمٹ کر رہنا ‘ کسی نگرانی کے بغیر تو ممکن نہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اور اہل زمین تباہی کا شکار ہوجاتے اور پھر اسی مقرر کردہ رفتار کے نتیجے میں شب و روز وجود میں آتے ہیں۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی کردی جائے تو ماہ جون کا گرم دن طویل ہوسکتا ہے اور جنوری کی ٹھنڈی راتیں وسعت پذیر ہوسکتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ زمین پر بسنے والی مخلوق یا جھلس کر مرجائے گی یا منجمد ہو کر تباہ ہوجائے گی۔ آغاز آفرینش میں جب زمین ٹھنڈی ہوئی تو دو گیسیں یعنی نائیٹروجن اور آکسیجن باہم مل کر ہوا میں تبدیل ہوگئیں۔ نائٹروجن کی مقدار 78.09 فیصد تھی اور آکسیجن 20.95 فیصد۔ آکسیجن ایک آتش پذیر گیس ہے اگر فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہوتی تو آسمانی بجلی کے ایک شرر سے آگ بھڑک اٹھتی اور سب کچھ جل جاتا اور اگر موجودہ مقدار سے نصف ہوتی تو نہ چولہوں میں آگ جلتی اور نہ حیوانی زندگی باقی رہتی۔ سمندر کے پاس ہوا کا دبائو 15 پائونڈ فی انچ ہوتا ہے اور ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً 14.5 پائونڈ فی انچ۔ انسان کے کندھے اندازاً دس مربع انچ جگہ گھیرتے ہیں ان پر ہوا کا دبائو گیارہ سو ساٹھ پائونڈ یعنی ساڑھے چودہ من ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان اس بوجھ کے نیچے پس کیوں نہیں جاتا جواب یہ ہے کہ اس حکیم مطلق اور عقل کل نے ہوا اور پانی دونوں میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ ان کا دبائو ہر سمت سے ہر سمت کو ہوتا ہے یعنی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر اس لیے اس بوجھ کا احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر مرئی مخلوقات جو ہمارے گردوپیش میں موجود ہیں وہ بالعموم انسان کو نقصان پہنچانے سے عاجز رہتی ہیں۔ انھیں انسان کو نقصان پہنچانے سے کون روکتا ہے اور کون ہیں جو انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی ہیں جس کو پروردگار یہاں حَفَظَۃ کے نام سے تعبیر کر رہا ہے۔ حَفَظَہ جمع ہے حافظ کی، حفاظت کرنے والا۔ یعنی انسانی زندگی اور اس طرح باقی مخلوقات کی زندگی کی حفاظت کرنے کے لیے اللہ نے ایسے لشکر مقرر کر رکھے ہیں جسے ہم دیکھ نہیں پاتے۔ لیکن اپنے گردوپیش میں محسوس ضرور کرسکتے ہیں اور یہ جو چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ان کے آئینے میں ان کی جھلک دیکھ بھی سکتے ہیں۔ جس ذات والا صفات کے یہ بےپناہ انتظامات ہیں کون آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس کی قدرت کی وسعتوں کا عالم کیا ہوگا اور کون ہے جو اس کی گرفت سے نکل کر بھاگ سکتا ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اے مشرکین مکہ تم جو اپنے اللہ پر دلیر ہوتے جا رہے ہو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ اس کی قدرتیں بےپناہ ہیں۔ تمہارا اس زمین پر رہنا اور یہاں قسم قسم کی نعمتوں سے متمتع ہونا حتیٰ کہ اللہ کی بارگاہ میں سرکشی کر گزرنا یہ بھی صرف اس کے حلم اور رحمت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ورنہ تم اس کی گرفت سے کسی وقت بھی آزاد نہیں ہو وہ جب چاہے تمہیں پکڑ سکتا ہے اور جب چاہے اس کے مقرر کردہ نگران تم پر عذاب مسلط کرسکتے ہیں۔ اب بجائے اس کے کہ تم اللہ کے انعامات اور احسانات کی قدر کرو اور اس کا شکر بجا لائو تم برابر دلیر ہو کر اس کی بارگاہ میں گستاخیاں کرتے ہو اور اس کے رسول سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے ہو لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ زندگی ہمیشہ کی زندگی نہیں ہے۔ تمہیں یہاں رہنے کی ایک مقرر مدت دی گئی ہے جیسے ہی وہ مدت پوری ہوجائے گی تمہاری واپسی کا فیصلہ ہوجائے گا۔ یہی واپسی کا فیصلہ ہے جسے موت کہا جاتا ہے چناچہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے گا تو پھر یہ مت سمجھو کہ تم اللہ کی مقرر کردہ موت سے بچ نکلو گے بلکہ وہ فرشتے جو تمہارے گردو پیش میں ہیں جیسے ہی انھیں اللہ کی طرف سے حکم آئے گا وہ فوراً تمہاری جان قبض کرلیں گے اور وہ فرشتے اور وہ کارکنان قضا و قدر اس قدر اللہ کے احکام کی تعمیل میں سراپا انتظار رہتے ہیں کہ ادھر حکم ملتا ہے ادھر تعمیل حکم میں جت جاتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے سرتابی انھیں جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اس میں ممکن ہی نہیں۔ اس لیے کبھی وہ جان قبض کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے جس طرح وہ ایک آدمی کی جان نہایت آسانی سے نکالتے ہیں بڑے سے بڑا شہنشاہ بھی اسی طرح ان کے ہاتھوں میں بےدست و پا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے بارہا دیکھا کہ ایک نہایت صحت مند اور توانا آدمی جس کی قوت کے مقابل بعض دفعہ کوئی نہیں ہوتا لیکن جب موت آجاتی ہے تو اس کی ساری قوتیں دھری رہ جاتی ہیں۔ آنِ واحد میں وہ موت کا لقمہ بن کے رہ جاتا ہے۔ تخت نشیں بادشاہوں کو اس کے کارندے اس طرح دبوچتے ہیں کہ تخت و تاج اس کا صرف ماتم کرنے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں۔ پھر اسی پر بس نہیں کہ اللہ کے اس عالمی قانون کے تحت تمہیں بھی موت آئے گی اور اللہ کے فرستادے تمہاری بھی جان قبض کریں گے بلکہ تمہیں اور باقی ساری دنیا کو بھی اللہ ہی کی طرف لے جایا جائے گا یعنی ایک ایک آدمی جو موت کا شکار ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرنے کے بعد وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے چھوٹ جاتا ہے بلکہ موت اصلاً اسے اس دارالعمل سے دارالجزاء کی طرف لے جانے کا نام ہے۔ اسے ڈیوٹی سے واپس بلا کر دارالجزاء میں حساب دینے کے لیے کھڑا کردیا جاتا ہے کہ بتائو تم نے اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنی ڈیوٹی کے انجام دینے میں کہاں تک اخلاص اور دیانت و امانت کا ثبوت دیا ہے اور مزید یہ بھی یاد رکھو کہ تمہیں جس اللہ کی بارگاہ میں لے جایا جائے گا کاش تم آج اس بات پر غور کرلو کہ وہی تمہارا حقیقی مولیٰ ہے۔ اس آیت میں مولیٰ کا لفظ اسی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مولیٰ کا معنی ہوتا ہے خیر خواہ ‘ حمایتی ‘ ذمہ دار ‘ نگران ‘ کارساز۔ ان تمام حوالوں سے اگر کوئی مولیٰ کہلانے کا حق رکھتا ہے تو وہ صرف خداوند ذوالجلال ہے۔ کہا اس کے مولیٰ ہونے کا تو تمہیں یہ فائدہ اٹھانا چاہیے تھا کہ اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ‘ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر قیامت کے دن اس کی مہربانیوں سے فیض یاب ہوتے اور وہی چونکہ حقیقی خیر خواہ اور حمایتی ہے۔ جب ایمان و اطاعت کا سرمایہ لے کر اس کی بارگاہ میں پہنچتے تو کیسے کیسے اس کی محبت اور حمایت تمہارے کام آتی۔ لیکن تم نے اس کی ولایت اور حمایت چھوڑ کر نجانے کس کس کو مولیٰ بنایا اب جب کہ تم قیامت میں اس کی عدالت میں کھڑے کیے جاؤ گے تو وہاں تمہارے یہ شرکا جن کو تم اپنے مولیٰ اور اپنے سفارشی سمجھتے تھے ‘ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ بلکہ وہ اس بات پر الٹا شاکی ہوں گے کہ ان بدبختوں نے ہمیں اللہ کا شریک کیوں بنایا۔ ہم نے تو ان سے ہرگز یہ نہیں کہا تھا کہ ہم اللہ کی صفات میں شریک ہیں۔ وہاں وہ بھی اسی کے حکم کے بندہ بےدام ہوں گے اور اسی کے حکم کے انتظار میں لرزاں و ترساں کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر حساب کرنے والا ہے آیت کے آخری حصے میں فرمایا وَھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ وہ حساب لینے میں سب سے زیادہ تیز ہے۔ یہ اس لیے فرمایا گیا کہ مشرکین مکہ کو قیامت کے دن حساب کتاب کے سلسلے میں جو شبہات تھے ان میں ایک شبہ یہ تھا کہ اربوں کھربوں مخلوق کے بیشمار اعمال کا حساب آخر کس طرح ممکن ہوگا۔ اولاً تو یہ اعمال کسی کے علم میں ہی نہیں ہوں گے اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اللہ ایک ایک آدمی کے عمل سے واقف ہے تو یہ بات تو کسی طرح بھی قرین عقل نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کا حساب لے ڈالے۔ اس لیے فرمایا کہ نادانو ! تم اللہ کو بھی اپنے اوپر قیاس کرتے ہو۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت تو کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوسکتا تھا کہ کبھی ایسی مشینیں بھی ایجاد ہوجائیں گی جو پوری پوری کمپنیوں کا حساب چند گھنٹوں میں ختم کردیں لیکن آج جبکہ اس طرح کے تجربات ہمارے سامنے ہیں ‘ آج بھی نجانے کتنے ذہن ہیں جن میں ابھی تک اس طرح کے واہمے تیر رہے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ تمہیں اللہ کے اگر کمال قدرت کا یقین ہو تو تمہارے لیے اتنی بات بس کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے تیز حساب لینے والا ہے۔ ظاہر ہے اس کی تیزی اس کی اپنی شان کے لائق ہے اور اس کے لیے تو شاید چند لمحوں کی بھی ضرورت نہ ہو۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے محض ہمارے سمجھانے کی غرض سے معلوم ہوتا ہے ارشاد فرمایا کہ ” ساری دنیا کا حساب صبح سے لے کر دوپہر تک کے وقت میں ختم کردیا جائے گا “۔ یعنی اتنی دیر لگے گی جتنی دیر میں صبح سے دوپہر تک دن ڈھلتا ہے۔ اگلی آیات کریمہ میں انسان کی نفسیاتی کمزوری اور توحید پر ایک داخلی دلیل کی طرف توجہ دلائی ہے۔
Top