Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 49
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو يَمَسُّهُمُ : انہیں پہنچے گا الْعَذَابُ : عذاب بِمَا : اس لیے کہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ کرتے تھے نافرمانی
اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ‘ ان کی نافرمانی کی پاداش میں ‘ ان کو عذاب پکڑے گا
وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّھُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ (اور جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ‘ ان کی نافرمانی کی پاداش میں ‘ ان کو عذاب پکڑے گا) دنیا میں ہر خطرے سے آگاہ کرنے والے اور ہر مصیبت سے بچانے والے کو ‘ اپنا سب سے بڑا محسن خیال کیا جاتا ہے۔ دنیا و آخرت کا سب سے بڑا خطرہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے نتیجے میں اس کی طرف سے ملنے والا عذاب ہے۔ یہ رسول اسی سے خبردار کرنے اور بچانے کے لیے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا ان سے وہی ایمان و ہدایت کا راستہ سیکھے ‘ جس سے وہ دنیا کی سعادتوں کی مستحق بنے اور اللہ کے عذاب سے بچ جائے۔ لیکن یہ مشرکین مکہ اور اسی طرح کی باقی کافر قومیں ‘ بجائے اس کے کہ اللہ کے رسول سے یہ سبق سیکھیں ‘ وہ بار بار کبھی اس سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہیں ‘ حالانکہ وہ عذاب کے لیے دنیا میں نہیں آتے ‘ بلکہ عذاب سے بچانے کے لیے آتے ہیں اور کبھی قسم قسم کی نشانیاں ان سے مانگی جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے آتے ہیں اور انسانوں کے لیے انسانی زندگی کو آسان کرنے اور مشکلات سے بچنے کے طریقے سکھانے کے لیے آتے ہیں ‘ کسی شعبدہ بازی کے لیے تشریف نہیں لاتے۔ خوارق و عجائب کا ظہور رسولوں کے خصائص میں سے نہیں اور نہ ان کی تعلیم و دعوت کے لوازم میں سے ہے۔ بلکہ اگر ان کا ظہور ہوتا بھی ہے تو محض اتمام حجت کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن لوگ ہمیشہ ان سے اسی طرح کی باتوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں لوگوں کے سامنے پیغمبروں کی اصل حیثیت کو بیان کرنا مقصود ہے ‘ وہیں شاید رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک تسکین و تسلی کا پیغام بھی ہے کہ آپ کا چونکہ کام صرف تبشیر و انذار ہے تو آپ کی ساری توجہات اسی طرف رہنی چاہئیں۔ رہے مشرکینِ مکہ کے وہ مطالبات جن کا تعلق آپ کے فرائض سے نہیں ‘ آپ ان کو خدا پر چھوڑیئے ‘ ان کی وجہ سے کبھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ قوموں کے راہ ہدایت اختیار کرنے میں جو چیزیں موانع ثابت ہوئی ہیں اور جن کی وجہ سے لوگ پیغمبروں سے عجیب و غریب مطالبات کرتے رہے ‘ بلکہ ایمان لانے والی قومیں بھی اپنے دور زوال میں جن اسباب سے گمراہ ہوتی رہیں ‘ ان میں سب سے بڑا سبب اللہ کے نبیوں اور اس کے رسولوں کی اصل حیثیت کو نہ سمجھنا ہے۔ کافر دشمنی میں آ کر مخالفتوں اور اذیتوں کی انتہا کردیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ اس پر انھیں عذاب سے ڈراتا ہے تو وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ عذاب کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں۔ گزشتہ آیت میں اس حوالے سے پیغمبروں کی حیثیت کی وضاحت کی گئی ہے۔ لیکن غلط فہمی کی بنیاد صرف یہی نہیں ‘ بلکہ اور بھی چند در چند غلط فہمیوں کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مخالفتوں اور اذیتوں کے طوفان اٹھنے سے پہلے بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ‘ جو پیغمبر کے بارے میں غلط تصورات رکھتے ہیں ‘ اس لیے پیغمبر پر ایمان نہیں لاتے کہ وہ انھیں اپنے تصورات کے مطابق دکھائی نہیں دیتا۔ انھوں نے اپنے تصورات میں یہ بات بٹھا رکھی ہوتی ہے کہ پیغمبر مافوق الفطرت مخلوق ہوتا ہے۔ وہ انسانوں میں سے کوئی انسان نہیں ہوتا ‘ اس کی صفات غیر معمولی ہوتی ہیں ‘ اس کے ساتھ اللہ کے خزانے اترتے ہیں ‘ وہ کاہنوں سے بڑھ کر غیب کی اطلاعات دیتا ہے ‘ بلکہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ پیغمبر میں اس طرح کی باتیں نہیں دیکھتے تو پھر وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یقینا یہ پیغمبر نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی مشرکین مکہ نے یہی طرز عمل اختیار کیا۔ قرآن کریم نے ان کی بات کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا : قَالُوْا مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ اَلطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط (الفرقان : 7) (وہ کہتے ہیں ‘ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ ) یعنی وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے ‘ کاروبار کے لیے بازار جاتا ہے ضروریات کے لیے بازار کا رخ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو ہماری طرح ایک آدمی ہے۔ حالانکہ آدمی کو پیغمبر یا پیغمبر کو آدمی نہیں ہونا چاہیے اور جب یہ دیکھتے کہ رسول اللہ بھی بعض دفعہ آنے والے حالات میں دشواریوں کا شکار ہوتے ہیں وہ حیران ہوتے کہ یہ کیسا پیغمبر ہے ‘ جو غیب کے حالات سے واقف نہیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح سابقہ آیت میں پیغمبروں کی حیثیت کے حوالے سے ان کی بعض غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے ‘ اسی طرح آنے والی آیت کریمہ میں ایک دوسرے پہلو سے ان کے تصورات کی اصلاح فرمائی گئی ہے اور اس آیت میں اس طرح کھول کر بات کہی گئی ہے ‘ گویا اس حوالے سے حرف آخر کہہ دیا گیا ہے۔
Top