Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 34
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا١ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ : اور البتہ جھٹلائے گئے رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَصَبَرُوْا : پس صبر کیا انہوں نے عَلٰي : پر مَا كُذِّبُوْا : جو وہ جھٹلائے گئے وَاُوْذُوْا : اور ستائے گئے حَتّٰى : یہانتک کہ اَتٰىهُمْ : ان پر آگئی نَصْرُنَا : ہماری مدد وَلَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی باتوں کو وَ : اور لَقَدْ : البتہ جَآءَكَ : آپ کے پاس پہنچی مِنْ : سے (کچھ) نَّبَاِى : خبر الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور ایذا دیئے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اللہ کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور پیغمبروں کی کچھ سرگزشتیں تو تمہیں پہلے ہی پہنچ چکی ہیں
تمہید گزشتہ آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کو ایک خاص پہلو سے تسلی دی گئی تھی جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں یہی تسلی کا مضمون جاری ہے لیکن اس کا انداز دوسرا ہے اس میں ایک طرف تو کلام کے تیور بدل گئے ہیں اور لہجہ ذرا تیکھا ہوگیا ہے اور ساتھ ہی دعوت و اصلاح اور پیغمبر کی ذمہ داریوں کے حوالے سے چند اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔ جن کی پابندی کرنے اور جن کو نگاہوں میں رکھنے کا آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے۔ جہاں تک ان آیات میں کلام کے تیور بدلنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان آیات میں خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ سے ہے ‘ لیکن روئے سخن قریش کے ان ہٹ دھرم اور ضدی لوگوں کی طرف ہے جو کسی طرح بھی راہ راست اختیار کرنے کو تیار نہیں تھے۔ البتہ وقتاً فوقتاً نئے سے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے اور بظاہر تاثر یہ دیتے تھے کہ اگر یہ نشانی اور یہ معجزہ ہمیں دکھا دیا جائے تو ہم ایمان لانے کو تیار ہیں اور اس کے ساتھ ہی رویہ ان کا یہ تھا کہ ان کی مخالفت میں روز بروز شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی اور اذیت رسانی کا عمل اپنی انتہا کو چھو رہا تھا ‘ جس کا برداشت کرنا بعض دفعہ مسلمانوں کے لیے مشکل ہو رہا تھا اس سلسلے میں جو اصولی باتیں فرمائی گئی ہیں اور جن کی حیثیت سنت اللہ اور قانون خداوندی کی ہے۔ ان کا ذکر کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک اور بات کی وضاحت کردوں تاکہ اللہ کی اس سنت کو سمجھنے میں سہولت پیداہو جائے۔ بات یہ ہے کہ جب آدمی قرآن کریم میں تسلی کے اس مضمون کی تکرار ردیکھتا ہے کہ بار بار آنحضرت ﷺ کو مخالفین کی مخالفت پر تسلی دی جا رہی ہے اور آپ کا حوصلہ بڑھایا جا رہا ہے تو ذہن میں دو سوال ابھرتے ہیں۔ 1 اللہ کے تمام رسول نہایت بلند ہمت اور بلند حوصلہ رہے ہیں ‘ انھوں نے بگڑے ہوئے حالات کے طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے اور کبھی سراسیمہ نہیں ہوئے اور محمد رسول اللہ ﷺ تو سید الرسل اور خاتم الرسل ہیں آپ یقینا ان تمام اولوالعزم رسولوں سے بڑھ کر صاحب عزیمت اور حوصلہ مند ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ بار بار آپ کو تسلی دینے کی ضرورت پیش آگئی ہے ؟ 2 قرآن کریم عربی فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس کی مثال لانا انسانی صلاحیت سے بالاتر بات ہے۔ لیکن جب ہم اس میں اس مضمون کا تکرار دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی بات بار بار کیوں کہی جا رہی ہے اس لیے کہ اعلیٰ پائے کی کتابوں میں کسی بھی بات کو دھرا کر کہنا ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔ تو قرآن کریم تو ایسے ہر عیب سے پاک ہے تو پھر اس مضمون کے بار بار لائے جانے کا آخر کیا مطلب ہے ؟ یہ دونوں سوال اصل میں قرآن کریم کی حیثیت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں ہم نے اس کتاب کو بھی باقی کتابوں جیسی ایک کتاب سمجھا ہے۔ دنیا بھر میں تمام شعبہ ہائے علم پر لکھی جانے والی تمام کتابوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ علم کے جس گوشے پر بحث کرتی ہیں ‘ اس کی اساسی باتیں ‘ اس کے ضمنی مباحث ‘ اس سے پیدا ہونے والے نتائج کے بارے میں ضروری اصلاحات اور ہدایات کو ابواب اور فصول باندھ کر ایک ترتیب سے ذکر کردیا جاتا ہے اور پھر اس کو دھرایا نہیں جاتا اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ جس آدمی کو جس شعبہ علم سے استفادہ کرنا ہے وہ اس کی متعلقہ فصل نکال کر ان ضروری باتوں کو ایک دفعہ دیکھ لے گا اور ان سے فائدہ اٹھالے گا۔ اس لیے کسی بھی بات پر بحث کرتے ہوئے کسی ایک بات کو تکرار کے ساتھ ذکر کرنا ایسی کتابوں کے لیے باعث عیب سمجھا جاتا ہے ‘ لیکن جب ہم قرآن کریم کو بھی اسی طرح ایک خالصتاً علمی کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس میں کسی ایک بات کے تذکرے کو کسی ایک ہی جگہ کافی نہ سمجھ کر بار بار ذکر کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب کے قاری پر یا تو عدم اعتماد کیا جارہا ہے اور یا لکھنے والا لکھنے کا سلیقہ نہیں جانتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی وہ واحد کتاب ہے کہ جس کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے اور دنیا کی کوئی کتاب اس لحاظ سے اس کی نقل کرنے سے عاجز ہے کیونکہ یہ کتاب صرف تھیوراٹیکل بک نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ایک ایسی گائیڈ بک اور راہنما کتاب ہے جو اپنے پیغمبر کے ساتھ نازل ہوتی اور چلتی ہے۔ اس کی دعوت جن حالات سے گزرتی ہے اور خود اسے اور اس کے ساتھیوں کو جن جن مراحل سے جیسے جیسے گزرنا پڑتا ہے یہ کتاب برابر ان کو ہدایات دیتی ہے اور ان کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیتی ہے خدشات کو اطمینان سے بدلتی ہے اور اشتعال اور ہراس کی صورت میں کبھی شہد کی طرح مٹھاس بن کر اور کبھی شبنم کی طرح ٹھنڈک بن کر ان کے حوصلے کا سامان کرتی ہے۔ ذرا تصورکیجئے کہ اگر یہ حکم ایک دفعہ دے دیا جاتا کہ لوگو ! دین کی راہ میں تمہیں مشکلات پیش آئیں گی ‘ تمہیں ان پر صبر کرنا ہے اور اس کے بعد مسلسل تیرہ سال مکی زندگی میں اور کئی سال تک مدنی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور صحابہ کرام مسلسل اس کٹھالی میں ڈال کر بےپناہ مصائب سے آزمائے جاتے تو کیا یہ ایک جملے پر مشتمل تسلی اس پورے سفر میں کافی ہوسکتی تھی۔ آنحضرت ﷺ جب مکہ کی سڑکوں پر گزرتے ہوئے دیکھتے کہ حضرت خباب ( رض) کو دھونکنی دی جا رہی ہے اور کبھی انھیں دہکتے انگاروں کی سیج پر لٹایا جا رہا ہے اور کبھی حضرت بلال ( رض) کو دیکھتے کہ ان کا بدبخت آقا آگ کی طرح تپتی ہوئی ریت پر انھیں گھسیٹ رہا ہے اور کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر اوباشوں کے سپرد کر رہا ہے کہ انھیں پورے مکہ میں گھسیٹتے پھرو۔ ایسے ایک ایک واقعہ پر تکلیف اٹھانے والوں کا جو حشر ہوتا تھا اور خود حضور کا دل جیسے خون ہو ہوجاتا تھا اور جسم و جان کی صلاحیتیں دم توڑنے لگتی تھیں اور آئے دن کی اذیتیں حوصلوں کو شکستہ کرنے لگتی تھیں تو کیا ضرورت نہیں تھی کہ آسمان سے بار بار تسلی اور اطمینان کی شبنم برسے ‘ بار بار جبرائیل آئیں اور حوصلہ دیں اور بار بار اللہ تعالیٰ ظالموں کو وعید سنائیں اور ان مظلوموں کو انعامات کی نوید دیں۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو یقینا آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کوئی بھی تحریک جو جان و تن کے جانگسل مراحل سے گزرتی ہے اس کے لیے سب سے بڑی قوت کا سامان یہ حوصلہ دینے کا عمل ہی ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ایک آدمی حوصلہ پاتا اور آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم بار بار آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دیتا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں یہی تسلی کا مضمون ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ نے اپنی سنت کو بھی بیان کردیا ہے تاکہ امت مسلمہ اچھی طرح اس بات کو سمجھ لے۔ ارشاد ہوتا ہے وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌمِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰھُمْ نَصْرُنَا ج وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ج وَلَقَدْ جَآئَکَ مِنْ نَّبَاِیِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (الانعام : 34) (اور تم سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انھوں نے جھٹلائے جانے اور ایذا دیئے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی ‘ اللہ کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور پیغمبروں کی کچھ سرگزشتیں تو تمہیں پہلے ہی پہنچ چکی ہیں) تبلیغِ دین میں صبر اور استقامت ضروری ہے اس آیت کریمہ میں چند باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1 آپ کی امت دعوت جس طرح آپ کی تکذیب کر رہی ہے اور آپ کو ایذا پہنچا رہی ہے۔ یہ دنیا کا پہلا واقعہ نہیں آپ سے پہلے جتنے رسول آئے ہیں ان میں سے ہر رسول کے ساتھ یہی کچھ پیش آیا ہے۔ وہ اپنے اللہ کی طرف سے جو ہدایت لے کر آئے ان کی امتوں نے نہ صرف قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کو رسول ماننے سے بھی انکار کردیا اور بار بار یہ کہا کہ نہ تم اللہ کے رسول ہو اور نہ وہ دعوت جو تم ہمارے سامنے پیش کرتے ہو ہم اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور رسولوں نے جب انتہائی خیر خواہی کے ساتھ بار بار اس دعوت کو پیش کیا تو ان کی یہ عدم قبولیت ضد کی شکل اختیار کرگئی اور اس پر چڑ کر اور برہم ہو کر انھوں نے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو اذیتیں دینا شروع کردیں۔ یہاں تک کہ بعض انبیاء اس سلسلے میں قتل کردیئے گئے اور کتنے رسول ہیں جن کو زندگی بچانے کے لیے اللہ کے حکم سے ہجرت کرنا پڑی۔ ہر رسول کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بےسہارا نہیں چھوڑیں گے ‘ جب ہماری بےبسی اور مصیبت انتہاء کو پہنچے گی تو یقینا اس کی نصرت نازل ہو کر ہمیں سہارا دے گی۔ لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اس یقین کے باوجود مخالفتیں اور اذیتیں اس حد تک پہنچ گئیں کہ بار بار ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا رہا ‘ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بتایا گیا کہ ابھی آپ اور آپ کے ساتھیوں پر تو وہ وقت نہیں آیا ‘ جو پہلے رسولوں اور ان کی امتوں پر گزر چکا ہے۔ ارشاد فرمایا : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاتِکُمْ مَثَلٌالَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَأسَائُ وَالْضَرَّائُ وَزُلزِلُوا حَتیٰ یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتَیٰ نَصْرُ اللہِ ( کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے ‘ حالانکہ تم پر ابھی وہ وقت نہیں آیا جو تم سے پہلی امتوں پر گزر چکا انھیں جسمانی اور مالی مصیبتیں پہنچیں اور وہ مصائب سے جھنجھوڑ ڈالے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کب آئے گی اللہ کی مدد ) آنحضرت ﷺ کے بعض صحا بہ بھی بعض دفعہ ایسے ہی احساس سے مغلوب ہوئے تو آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا پڑی۔ حضرت خباب ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مشرکین نے مجھے بےحد اذیتیں پہنچائیں جب میرے لیے ان کا برداشت کرنا بےحد مشکل ہوگیا تو میں آنحضرت ﷺ کی تلاش کے لیے نکلا ‘ میں نے دیکھا کہ آپ کعبۃ اللہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ میں حضور کے پاس پہنچتے ہی بےساختہ رو پڑا اور عرض کی کہ حضور اب یہ مصیبتیں برداشت نہیں ہوتیں ‘ ظالموں نے دکھ پہنچانے میں انتہا کردی ‘ آپ ان کے لیے اللہ سے بددعا کیوں نہیں فرماتے ؟ کہ اللہ ان پر اپنا عذاب نازل فرمائے۔ حضرت خباب کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے تمتمانے لگا اور مجھ سے فرمایا کہ خباب تم سے پہلی امتوں پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ لوہے کی کنگھیوں سے زندہ حالت میں ان کا گوشت نوچ ڈالا گیا ‘ کتنے لوگ تھے جن کو دیواروں میں چن دیا گیا لیکن انھوں نے اپنے اللہ سے شکایت نہیں کی۔ آخر اللہ کی نصرت آن پہنچی۔ مزید فرمایا کہ خباب تم جلدی کر رہے ہو ‘ وہ وقت دور نہیں ‘ جب اللہ تعالیٰ اس دین کو غلبہ عطا فرمائے گا اور اس کی برکت سے حالات اس حد تک تبدیل ہوں گے کہ آج جبکہ تمہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ کل کو تمہیں روٹی کھانے کو بھی ملے گی یا نہیں ‘ اس وقت تم زکوٰۃ کا مال جھولیوں میں ڈال کر زکوٰۃ لینے والوں کو تلاش کرو گے اور تمہیں زکوٰۃ لینے والے نہیں ملیں گے۔ مختصر یہ کہ آنحضرت ﷺ سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اہل دنیا نے ہمیشہ اللہ کے رسولوں اور حق کے علمبرداروں کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ 2 دوسری بات یہ فرمائی کہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس صورت حال سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے یا بار بار مشرکین کے کہنے پر اللہ سے ان کے منہ مانگے معجزات طلب کرنے کی بجائے اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے اور ان کے مصائب پر صبر کرنا چاہیے اور یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ صبر کا معنی بےبسی کی تصویر بن جانا نہیں بلکہ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کریں ‘ اس راستے کی تکلیفوں کو برداشت کریں اور ہر ممکن طریقے سے دعوت الی اللہ کے کام کو جاری رکھیں۔ مصائب کی وجہ سے حوصلہ ہار کر کام کو روک دینا اور دعوت الی اللہ کو ملتوی کردینا یا دینی ذمہ داریوں کو معطل کردینا ‘ اس کی تو کبھی بھی اجازت نہیں البتہ ! اس بات کی گنجائش ضرور ہے کہ آپ حالات کو دیکھتے ہوئے دعوت الی اللہ کے طریقے کو بدلیں حالات کے تیوروں کو پہچانتے ہوئے حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کریں۔ جس طرح پانی کا سفر اور اس کی روانی کا عمل کبھی نہیں رکتا ‘ اگر درمیان میں کوئی چٹان حائل ہوجائے تو بجائے اس سے سر پٹخنے کے ‘ پانی دائیں بائیں سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ اسی طرح دعوت الی اللہ کے کام کرنے والوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ تمہیں بھی اگر ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجانے کا کوئی سوال نہیں ‘ البتہ اپنے طریقے اور حکمت عملی میں تبدیلی کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی صبر کا مفہوم ہے اور آنحضرت ﷺ کو اسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے۔ 3 تیسری بات یہ فرمائی جا رہی ہے کہ تمہیں اپنا کام کرنا ہے ‘ جس کی ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے ‘ اس سے رک جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چاہے حالات کیسے بھی منہ زور کیوں نہ ہوں اور مخالفین کو اپنا کام کرنا ہے ان کا کام ہے کہ آپ کا راستہ روکنے کے لیے ہر طرح کے موانع پیدا کریں ‘ بدگمانیاں پھیلائیں ‘ تہمتیں دھریں ‘ سراسیمہ کرنے کے لیے جسمانی اذیتیں پہنچائیں ‘ وہ جو کچھ بھی کریں انھیں کرنا چاہیے کیونکہ مخالفین کی سنت یہی ہے لیکن آپ اس کے مقابلے میں اپنی دعوت کے عمل کو جاری رکھیں ‘ ان دونوں طریقوں کے پہلو بہ پہلو چلنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اس کٹھالی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ مسلسل صبر سے آپ کے اندر اللہ پر بےپناہ اعتماد ‘ اپنے مقصد سے بےپناہ لگائو ‘ مشکل حالات میں زندگی گزارنے کا ہنر ‘ جذبات پر قابو پالینے کا طریقہ اللہ کے سامنے رات کی تاریکی اور تنہائی میں تضرع اور عاجزی کا اظہار اور اللہ سے بےپناہ تعلق کے نتیجے میں گناہ سے بچنے کی صلاحیت اور خیر کی طرف لپکنے کا جذبہ ایسی صفات پیدا ہوں گی اور اس کے نتیجے میں جو خوبصورت سیرت و کردار وجود میں آئے گا دشمن اس کا دیر تک مقابلہ نہیں کرسکے گا اور دوسری طرف مخالفین اپنے طرز عمل کے نتیجے میں بعض رزائل کا شکار ہوں گے۔ ان کے اندر سنگدلی پیدا ہوگی ‘ حق سے نفور اور بڑھے گا ‘ دین بیزاری کا جذبہ گہرا ہوجائے گا ‘ دنیا کی محبت ان کو اور اپنا گرویدہ بنا لے گی۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہوگا جو مخالفین کے سرغنہ ہوں گے۔ البتہ انہی میں اس کشمکش کے نتیجے میں ایسے بھی نکلیں گے جو مسلمانوں کے صبر ‘ پامردی اور ان کے خوبصورت سیرت و کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔ اس طرح سے یہ قافلہ خودبخود مضبوط ہو تاجائے گا ورنہ اس کشمکش کا یہ نتیجہ تو بہرصورت نکل کر رہے گا کہ اللہ کی مدد آئے گی ‘ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں ‘ ایک تو یہ کہ اللہ دین کو غلبہ دے گا اور مسلمانوں کی جماعت کو غالب کر دے گا۔ جیسے بالآخر اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو سرزمین عرب میں غلبہ دیا اور یا پھر یہ ہوگا کہ اللہ کا عذاب آجائے گا اللہ کے رسول اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے نکال لیا جائے گا اور کافر تباہ کردیئے جائیں گے۔ یہ ہے وہ اللہ کی سنت جس کا یہاں ذکر فرمانے کے بعد فرمایا : کہ اللہ کے کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں یعنی دعوت الی اللہ کی کشمکش میں یہ وہ ناگزیر راستے ہیں جن سے رسولوں کو بھی گزرنا پڑتا ہے اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھی۔ اگر ان طریقوں کو کسی کے لیے بدلنا ہوتا تو یقینا رسول اللہ ﷺ کے لیے بدلا جاتا کیونکہ آپ سید الرسل اور اس کائنات کے گل سرسبد ہیں لیکن آپ ہی سے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ سنت کبھی نہیں بدلتی اور پھر مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پہلے رسولوں کی سرگزشتیں تو آپ کے پاس آچکیں۔ ان میں سے ایک ایک سرگزشت آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ دین کی دعوت دینے والوں کے ساتھ کیا گزرتی ہے اور بالآخر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیاب و کامران فرماتا ہے اور کافروں کو تباہ کردیتا ہے۔ کتنی قومیں ہیں۔ جن کے کھنڈرات سے مشرکینِ مکہ ہمیشہ گزرتے تھے انھیں ان کی طرف اشارہ کر کے بتایا جا رہا ہے کہ ان معذب قوموں کے انجام پر غور کرو کہ یہ کیسی عظیم قومیں تھیں لیکن جب انھوں نے رسولوں کی دعوت ماننے سے انکار کردیا اور اپنے کفر پر قائم رہنے پر اصرار کیا تو بالآخر ان کا انجام کیا ہوا۔ قوم ثمود کو دیکھو ‘ قوم عاد کو دیکھو ‘ اہل مدین کو دیکھو ‘ قوم لوط کو دیکھو ان میں سے ایک ایک کا انجام عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے اس لیے تم ان سے عبرت حاصل کرو۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی سنت اللہ کے دوسرے پہلو کو بیان فرمایا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی طبیعت کے خاص انداز کو بھی نمایاں کیا جا رہا ہے اور اس پر ہدایات دی جا رہی ہیں۔
Top