Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
اے محمد ﷺ ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘ ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے ‘ بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں
ارشاد ہوتا ہے : قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ ۔ (الانعام : 33) (اے محمد ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘ ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے ‘ بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں) رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی کے دو حصے ہیں ایک وہ حصہ ہے جو آپ نے چالیس سال کی عمر تک نبوت سے پہلے مکہ میں گزارا اس میں جیسے ہی آپ شعور اور بلوغ کی عمر کو پہنچے جس میں آدمی کے اعمال کا لحاظ شروع ہوتا ہے اور آدمی اپنے اچھے یا برے اعمال سے پہچانا جاتا ہے ‘ اس وقت سے لے کر نبوت کے دعوے تک ایک حیران کن چیز دکھائی دیتی ہے کہ مکہ کا کوئی فرد ایسا نہیں جو آپ کے سیرت و کردار کے گن نہ گاتا ہو۔ لوگ اپنی مجلسوں میں آپ کی پیاری شکل و صورت کے ساتھ آپ کی بلند کرداری کے حوالے دیتے۔ بوڑھیاں جہاں آپ کی من موہنی صورت کی تعریف کرتیں وہیں آپ کے پیارے عادات واطوار کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللساں رہتیں۔ مکہ کی عام شہری زندگی میں عام انسانی اخلاق کا معیار انتہائی پست ہونے کے باوجود اعلیٰ اخلاق واطوار کو پسندیدہ نگاہ سے ضرور دیکھا جاتا تھا۔ اس لیے تمام مکہ کے لوگ آپ کے اخلاق واطوار کو دیکھ کر آپ کو الصادق اور الامین کہہ کر پکارتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ کوئی آپ کو محمد ﷺ کہہ کر پکارے بلکہ جب آپ کو کہیں آتا دیکھتے تو ہمیشہ یہی کہتے کہ امین آگیا اور اگر آپ سے کوئی معاملہ کرتے تو انھیں یہ اعتماد ہوتا کہ وہ ایک صادق آدمی سے معاملہ کر رہے ہیں ‘ لیکن جیسے ہی آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو کل تک آپ کی بلائیں لینے والے اور محبت سے آپ کا تذکرہ کرنے والے آپ کے دشمن ہوگئے۔ طرح طرح سے آپ کو تکلیفیں دی جانے لگیں۔ اور کوئی ایسا دکھ نہیں تھا جو آپ کو نہیں پہنچایا گیا۔ آپ کو مجنوں اور ساحر تک کہا گیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کبھی کسی نے آپ کو شخصی حیثیت سے جھوٹا کہنے کی جرأت کبھی نہ کی۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہ لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملے میں کبھی جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انھوں نے جتنی بھی آپ کی تکذیب کی اور جب بھی آپ کو جھوٹا کہا تو وہ اس لیے نہیں کہا کہ وہ شخصی طور پر آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے بلکہ اس لیے کہا کہ وہ آپ کی نبوت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ابوجہل آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ حضرت علی ( رض) کی روایت ہے کہ ایک دفعہ اس نے خود نبی کریم ﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا : انا لا نکذبک ولکن نکذب ما جئت بہ (ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں ‘ اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں) جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے تخلیہ میں ابوجہل سے پوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں سچ بتائو ! کہ تم محمد کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ ابوجہل نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ بلا شبہ محمد ﷺ سچے ہیں۔ انھوں نے عمر بھر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن بات یہ ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو قصی میں ساری خوبیاں اور کمالات جمع ہوجائیں ‘ باقی قریش خالی رہ جائیں ‘ اس کو ہم کیسے برداشت کریں ؟ جھنڈا بنو قصی کے ہاتھ میں ہے۔ حرم میں حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمت وہ انجام دیتے ہیں ‘ بیت اللہ کی دربانی اور اس کی کنجی ان کے پاس ہے۔ اب اگر نبوت بھی ہم انھیں کی تسلیم کرلیں تو باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی زندگی میں ہر قبیلے کا سردار ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن دوسرے قبیلے کی عظمت اور عزت کو اپنے سے بڑھتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتا ‘ اسے ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام نہ کروں جس سے میرے قبیلے پر حرف آسکتا ہو یا میری عزت میں کمی آسکتی ہو اور جہاں تک عربوں کا تعلق ہے ‘ بالخصوص قریش ان میں یہ بیماری تو سب سے زیادہ تھی وہ مرجاتے تھے ‘ لیکن بڑائی کا احساس نہیں مرنے دیتے تھے۔ ابوجہل حمیت جاہلی اور قبائلی رعونت کا سب سے بڑا نمائندہ تھا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے اسے اس امت کا فرعون قرار دیا تھا اس نے آخر دم تک اپنی اس خصوصیت کو باقی رکھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب بدرکا معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کون ہے جو دیکھے کہ ابوجہل کا انجام کیا ہوا ؟ “ اس پر صحابہ کرام ( رض) اس کی تلاش میں بکھر گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ( رض) نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آجا رہی تھی۔ انھوں نے اس کی گردن پر پائوں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے داڑھی پکڑی اور فرمایا او اللہ کے دشمن ! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا ؟ اس نے کہا : ” مجھے کا ہے کو رسوا کیا ؟ کیا جس شخص کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے ؟ یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے ؟ پھر بولاکاش ! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا ‘ اس کے بعد کہنے لگا مجھے بتائو آج فتح کس کی ہوئی ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا ‘ اللہ اور اس کے رسول کی۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود سے…جو اس کی گردن پر پائوں رکھ چکے تھے… کہنے لگا : اوبکری کے چرواہے ! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا… واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعود ( رض) مکہ میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اس گفتگو کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود ( رض) نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لا کر حاضر کرتے ہوئے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر “۔ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : ” واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں “ اس کے بعد فرمایا : اَﷲُ اَکْبَرُ ‘ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحَدَہٗ ” اللہ اکبر ‘ تمام حمد اللہ کے لیے ہے ‘ جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ‘ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی “ پھر فرمایا ‘ چلو مجھے اس کی لاش دکھائو۔ ہم نے آپ ﷺ کو لے جا کر لاش دکھائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ‘ یہ اس امت کا فرعون ہے۔ اس واقعہ سے آپ کو قریش کی حمیت جاہلی ‘ پندار نفس اور بگڑی ہوئی ذہنیت کا انداز ہوگیا ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو صرف اس لیے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ بنو قصی ان پر غالب آجائیں گے جو حضور کا خاندان ہے۔ اس وجہ سے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ یہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جا رہی ہے اور اس آیت کے آخری جملے میں نہایت پیار بھرے انداز میں آپ کو تسلی دی گئی کہ اس تمام خاک بازی اور تمام استہزاء کے ہدف تنہا تم ہی تو نہیں ہو اصل ہدف تو ہم اور ہماری کتاب ہے پھر تم اپنے دل کو آزردہ کیوں کرو۔ معاملے کو ہم پر چھوڑ دو ساتھ ہی ان کے لیے ظالمین کا لفظ استعمال کر کے یہ اشارہ بھی فرما دیا کہ ان کے کرتوتوں کا نقصان خود انھیں کو پہنچے گا کسی اور کو نہیں لیکن یہ بدقسمت اور نامراد لوگ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں نہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں نہ خدا کا۔ اس لیے جس طرح ہم تحمل و بردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پے ڈھیل دیئے جا رہے ہیں تم بھی انھیں نظر انداز کرو۔
Top