Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 3
وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ١ؕ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ
وَهُوَ
: اور وہ
اللّٰهُ
: اللہ
فِي
: میں
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَ
: اور
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
سِرَّكُمْ
: تمہارا باطن
وَجَهْرَكُمْ
: اور تمہارا ظاہر
وَيَعْلَمُ
: اور جانتا ہے
مَا تَكْسِبُوْنَ
: جو تم کماتے ہو
اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ‘ وہ تمہارے خفیہ اور علانیہ کو جانتا ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو اسے بھی جانتا ہے
آیات کا مرکزی مضمون سورة انعام کی پہلی دو آیتوں میں توحید اور آخرت پر جو مضبوط دلائل دیئے گئے ‘ اس کے بعد کسی اشتباہ کی گنجائش رہتی ہے نہ انکار کی۔ اس لیے کہ اہل دانش کے لیے بھی اس میں غور و فکر کا پورا سامان فراہم کردیا گیا ہے اور عام لوگوں کے لیے خودان کے مسلمات کو دلیل بنا کر اس کے لازمی نتائج کو ان کے سامنے واضح کردیا گیا ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے ضدی اور متعصب طبیعتیں ‘ بجائے عقل و دانش کی بات ماننے کے ‘ اپنے تعصبات کی اس حد تک اسیر ہوتی ہیں کہ جلدی کوئی بات ان کے دل و دماغ میں اترنے نہیں پاتی۔ جب وہ دلائل کی دنیا میں اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتی ہیں تو قسم قسم کے شبہات کا اظہار کر کے اپنے تعصبات کو پختہ کرنے اور صحیح بات کی قبولیت کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں بھی مشرکینِ مکہ ایسی ہی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ توحید کے دلائل کا رد تو نہیں کرسکے اور نہ آخرت کا جواب دینا ان کے لیے ممکن رہا۔ لیکن دونوں حوالوں سے انھوں نے اپنے اشتباہات کا ذکر کیا ہے اور اپنے تئیں انھوں نے یہ سمجھا کہ ایسے اشتباہات کی موجودگی میں ہم اللہ کی وحدانیت اور قیامت کے وقوع پذیر ہونے کو کیسے مان سکتے ہیں۔ چناچہ دونوں حوالوں سے جو انھوں نے اعتراضات اور اشتباہات پیش کیے ‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے پروردگار عالم کو بھی دنیوی بادشاہوں پر قیاس کیا اور یہ خیال کیا کہ جس طرح دنیا کا کوئی بادشاہ مرکز سے دور دراز علاقوں میں خود آجا نہیں سکتا اور براہ راست ان علاقوں کی نگرانی کرنا اور وہاں کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنا ‘ اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دور دراز علاقوں میں اپنے صوبیدار مقرر کرتے ہیں یا اپنے نمائندے بھیج کر ان علاقوں کے انتظامی معاملات کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی حدود میں محدود رہ کر کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ آسمانوں اور زمین کے درمیان بےحد و حساب فاصلہ ہے ‘ وہ چونکہ آسمانوں پر مقیم ہے ‘ اس لیے کیسے ممکن ہے کہ اپنے مرکز سے نہایت دور فاصلے پر واقع اس زمین کے کرہ کی اور اس پر بسنے والی انسانی مخلوق کی ‘ وہ خود نگرانی کرسکے ‘ ان کی ضروریات کا خیال کرسکے اور تمام ضروری معاملات کو نبٹا سکے ؟ یقینا اس نے بھی زمین کے انتظامات چلانے کے لیے اپنے کچھ نمائندے مقرر کر رکھے ‘ ہیں جن کو اس نے کچھ اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ چناچہ کوئی ان میں لوگوں کے رزق کا سامان کر رہا ہے ‘ کوئی اولاد عطا کرنے پر لگا ہوا ہے ‘ کوئی مصیبتوں کو دور کرتا ہے ‘ کوئی بارشیں برساتا ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنی ان ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اللہ کے ان کارندوں یا نمائندوں کو ہم براہ راست خوش کرنے کی کوشش کریں ‘ ان کا ذکر کریں ‘ ان کی پوجا پاٹ کریں ‘ ان کے نام پر قربانیاں دیں ‘ ان کے سامنے دست دعا پھیلائیں اور اس میں شرک کی ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ اللہ ہی کے مقرر کردہ لوگ ہیں۔ بڑی ذات وہی ہے اور اسی بڑی ذات نے ان کو اپنے اختیارات میں شریک کر رکھا ہے ‘ انہی اشتباہات کے جوابات ان آیات میں دئیے گئے ہیں۔ وَھُوَ اللہ ُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِط یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَھْرَکُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ ۔ (الانعام : 3) (اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ‘ وہ تمہارے خفیہ اور علانیہ کو جانتا ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو اسے بھی جانتا ہے) زمین و آسمان کا صرف ایک ” الٰہ “ ہے وَھُوَ اللہ ُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِط ” اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی “۔ یعنی تم غلط سمجھے ہو کہ آسمان پر اس کی حکمرانی ہے اور زمین پر کسی اور کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وہ آسمانوں پر پورے جاہ و جلال اور مکمل اختیارات کے ساتھ حکمرانی کر رہا ہے ‘ اسی طرح زمین پر بھی کر رہا ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا : وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰہٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلَہٌط وَھُوَ الْحَکِیْمٌالْعَلِیْمُ (الزخرف : 84) وہی ہے جو آسمان کا بھی معبود ہے اور وہی زمین کا بھی معبود ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ آیت کے اس ٹکڑے میں صرف یہی بات نہیں کہ ان کے اس فاسد خیال کا ازالہ کیا گیا ہے کہ زمین اور آسمان دونوں کا الہ ایک نہیں ہوسکتا کیونکہ اتنے دور دراز فاصلوں کا وہ انتظام نہیں چلا سکتا بلکہ اس میں دونوں کا الہ اور معبود ہونے کی دلیل بھی دی گئی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اگر آسمان اور زمین دونوں کا خدا ایک نہ ہوتا بلکہ آسمان کا خدا اور ہوتا اور زمین کا اور تو یہ دونوں کبھی قائم نہ رہ سکتے کیونکہ زمین و آسمان میں کائنات کے مجموعی مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے جو ہم آہنگی سازگاری اور موافقت رکھی گئی ہے ‘ وہ ان دونوں میں ایک خدا کے وجود اور ایک ہی خدا کے ارادہ کے کارفرما ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگر دونوں کے خدا جدا جدا ہوتے تو دو ہی صورتیں ممکن تھیں یا تو دونوں برابر کے اختیارات رکھتے مگر برابر کے اختیارات رکھنے والوں میں یہ کبھی ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں تصادم نہ ہو۔ زمین اگر قوت روئیدگی کو بروئے کار لانا چاہتی تو آسمان اپنے اثرات کو روک لیتا اور آسمان اگر کرم فرمائی کرتا تو زمین اس کے سامنے اپنا سینہ بند کرلیتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ اس زمین پر گھاس کا ایک تنکا نہ اگتا۔ زمین کی ضرورت ہوتی کہ آسمان سے پانی برسے اور آسمان کا خدا اس پر آگ برساتا۔ اہل زمین روشنی اور دھوپ کے محتاج ہوتے اور آسمان میں چمکنے والاسورج اپنی روشنی روک لیتا۔ غرضیکہ ایک دوسرے سے عدم تعاون اور دونوں جگہ مختلف ارادوں کی کارفرمائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والا یقینی تصادم ‘ دونوں کو تباہ کردیتا۔ اس لیے قرآن کریم نے ایک جگہ کہا کہ اگر زمین و آسمان میں دو ” الٰہ “ ہوتے تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ ایک خدا زیادہ طاقت کا مالک ہوتا اور دوسرا خدا اس کے سامنے کمزور ہوتا۔ وہ جب اپنی قدرت کا اظہار کرتا تو کمزور خدا اس کے سامنے دبکا رہتا حالانکہ اہل علم یہ بات جانتے ہیں کہ خدا تو ہوتا ہی وہ ہے ‘ جو سب سے عظیم ‘ سب سے اکبر اور تمام قدرتوں کا مالک ہوتا ہے۔ اس لیے دو خدائوں میں سے چھوٹا خدا اور سب کچھ ہوسکتا ہے ‘ لیکن خدا نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ آسمان و زمین کا قیام وبقاء اور ان دونوں کے نظم و نسق کامیابی اور سازگاری سے رواں دواں رہنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آسمان و زمین کا خدا ‘ معبود اور الٰہ ایک ہی ہے۔ مشرکین کے آخرت پر اشتباہات اور ان کا جواب دوسرا اشتباہ ان کا آخرت کے بارے میں تھا۔ انھیں اولاً تو آخرت کے وقوع پذیر ہونے کا یقین نہیں تھا۔ وہ بار بار ایک سیدھی سی بات کہتے تھے کہ ہم جب مر کے قبروں میں چلے جائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین ہماری لاشوں کو کھاجائے گی اور ہم مٹی میں تبدیل ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کا کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں دوبارہ زندہ کردیا جائے ؟ سابقہ آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا کہ تمہیں یہ بات تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘ تمہارے جسم کے تمام اجزاء مٹی سے تیار ہوئے ہیں اور مٹی ہی سے تمہیں غذا مہیا کی جا رہی ہے تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پہلی دفعہ تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کردیا ‘ اب جب دوبارہ تم مٹی ہوجاؤ گے تو پھر وہ تمہیں مٹی سے کیوں زندہ نہیں کرسکتا ؟ لیکن اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں اسی آخرت کے حوالے سے ان کے ایک اور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ چلیے یہ بات مان بھی لی جائے کہ ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے تو یہ بات کیسے باور کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ایک ایک عمل کا وہاں ریکارڈ موجود ہوگا اور زندگی میں تمام کیے ہوئے کاموں کا وہاں ہم سے حساب لیا جائے گا۔ یہ تو سراسر انہونی باتیں ہیں ‘ جنھیں عقل قبول نہیں کرسکتی۔ مزید وہ یہ بات بھی کہتے تھے کہ چلیے ہم بدرجہ آخر یہ بھی مان لیتے ہیں کہ حساب کتاب ہوگا۔ لیکن ہمیں اس کا کیا ڈر کیونکہ اگر حساب کتاب کے نتیجے میں ہمیں وہاں کوئی مشکل پیش آئی بھی تو آخر جن قوتوں کو ہم اپنی زندگی میں پوجتے رہے ہیں ہمیشہ ان کے نام کی ہم نے قربانیاں دی ہیں اور زندگی بھر انھیں خوش کرنے کی کوشش کی ہے تو کیا یہ اللہ کی شریک قوتیں وہاں ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی ؟ وہ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پکڑا بھی تو یہ ہمارے شرکاء ہمیں اللہ کی گرفت سے چھڑا لیں گے۔ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور یہ گمان رکھتے تھے کہ بیٹیاں اپنے باپوں سے ضد کر کے ہر بات منوا لیا کرتی ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بیٹیاں اپنے اللہ سے ہمیں نہ چھڑا سکیں ؟ ان کے اس طرح کے بےسروپا اشتباہات اور اعتراضات تھے ‘ جن کا یہاں جواب دیا گیا۔ ارشاد ہوا : یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَھْرَکُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ ۔ (وہ تمہارے خفیہ اورا علانیہ کو جانتا ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو اسے بھی جانتا ہے) اس میں ان کے دونوں اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے کہ اے مشرکین عرب ! تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر قیامت وقوع پذیر ہوئی بھی تو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کا حساب کیسے لے گا ؟ اس لیے کہ تم میں سے ایک ایک فرد کے اعمال کی تفصیل یقینا اس کے علم میں نہیں ہوگی۔ اسے کیا خبر کہ تم تنہائیوں میں خفیہ طریقے سے کیا کرتے رہے ہو اور تمہاری زندگی کے معمولات کی تفصیلات کیا ہیں ؟ تمہارے یہ تصورات سراسر غلط ہیں۔ تم نے اللہ تعالیٰ کو بھی مخلوق پر قیاس کرتے ہوئے ایک محدود علم کا مالک سمجھا ہے۔ تم یہ سمجھتے ہو ‘ انسانوں کی طرح اس کی رسائی بھی تمہاری تنہائیوں تک نہیں ہے۔ جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے تمام معاملات سے آگاہ نہیں ہوسکتا ‘ اسی طرح پروردگار بھی نہیں ہوسکتا حالانکہ اس کے علم کی وسعت ‘ اس کی قدرت کی وسعت کی طرح بےپناہ ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے واقف ہے۔ وہ تو فرماتا ہے کہ صحرا کی وسعتوں میں کوئی پتہ نہیں گرتا ‘ مگر وہ اسے جانتا ہے اور کوئی رطب و یابس ایسا نہیں جو اس کے علم کی وسعتوں سے باہر ہو۔ سمندر کی انتہائی تہہ میں اگر کوئی مچھلی حرکت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حرکت سے واقف ہے۔ انسانی اعمال تو دور کی بات ‘ انسانی احساسات تک سے پروردگار آگاہ ہے اور پھر یہی نہیں کہ اس کے علم کی وسعتیں بےکنار ہیں بلکہ اس کی قدرتوں کا عالم یہ ہے کہ جب وہ حساب کتاب لے گا تو وہاں کوئی آدمی جھوٹ بول کر یا سخن سازی سے کام لے کر بچ نہیں سکے گا ‘ وہاں منہ پر مہر لگا دی جائے گی ‘ ہر آدمی کے ہاتھ اللہ سے باتیں کریں گے اور اس کے پائوں اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ ایسی صورت حال میں یہ بدگمانی کرنا کہ پروردگار ہمارا حساب کتاب نہیں لے سکے گا ‘ سراسر جہالت اور نادانی کی بات ہے۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی جا رہی ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ جن قوتوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے ‘ وہ تمہیں اللہ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بچا لیں گی۔ وہ اللہ سے سفارش کریں گی اور اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کے سامنے مجبور ہو کر تمہاری ساری نافرمانیوں کو بخش دے گا۔ اس لیے تم زندگی میں ہر طرح کے عمل کرنے کے لیے آزاد ہو کیونکہ وہاں کی داروگیر سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ اس آیت میں یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ اندازہ کرو ‘ اگر شفاعت اور سفارش کے اس لایعنی تصور کو قبول کرلیا جائے تو پھر آخرت کے وقوع پذیر ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے اور اللہ تعالیٰ بار بار ہمیں قیامت سے ڈرنے اور اس دن کی تیاری کرنے کا جو حکم دیتا ہے اس کا کیا حاصل بلکہ دنیا کے دارالعمل ہونے کا تصور ہی غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس طالب علم کو یہ معلوم ہو کہ میں کورس کی کتاب کو چاہے ہاتھ لگائوں یا نہ لگائوں ‘ مجھے صرف یہ تکلف کرنا ہے کہ امتحان کے دنوں میں کمرہ امتحان میں بیٹھوں اور کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر چلا آئوں ‘ میرے والد کی سفارش ایسی زور دار ہے کہ ایگزامینرز کو مجھے پاس کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس تصور کی موجودگی میں اندازہ فرمایئے کہ یہ طالب علم پڑھنے کی زحمت کیوں کرے گا۔ پھر اس طالب علم کے لیے آخر اس امتحان کا تصور کیا معنی رکھتا ہے تو کیا اللہ کے بارے میں بھی ہم ایسا ہی تصور رکھتے ہیں کہ اس نے زمین پر انسانوں کو پیدا کیا ‘ ان کی طرف پیغمبر بھیجے ‘ کتابیں اتاریں ‘ احکام شریعت کا انھیں پابند کیا اور بار بار یہ بتایا کہ دنیا میں جیسی زندگی گزارو گے قیامت کے دن اسی کا پھل کاٹو گے۔ حسن عمل کے نتیجے میں جنت کے مستحق ٹھہرو گے اور بدعملی اور نافرمانی کی صورت میں جہنم کا ہولناک انجام تمہارا مقدر ہوگا۔ اگر سفارش کا یہ تصور قبول کرلیا جائے تو یہ سارے اسلامی تصورات ایک کھیل بن کے رہ جاتے ہیں اور اگر اس میں مزید ایک بات کا اضافہ کرلیا جائے ‘ جو سفارش کے اس بیہودہ تصور کے حاملین میں ہمیشہ موجود رہتا ہے تو پھر آخرت کا تصور اور بھی مضحکہ خیز ہوجاتا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو پکڑتا ہے تو عموماً فرشتوں کی غیر مصدقہ یا نا مکمل اطلاعات پر پکڑتا ہے اور ان کے سفارشی دنیا کے سفارشیوں کی طرح پروردگار سے جا کر یہ کہیں گے کہ یا اللہ ! آپ نے جس آدمی کو پکڑا ہے ‘ آپ نہیں جانتے یہ شخص کیسا ہے۔ آپ کو غلط اطلاعات پہنچائی گئیں ہیں اور آپ نے ذاتی طور پر علم نہ ہونے کی وجہ سے ان اطلاعات پر اعتماد کرتے ہوئے ‘ اس شخص کو سزا دینے کا حکم دے دیا ہے۔ ہم آپ کے بھروسے کے لوگ ہیں اور ہم اس شخص کو جانتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دامن گرفتہ لوگوں میں سے ہے۔ ہم اپنے ذاتی علم کی بناء پر سفارش کرتے ہیں کہ یہ شخص بہت اچھا ہے۔ آپ کو پہنچنے والی اطلاعات جھوٹی یا نامکمل ہیں۔ اس لیے ہماری سفارش پر آپ اس کو چھوڑ دیں۔ اندازہ فرمایئے کہ جو آدمی اللہ کے علم کے بارے میں یہ تصور رکھتا ہو اور اس لیے سفارش کو ضروری سمجھتا ہو ‘ نجانے وہ اللہ کریم کے بارے میں کیا تصورات رکھتا ہے۔ ان سب کا جواب دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے وہ کام بھی جانتا ہے ‘ جو تم نے اعلانیہ انجام دیئے اور تمہارے ان اعمال سے بھی واقف ہے ‘ جو تم نے تنہائیوں میں خفیہ طریقے سے تمام نگاہوں سے چھپا کر کیے۔ تمہارا کوئی سفارشی اس کے علم سے بڑھ کر تمہارے اعمال سے واقف نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے مکمل واقفیت اور اپنی مکمل قدرت کی بناء پر جو تمہیں سزا دے گا ‘ وہ جس طرح حقیقت اور عدل پر مبنی ہوگی ‘ اسی طرح وہ مکمل علم پر بھی مبنی ہوگی کیونکہ وہ جانتا ہے جو کچھ تم زندگی میں کرتے رہے ہو۔ شفاعت کی شرائط یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے تاکہ کسی طرح کی غلط فہمی نہ ہو کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انبیاء و رسل اور اپنے نیک بندوں کو شفاعت کا حق عطا کرے گا اور یہ لوگ لوگوں کی شفاعت کریں گے ‘ لیکن اس کی چند شرائط ہیں۔ 1 شفاعت اس کی ہوگی جس ‘ کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ کافر کی سفارش کوئی پیغمبر اور رسول ‘ نہ دنیا میں کرسکتا ہے ‘ نہ آخرت میں کرسکے گا۔ 2 شفاعت اس کے لیے ہوگی ‘ جس کے اعمال میں قانونِ نجات کے حوالے سے کچھ کمی رہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو یہ عزت بخشیں گے کہ وہ ایسے آدمی کی سفارش کریں اور اس کی نجات میں جو کچھ کمی رہ گئی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائیں۔ 3 یہ جلیل القدر شخصیات بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی مرضی سے شفاعت نہیں کرسکیں گی بلکہ اس کی سفارش کریں گے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت مرحمت ہوگی۔ قرآن کریم نے کئی جگہ شفاعت کا ذکر فرمایا ہے اور ہر جگہ اس کے ساتھ بِاِذْنِہٖ کی قید لگائی ہے یعنی جو بھی سفارش کرے گا ‘ اس ( اللہ) کی اجازت سے کرے گا ‘ اپنی مرضی سے نہیں۔ سب سے زیادہ شفاعت کا حق رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا ہے۔ آپ شفاعت کبریٰ کے منصب پر فائز کیے جائیں گے اور گناہ گار بندوں کی بہت بڑی تعداد میں سفارش فرمائیں گے۔ احادیث میں اس کا جابجا ہمیں ذکر ملتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایسی احادیث بھی کم نہیں ہیں ‘ جن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب بھی کسی صحابی نے آنحضرت ﷺ سے شفاعت کی درخواست فرمائی تو آپ نے فرمایا کہ ” اپنے اچھے اعمال سے میری مدد کرنا ‘ تاکہ میں تمہاری شفاعت کرسکوں “۔ اگلی آیات میں ‘ توحید اور آخرت کے حوالے سے ‘ ان کے اشتباہات کا جواب دینے کے بعد ‘ تعجب کے اظہار کے طور پر فرمایا جا رہا ہے۔
Top