Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 16
مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ
مَنْ : جو۔ جس يُّصْرَفْ : پھیر دیا جائے عَنْهُ : اس سے يَوْمَئِذٍ : اس دن فَقَدْ : تحقیق رَحِمَهٗ : اس پر رحم کیا وَذٰلِكَ : اور یہ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ : کامیابی کھلی
جو شخص اس دن اس سے دور رکھا گیا در حقیقت وہی ہے جس پر اللہ نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے
مَنْ یُّصْرَفْ عَنْہٗ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ ط وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ۔ (الانعام : 16) (جو شخص اس دن ‘ اس (عذاب) سے دور رکھا گیا ‘ در حقیقت وہی ہے ‘ جس پر خدا نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے ‘ اللہ کی نظر میں انسان کی اصل کامیابی قرآن کریم نے اور بھی کئی جگہ انسان کی اس کامیابی کی خبر دی ہے کہ اقتدار کا حصول ‘ عزت و شہرت یا دولت مندی درحقیقت یہ کامیابیاں نہیں ہیں۔ یہ تو زندگی کی ضرورتوں کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ حقیقی کامیابی تو یہ ہے کہ ایک مسلمان زندگی اس طرح گزارے جس کے نتیجے میں وہ عذاب جہنم سے بچ جائے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو اور اللہ خوش ہو کر جنت کی نعمتوں کا اسے حقدار بنا دے۔ یہی وہ کھلی کامیابی ہے ‘ جس کے علاوہ اور کسی کامیابی کا تصور بھی صحیح نہیں۔ ظاہر ہے ‘ یہ کامیابی اسی خوش نصیب کو مل سکتی ہے ‘ جس نے اپنی پوری زندگی احکام شریعت کی تعمیل اور اللہ کی رضا کی طلب میں نہایت اخلاص اور دردمندی سے گزاری ہو۔ جس نے نہ کبھی حقوق اللہ کو پامال کیا ہو اور نہ حقوق العباد تلف کیے ہوں ‘ اس کے نتیجے میں اسے وہ ابدی زندگی نصیب ہوسکتی ہے ‘ جس کو یہاں الفوز المبین قرار دیا گیا ہے۔ انسانی زندگی چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی۔ اس کی سمت سفر اور منزل کے صحیح تعین میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں ‘ ان میں ایک بہت بڑی دشواری یہ ہے کہ آدمی یہ نہ سمجھ سکے کہ میرے نفع و ضرر کا مالک کون ہے۔ جیسے جیسے آدمی اس میں الجھتا جاتا ہے ‘ ویسے ویسے اس کے لیے آستانے بدلتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس کی زندگی شکست وریخت کا شکار ہوتی ہے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں انسانی زندگی کی اس بنیادی حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے ‘ جس کا سمجھنا اگرچہ آسان نہیں ‘ لیکن اسی پر انفرادی اور اجتماعی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے۔
Top