Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : تمہیں پہنچائے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی سختی فَلَا : تو نہیں كَاشِفَ : دور کرنے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : وہ ہپنچائے تمہیں بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اگر اللہ تجھ کو کسی دکھ میں مبتلا کرے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس کا دور کرنے والا بن سکے اور اگر کسی خیر سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے
ارشاد فرمایا : وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللہ ُ بِضُرِّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ ط وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (الانعام : 17) (اور اگر اللہ تجھ کو کسی دکھ میں مبتلا کرے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس کا دور کرنے والا بن سکے اور اگر کسی خیر سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ‘) کامیاب زندگی گزارنے کی کنجی جو بات اس آیت کریمہ میں کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے نفع و ضرر کا مالک صرف اللہ ہی کو سمجھے۔ یہ عقیدہ توحید کی آخری بات ہے اور اس کے قبول کرنے اور اسے اختیار کرلینے کے بعد زندگی مکمل تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے قبول کرنے میں تو شاید دشواری نہ ہو ‘ مگر اس پر عمل کرنا آسان نہیں۔ دنیا میں بہت سے قوت کے آستانے ہیں ‘ بہت سے تخت اقتدار بچھے ہوئے ہیں ‘ بڑی بڑی حویلیاں ہیں ‘ جہاں و ڈیرے کبریائی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ انسانی برادری میں کبر و نخوت کے بیشمار دعویدار ہیں ‘ جو دوسرے کا سر اٹھا کر چلنا برداشت نہیں کرتے اور کتنے ایسے معاشی ساہوکار ہیں ‘ جن کے حکم کی مخالفت انسان کے معاش کو تنگ کردیتی ہے۔ نتیجتاً اس کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ ہی کو نفع و ضرر کا مالک سمجھنا اور اس کے سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا کسی کے سامنے سر نہ جھکانا ‘ کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرنا اور کسی کی بندگی بجا نہ لانا ‘ یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو خطاب کر کے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ آپ اپنے سارے مقامات اور مراتب کے باوجود جب تک اس بات کا یقین پیدا نہیں کریں گے کہ آپ کے نفع و ضرر کا مالک بھی اور آپ کی امیدوں کا پورا کرنے والا بھی ‘ صرف خداوند عالم ہے۔ اس وقت تک آپ توحید میں کامل نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر موحد کون ہوگا چونکہ یہ ایک مشکل بات تھی ‘ اس لیے بطور خاص آپ کو خطاب کر کے یہ بات کہی گئی ہے اور پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ عام انسانوں کے حوالے سے بھی قرآن کریم نے جابجا اس کا ذکر کیا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات اور دعائوں میں بھی اسے دھرایا ‘ تاکہ اس مشکل ‘ لیکن ناگزیر احساس کو انسانی زندگی کا چلن بنادیا جائے۔ ارشاد فرمایا : مَا یَفْتَحِ اللہ ُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَمَا یُمْسِکُ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ (یعنی اللہ تعالیٰ نے جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دی اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک دے اس کو کوئی کھولنے والا نہیں) صحیح احادیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنی دعائوں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا لجدِّ مِنْکَ الْجَدُّ یعنی اے اللہ ! جو آپ نے دیا ‘ اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ نے روک دیا ‘ اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی۔ امام بغوی ( رح) نے اس آیت کے تحت حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ایک سواری پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے ردیف بنا لیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لڑکے !۔ میں نے عرض کیا ‘ حاضر ہوں۔ کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کو یاد رکھو ! اللہ تم کو یاد رکھے گا۔ تم اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو ہرحال میں اپنے سامنے پائو گے ‘ تم امن و عافیت اور خوش عیشی کے وقت اللہ تعالیٰ کو پہچانو تو تمہاری مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ تم کو پہچانے گا ‘ جب تم کو سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے سوال کرو اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو۔ جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے ‘ قلم تقدیر اس کو لکھ چکا ہے۔ اگر ساری مخلوقات مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نفع پہنچا دیں ‘ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں نہیں رکھا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے اور اگر وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نقصان پہنچاویں ‘ جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے تو ہرگز اس پر قدرت نہ پائیں گے۔ اگر تم کرسکتے ہو کہ یقین کے ساتھ اس پر عمل کرو تو ایسا ضرور کرلو ‘ اگر اس پر قدرت نہیں تو صبر کرو کیونکہ اپنی خلاف طبع چیز پر صبر کرنے میں بڑی خیر و برکت ہے اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور مصیبت کے ساتھ ‘ راحت اور تنگی کے ساتھ ‘ فراخی ہے۔ (یہ حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی بسند صحیح مذکور ہے) افسوس کہ قرآن کے اس واضح اعلان اور رسول کریم ﷺ کی عمر بھر کی تعلیمات کے باوجود یہ امت پھر اس معاملہ میں بھٹکنے لگی۔ سارے خدائی اختیارات مخلوقات کو بانٹ دیئے۔ آج ایسے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے ‘ جو مصیبت کے وقت بجائے اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اس سے دعا مانگنے کے مختلف ناموں کی دہائی دیتے اور انہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان تک نہیں ہوتا۔ انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنا دوسری بات ہے ‘ وہ جائز ہے اور خود نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں اس کے شواہد موجود ہیں۔ لیکن براہ راست کسی مخلوق کو حاجت روائی کے لیے پکارنا ‘ اس سے اپنی حاجتیں مانگنا ‘ اس قرآنی حکم کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ (آمین)
Top