Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور یہ کہ یہی میرا راستہ سیدھا راستہ ہے۔ تو اس کی پیروی کرو اور دوسری پگڈنڈیوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کی راہ سے الگ کردیں ‘ یہ باتیں ہیں جن کی تمہیں ہدایت فرمائی ‘ تاکہ تم اس کے غضب سے بچو
ارشاد فرمایا : وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصَّکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ (الانعام : 153) (اور یہ کہ یہی میرا راستہ سیدھا راستہ ہے۔ تو اس کی پیروی کرو اور دوسری پگڈنڈیوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کی راہ سے الگ کردیں ‘ یہ باتیں ہیں جن کی تمہیں ہدایت فرمائی ‘ تاکہ تم اس کے غضب سے بچو) یہ دسواں حکم ہے جس سے احکام عشرہ مکمل ہوگئے اور اس میں پروردگار نے نہایت فصاحت و بلاغت سے اس حکم کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے مثبت اور منفی دونوں پہلو جمع کردیئے ہیں۔ سب سے پہلے صراط مستقیم کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی نہایت اہتمام سے یہ بات واضح کردی ہے کہ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہیں جس راستے کی دعوت دے رہا ہوں اور جس پر میں خود اور میرے ماننے والے چل رہے ہیں یہی وہ راستہ ہے جو سیدھا راستہ ہے اور جس پر چل کر چلنے والے اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اور انھیں اللہ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس آیت میں مُسْتَقِیْمًا جو صراط کی صفت ہے اسے حال کے طور پر لایا گیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ میرا راستہ اس طرح کا صراط مستقیم ہے کہ مستقیم ہونا اس کی لازمی صفت ہے جو کبھی اس سے الگ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اب اگر سیدھے راستے پر چلنا چاہتے ہو تو پھر میرا اتباع کرو کیونکہ اب کسی اور کے اتباع کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پہلے پیغمبروں اور پہلی کتابوں کا وقت گزر گیا اور پھر ان کے ماننے والوں نے اس میں بہت سی تحریف اور ترمیم کر ڈالی اور ان کے راستے کو ایسا گڈمڈ کردیا کہ اب اس پر چلنا ممکن نہیں رہا۔ اب اس صراط مستقیم کو بتانے اور اس پر چلانے کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا گیا ہے۔ اس لیے اب جو بھی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے اسے آنحضرت کا اتباع کرنا ہوگا۔ اس طرح مثبت طریقے سے اس راستے کی اہمیت اور اس کے راہنما کی خبر دے دی گئی ہے اور پھر منفی پہلو سے واضح طور پر فرمایا گیا کہ دیکھنا لوگوں نے اس راستے کے ساتھ ساتھ بہت سی پگڈنڈیاں نکال لی ہیں ان پگڈنڈیوں پر چلنے سے احتراز کرنا۔ اگر تم نے اس میں ذرا سے تساہل سے کام لیا تو وہ تمہیں اس راہ راست سے بھٹکا دیں گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے سامنے ایک سیدھا خط کھینچا ‘ فرمایا یہ صراط مستقیم ہے پھر اس خط کے ساتھ ساتھ دونوں طرف آپ نے چھوٹے چھوٹے خط کھینچے۔ فرمایا یہ وہ راستے اور پگڈنڈیاں ہیں جو انسانوں اور شیطانوں نے خود نکالی ہیں۔ مزید فرمایا کہ ان میں سے ہر راستے پر ایک شیطان مسلط ہے جو مسلسل لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتا رہتا ہے ذرا سا غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ہمیشہ اس صراط مستقیم پر چلانے کے لیے آتے ہیں۔ اس راستے کی راہنمائی کے لیے وہ اپنے ماننے والوں کو اللہ کی کتاب اور اپنی سنت دے کر جاتے ہیں۔ لیکن ہر رسول کی امت نے جب گمراہی کا راستہ اختیار کیا تو کتاب کو تحریف اور ترمیم کے ذریعے بگاڑا اور ہر سنت کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد کی اور اس طرح صراط مستقیم کے پہلو بہ پہلو بیشمار راستے نکال دیئے جن میں الجھ کر امتیں بھٹک گئیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ یہ آخری امت جس پر انبیاء کرام کی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں اور جس نے قیامت تک انسانوں کو اس راہ راست پر چلنے کی دعوت دینی ہے اور اللہ کا دین ٹھیک ٹھیک ان تک پہنچانا ہے خود ان کا حال یہ ہے کہ دین کے تقریباً ہر شعبے میں انھوں نے بدعات ایجاد کرلی ہیں ہر سنت کے ساتھ کسی نہ کسی بدعت کا اضافہ کرلیا گیا ہے اذان سن کے دیکھ لیجئے کس طرح اس کے ساتھ اضافے ملحق کرلیے گئے ہیں جس کا نصف صدی پہلے کوئی وجود نہ تھا اور اصرار یہ ہے کہ یہی وہ اذان ہے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ملی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو سیدھے سادے مسنون طریقے کو چھوڑ کر عجیب و غریب بدعات سے بچے کا استقبال کیا جاتا ہے اور اس کے تحفظ کی کوشش کی جاتی ہے۔ عقیقہ متروک ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ نئی نئی خرافات نے لے لی ہے۔ کوئی موت واقع ہوجاتی ہے تو بجائے اس کے کہ مسنون طریقے سے تین دن سوگ منایا جائے اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت جاری رہے ہم نے نجانے کیا کیا طریقے نکال لیے ہیں اور اس کو دین سمجھتے ہیں۔ بعض باتوں کو تو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جو آدمی صاحب نصاب نہیں یعنی ایک غریب آدمی ہے اس پر نہ حج فرض ہوتا ہے نہ قربانی واجب ہوتی ہے اور نہ اسے زکوٰۃ دینا پڑتی ہے۔ لیکن رسوم جو بدعات بن کر دین میں داخل ہوگئی ہیں ان کی گرفت اتنی شدید ہے کہ یہ سارے ارکان مجبوری کی وجہ سے تو ساقط ہوسکتے ہیں۔ لیکن غریب سے غریب آدمی نہ قلوں کی رسم چھوڑ سکتا ہے اور نہ چالیسویں سے معذرت کرسکتا ہے حالانکہ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ ان رسموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہم نے ان کو ہر فرض سے بڑھ کر فرض سمجھ لیا ہے۔ جب سے شادی بیاہ میں کھانے پر پابندی لگی ہے اس وقت سے چالیسویں زیادہ پررونق ہوگئے ہے اور اب چالیسویں میں بالکل اسی طرح اہتمام ہوتا ہے جیسے کبھی ولیمے میں ہوتا تھا اور لوگ اس لیے اس میں شوق سے شریک ہوتے ہیں کہ ایک پر تکلف کھانا کھانے کو ملے گا۔ آخر اس سنگ دلی کی کوئی انتہا بھی ہے کہ ہم مرنے والے کی موت کا غم لگانے کی بجائے اس کے نام پر دعوتیں اڑاتے ہیں۔ تین دن نہیں گزرتے کہ قلوں کے نام پر فروٹ پارٹی ہوتی ہے ہر ساتویں دن یعنی جمعرات کو ایک پر تکلف کھانا تیار ہوتا ہے اور پھر چالیسویں کا تو ذکر ہی کیا وہ تو ایک ایسی تقریب بن گئی ہے کہ جو شادیوں سے زیادہ پررونق ہوگئی ہے۔ اکبر مرحوم نے طنزیہ انداز میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ؎ میں تم کو بتائوں مرنے کے بعد کیا ہوگا پلائو کھائیں کے احباب اور فاتحہ ہوگا یہ تو چند رسموں کا ذکر ہم نے کیا ورنہ ایسی ایسی رسمیں ہمارے معاشرے میں پیدا ہوگئی ہیں جن کو سن کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے اور تصور یہ ہے کہ اگر یہ رسمیں ادا نہ کی جائیں تو ایک مسلمان کے ایمان میں شاید کوئی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہاں تاکید سے فرمایا کہ صراط مستقیم اور سنت کے راستے پر چلنا ‘ ان پگڈنڈیوں کی پرواہ نہ کرنا ورنہ تم اصل راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ اب اگلی آیت کریمہ میں ملت ابراہیمی اور اللہ کی طرف سے ملنے والی رہنمائی کے تسلسل کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top