Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ
: آپ پوچھیں
لِّمَنْ
: کس کے لیے
مَّا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
قُلْ
: کہ دیں
لِّلّٰهِ
: اللہ کے لیے
كَتَبَ
: لکھی ہے
عَلٰي نَفْسِهِ
: اپنے (نفس) آپ پر
الرَّحْمَةَ
: رحمت
لَيَجْمَعَنَّكُمْ
: تمہیں ضرور جمع کرے گا
اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کا دن
لَا رَيْبَ
: نہیں شک
فِيْهِ
: اس میں
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
خَسِرُوْٓا
: خسارہ میں ڈالا
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ
فَهُمْ
: تو وہی
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لائیں گے
ان سے پوچھو ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ‘ وہ کس کا ہے ؟ کہہ دو ! اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ‘۔ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں ‘ جو اس پر ایمان نہیں لاتے
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط قُلْ لِّلّٰہِ ط کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ط اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ (الانعام : 12) (ان سے پوچھو ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ‘ وہ کس کا ہے ؟ کہہ دو ! اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ‘۔ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں ‘ جو اس پر ایمان نہیں لاتے) اللہ کی رحمت کا لازمی تقاضہ ” قیامت کا ظہور ہے “ معذب قوموں کی تاریخ کا آئینہ مشرکینِ مکہ کے سامنے رکھ کر ‘ ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ قومیں ‘ جن پر اللہ کا عذاب آیا ‘ وہ اللہ کی حاکمیت کو قبول کرنے سے منکر تھیں اور اپنے اختیار اور ارادے کو اللہ کے سامنے سپرانداز کرنے کے لیے تیار نہ تھیں اور اپنی طاقت ‘ حکومت اور خوشحالی پر انھیں اتنا غرہ تھا کہ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ کوئی ان کی گرفت نہیں کرسکتا۔ مشرکینِ مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ دیکھو ! یہ قومیں عبرت کا سامان بن کے رہ گئی ہیں۔ ان کے کھنڈرات ‘ ان کی تباہی کی داستانیں دھراتے ہیں۔ اس آئینہ کو دیکھتے ہوئے ‘ اب تم جواب دو کہ آسمانوں اور زمینوں کا مالک کون ہے ؟ اگر وہ قومیں خود اپنی مالک ہوتیں تو اس طرح تباہی کا شکار نہ ہوتیں اور اگر اللہ ہر چیز پر قادر نہ ہوتا اور تمام قوتوں کا مالک نہ ہوتا تو ان خود سر قوموں کو کبھی تباہ نہ کرسکتا۔ کیا تمہیں اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی کہ زمین و آسمان کا مالک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ؟ قرآن کریم کا یہ سوال افہام و تفہیم کی ایک آخری کوشش بھی ہے اور اتمام حجت بھی کیونکہ مشرکینِ مکہ اگر اس قدر وضاحت اور معذب قوموں کی تاریخ سے واقف ہونے کے بعد بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہیں ‘ جس سے پہلی قومیں دوچار ہوچکی تھیں تو پھر انھیں اس دن کا انتظار کرنا چاہیے ‘ جس دن تمام بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران اور تمام جبابرہ و قیاصرہ دم بخود اپنے انجام کی فکر میں کھڑے ہوں گے اور فضا پر اللہ کا جلال برس رہا ہوگا ‘ کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ انتہائی سراسیمگی کی حالت میں اچانک ایک پر جلال آواز تمام لوگوں کی قوت سماعت سے ٹکرائے گی : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط (بتلائو آج کس کی حکومت ہے ؟ ) ظاہر ہے اس کے جواب میں سناٹا اور گہرا ہوجائے گا۔ سینوں میں دل ڈوبنے لگیں گے۔ کسی کو لب ہلانے کی جرأت نہیں ہوگی۔ پھر خود ہی پروردگار جواب دیں گے : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (المومن : 16) (آج ! خدائے واحد وقہار کی حکومت ہے) جن لوگوں کو آج اس کی حکومت کا یقین نہیں ‘ وہ جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنے کانوں سے سنیں گے تو سوائے خون کے آنسو رونے کے اور کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ اس لیے مشرکینِ مکہ پر اتمام حجت کرتے ہوئے ‘ ان سے یہ سوال کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ‘ وہ اس کا کیا جواب دیں گے حالانکہ وہ عقیدۃً اس بات کو مانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک اللہ ہی ہے ‘ لیکن چونکہ اس کے نتائج اور لوازم کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں ‘ اس لیے وہ اس کا جواب دینے کی جرأت نہیں کریں گے۔ اس لیے پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ آپ سبقت کرتے ہوئے ‘ خود ہی فرمایئے قُلْ لِلّٰہِ ” کہہ دیجئے ! (آسمانوں اور زمین پر حکومت) اللہ ہی کی ہے “۔ یہاں ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس میں کیا شبہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک اللہ ہی ہے ؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ زمین پر بسنے والے ‘ اس کے محبوب فرستادہ لوگوں کا نہ صرف انکار کرتے ہیں ‘ تمسخر اڑاتے ہیں ‘ اذیتیں پہنچاتے ہیں ‘ بلکہ ان کی زندگی دشوار کردیتے ہیں۔ لیکن پروردگار ان میں سے کسی کو نہیں پکڑتا تاوقتیکہ اجتماعی عذاب نہ آجائے۔ ان اوباشوں میں سے کسی کے ہاتھ نہیں توڑتا ‘ کسی کو سزا نہیں دیتا۔ سوچنے والا سوچ کر رہ جاتا ہے کہ آخر یہ کیا ہے ‘ اگر چند لوگ اپنے انجام کو پہنچیں تو شاید باقیوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ( اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے) قوموں کے مجرمانہ رویے ‘ اللہ کے قانون اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ ظالمانہ طرز عمل کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ انھیں فوراً اس کی پاداش میں پکڑ لیا جائے۔ قومیں بھی اس عذاب کا شکار ہوں اور اس اجتماعی عذاب سے پہلے افراد بھی فرداً فرداً اسی بھٹی میں ڈالے جائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مکافاتِ عمل کے اس قانون کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے۔ اس لیے وہ مکافات عمل کے قانون کو رحمت کی چھلنی میں چھاننے کے بعد کام کرنے کا موقع دیتا ہے یعنی ایسی مکذب قوموں کے رویے کی سزا تو یہی ہونی چاہیے۔ لیکن اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح ایک پودا بیماری کا شکار ہوتا ہے تو اسے فوراً موت کے حوالے نہیں کردیا جاتا بلکہ اس کے باغبان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ علاج کے ذریعے اسے بچا لے۔ کوئی آدمی بیماری کی گرفت میں آتا ہے تو فوراً اس کا آخری وقت نہیں آجاتا بلکہ بیمار کو سنبھلنے ‘ علاج کرانے اور صحت کی تدابیر کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی فرد یا قوم بداعمالیوں کا شکار ہوتی ہے یا تکذیب کی راہ پر چل نکلتی ہے تو فوراً اس کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ اسے بھی سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ پروردگار نے فرمایا کہ اگر لوگوں کی بداعمالیوں پر اللہ تعالیٰ فوراً گرفت فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا باقی نہ رہتا کیونکہ کون ہے ‘ جو کسی نہ کسی بدعملی کا شکار نہیں ہوتا ؟ لیکن یہ اس کی رحمت کا تقاضہ ہے کہ اس نے یہاں نباتات ‘ حیوانات اور انسانوں میں بھی ایک تاجیل کا قانون مقرر کردیا ہے کہ یہاں ہر ایک کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرے۔ مگر جب وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور وہ اجل آپہنچتی ہے ‘ جو اس کی مہلت کی آخری حد ہے تو پھر اس کو مزید موقع نہیں دیا جاتا۔ یہاں بھی اسی قانون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر ابھی تک اللہ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں تو صرف اس لیے کہ اللہ کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ انھیں مہلت دی جائے۔ شاید یہ اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ لیکن جب یہ مہلت ختم ہوجائے گی تو پھر اللہ کے عذاب سے انھیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ پیغمبر کی دعوت کے نتیجہ میں ہمیشہ دو گروہ وجود میں آتے ہیں جس طرح اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی بھی مجرم کو جلد سزا نہ دی جائے بلکہ اسے پورا سنبھلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح اس کا تقاضہ ایک اور بھی ہے، وہ یہ کہ اس دنیا میں خیر و شر کی ایک کشمکش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر کی بالا دستی کے لیے ‘ اپنے پیغمبر اور رسول بھیجے۔ ان کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں ہمیشہ دو جماعتیں پیدا ہوتی رہیں۔ ایک جماعت ‘ جنھوں نے اللہ کی دعوت کو قبول کیا اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق مقدور بھر گزارنے کی کوشش کی اور پھر اس دین کی بالا دستی کے لیے انھوں نے امکانی مساعی کو بروئے کار لاتے ہوئے جو ان سے ہوسکتا تھا انھوں نے کیا۔ اس راستے میں مال بھی لٹایا ‘ پسینہ بھی بہایا ‘ بچوں کا مستقبل بھی قربان کیا ‘ اگر ضرورت پڑی تو جان بھی نچھاور کردی۔ دوسری جماعت ‘ خیر کی بالادستی کی مخالف اور پیغمبروں کی دعوت کی دشمن بن کر اٹھتی ہے اور وہ اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ وہ جیسے جیسے اس دعوت کے نفوذ کو دیکھتے ہیں ‘ ان کا غصہ بھڑکتا ہے اور وہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اذیتوں کا نشانہ بناتے ہیں ‘ جو ان سے بڑا سے بڑا ظلم ممکن ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کو ملک سے نکلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ بس چلے تو ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ خیر و شر کی اس کشمکش میں ‘ ایک نے ظلم کیا ‘ دوسرے نے ظلم سہا۔ ایک نے دکھ دیا ‘ دوسرے نے دکھ اٹھایا۔ ایک نے درندگی کی ‘ دوسرا درندگی کانشانہ بنا۔ ایک نے عزت لوٹی ‘ دوسرے کی عزت لٹی۔ ایک نے قتل کیا ‘ دوسرا مقتول ہوا۔ اگر اس کائنات میں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے تو سوال یہ ہے کہ خیر کی بالادستی کے لیے پھر کون قربانی دینے ‘ پسینہ بہانے ‘ مال لٹانے اور جاں فروشی کے لیے تیار ہوگا ؟ وہ دیکھے گا کہ اس دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عموماً خیر کی قوتیں ناکام ہوجاتی ہیں کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ خیر و شر کی کشمکش سے قطع نظر بھی ‘ اگر صرف عام انسانی زندگی کو دیکھا جائے تو اس میں بھی ہم آئے دن حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ مثلاً کسی کا گھر لٹ رہا ہے۔ کسی کا بیٹا اندھی گولی کا نشانہ بن رہا ہے۔ کسی کا سہاگ اجاڑا جا رہا ہے۔ کسی کی جان لی جا رہی ہے۔ یہ لوگ وقت کے قانون کو پکارتے ہیں ‘ لیکن بالعموم شنوائی نہیں ہوتی۔ اگر کبھی ہوتی بھی ہے تو ضروری نہیں کہ مجرم پکڑا جائے اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ‘ اس کی اشک شوئی کا سامان ہو سکے۔ مثال کے طور پر ایک خاتون جوانی میں بیوہ ہوجاتی ہے۔ اس کا ایک ہی بیٹا ہے۔ اسی کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے وہ اپنے آپ کو وقف کردیتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے ‘ برتن مانجھتی ہے ‘ لوگوں کے کپڑے دھوتی ہے ‘ زندگی کا ہر دکھ اٹھاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچے کو پال سکے۔ حتیٰ کہ اللہ کے کرم سے بچہ جوان ہوجاتا ہے۔ محنت مزدوری کر کے گھر کی ضروریات کو پورا کرنے لگتا ہے۔ ماں کی خوشیوں کا اب کوئی ٹھکانہ نہیں ‘ وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے لوگوں کے گھروں کی محنت کی ذلت سے نجات ملی۔ اچانک ایک دن اس کا بیٹا کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس خاتون کی نگاہوں میں دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ اب اس کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ لوگوں سے جا جا کر فریاد کرے ‘ پولیس تھانوں کے پھیرے لگائے ‘ عدالتوں کے چکر لگائے ‘ شاید اس کے بیٹے کے قاتل کو سزا مل سکے اور اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ لیکن ایک دن پولیس اسے یہ کہہ کر کیس داخل دفتر کردیتی ہے کہ ہم نے ہرچند کوشش کی ‘ لیکن تمہارے بیٹے کا قاتل ہم تلاش نہ کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ یہ خاتون جب راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر یہ شکایت کرے گی تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات تو اس کا جواب کون دے گا ؟ یہ ایک اندوہناک کہانی اس ماں کی ہے ‘ جس کے بیٹے کا قاتل پکڑا نہیں جاسکا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اذیتناک کہانیاں اور بھی ہیں کہ کسی بدبخت نے کہیں بم پھینکا ‘ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ کسی دہشت گرد نے پٹڑی اکھاڑ دی ‘ سینکڑوں لوگ حادثے کا شکار ہوگئے یا کسی بڑی طاقت کے ظالم حکمران نے کسی چھوٹے ملک کے کمزور باسیوں کو موت کا نشانہ بنایا اور یہ سارے قاتل پکڑے بھی گئے۔ ظالم حکمران کو تو خیر کون سزا دے گا ؟ لیکن دہشت گرد اگر سزا پا بھی لے تو کون سی عدالت ہے ‘ جو ایک دہشت گرد سے سینکڑوں جانوں کا بدلہ لے سکے۔ اس کے پاس تو صرف ایک جان ہے۔ صرف وہی جان چھینی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا اندھیر نگری ہے ‘ یہاں کسی ظالم کے ظلم کی سزانھیں۔ کسی بڑے ظالم کو پکڑا نہیں جاسکتا ‘ کسی سینکڑوں جانیں لینے والے دہشت گرد سے ایک جان کے سوا اور جان نہیں لی جاسکتی ؟ اگر اللہ نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے تو کیا اس کی رحمت کا تقاضہ نہیں کہ وہ جس طرح ان مجرموں کو قرار واقعی سزا دے ‘ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کے راستے میں قربانیاں دی ہیں ‘ تکلیفیں اٹھائی ہیں ‘ بعض دفعہ سرکٹوایا ‘ ان کی خدمتوں اور قربانیوں کا صلہ دے ؟ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پروردگار نہ رحمن ہے ‘ نہ رحیم ہے۔ اس لیے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنے اوپررحمت واجب کرلی ہے۔ اس کی رحمت کا تقاضہ یقینا یہی ہے کہ اس کے جاں نثار نوازے جائیں اور مجرم اپنے انجام کو پہنچیں۔ لیکن اس کے لیے اس دنیا کی وسعتیں کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک اور دنیا بسانی ہوگی اور وہاں پوری طرح اللہ کی صفت رحمت کا ظہور ہوگا۔ اس لیے فرمایا لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہ (وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ہے) یہ رحمت کے ذکرکے بعد قیامت میں جمع کرنے کا تذکرہ ‘ اسی حوالے سے ہے کہ رحمت کا لازمی تقاضہ قیامت کا وجود ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے ‘ جس میں پیغمبروں سے لے کر عام صالحین تک ‘ اپنی اپنی قربانیوں اور خدمتوں کا صلہ پائیں گے بلکہ ایک حدیث کے مطابق ‘ جب اس راستے پر چلنے والوں کو ان کی تکلیفوں کا صلہ ملے گا تو وہ تمنا کریں گے کہ کاش ! ہماری کھالیں ‘ قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں۔ اسی طرح ‘ ہر چھوٹا بڑا مجرم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ جس نے جتنی جانیں لی ہوں گی ‘ اسے اتنی دفعہ جان دینے کے دردناک انجام سے دوچار کیا جائے گا۔ جب اسے جہنم میں جلایا جائے گا اور اس کی کھال جل کر جھڑ جائے گی تو اسے نئی کھال پہنا دی جائے گی اور ہر دفعہ اسے نئی اذیت سے گزرنا ہوگا۔ اللہ ہر خیر و شر کے کام کی مکمل جزا و سزا دے گا بات اگرچہ طویل ہوتی جا رہی ہے ‘ لیکن جی چاہتا ہے کہ پروردگار کی رحمت کا ایک اور پہلو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ وہ یہ کہ ہم لوگ اپنے علم کی کوتاہی کے باعث صرف اتنا جانتے ہیں کہ جب ایک آدمی کوئی جرم کرتا ہے تو اس جرم کی فوری سزا اسے ملنی چاہیے۔ اسی طرح جب کوئی آدمی کوئی بھلائی کرتا ہے یا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو اسے فوری طور پر کسی انعام سے نوازا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بات ہمارے تصور میں کبھی نہیں آتی کہ ہم اس دنیا میں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کرسکتے کہ وقتی طور پر ہونے والا جرم ‘ کیا کیا وسعتیں رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج کس قدر وسعت پذیر ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی نے قتل کیا۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس نے ایک آدمی کی جان لی اور اگر وہ شخص صاحب اولاد تھا تو اس نے ایک گھر کو ویران کیا اور بچوں کو یتیم بنا کر لاوارث کردیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہونے والا ہے ‘ ہم اس سے بالکل بیخبر ہیں حالانکہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ جو عورت شوہر کے قتل ہونے کے بعد بیوہ ہوگئی۔ بہت امکان ہے کہ وہ حالات کے دبائو کا مقابلہ نہ کرسکے اور کسی غلط راستے پر چل نکلے۔ بچے جب یتیم ہوگئے ‘ اسکا قوی امکان ہے کہ وہ تعلیم نہ حاصل کرسکیں ‘ مناسب تربیت نہ ہونے کے نتیجے میں وہ بگاڑ کا شکار ہوجائیں اور معاشرے کے لیے ان کا وجود ایک مصیبت کا باعث بن جائے۔ ایک شخص نے ان کے باپ کی جان لی تھی۔ یہ اس عمل کے نتیجے میں اگر بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں تو نجانے کتنے لوگوں کی جانیں لیں گے۔ ان کے باپ کے قاتل نے ایک گھر اجاڑا تھا۔ لیکن یہ بچے بدراہ ہو کر نجانے کتنے گھر اجاڑیں گے۔ پھر اگر یہ تفکر و تدبر کا سفر جاری رکھا جائے تو یہ آئندہ چل کر اجڑنے والے گھر ‘ وہاں بگڑنے والے بچے اور بیوہ ہونے والی عورتیں ‘ نجانے وقت کے ساتھ ساتھ کتنے معاشروں کی تباہی کا باعث بنیں گی اور اس کے نتائج کہیں خیر میں تبدیل ہوں گے بھی یا نہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ کے علم میں مستقبل کی چونکہ پوری تصویر موجود ہے۔ اس لیے اس کے علم کے مطابق ‘ جس آدمی نے کسی کو قتل کر کے آئندہ دور تک بگاڑ اور مسائل کا جو سلسلہ جنم دیا ‘ ہونا یہ چاہیے کہ پروردگار اپنے علم کے مطابق صرف اس سے قصاص لینے کا حکم نہ دے ‘ بلکہ اس کے لیے جہنم کی دائمی سزا رکھے۔ کیونکہ ایک ایسا عمل ‘ جس نے غیر متناہی تباہی کا راستہ کھولا ہے ‘ اس کی سزا بھی غیر متناہی ہونی چاہیے۔ لیکن آپ اللہ کی رحمت کا اندازہ فرمائیں کہ وہ قاتل کو اس بات کا موقع دیتا ہے کہ وہ قصاص میں قتل ہونے سے پہلے پہلے اگر اخلاص سے توبہ کرلیتا ہے تو اسکا قصاص میں قتل ہونا ہی اس کے لیے ایک مکمل سزا بن جائے گا اور آخرت میں عین ممکن ہے کہ اللہ کے یہاں وہ مغفرت کا سزاوار ٹھہرے۔ بالکل اسی طرح ایک آدمی جب کوئی بھلائی کرتا ہے تو ہم اس کا صلہ وقتی طور پردے کر اس کا حق نبٹا دینا چاہتے ہیں حالانکہ برائی کی طرح ‘ بھلائی بھی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ‘ اس بےسہارا کو سہارا دیا ‘ اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا ‘ عین ممکن ہے آئندہ چل کر یہ بےسہارا لڑکا بہت سے بےسہارا لوگوں کا سہارا بن جائے۔ اسی طرح کوئی بھی آغاز کیا جانے والا نیا کام ‘ بظاہر ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے اور شاید اس کی افادیت ایک دانے جتنی بھی نہ ہو۔ لیکن جس طرح ایک دانہ ‘ سات سو دانوں میں تبدیل ہوتا ہے اور ایک ذرہ ‘ صحرا کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر نیک کام کو ‘ جسے اخلاص سے شروع کیا جائے ‘ ایسی وسعتیں عطا فرماتا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا لمحہ موجود میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً دارالعلوم دیوبند کا آغاز ایک انار کے درخت کے نیچے ایک استاد اور ایک طالب علم سے ہوا تھا۔ لیکن ہماری تاریخ میں اس کی جو خدمات اور کارنامے ہیں ‘ تاریخ اس سے ہمیشہ گراں بار رہے گی۔ علی گڑھ کی ابتداء ایک سکول سے ہوئی تھی۔ لیکن وہ بڑھتے بڑھتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور پھر وہاں سے نکلنے والے لوگوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ایسی بیشمار مثالیں ہیں ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک معمولی نیک کام ‘ ایک بہت بڑے خیر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ بےکراں کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ پروردگار ہر عمل کا ٹھیک ٹھیک صلہ قیامت کے دن عطا فرمائیں گے اور وہ صلہ دنیا میں اس کے محدود آغاز کے حوالے سے نہیں ہوگا۔ بلکہ اس نے اپنی تمام وسعتوں سمیت جو آخری شکل اختیار کی ہوگی ‘ اس کی نسبت سے اس کو صلہ دیا جائے گا تو صلہ لینے والا خود حیران ہوگا کہ میرے نامہ عمل میں تو ایسا کوئی عمل نہ تھا ‘ جس سے میں اتنا نوازا جاتا۔ تب اسے معلوم ہوگا کہ راہ حق میں تیرا دیا ہوا ایک ایک پیسہ اور اس راستے میں بہنے والے پسینے کا ایک ایک قطرہ ‘ آج اجر وثواب کے پہاڑ اور سمندر میں تبدیل ہوچکا ہے اور وہی ہے ‘ جس کو آج تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وہ پہلو ہے ‘ جو بالعموم انسانی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ” جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے “۔ اس آیت کریمہ میں ایک دفعہ پھر تدبر فرمایئے کہ پہلے علم و دانش کی روشنی میں اور اس کے بعد تاریخ کے آئینے میں ‘ اللہ تعالیٰ کی صفت حاکمیت کو واضح فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا اور اللہ کی حاکمیت کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ‘ یہ علم و دانش اور تاریخ کی وہ شہادت ہے ‘ جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن مشرکینِ مکہ اس کو سمجھنے کی بجائے الٹے رخ پر سفر کرنے پر صرار کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے کرتوت تو اس قابل ہیں کہ ان پر اللہ کا عذاب آجائے ‘ لیکن وہ صرف اس لیے ٹلا ہوا ہے کہ اللہ کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ انھیں مزید سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن اگر اب بھی وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر انھیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ گھاٹے کا سودا کر ہے ہیں۔ اس کا احساس انھیں اس وقت ہوگا جب وہ قیامت کو اپنے سامنے پائیں گے۔ لیکن تب انھیں اس احساس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قیامت اور آخرت کے منکرین کو جو اشتباہات رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق تو اللہ کی بےپایاں قدرت سے ہے۔ اس کا ذکر تو اس آیت کریمہ میں ہوگیا۔ لیکن بعض اشتباہات کا تعلق ‘ اس بات سے ہے کہ انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ چلیئے اگر مان بھی لیا جائے کہ تمام دنیا کو ایک دفعہ فنا کردیا جائے گا اور پھر دوبارہ اسے زندہ کیا جائے گا۔ ایک میدان حشر ہوگا ‘ جس میں سب جمع ہوں گے اور حساب کتاب کے مرحلے سے گزریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایک ایک آدمی کے اعمال کی خبر کسے ہوگی۔ اربوں ‘ کھربوں مخلوق میں ‘ ایک ایک آدمی اپنی زندگی میں کروڑوں اعمال کرتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ پوری دنیا کے اعمال کی تعداد کہاں تک پہنچے گی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی کا اعمال نامہ پوری طرح محفوظ ہو اور اس کے اندھیرے ‘ اجالے کے تمام اعمال کا علم ہر لحاظ سے مکمل ہو ؟ یہ وہ بات ہے جسکا سمجھ میں آنا آسان نہیں۔ چناچہ اسی حوالے سے ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔
Top