Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
ان سے پوچھو ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ‘ وہ کس کا ہے ؟ کہہ دو ! اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ‘۔ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں ‘ جو اس پر ایمان نہیں لاتے
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط قُلْ لِّلّٰہِ ط کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ط اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ (الانعام : 12) (ان سے پوچھو ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ‘ وہ کس کا ہے ؟ کہہ دو ! اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ‘۔ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں ‘ جو اس پر ایمان نہیں لاتے) اللہ کی رحمت کا لازمی تقاضہ ” قیامت کا ظہور ہے “ معذب قوموں کی تاریخ کا آئینہ مشرکینِ مکہ کے سامنے رکھ کر ‘ ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ قومیں ‘ جن پر اللہ کا عذاب آیا ‘ وہ اللہ کی حاکمیت کو قبول کرنے سے منکر تھیں اور اپنے اختیار اور ارادے کو اللہ کے سامنے سپرانداز کرنے کے لیے تیار نہ تھیں اور اپنی طاقت ‘ حکومت اور خوشحالی پر انھیں اتنا غرہ تھا کہ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ کوئی ان کی گرفت نہیں کرسکتا۔ مشرکینِ مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ دیکھو ! یہ قومیں عبرت کا سامان بن کے رہ گئی ہیں۔ ان کے کھنڈرات ‘ ان کی تباہی کی داستانیں دھراتے ہیں۔ اس آئینہ کو دیکھتے ہوئے ‘ اب تم جواب دو کہ آسمانوں اور زمینوں کا مالک کون ہے ؟ اگر وہ قومیں خود اپنی مالک ہوتیں تو اس طرح تباہی کا شکار نہ ہوتیں اور اگر اللہ ہر چیز پر قادر نہ ہوتا اور تمام قوتوں کا مالک نہ ہوتا تو ان خود سر قوموں کو کبھی تباہ نہ کرسکتا۔ کیا تمہیں اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی کہ زمین و آسمان کا مالک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ؟ قرآن کریم کا یہ سوال افہام و تفہیم کی ایک آخری کوشش بھی ہے اور اتمام حجت بھی کیونکہ مشرکینِ مکہ اگر اس قدر وضاحت اور معذب قوموں کی تاریخ سے واقف ہونے کے بعد بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہیں ‘ جس سے پہلی قومیں دوچار ہوچکی تھیں تو پھر انھیں اس دن کا انتظار کرنا چاہیے ‘ جس دن تمام بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران اور تمام جبابرہ و قیاصرہ دم بخود اپنے انجام کی فکر میں کھڑے ہوں گے اور فضا پر اللہ کا جلال برس رہا ہوگا ‘ کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ انتہائی سراسیمگی کی حالت میں اچانک ایک پر جلال آواز تمام لوگوں کی قوت سماعت سے ٹکرائے گی : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط (بتلائو آج کس کی حکومت ہے ؟ ) ظاہر ہے اس کے جواب میں سناٹا اور گہرا ہوجائے گا۔ سینوں میں دل ڈوبنے لگیں گے۔ کسی کو لب ہلانے کی جرأت نہیں ہوگی۔ پھر خود ہی پروردگار جواب دیں گے : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (المومن : 16) (آج ! خدائے واحد وقہار کی حکومت ہے) جن لوگوں کو آج اس کی حکومت کا یقین نہیں ‘ وہ جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنے کانوں سے سنیں گے تو سوائے خون کے آنسو رونے کے اور کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ اس لیے مشرکینِ مکہ پر اتمام حجت کرتے ہوئے ‘ ان سے یہ سوال کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ‘ وہ اس کا کیا جواب دیں گے حالانکہ وہ عقیدۃً اس بات کو مانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک اللہ ہی ہے ‘ لیکن چونکہ اس کے نتائج اور لوازم کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں ‘ اس لیے وہ اس کا جواب دینے کی جرأت نہیں کریں گے۔ اس لیے پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ آپ سبقت کرتے ہوئے ‘ خود ہی فرمایئے قُلْ لِلّٰہِ ” کہہ دیجئے ! (آسمانوں اور زمین پر حکومت) اللہ ہی کی ہے “۔ یہاں ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس میں کیا شبہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک اللہ ہی ہے ؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ زمین پر بسنے والے ‘ اس کے محبوب فرستادہ لوگوں کا نہ صرف انکار کرتے ہیں ‘ تمسخر اڑاتے ہیں ‘ اذیتیں پہنچاتے ہیں ‘ بلکہ ان کی زندگی دشوار کردیتے ہیں۔ لیکن پروردگار ان میں سے کسی کو نہیں پکڑتا تاوقتیکہ اجتماعی عذاب نہ آجائے۔ ان اوباشوں میں سے کسی کے ہاتھ نہیں توڑتا ‘ کسی کو سزا نہیں دیتا۔ سوچنے والا سوچ کر رہ جاتا ہے کہ آخر یہ کیا ہے ‘ اگر چند لوگ اپنے انجام کو پہنچیں تو شاید باقیوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ( اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے) قوموں کے مجرمانہ رویے ‘ اللہ کے قانون اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ ظالمانہ طرز عمل کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ انھیں فوراً اس کی پاداش میں پکڑ لیا جائے۔ قومیں بھی اس عذاب کا شکار ہوں اور اس اجتماعی عذاب سے پہلے افراد بھی فرداً فرداً اسی بھٹی میں ڈالے جائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مکافاتِ عمل کے اس قانون کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے۔ اس لیے وہ مکافات عمل کے قانون کو رحمت کی چھلنی میں چھاننے کے بعد کام کرنے کا موقع دیتا ہے یعنی ایسی مکذب قوموں کے رویے کی سزا تو یہی ہونی چاہیے۔ لیکن اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح ایک پودا بیماری کا شکار ہوتا ہے تو اسے فوراً موت کے حوالے نہیں کردیا جاتا بلکہ اس کے باغبان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ علاج کے ذریعے اسے بچا لے۔ کوئی آدمی بیماری کی گرفت میں آتا ہے تو فوراً اس کا آخری وقت نہیں آجاتا بلکہ بیمار کو سنبھلنے ‘ علاج کرانے اور صحت کی تدابیر کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی فرد یا قوم بداعمالیوں کا شکار ہوتی ہے یا تکذیب کی راہ پر چل نکلتی ہے تو فوراً اس کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ اسے بھی سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ پروردگار نے فرمایا کہ اگر لوگوں کی بداعمالیوں پر اللہ تعالیٰ فوراً گرفت فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا باقی نہ رہتا کیونکہ کون ہے ‘ جو کسی نہ کسی بدعملی کا شکار نہیں ہوتا ؟ لیکن یہ اس کی رحمت کا تقاضہ ہے کہ اس نے یہاں نباتات ‘ حیوانات اور انسانوں میں بھی ایک تاجیل کا قانون مقرر کردیا ہے کہ یہاں ہر ایک کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرے۔ مگر جب وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور وہ اجل آپہنچتی ہے ‘ جو اس کی مہلت کی آخری حد ہے تو پھر اس کو مزید موقع نہیں دیا جاتا۔ یہاں بھی اسی قانون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر ابھی تک اللہ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں تو صرف اس لیے کہ اللہ کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ انھیں مہلت دی جائے۔ شاید یہ اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ لیکن جب یہ مہلت ختم ہوجائے گی تو پھر اللہ کے عذاب سے انھیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ پیغمبر کی دعوت کے نتیجہ میں ہمیشہ دو گروہ وجود میں آتے ہیں جس طرح اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی بھی مجرم کو جلد سزا نہ دی جائے بلکہ اسے پورا سنبھلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح اس کا تقاضہ ایک اور بھی ہے، وہ یہ کہ اس دنیا میں خیر و شر کی ایک کشمکش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر کی بالا دستی کے لیے ‘ اپنے پیغمبر اور رسول بھیجے۔ ان کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں ہمیشہ دو جماعتیں پیدا ہوتی رہیں۔ ایک جماعت ‘ جنھوں نے اللہ کی دعوت کو قبول کیا اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق مقدور بھر گزارنے کی کوشش کی اور پھر اس دین کی بالا دستی کے لیے انھوں نے امکانی مساعی کو بروئے کار لاتے ہوئے جو ان سے ہوسکتا تھا انھوں نے کیا۔ اس راستے میں مال بھی لٹایا ‘ پسینہ بھی بہایا ‘ بچوں کا مستقبل بھی قربان کیا ‘ اگر ضرورت پڑی تو جان بھی نچھاور کردی۔ دوسری جماعت ‘ خیر کی بالادستی کی مخالف اور پیغمبروں کی دعوت کی دشمن بن کر اٹھتی ہے اور وہ اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ وہ جیسے جیسے اس دعوت کے نفوذ کو دیکھتے ہیں ‘ ان کا غصہ بھڑکتا ہے اور وہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اذیتوں کا نشانہ بناتے ہیں ‘ جو ان سے بڑا سے بڑا ظلم ممکن ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کو ملک سے نکلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ بس چلے تو ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ خیر و شر کی اس کشمکش میں ‘ ایک نے ظلم کیا ‘ دوسرے نے ظلم سہا۔ ایک نے دکھ دیا ‘ دوسرے نے دکھ اٹھایا۔ ایک نے درندگی کی ‘ دوسرا درندگی کانشانہ بنا۔ ایک نے عزت لوٹی ‘ دوسرے کی عزت لٹی۔ ایک نے قتل کیا ‘ دوسرا مقتول ہوا۔ اگر اس کائنات میں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے تو سوال یہ ہے کہ خیر کی بالادستی کے لیے پھر کون قربانی دینے ‘ پسینہ بہانے ‘ مال لٹانے اور جاں فروشی کے لیے تیار ہوگا ؟ وہ دیکھے گا کہ اس دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عموماً خیر کی قوتیں ناکام ہوجاتی ہیں کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ خیر و شر کی کشمکش سے قطع نظر بھی ‘ اگر صرف عام انسانی زندگی کو دیکھا جائے تو اس میں بھی ہم آئے دن حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ مثلاً کسی کا گھر لٹ رہا ہے۔ کسی کا بیٹا اندھی گولی کا نشانہ بن رہا ہے۔ کسی کا سہاگ اجاڑا جا رہا ہے۔ کسی کی جان لی جا رہی ہے۔ یہ لوگ وقت کے قانون کو پکارتے ہیں ‘ لیکن بالعموم شنوائی نہیں ہوتی۔ اگر کبھی ہوتی بھی ہے تو ضروری نہیں کہ مجرم پکڑا جائے اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ‘ اس کی اشک شوئی کا سامان ہو سکے۔ مثال کے طور پر ایک خاتون جوانی میں بیوہ ہوجاتی ہے۔ اس کا ایک ہی بیٹا ہے۔ اسی کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے وہ اپنے آپ کو وقف کردیتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے ‘ برتن مانجھتی ہے ‘ لوگوں کے کپڑے دھوتی ہے ‘ زندگی کا ہر دکھ اٹھاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچے کو پال سکے۔ حتیٰ کہ اللہ کے کرم سے بچہ جوان ہوجاتا ہے۔ محنت مزدوری کر کے گھر کی ضروریات کو پورا کرنے لگتا ہے۔ ماں کی خوشیوں کا اب کوئی ٹھکانہ نہیں ‘ وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے لوگوں کے گھروں کی محنت کی ذلت سے نجات ملی۔ اچانک ایک دن اس کا بیٹا کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس خاتون کی نگاہوں میں دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ اب اس کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ لوگوں سے جا جا کر فریاد کرے ‘ پولیس تھانوں کے پھیرے لگائے ‘ عدالتوں کے چکر لگائے ‘ شاید اس کے بیٹے کے قاتل کو سزا مل سکے اور اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ لیکن ایک دن پولیس اسے یہ کہہ کر کیس داخل دفتر کردیتی ہے کہ ہم نے ہرچند کوشش کی ‘ لیکن تمہارے بیٹے کا قاتل ہم تلاش نہ کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ یہ خاتون جب راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر یہ شکایت کرے گی تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات تو اس کا جواب کون دے گا ؟ یہ ایک اندوہناک کہانی اس ماں کی ہے ‘ جس کے بیٹے کا قاتل پکڑا نہیں جاسکا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اذیتناک کہانیاں اور بھی ہیں کہ کسی بدبخت نے کہیں بم پھینکا ‘ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ کسی دہشت گرد نے پٹڑی اکھاڑ دی ‘ سینکڑوں لوگ حادثے کا شکار ہوگئے یا کسی بڑی طاقت کے ظالم حکمران نے کسی چھوٹے ملک کے کمزور باسیوں کو موت کا نشانہ بنایا اور یہ سارے قاتل پکڑے بھی گئے۔ ظالم حکمران کو تو خیر کون سزا دے گا ؟ لیکن دہشت گرد اگر سزا پا بھی لے تو کون سی عدالت ہے ‘ جو ایک دہشت گرد سے سینکڑوں جانوں کا بدلہ لے سکے۔ اس کے پاس تو صرف ایک جان ہے۔ صرف وہی جان چھینی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا اندھیر نگری ہے ‘ یہاں کسی ظالم کے ظلم کی سزانھیں۔ کسی بڑے ظالم کو پکڑا نہیں جاسکتا ‘ کسی سینکڑوں جانیں لینے والے دہشت گرد سے ایک جان کے سوا اور جان نہیں لی جاسکتی ؟ اگر اللہ نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے تو کیا اس کی رحمت کا تقاضہ نہیں کہ وہ جس طرح ان مجرموں کو قرار واقعی سزا دے ‘ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کے راستے میں قربانیاں دی ہیں ‘ تکلیفیں اٹھائی ہیں ‘ بعض دفعہ سرکٹوایا ‘ ان کی خدمتوں اور قربانیوں کا صلہ دے ؟ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پروردگار نہ رحمن ہے ‘ نہ رحیم ہے۔ اس لیے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنے اوپررحمت واجب کرلی ہے۔ اس کی رحمت کا تقاضہ یقینا یہی ہے کہ اس کے جاں نثار نوازے جائیں اور مجرم اپنے انجام کو پہنچیں۔ لیکن اس کے لیے اس دنیا کی وسعتیں کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک اور دنیا بسانی ہوگی اور وہاں پوری طرح اللہ کی صفت رحمت کا ظہور ہوگا۔ اس لیے فرمایا لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہ (وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا ‘ قیامت کے دن کی طرف ‘ جس میں ذرا شبہ نہیں ہے) یہ رحمت کے ذکرکے بعد قیامت میں جمع کرنے کا تذکرہ ‘ اسی حوالے سے ہے کہ رحمت کا لازمی تقاضہ قیامت کا وجود ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے ‘ جس میں پیغمبروں سے لے کر عام صالحین تک ‘ اپنی اپنی قربانیوں اور خدمتوں کا صلہ پائیں گے بلکہ ایک حدیث کے مطابق ‘ جب اس راستے پر چلنے والوں کو ان کی تکلیفوں کا صلہ ملے گا تو وہ تمنا کریں گے کہ کاش ! ہماری کھالیں ‘ قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں۔ اسی طرح ‘ ہر چھوٹا بڑا مجرم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ جس نے جتنی جانیں لی ہوں گی ‘ اسے اتنی دفعہ جان دینے کے دردناک انجام سے دوچار کیا جائے گا۔ جب اسے جہنم میں جلایا جائے گا اور اس کی کھال جل کر جھڑ جائے گی تو اسے نئی کھال پہنا دی جائے گی اور ہر دفعہ اسے نئی اذیت سے گزرنا ہوگا۔ اللہ ہر خیر و شر کے کام کی مکمل جزا و سزا دے گا بات اگرچہ طویل ہوتی جا رہی ہے ‘ لیکن جی چاہتا ہے کہ پروردگار کی رحمت کا ایک اور پہلو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ وہ یہ کہ ہم لوگ اپنے علم کی کوتاہی کے باعث صرف اتنا جانتے ہیں کہ جب ایک آدمی کوئی جرم کرتا ہے تو اس جرم کی فوری سزا اسے ملنی چاہیے۔ اسی طرح جب کوئی آدمی کوئی بھلائی کرتا ہے یا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو اسے فوری طور پر کسی انعام سے نوازا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بات ہمارے تصور میں کبھی نہیں آتی کہ ہم اس دنیا میں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کرسکتے کہ وقتی طور پر ہونے والا جرم ‘ کیا کیا وسعتیں رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج کس قدر وسعت پذیر ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی نے قتل کیا۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس نے ایک آدمی کی جان لی اور اگر وہ شخص صاحب اولاد تھا تو اس نے ایک گھر کو ویران کیا اور بچوں کو یتیم بنا کر لاوارث کردیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہونے والا ہے ‘ ہم اس سے بالکل بیخبر ہیں حالانکہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ جو عورت شوہر کے قتل ہونے کے بعد بیوہ ہوگئی۔ بہت امکان ہے کہ وہ حالات کے دبائو کا مقابلہ نہ کرسکے اور کسی غلط راستے پر چل نکلے۔ بچے جب یتیم ہوگئے ‘ اسکا قوی امکان ہے کہ وہ تعلیم نہ حاصل کرسکیں ‘ مناسب تربیت نہ ہونے کے نتیجے میں وہ بگاڑ کا شکار ہوجائیں اور معاشرے کے لیے ان کا وجود ایک مصیبت کا باعث بن جائے۔ ایک شخص نے ان کے باپ کی جان لی تھی۔ یہ اس عمل کے نتیجے میں اگر بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں تو نجانے کتنے لوگوں کی جانیں لیں گے۔ ان کے باپ کے قاتل نے ایک گھر اجاڑا تھا۔ لیکن یہ بچے بدراہ ہو کر نجانے کتنے گھر اجاڑیں گے۔ پھر اگر یہ تفکر و تدبر کا سفر جاری رکھا جائے تو یہ آئندہ چل کر اجڑنے والے گھر ‘ وہاں بگڑنے والے بچے اور بیوہ ہونے والی عورتیں ‘ نجانے وقت کے ساتھ ساتھ کتنے معاشروں کی تباہی کا باعث بنیں گی اور اس کے نتائج کہیں خیر میں تبدیل ہوں گے بھی یا نہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ کے علم میں مستقبل کی چونکہ پوری تصویر موجود ہے۔ اس لیے اس کے علم کے مطابق ‘ جس آدمی نے کسی کو قتل کر کے آئندہ دور تک بگاڑ اور مسائل کا جو سلسلہ جنم دیا ‘ ہونا یہ چاہیے کہ پروردگار اپنے علم کے مطابق صرف اس سے قصاص لینے کا حکم نہ دے ‘ بلکہ اس کے لیے جہنم کی دائمی سزا رکھے۔ کیونکہ ایک ایسا عمل ‘ جس نے غیر متناہی تباہی کا راستہ کھولا ہے ‘ اس کی سزا بھی غیر متناہی ہونی چاہیے۔ لیکن آپ اللہ کی رحمت کا اندازہ فرمائیں کہ وہ قاتل کو اس بات کا موقع دیتا ہے کہ وہ قصاص میں قتل ہونے سے پہلے پہلے اگر اخلاص سے توبہ کرلیتا ہے تو اسکا قصاص میں قتل ہونا ہی اس کے لیے ایک مکمل سزا بن جائے گا اور آخرت میں عین ممکن ہے کہ اللہ کے یہاں وہ مغفرت کا سزاوار ٹھہرے۔ بالکل اسی طرح ایک آدمی جب کوئی بھلائی کرتا ہے تو ہم اس کا صلہ وقتی طور پردے کر اس کا حق نبٹا دینا چاہتے ہیں حالانکہ برائی کی طرح ‘ بھلائی بھی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ‘ اس بےسہارا کو سہارا دیا ‘ اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا ‘ عین ممکن ہے آئندہ چل کر یہ بےسہارا لڑکا بہت سے بےسہارا لوگوں کا سہارا بن جائے۔ اسی طرح کوئی بھی آغاز کیا جانے والا نیا کام ‘ بظاہر ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے اور شاید اس کی افادیت ایک دانے جتنی بھی نہ ہو۔ لیکن جس طرح ایک دانہ ‘ سات سو دانوں میں تبدیل ہوتا ہے اور ایک ذرہ ‘ صحرا کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر نیک کام کو ‘ جسے اخلاص سے شروع کیا جائے ‘ ایسی وسعتیں عطا فرماتا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا لمحہ موجود میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً دارالعلوم دیوبند کا آغاز ایک انار کے درخت کے نیچے ایک استاد اور ایک طالب علم سے ہوا تھا۔ لیکن ہماری تاریخ میں اس کی جو خدمات اور کارنامے ہیں ‘ تاریخ اس سے ہمیشہ گراں بار رہے گی۔ علی گڑھ کی ابتداء ایک سکول سے ہوئی تھی۔ لیکن وہ بڑھتے بڑھتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور پھر وہاں سے نکلنے والے لوگوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ایسی بیشمار مثالیں ہیں ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک معمولی نیک کام ‘ ایک بہت بڑے خیر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ بےکراں کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ پروردگار ہر عمل کا ٹھیک ٹھیک صلہ قیامت کے دن عطا فرمائیں گے اور وہ صلہ دنیا میں اس کے محدود آغاز کے حوالے سے نہیں ہوگا۔ بلکہ اس نے اپنی تمام وسعتوں سمیت جو آخری شکل اختیار کی ہوگی ‘ اس کی نسبت سے اس کو صلہ دیا جائے گا تو صلہ لینے والا خود حیران ہوگا کہ میرے نامہ عمل میں تو ایسا کوئی عمل نہ تھا ‘ جس سے میں اتنا نوازا جاتا۔ تب اسے معلوم ہوگا کہ راہ حق میں تیرا دیا ہوا ایک ایک پیسہ اور اس راستے میں بہنے والے پسینے کا ایک ایک قطرہ ‘ آج اجر وثواب کے پہاڑ اور سمندر میں تبدیل ہوچکا ہے اور وہی ہے ‘ جس کو آج تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وہ پہلو ہے ‘ جو بالعموم انسانی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ” جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے “۔ اس آیت کریمہ میں ایک دفعہ پھر تدبر فرمایئے کہ پہلے علم و دانش کی روشنی میں اور اس کے بعد تاریخ کے آئینے میں ‘ اللہ تعالیٰ کی صفت حاکمیت کو واضح فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا اور اللہ کی حاکمیت کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ‘ یہ علم و دانش اور تاریخ کی وہ شہادت ہے ‘ جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن مشرکینِ مکہ اس کو سمجھنے کی بجائے الٹے رخ پر سفر کرنے پر صرار کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے کرتوت تو اس قابل ہیں کہ ان پر اللہ کا عذاب آجائے ‘ لیکن وہ صرف اس لیے ٹلا ہوا ہے کہ اللہ کی رحمت کا تقاضہ یہ ہے کہ انھیں مزید سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن اگر اب بھی وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر انھیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ گھاٹے کا سودا کر ہے ہیں۔ اس کا احساس انھیں اس وقت ہوگا جب وہ قیامت کو اپنے سامنے پائیں گے۔ لیکن تب انھیں اس احساس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قیامت اور آخرت کے منکرین کو جو اشتباہات رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق تو اللہ کی بےپایاں قدرت سے ہے۔ اس کا ذکر تو اس آیت کریمہ میں ہوگیا۔ لیکن بعض اشتباہات کا تعلق ‘ اس بات سے ہے کہ انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ چلیئے اگر مان بھی لیا جائے کہ تمام دنیا کو ایک دفعہ فنا کردیا جائے گا اور پھر دوبارہ اسے زندہ کیا جائے گا۔ ایک میدان حشر ہوگا ‘ جس میں سب جمع ہوں گے اور حساب کتاب کے مرحلے سے گزریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایک ایک آدمی کے اعمال کی خبر کسے ہوگی۔ اربوں ‘ کھربوں مخلوق میں ‘ ایک ایک آدمی اپنی زندگی میں کروڑوں اعمال کرتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ پوری دنیا کے اعمال کی تعداد کہاں تک پہنچے گی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی کا اعمال نامہ پوری طرح محفوظ ہو اور اس کے اندھیرے ‘ اجالے کے تمام اعمال کا علم ہر لحاظ سے مکمل ہو ؟ یہ وہ بات ہے جسکا سمجھ میں آنا آسان نہیں۔ چناچہ اسی حوالے سے ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔
Top