Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 102
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُ١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ
ذٰلِكُمُ : یہی اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا : سوائے هُوَ : اس خَالِقُ : پیدا کرنیوالا كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز فَاعْبُدُوْهُ : سو تم اس کی عبادت کرو وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز وَّكِيْلٌ : کارساز۔ نگہبان
وہی اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے تو اس کی بندگی کرو اور وہی ہر چیز پر نگران ہے
ذٰلِکْمُ اللہ ُ رَبُّکُمْ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوْہٗ ج وَھُوَ عَلٰی کُلِ شَیْئٍ وَّکِیْلُٗ ۔ (الانعام : 102) (وہی اللہ تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ وہی ہر چیز کا خالق ہے تو اس کی بندگی کرو اور وہی ہر چیز پر نگران ہے) اللہ ہی تمہارا رب ہے یہی اللہ جسے تم خالق کائنات جانتے ہو وہی تمہارا رب بھی ہے لیکن تمہیں نجانے یہ کیوں غلطی لگی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا رب بھی ہوسکتا ہے۔ ہر دور کی جاہلیت میں رب ہر اس قوت کو سمجھا گیا ہے جس کے ہاتھ میں وسائل رزق ‘ وسائل معاش اور وسائل اختیار ہوتے ہیں۔ جو تخت و تاج پر متمکن ہوتا ہے اور فوجوں کے بل بوتے پر گردنوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیتا ہے اور ملک کے تمام وسائل پر قابض ہو کر یہ سمجھتا ہے کہ میری رعایا چونکہ میری محتاج ہے میری مرضی اور میری اجازت کے بغیر نہ انھیں رزق میسر آسکتا ہے اور نہ ان کی زندگی کی بقاء کی ضمانت مل سکتی ہے۔ میں جسے چاہوں زندہ رہنے دوں جسے چاہوں مار ڈالوں ‘ جسے چاہوں آزادی دوں اور جسے چاہوں حوالہ زنداں کر دوں۔ اس لحاظ سے میں ان کی زندگیوں اور قسمتوں کا مالک ہوں۔ یہ اختیار مجھے بلاوجہ نہیں ملا یقینا میں کسی بڑی قوت کا اوتار ہوں۔ اس لحاظ سے انھیں نہ صرف میری حکومت تسلیم کرنی چاہیے بلکہ ان کی پیشانیاں اور ان کے دل بھی میرے سامنے جھکنے چاہئیں۔ مقتدر طبقہ اور مذہبی طبقہ آپس میں ملی بھگت کر کے اپنی اپنی ربوبیت کا طوق انسانوں کے گلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اپنے رب ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مصر کے فراعنہ اور عراق کے نماردہ اپنے آپ کو رب کہلاتے تھے۔ اس طرح سے وہ اپنے اقتدار کو مذہب کے واسطے سے دوام بخشتے تھے۔ اس ربوبیت میں چونکہ مذہبی روح بھی کارفرما ہوتی تھی اس لیے اس واسطے سے غیر مرئی قوتوں حتی کہ مقدس شخصیات کو بھی اس ربوبیت میں شامل کرلیا جاتا تھا۔ اس طرح سے عام سوچنے والے مائوف ہوجاتے تھے اور کسی بڑی ذات کے سامنے جھکنے کا احساس ان کے سامنے جھک جانے کی وجہ سے مردہ ہوجاتا تھا۔ بالآخر اس کے نتیجے میں اصحابِ اقتدار کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا تھا وہ تمام وسائلِ معاش پر قابض ہو کر اپنی من مرضی کرنے میں کلیتہً اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ جب تمہیں اللہ نے پیدا کیا ہے اور وہ تمہاری ضرورتوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے گردوپیش میں پھیلے ہوئے وسائل رزق کا خالق بھی وہی ہے۔ دنیا کی کوئی قوت اور رزق کا کوئی شمہ بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ اس نے تمہیں صرف زندگی نہیں دی بلکہ زندگی کے تمام امکانات مہیا کرنے والا بھی وہی ہے۔ جب ایک بچہ دنیا میں آتا ہے تو اپنی بےبسی اور بےکسی میں تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہوتا ہے نہ وہ کوئی چیز پکڑ سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے زمین پر آنے سے پہلے ماں باپ کا وجود اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار کردیا جاتا ہے۔ ماں اسے پیار سے سینے سے لگاتی ہے تو وہیں اس کے لیے غذا کے سوتے جاری کردیئے جاتے ہیں۔ اس کی ہر ضرورت ‘ ہر آسائش کو مدنظر رکھا جاتا ہے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں حواس آنکھیں کھولنے لگتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب عقل کا دیا روشن ہوجاتا ہے اور زندگی کے تمام امکانات اس کے سامنے روشن ہوجاتے ہیں وہ زمین کا رخ کرتا ہے تو زمین کی قوت روئیدگی اپنا سینہ اس کے لیے کھول دیتی ہے۔ اس کے اندر قوت تسخیر جنم لیتی ہے تو اسی جوہر عقل سے کام لے کر وہ بڑی سے بڑی قوت کو زیر نگیں کرلیتا ہے۔ وہ اولوالعزمی کا پیکر بن کر اٹھتا ہے تو عناصر فطرت اس کے ہاتھوں میں مسخر ہوجاتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہی شخص جو اللہ کی ربوبیت سے قدم قدم آگے بڑھا ہے وہ قوت ‘ طاقت اور حکومت پر قابض ہو کر اپنے رب ہونے کا اعلان کرنے لگتا ہے۔ بندگی بھی خالق کی کی جائے اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ جو تمہارا خالق ہے تمہارا رب بھی وہی ہے تمہیں عمر کے ہر لمحے میں اسی نے تھاما اور ہاتھ پکڑ کر آگے چلایا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ شکر اسی کا بجا لایا جائے اور اسی کی راہنمائی میں زندگی گزاری جائے اور زندگی کو اسی کی امانت سمجھ کر اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے اسی سے زندگی کی تنہائیاں آباد کی جائیں اور سینے بھی اسی کی یاد سے معمور ہوں۔ اسی کی غیر مشروط اطاعت کی جائے کیونکہ جب یہ بات مان چکے ہو کہ ہر چیز کا خالق وہی ہے تو پھر بندگی اسی کی کرو یہ بندگی کا لفظ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے بندگی کا معنی ہے بندہ ہونا۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جو شخص کسی کا بندہ ہوتا ہے وہ اپنی مرضی کا مختار نہیں ہوتا اس کی کوئی چیز اپنی نہیں رہتی ‘ وہ اپنا نصب العین متعین کرنے میں آزاد نہیں ہوتا وہ کسی اور کو اس بندگی میں شریک نہیں کرسکتا یعنی ایسا نہیں کرسکتا کہ اپنے آقا کی موجودگی میں کسی اور کو بھی آقا مان لے۔ اس لیے یہاں بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا سر بھی اسی کے سامنے جھکنا چاہیے ‘ تمہارا دست سوال کسی اور کے سامنے دراز نہیں ہونا چاہیے۔ تمہارے سینے میں کسی اور کے لیے اس کے برابر جگہ نہیں ہونی چاہیے ‘ تمہارے دل کی دھڑکنیں اسی کے لیے وقف رہنی چاہئیں۔ تم عبادت گاہ میں جس طرح اس کے سامنے جھکنے کے مکلف ہو۔ اسی طرح اصول معاشرت ‘ اصول سیاست ‘ نظام تعلیم ‘ تہذیبی آداب ‘ ثقافی رسم و رواج ‘ اصول حکومت ‘ غرضیکہ ہر چیز میں تم اسی کی راہنمائی کے پابند ہو۔ وہ چونکہ اپنی کسی صفت میں شرکت گوارانھیں کرتا ‘ تمہاری بندگی میں بھی اس کو کسی کی شرکت گوارا نہیں۔ تم نماز اسی کی پڑھو گے تو آئین اور قانون بھی اسی کا مانو گے ‘ تمہاری عدالتوں میں قانون اسی کا چلے گا ‘ ملک کا ہر ادارہ اسی کے دیئے ہوئے نظام کی راہنمائی میں اپنا کام کرے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر وکیل ہے یعنی وہ جس طرح قدم قدم پر تمہارا خیر خواہ ‘ تمہارا سہارا اور تمہاری حفاظت کرنے والا ہے اس طرح تمہارے افکار و اعمال کا نگران بھی ہے۔ وہ برابر اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی کے کسی عمل میں اس کی ربوبیت اور اس کی حاکمیت میں کسی اور کو شریک تو نہیں کر رہے ہو اور اس کی یہ نگرانی اس قدرمکمل ہے کہ تم تو اسے شاید نہ دیکھ سکو۔ لیکن تم ہر وقت اس کی نگاہوں میں ہو۔ اگلی آیت کریمہ میں یہی بات کہی جا رہی ہے۔
Top