Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
اس کو نگاہیں نہیں پاتیں لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے
ارشاد ہوتا ہے : لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ۔ (الانعام : 103) (اس کو نگاہیں نہیں پاتیں لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے ) نگاہیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کرسکتیں ادراک کے دو معنی ہوتے ہیں ایک ہے دیکھنا ‘ دوسرا ہے احاطہ کرلینا۔ یعنی انسانی نگاہیں اللہ کو دیکھ نہیں سکتیں کیونکہ انسانی نگاہوں میں وہ قوت نہیں جو اس کی ذات کا ادراک کرسکیں اور اس کے جمال اور جلال کا تحمل کرسکیں۔ ایک مخلوق اپنے خالق کے دیدارکا تحمل کر بھی کیسے سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسے اللہ سے محبت نصیب ہوجاتی ہے وہ ہر محبت کرنے والے اور چاہنے والے کی طرح وصال محبوب کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے وہ جاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح میں اپنے محبوب کے وصال سے بہرہ ور کیا جاؤں۔ دنیا کے تمام عشاق ہمیشہ محبوب کے وصال کے لیے تڑپتے رہے ہیں۔ اگر یہ زندگی اس کے لیے کفایت نہیں کرتی تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک اور زندگی بھی ملے تو ہم وصال محبوب کی خواہش میں اسے گزار دیں۔ غالب کہتا ہے ؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا کچھ اور جیتے ہوتے یہی انتظار ہوتا اللہ سے عشق اور محبت تو سب سے پاکیزہ اور سب سے عظیم جذبہ ہے جسے یہ نصیب ہوجاتا ہے اس کے فرط شوق کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے۔ ہزار ادب مانع ہو دل تو اسی کے لیے مچلتا ہے۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ چونکہ اللہ کی بارگاہ میں بہت مقرب تھے اس لیے اسی جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر جرأت کر بیٹھے کہ یا اللہ مجھے اپنے دیدار سے نواز میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ پروردگار نے فرمایا : لَنْ ترانِی تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے اور محض تسلی کے لیے فرمایا کہ پہاڑ کو دیکھو جو اپنی سنگینی اور صلابت میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک انسان کی استقامت ظاہر ہے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ فرمایا اس کو دیکھو اگر یہ اپنی جگہ کھڑا رہ گیا تو تم بھی مجھے دیکھ لو گے چناچہ جب اللہ کی تجلی اس پر پڑی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان چاہے موسیٰ کلیم اللہ جیسا پیغمبر کیوں نہ ہو وہ اللہ کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور اس کے دیدار کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اس لیے فرمایا کہ نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں یعنی اسے دیکھ نہیں سکتیں البتہ یہ ضرور ہے کہ قیامت میں اہل جنت ‘ جنت میں اللہ کا دیدار کریں گے۔ جب اہل جنت ہر طرح کی نعمتوں سے نواز دیئے جائیں گے اور ان کی خوشیاں اور ان کی مسرتیں انتہائوں کو چھو رہی ہوں گی کہ اچانک ایک دن آواز آئے گی کہ اے جنت کے باسیو ! کیا تمہیں کسی اور نعمت کی خواہش ہے تاکہ ہم تمہیں وہ بھی دے دیں۔ تمام اہل جنت کہیں گے یا اللہ یہاں وہ کچھ پایا جس کو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں تھا اور وہ نغمے سماعت نواز ہوئے جو کسی کان نے سنے نہیں تھے اور دل و دماغ کو ان نعمتوں کی خوشیوں سے مشرف کیا گیا جو کبھی تخیل کی بلند پروازی کے باوجود تخیل میں نہ آسکی تھیں۔ اب ایسی اور کون سی نعمت ہوسکتی ہے جس کی ہم خواہش کریں۔ نعمتیں غالب آگئیں اور ہماری خواہشیں مغلوب ہوگئیں۔ آواز آئے گی کہ ایک نعمت ابھی باقی ہے ‘ درمیان سے پردہ ہٹ جائے گا۔ پروردگار اپنے حسن و جمال کی تابانیوں کے ساتھ سامنے جلوہ فرما ہوں گے۔ اہل جنت اپنی پروردگار کے دیدار سے آنکھیں روشن کریں گے اور ایسے مسحور و مخمور ہوں گے کہ جنت کی نعمتیں اس کے سامنے گرد ہو کر رہ جائیں گی۔ لیکن دنیا میں اس نعمت کی صرف چاہت پالی جاسکتی ہے۔ اس نعمت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا لیکن جنت میں چونکہ یہ نعمت ملنے والی ہے اس لیے اعتراض ہوسکتا ہے کہ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں حالانکہ اہل جنت تو اسے دیکھیں گے۔ اس لیے اس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکیں گی۔ دنیا میں تو دیکھ بھی نہیں سکتیں قیامت کو دیکھیں گی لیکن احاطہ نہیں کر پائیں گی۔ اسی بات کی تائید آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمام مخلوق جو پہلے دن سے آج تک پیدا ہوئی اور قیامت تک پیداہو گی وہ سب جمع ہو کر اللہ کی ذات کا احاطہ کرنا چاہے تو نہیں کرسکے گی۔ قیامت میں فی الجملہ دیدار تو ہوگا لیکن ذات خداوندی کا احاطہ نہیں ہو سکے گا۔ رہی یہ بات کہ معراج کے سفر میں کیا آنحضرت ﷺ نے پروردگار کو دیکھا تھا یا نہیں ؟ حضرت عائشہ تو فرماتی ہیں کہ میں نے خود آنحضرت ﷺ سے سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا ؟ اس سے تو بات ختم ہوجانی چاہیے لیکن سورة النجم کے بعض اشاروں سے بعض اہل علم یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا دیدار کیا تھا لیکن وہ اس سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے کیا تھا۔ محی الدین ابن عربی نے ایک اور بات کہی ہے وہ ظاہر ہے ان کی ذاتی رائے ہے۔ جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا آسمانوں اور زمین کے درمیان محدود ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے کائنات ختم ہوجاتی ہے اور یہ معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کو آگے بھی لے جایا گیا اس کے آگے جو کچھ ہے ان کے بقول وہ عالم آخرت ہے اس کے احکام بالکل جدا ہیں وہاں اگر حضور نے اللہ کو دیکھا ہو تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انسانی آنکھ حتیٰ کہ پیغمبر بھی اللہ کو اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے عالم آخرت میں تو سارے اہل جنت دیکھیں گے یہ تو ایک ضمنی بحث تھی۔ اللہ ہر چیز کو دیکھتا ہے اصل بات جو کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو تم اپنے اللہ کے بارے میں یقین کرتے ہوئے یہ بات کبھی نہ بھولو کہ وہ برابر تمہاری نگرانی کر رہا ہے اگرچہ تمہاری نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ تو تمام نگاہوں کو پا رہا ہے۔ تم اس کا ادراک نہیں کرسکتے لیکن تم تو اس کی نگاہوں میں ہو۔ ایک چاہنے والے کی صرف وصال محبوب ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے یہ بات بس کرتی ہے کہ میں اگرچہ اپنے محبوب کے وصال سے مشرف نہیں کیا جا رہا لیکن میرے لیے یہ بات کیا کم ہے کہ میں اپنے محبوب کی نگاہوں میں ہوں۔ اس کی مجھ پر نظر ہے اور وہ ہمیشہ مجھے اپنی نگاہوں میں رکھتا ہے۔ عشاق کا تو یہ حال ہوتا ہے اور وہ اسی میں مخمور رہتے ہیں ؎ گو سرسری ہی دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں ہم خوش ہیں کہ ہیں کسی کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ علیم اور خبیر ہے آیت کے دوسرے جملے میں پہلے جملے کی بات کو اپنی صفات سے مدلل فرمایا کہ یہ جو فرمایا کہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے کہا اس لیے نہیں دیکھ سکتے کہ وہ لطیف ہے اور لطیف چیز نگاہوں میں نہیں آیا کرتی۔ لطیف کثیف کا متضاد ہے۔ کثیف چیز وہ ہوتی ہے جس کو حواس محسوس کرسکیں اور لطیف کو حواس محسوس نہیں کرسکتے۔ البتہ ! لطیف چیز کو اگر محسوس کرنا ہو تو ضرور ہے کہ کثیف کو اس کے ساتھ لگا دیا جائے۔ کثافت جب لطافت کے ساتھ لگ جائے گی تو لطیف کا احساس ہونے لگے گا۔ غالب نے کیا خوب کہا ؎ لطافت بےکثافت جلوہ آرا ہو نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا بادِ بہاری نظر نہیں آتی اسکا احساس اس وقت ہوتا ہے جب چمن کا زنگار اس کے ساتھ شامل ہو کر اسکا احساس دلاتا ہے وہ ایک ایک پھول سے چھو کر گزرتی ہے اور مشام جان کو معطر کرتی ہوئی اپنا احساس دلاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ ہر طرح کی کثافتوں سے ماورا اور پاک ہے اور پھر اس کی لطافت بھی ایک مخلوق کی لطافت نہیں جس میں فی الجملہ محسوس ہونے کی رمق پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ خالق کی لطافت ہے جس کا احساس صرف مخلوقات کے آئینہ میں تو کیا جاسکتا ہے اور جس کا ادراک ایک ایک مخلوق کے پردے میں واضح ہے لیکن براہ راست اس کا احساس اور ادراک ممکن نہیں۔ لطیف کا دوسرا معنی ہے باریک بین۔ کہ اللہ وہ ذات ہے کہ تم اسے دیکھ تو نہیں سکتے لیکن وہ خود اتنا باریک بین ہے کہ کوئی چیز ہزار پردوں کے پیچھے بھی چھپی ہوئی ہو اس کی نگاہوں میں بالکل نمایاں ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خبیر بھی ہے کہ ہر چیز دنیا میں اس کے سامنے ہے اس کی نگاہوں میں روشن ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا علم اور اس کی خبر بھی مکمل ہے وہ نہایت باخبر ذات ہے کہ ایک خیال کرنے والا اپنے خیال کو بھول سکتا ہے ایک عمل کرنے والا اپنے عمل سے بےبہرہ ہوسکتا ہے لیکن اللہ کے علم و خبر سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں۔ بعض دفعہ بڑے سے بڑا دانشور اپنے تخیلات میں الجھ کے رہ جاتا ہے۔ اس کے خیالات کا تانا بانا اس کی اپنی گرفت میں نہیں آتا لیکن اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ جس ذات کا علم اور جس کی آگاہی اس قدر مکمل اور محیط ہو چاہنے والوں کے لیے تو بڑی دولت ہے کہ وہ ہر وقت اس کے سامنے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تصور کہ انسان خطا کا پتلا ہے نجانے کب اس کے تخیل میں کوئی برائی داخل ہوجاتی ہے کب اس کا احساس بھٹکنے لگتا ہے کب اس کی نظر پاکیزگی کھو دیتی ہے ‘ کب اس کی خواہش نفس اس کو مغلوب کرلیتی ہے ‘ کب اس کی نیت میں فساد پیدا ہوجاتا ہے ‘ وہ ذات جس کے علم و خبر کے سامنے ان میں سے ایک ایک چیز ظاہر و باہر ہے اگر وہ ان پر گرفت کرنے لگا تو پھر کیا ہوگا اس لیے بعض اہل علم نے کہا کہ لطیف کا ایک معنی مہربان بھی ہے کہ وہ خبیر ذات جس طرح اپنے علم و آگہی میں مکمل ہے اسی طرح اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ اس کی مہربانیاں بندوں کی کمزوریوں کو ہمیشہ نظر انداز فرماتی ہیں۔ شاید اسی تصور میں ڈوب کر کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا ؎ جے میں ویکھاں عملاں ولے کجھ نئیں میرے پلے جے ویکھاں تیری رحمت ولے بلے بلے بلے غور فرمایئے ! سلسلہ بیان کس طرح قدم قدم آگے بڑھ رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے اس کلام کے مخاطب ایک ایسے متکلم کے سامنے ہیں جو ان سے انتہا درجے کی ہمدردی اور غمگساری کا جذبہ رکھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ میں اپنے مخاطبوں کو وہ آب حیات ضرور پلا دوں جو ان کے لیے زندگی بخش ہے اور جس سے دور رہ کر یہ لوگ ہلاکت کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس لیے وہ نہایت رحمت و رأفت سے فطری اصول کے مطابق اپنی گفتگو کے اسالیب بار بار بدلتا ہے۔ دل کے خیالات کو بدلنے کے لیے دلائلِ آفاق اور دلائل انفس سے کام لیتا ہے اور عقل کو سپرانداز کرنے کے لیے الزامی طرز تکلم اختیار کرتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے مخاطب کے احساسات کو بار بار کچوکے دے کر راہ راست اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے احساسات کو چھیڑ کر اس کے انجام سے اسے باخبر کرتا ہے اور اللہ کے تعلق کے حوالے سے اس کے انفعالی جذبوں کو ہوا دیتا ہے اس طرح زندگی کے تمام پہلو بار بار اس کے خطاب کا ہدف بنتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کسی طرح اپنے مخاطبوں کو اس برے انجام سے بچایا جائے جس کی طرف وہ اپنی جہالت ‘ عصبیت ‘ کور ذوقی ‘ بےعقلی ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسی تمام کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گفتگو کو سمیٹ کر ایک نتیجے پر لانے کے لیے ایک ایسی بات کہی جا رہی ہے جس سے اتمام حجت بھی ہو رہا ہے اور سوچنے کے لیے کچھ لمحے میسر بھی آرہے ہیں۔ ارشاد فرمایا جا رہا ہے :
Top