Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ
: نئی طرح بنانے والا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَنّٰى
: کیونکر
يَكُوْنُ
: ہوسکتا ہے
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: بیٹا
وَّلَمْ تَكُنْ
: اور جبکہ نہیں
لَّهٗ
: اس کی
صَاحِبَةٌ
: بیوی
وَخَلَقَ
: اور اس نے پیدا کی
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر چیز
وَهُوَ
: اور وہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کے اولاد کہاں سے آئی جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
تمہید گزشتہ رکوع میں اللہ کے خالق کائنات ہونے اور اس کی وحدانیت پر دلائل آفاق اور دلائل انفس ہم نے پڑھے جن کی روشنی میں اللہ کو اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لا شریک ثابت کیا گیا اور اس قدر آسان انداز میں یہ دلائل دیئے گئے کہ معمولی عقل کا آدمی بھی اللہ کی وحدانیت میں شک وشبہ کا شکار نہیں ہوسکتا۔ بایں ہمہ ! مشرکین عرب کی کوتاہ فکری اور خست نظر کا عالم یہ تھا کہ اتنے واضح اور مضبوط دلائل سن کر بھی انھوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے ایک غیر مرئی مخلوق جس کی طرف کوئی بہت قابل تعریف اعمال بھی منسوب نہیں کیے جاتے کو اللہ کا شریک بنا ڈالا اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیوں کے قائل ہوگئے اور ان سے مرادیں مانگنے لگے۔ اس پس منظر میں پیش نظر آیت کریمہ پر ایک اور پہلو سے اللہ کے وحدہ لا شریک ہونے کے دلائل دیئے جا رہے ہیں اور اس کی ربوبیت اور اس کی عبودیت کو دل و دماغ میں اتارنے کے لیے نہایت موثر پیرایہ اختیار فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌوَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌط وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ ج وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمُٗ ۔ (الانعام : 101) (وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کے اولاد کہاں سے آئی جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے) اللہ تعالیٰ کی کوئی بیوی نہیں ‘ اس لیے اولاد کہاں سے آئی بَدِیْعُ اسم صفت ہے اس کا فعل ماضی بَدَعَ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کو پہلی مرتبہ بغیر کسی نمونے اور بغیر کسی مثال کے عدم سے وجود میں لانا۔ آپ آسانی کے لیے اس کا معنی ایجاد کرنا بھی کرسکتے ہیں یعنی اللہ ایک ایسی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین یعنی پوری کائنات کو ایجاد کیا ہے ‘ وہ اس پوری کائنات کا موجد ہے اس کی اس ایجاد سے پہلے نہ یہ دنیا تھی نہ دنیا کی کوئی چیز صرف اللہ کی ذات تھی جو ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔ جب اس کے اس تخلیقی عمل سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا اور ہر چیز دنیا میں اس کی تخلیق اور ایجاد سے وجود میں آئی ہے تو پھر اس کی ذات کے حوالے سے اولاد کا کیا معنی ؟ اولاد تو اس کی ہوتی ہے جو خود کسی کی اولاد ہو اور جس کو وجود کسی اور نے دیا ہو اور سلسلہ تناسل کے لیے اس عمل کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہ ہو ‘ جب دنیا کی ہر چیز کا وجود اللہ کی صفت تخلیق سے قائم ہے تو پھر کسی بھی مخلوق کو اس کی اولاد تسلیم کرنا یہ اس کی تسلیم کردہ صفت تخلیق کے بالکل خلاف ہے۔ اگر وہ خالق ہے اور وہ ہر چیز کی تخلیق اور ایجاد پر قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے اولاد کی ضرورت ہو یا اس سے اولاد وجود میں آئے اور مزید یہ کہ اگر اولاد کو اسی طرح تصور کیا جائے جس طرح مخلوقات میں اولاد ہوتی ہے تو اس کا تو ایک فطری عمل یہ ہے کہ اولاد کے لیے جس طرح باپ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ماں کا ہونا بھی ضروری ہے یعنی تنہا باپ سے اولاد نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیجئے کہ تنہا کسی شخص سے اولاد نہیں ہوتی۔ میاں بیوی کے فطری ملاپ سے یہ رشتہ وجود میں آتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بھی تصور کیا جائے گا کہ اس کی ایک بیوی بھی ہے اور ایسا تصور کرنا ضروری ہوگا۔ اگر یہ یقین کرلیا جائے کہ اللہ کی کوئی اولاد ہے غنیمت ہے کہ مشرکین میں سے کوئی بھی اللہ کی بیوی ہونے کا قائل نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی گری ہوئی حرکت ہے جس کا اللہ کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اگرچہ جن لوگوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ہیں ان سے اس طرح کی گراوٹ کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ مشرک قوموں نے اپنے دیوتائوں کی ایک نہیں کئی کئی بیویاں ایجاد کر رکھی تھیں اور ان کی طرف ایسے ایسے اعمال منسوب کیے جاتے تھے جس کا انتساب کسی بھی شریف مرد یا شریف عورت کی طرف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اگر یہ ایسی کوئی حرکت اللہ کریم کے بارے میں کر گزرتے تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ غنیمت ہے کہ ایسا کوئی عقیدہ مشرکین میں نہیں پایا جاتا تھا۔ یہاں یہ جو فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر چیز کا خالق ہے اس کے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ کے خالق ہونے کے اعتبار سے اس کی چند مخصوص صفات ہیں جو اسے مخلوق کی صفات سے الگ کرتی ہیں۔ اللہ کی ذات ازلی اور ابدی ہے نہ اس کی ابتداء ہے اور نہ اس کی کوئی انتہا۔ وہ ہر طرح کی جسمانی آلودگی سے پاک ہے وہ اپنے وجود اور قرار کے لیے نہ کسی زمان کا محتاج ہے اور نہ کسی مکان کا ‘ نہ اسے بھوک لگتی ہے نہ پیاس ‘ نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ‘ اس کی کوئی صفت بھی حدود میں محدود نہیں۔ اس کی ذات وصفات ہر طرح کے تشبہہ اور تمثیل سے پاک ہیں۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اللہ کی کوئی اولاد بھی ہے تو یہ بات طے شدہ ہے کہ اولاد اپنی بہت ساری صفات میں اپنے ماں باپ کا عکس ہوتی ہے۔ اس کی جنس اور باپ کی جنس میں یکسانی اور یک رنگی ہوتی ہے اس کی عادات و خصوصیات میں بہت حد تک والدین کے ساتھ ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ اپنی فطری ضرورتوں میں بالکل اپنے باپ کی تصویرہوتی ہے۔ وہ وہی احتیاجات رکھتی ہے جو اس کا باپ رکھتا ہے۔ اس کی ذات وصفات کی وہی حدود ہیں جو اس کے باپ کی ہیں۔ اگر اللہ نہ کرے اس بےہودگی کو قبول کرلیا جائے کہ پروردگار کی کوئی اولاد بھی ہے۔ تو اولاد کو خالق کی صفات سے متصف ماننا پڑے گا اور یا مخلوق کو خالق کی صفات میں شریک ماننا پڑے گا یہ دونوں باتیں چونکہ ناممکن ہیں اس لیے فرمایا کہ اللہ کی اولاد کہاں سے آئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی کوئی اولاد بھی ہو۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کی مخلوق ہے اس لیے جن کو تم اللہ کی اولاد سمجھتے ہو وہ عقلاً اور نقلاً کسی طرح بھی اولاد نہیں ہوسکتے البتہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ بھی انہی صفات سے متصف ہیں اور انھیں احتیاجات کے اسیر ہیں جن احتیاجات میں تم بندھے ہوئے ہو۔ اور جس طرح تم فنا وبقاء کے اصولوں سے وابستہ ہو انہی اصولوں سے وہ بھی وابستہ ہیں۔ جس طرح تم اللہ کے احکام کے پابند ہو اسی طرح وہ بھی اللہ کے احکام کے پابند ہیں اور وہ بھی اسی طرح مخلوقات کا حصہ ہیں جیسے دنیا کی ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ یہ بالکل سامنے کی باتیں ہیں جو معمولی عقل والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان باتوں کو نظر انداز کر کے تم نے اللہ کے شریک کیسے بنا لیے۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اللہ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے اسی طرح وہ ہر چیز کو جاننے والا بھی ہے۔ اس کا علم محدود نہیں بلکہ لا محدود ہے۔ جن باتوں کو دنیا کا بڑے سے بڑا باخبر بھی نہیں جان سکتا۔ اللہ انھیں بھی جانتا ہے۔ قریب اور بعید دیکھنے والے آلات جن چیزوں کا ادراک نہیں کرسکتے ‘ اللہ کے حدود علم میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں بلکہ اس کے علم کی وسعتوں کا عالم یہ ہے کہ جو کام ابھی تخیل کی حدود سے بھی ماورا ہوتا ہے اللہ اسے بھی جانتا ہے ‘ جب اس کے علم کی وسعتوں کا یہ حال ہے تو پھر آخر اسے کسی شریک یا اولاد کی کیا ضرورت ہے۔ نہ اس کی قدرت کی کوئی اتھاہ ہے اور نہ اس کے علم کی کوئی انتہاء۔ تو پھر آخر ایسی کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے لیے اولاد پیدا کرے اولاد تو بڑھاپے کی لاٹھی ہوتی ہے۔ ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے۔ جب باپ کمانے کے قابل نہیں رہتا ‘ اولاد اس کی کفالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہر کمزوری سے پاک ہے تو پھر اس کی اولاد کیوں ہوگی۔ مزید یہ تصور بھی ذہن میں رکھیئے کہ مشرکین مکہ فرشتوں کو جو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے تو یہ نہیں سمجھتے تھے کہ یہ فرشتے کسی کے خالق ہیں ‘ البتہ ان کا خیال یہ تھا کہ بیٹیاں چونکہ باپ کی لاڈلی اور چہیتی ہوتی ہیں اس لیے وہ بہت دفعہ ضد کر کے بہت کچھ منوا لیتی ہیں۔ اللہ چونکہ پوری کائنات کا خالق ومالک ہے اور کائنات کی وسعتیں بےحد و بےکنار ہیں ایک تنہا شہنشاہ اس پوری کائنات کا انتظام کیسے چلا سکتا ہے اور اسے تمام مخلوقات کی ضروریات کا مکمل علم کیسے ہوسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اختیارات میں تقسیم ہو ‘ مختلف اختیارات ‘ مختلف مخلوقات کے حوالے کیے جائیں۔ کائنات کو صوبوں میں تقسیم کیا جائے اور صوبوں کے الگ الگ والی ہوں۔ وہ اپنے اپنے مفوضہ اختیارات سے اپنی اپنی مملکت کا انتظام چلائیں اور دنیا والوں کی ضرورتوں سے اپنے علم کے مطابق اللہ کو آگاہ کریں۔ کیونکہ ایک ایک فرد کے ذاتی احوال کی خبر ایک تنہا اللہ کی ذات کو کیسے ہوسکتی ہے دراصل وہ اللہ تعالیٰ کو بھی ایک عام بادشاہ تصور کرتے تھے جس طرح بادشاہ اپنی مملکت کے بارے میں انتظام وانصرام چلانے اور حالات جاننے میں اپنے گورنرز اور اپنے عمال کے محتاج ہوتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنی بیٹیوں ‘ اپنے بیٹوں ‘ اپنے دیوتائوں اور اوتاروں کا محتاج ہے۔ اس کا غضب جب کسی پر بھڑکتا ہے تو یہ لوگ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب وہ کسی کو پکڑے گا تو یہ اس کے سامنے سفارش کریں گے اور یہ کہہ کر چھڑا لیں گے کہ پروردگار آپ کو اس شخص کے بارے میں صحیح اطلاعات میسر نہیں۔ ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ کو بتایا گیا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے جو ہم آپ کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے چناچہ اس طرح وہ اپنے دامن گرفتہ لوگوں کو اللہ سے چھڑا لیں گے اور دنیا میں بھی جب ان کا کوئی اپنا ان سے مددمانگتا ہے یا ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے تو وہ اللہ سے کہہ کر اس کی ضروریات کو پورا کرا دیتے ہیں کیونکہ اللہ کے علم میں اس کی ضروریات نہیں ہوتیں۔ ایسی ہی غلط باتوں اور بیہودہ خیالات کی تردید کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ جس طرح اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اسی طرح وہ اپنی ہر مخلوق کی ضروریات اس کے اعمال ‘ اس کی قسمت ‘ اس کے مبدا و معاد اور اس کے انجام سے بھی باخبر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا کسی کو جاننے کا دعوے دار بھی وہ کچھ نہیں جانتا جو اللہ کے علم میں ہے۔ آدمی کے سب سے زیادہ قریب اس کی بیوی ہوتی ہے اور اولاد کو سب سے زیادہ ماں باپ جانتے ہیں لیکن یہ سب بھی ایک دوسرے کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے جو اللہ ان کے بارے میں جانتا ہے۔ اس کے علم کی وسعتوں کا تو عالم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب کوہ طور پر نبوت دی گئی اور یہ حکم دیا گیا کہ جاؤ فرعون کے پاس اور اسے سمجھائو کہ وہ راہ راست اختیار کرے کیونکہ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی یا اللہ میں جانے کے لیے تیار ہوں لیکن تھوڑی سے مہلت دی جائے کہ میں ایک پہاڑی درے میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ آیا ہوں ‘ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے نہ ان کے پاس تحفظ کا سامان ہے اور نہ وہ راستے سے باخبر ہیں وہ تو وہیں سردی سے مرجائیں گے۔ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں انھیں کسی محفوظ مقام پر چھوڑ آئوں اور اس کے بعد میں فرعون کے پاس جاتا ہوں۔ پروردگار نے فرمایا کہ موسیٰ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم تمہارے بیوی بچوں سے بیخبر ہیں۔ اس کے بعد حکم دیا کہ جس چٹان پر کھڑے ہو اس پر عصا مارو۔ عصامارنے سے وہ چٹان پھٹی تو اس کے اندر سے ایک اور چھوٹی چٹان برآمد ہوئی۔ پھر حکم ہوا ‘ اس پر بھی عصا مارو۔ تو اس سے ایک بڑا پتھر نکلا اب حکم ہوا کہ اس پر بھی عصا مارو۔ یہ پتھر پھٹا تو اس سے ایک چھوڑا سا جانور نکلا جس کے منہ میں گھاس کی ایک پتی تھی اور وہ اسے کھا رہا تھا۔ پروردگار نے فرمایا موسیٰ تین چٹانوں میں نگاہوں سے دور اس جانور کو بھی ہم جانتے ہیں اور اسے رزق بھی پہنچاتے ہیں تو کیا ہم تیرے بیوی بچوں سے بیخبر ہوں گے۔ اسی لیے قرآن پاک نے ایک اور جگہ اصولی انداز میں فرمایا : اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ” کیا وہ نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا “۔ یعنی جو ہر چیز کا خالق ہے کیا وہ اپنی مخلوق سے بیخبر رہ سکتا ہے جس طرح دریا اپنی موج سے بیگانہ نہیں رہ سکتا اس طرح پروردگار اپنی مخلوق سے بیخبر نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر مخلوق کو بھی جانتا ہے اور اس کی ضروریات کو بھی جانتا ہے۔ اس کو کوئی نہیں بتاسکتا کہ کسی مخلوق کے ساتھ اس کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اور جب قیامت کے دن وہ کسی کو پکڑے گا تو اسے کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ آپ کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔ کیونکہ وہی ایک ذات ہے جس کی اطلاعات اور جس کا علم ہر طرح کی غلطی ‘ ہر طرح کی خطا سے پاک ہے اور جس کے علم پر نارسائی کا کوئی چھینٹا اڑ کر بھی نہیں پڑ سکتا۔ جب وہ ہر چیز کا خالق بھی ہے اور اس کا علم بےپایاں بھی ہے تو پھر اس کے سوا کسی اور کو رب ماننے کا کیا جواز ہے ؟ اس لیے فرمایا :
Top