Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پس جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے ‘ بیٹھے اور لیٹے۔ پھر جب تم مطمئن ہوجائو تو پھر پوری نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مومنوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ج فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ج اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا ” پس جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے ‘ بیٹھے اور لیٹے۔ پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ تو پھر پوری نماز قائم کرو، بیشک نماز مومنوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ “ (النسآء : 103) صلاۃ الخوف میں کمی کی تلافی ذکر اللہ کی کثرت سے جب تم نماز پڑھ چکو سے مراد یہ ہے کہ تم نے خوف کے باعث صلاۃ الخوف پڑھی ہے۔ جس میں امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کی اور باقی ایک ایک رکعت اپنے طور پر اور وہ بھی روا روی میں۔ ایک تو نماز کا قصر کرنا اور پھر اسے بھی غیر مطمئن انداز میں پڑھنا کہ ایک طرف دھیان نماز کی طرف اور دوسری طرف دھیان دشمن کے حملے کی طرف۔ اس سے یقینا طبیعت کی یکسوئی میں فرق آتا ہے اور ذکر اللہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چناچہ ان دونوں باتوں کی تلافی کے لیے دو حکم دیے۔ پہلا حکم تو یہ دیا کہ جب تک جنگ کی کیفیت جاری ہے تمہیں نماز قصر کے ساتھ ساتھ ہر حالت میں اللہ کا ذکر جاری رکھنا چاہیے۔ تم کھڑے ہو ‘ بیٹھے ہو ‘ لیٹے ہو ‘ کوئی وقت بھی اللہ کی یاد سے غفلت میں نہ گزرے۔ تمہارے اعضاء وجوارح دشمن کے دفاع میں مصروف ہوں لیکن تمہاری زبان اور تمہارا دل اللہ کی یاد میں مشغول رہنا چاہیے۔ اسی کا ذکر دلوں کو اطمینان دیتا ہے۔ وہیں سے حوصلے کی دولت ملتی ہے۔ وہی ہے جو قدموں میں استقامت پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی کی ذات ہے جو دشمن کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھانے والی ہے۔ اس لیے اس کی ذات اور اس کے ذکر سے زبان اور دل غافل نہ ہونے پائیں۔ اور دوسرا حکم یہ دیا کہ جب جنگ ختم ہوجائے یا رک جائے اور دشمن کا خطرہ ٹل جائے اور تمہیں اطمینان کی کیفیت محسوس ہو تو اب صلاۃ الخوف نہیں بلکہ تمہیں معمول کی مکمل نماز پڑھنی چاہیے۔ نماز کے پورے ارکان ادا ہونے چاہئیں۔ واجبات و سنن اور آداب صلاۃ کا پورا اہتمام ہونا چاہیے۔ صلاۃ الخوف میں وقت کی پوری پابندی مشکل ہوجاتی ہے لیکن اب تمہیں ہر نماز اپنے وقت پہ ادا کرنا ہوگی۔ کیونکہ وقت کے داخل ہونے سے نماز فرض ہوتی ہے۔ ہر نماز کا وقت اس نماز کی فرضیت کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ نماز فرض کی گئی ہے۔ اس لیے اب اس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ آنحضرت ﷺ کے احکام من جانب اللہ ہیں اس میں ایک بات نہایت توجہ کے لائق ہے وہ یہ کہ یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں پر نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کا ایک وقت مقرر ہے۔ اس کا ایک آغاز ہے اور ایک اختتام ہے۔ سوال یہ ہے کہ نمازوں کے یہ اوقات کس نے مقرر کیے ہیں۔ قرآن کریم نے تو کہیں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ نمازوں کے اوقات اللہ کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں۔ اور اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اوقات کی پابندی کے ساتھ مسلمانوں پر نماز اللہ نے فرض فرمائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نمازوں کے جو اوقات مقرر کیے اور مسلمانوں پر انھیں فرض فرمایا وہ بعینہٖ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ فریضہ ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کریم میں اور بھی بعض جگہ فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ دین کے معاملے میں جو بھی حکم دیتے ہیں وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ کی جانب سے دیتے ہیں۔ اور اس حکم کی اطاعت اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔
Top