Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
اور جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے، بیشک اس کا عذاب بالکل چمٹ جانے والی چیز ہے
وَالَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ صلے ق اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا۔ اِنَّھَا سَـآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۔ (الفرقان : 65، 66) (اور جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے، بیشک اس کا عذاب بالکل چمٹ جانے والی چیز ہے۔ بیشک وہ نہایت برا مستقر اور نہایت ہی برا مقام ہے۔ ) عبادت ان میں نیکی کا پندار پیدا نہیں کرتی غور فرمایئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جب چلتے ہیں تو ان کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے خوف سے گراں بار ہوتا ہے۔ انسانیت کے مقام کو سمجھنے کی وجہ سے نہایت عاجزی سے چلتے ہیں۔ ان کا سر اللہ تعالیٰ کے خوف سے جھکا رہتا ہے اور ان میں عاجزی اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور انسانوں میں برابری کے تأثر کے باعث نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو کبھی بولنے میں پہل نہیں کرتے۔ اپنے ایک ایک بول کو کل کا تول سمجھ کر نہایت احتیاط کرتے ہیں اور جہالت پر اترے ہوئے لوگوں سے اگر سابقہ پڑجائے تو وقت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتے ہوئے ضائع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ گویا ان کے ایک ایک قدم پر اور ان کی زبان سے نکلنے والے ہر ہر لفظ پر جواب دہی کا احساس غالب رہتا ہے اور مزید یہ کہ دن بھر کلمہ حق کی سربلندی اور دین کی تبلیغ و دعوت میں صرف کرنے کے بعد جب رات کو بستر پر لیٹتے ہیں تو نیند میں ڈوب نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ سے بےپناہ محبت اور اس سے غائت درجہ تعلق کی وجہ سے بار بار عبادت کے لیے اس کے دربار میں کھڑے ہوتے اور عاجزانہ التجائیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جہنم میں ڈالے گا۔ اگر اس طرح کے لوگ جہنم میں جائیں گے تو پھر جنت میں جانے والا کون ہوگا ؟ لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنی تمام تر نیکیوں، عبادتوں، ریاضتوں اور اللہ تعالیٰ سے قرب کا رشتہ رکھنے کے باوجود کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتے کہ ہماری یہ صفات جنت میں جانے کی ضمانت بن سکتی ہیں۔ ان کا تقویٰ ان کے اندر نیکی کا پندار پیدا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت میں ہزار محنت کرے اور جان مارے لیکن وہ اس قابل کبھی نہیں ہوسکتی کہ جنت کا حصول یقینی ہوجائے۔ انسان کبھی اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ عبادت کے دوران میرے نفس نے کبھی خیانت نہیں کی۔ میرے خیالات ہمہ تن یکسوئی کی تصویر بنے رہے۔ میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غفلت کا شکار نہیں ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اس قدر عظیم ہے کہ وہاں بڑی سے بڑی عبادت اور بڑی سے بڑی اطاعت کو بھی بار ملنا یقینی نہیں ہے۔ ان اعتقادات کے باعث وہ اپنی انتہائی پاکیزہ زندگی کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعا کرتے رہتے ہیں کہ الٰہی ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا۔ وہ جانتے ہیں کہ جہنم کا عذاب ایک ایسی چمٹ جانے والی چیز ہے کہ اس سے پیچھا چھڑا ناممکن نہیں ہوگا۔ اس سے بچنے کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا ہے اسی زندگی میں کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کا فضل ہی ایک مومن کے لیے جائے پناہ ہے۔ جب تک وہ میسر نہیں تب تک بھروسے کی کوئی بات نہیں۔ غَرَامًا … ہمیشہ رہنے والا جو کبھی جدا نہ ہو۔ قرض خواہ کو غریم اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قرضہ لیے بغیر جان نہیں چھوڑتا۔ مستقر اور مقام کا مفہوم اِنَّھَا سَـآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۔ مستقر اور مقام ہم معنی الفاظ کی حیثیت سے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن جب یہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوں تو پھر ان کے درمیان کچھ نہ کچھ فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ مستقر، مستقل قیام گاہ کو کہتے ہیں اور مقام عارضی جائے قیام کو۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جہنم ایک ایسی ہولناک جگہ ہے جسے نہ مستقر بنایا جاسکتا ہے اور نہ مقام۔ یعنی اس میں مستقل طور پر ٹھہرنا اور قرار پکڑنے کا تو خیر کیا سوال ہے، وہ تو ایسی تکلیف کی جگہ ہے جس میں آدمی ایک لمحہ گزارنا بھی پسند نہ کرے۔ یہ بات شاید اس لیے فرمائی گئی ہے کہ بعض مقامات مختصر قیام کے لیے تو گوارا ہوتے ہیں لیکن مستقل قیام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ریلوے سٹیشن کی انتظار گاہیں یا ہَوائی اڈوں کی انتظار گاہیں۔ مختصر وقت کے لیے انتظار میں بیٹھنا ایسی جگہ میں گراں نہیں گزرتا بلکہ وہاں بڑی سہولتیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کسی کو اسے رہائش گاہ بنانے کے لیے کہا جائے تو کبھی کوئی تیار نہیں ہوتا، کیونکہ گاڑیوں اور جہازوں کا شور انسان کے لیے اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے جس سے بہت سے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔
Top