Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 64
وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور جو يَبِيْتُوْنَ : رات کاٹتے ہیں لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے لیے سُجَّدًا : سجدے کرتے وَّقِيَامًا : اور قیام کرتے
اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں
وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ (الفرقان : 64) (اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ ) عبادالرحمن کے تعارف میں پہلے ان کی رفتار کا ذکر کیا، پھر گفتار کا اور اب کردار کے ذکر کا آغاز کیا جارہا ہے۔ اور کردار کے ذکر میں سب سے پہلے ان کی راتوں کی زندگی کا حوالہ دیا گیا ہے اور اسے ایسے خوبصورت پیرایہ میں ذکر کیا گیا ہے جس سے ان کی جلوت اور خلوت دونوں روشنی میں آجاتی ہیں۔ تیسری صفت عبادالرحمن کا کردار اور خلوت کی زندگی انسان کی زندگی شب و روز کے معمولات سے عبارت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان معمولات کی انجام دہی میں میں رفتار اور گفتار بھی شامل ہیں اور زندگی کے بنائو سنوار میں ان کا بھی ایک رول ہے۔ لیکن اگر یہ دیکھنا ہو کہ کسی شخص یا کسی گروہ کی زندگی پر اصل چھاپ کس چیز کی ہے، اس کی ترجیحات میں کسے اولیت حاصل ہے اور اس کے تصورات، خیالات اور احساسات میں کون سی چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ تو اس کے ان معمولات کو دیکھنا چاہیے جو دن کی ہمہ ہمی اور حصول روزگار کی رواروی سے فراغت کے بعد رات کی مجالس یا رات کی تاریکی میں سرانجام پاتے ہیں۔ ایک عیاش آدمی فراغت کے لمحات میسر آتے ہی شبینہ مجالس اور نائٹ کلبوں کا رخ کرتا ہے۔ زندگی کے مقاصد سے بےنیاز شخص چاریاری، گپ بازی اور تفریح گاہوں میں وقت گزارنا پسند کرتا ہے۔ علم کا شوق رکھنے والا فراغت کو مطالعہ اور علمی تجسس میں صرف کرتا ہے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے مالامال، اس کے خوف سے گراں بار اور زندگی کے مقاصد سے بہرہ ور اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا طلبگار ہے وہ رات کے بیشتر لمحات کو عبادت میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسی سے دل و دماغ کی تربیت ہوتی ہے، اسی سے بندگی کو جلا ملتی ہے، اسی سے عبدیت حقیقی معراج سے ہمکنار ہوتی ہے اور اسی سے انسان اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا مضبوط تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جس کے بعد دنیا کی ہر طاقت اس کی نظروں میں ہیچ ہوجاتی ہے۔ چناچہ عبادالرحمن کے کردار کی اصل پہچان، اصل رخ اور اصل جہت کو واضح کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ ان کی راتیں سجدہ اور قیام میں بسر ہوتی ہیں۔ سجدہ و قیام کا ذکر جس اسلوب میں کیا گیا ہے اس سے وہ شوق و اضطراب جھلکتا ہے جو ان کی عبادت میں پایا جاتا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف فرض نمازیں نہیں بلکہ وہ کیفیت مراد ہے جو ایک مردمومن کو قیام اللیل میں نصیب ہوتی ہے اور جس کو اقبال نے بیان کرتے ہوئے کہا : مرے دیدہ تر کی بےخوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بےتابیاں مرے نالہ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ عبادالرحمن کی اگر راتیں سجدہ و قیام میں گزرتی ہیں تو وہ آرام کس وقت کرتے ہیں جبکہ رات کی نیند اور آرام انسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر قوت کارکردگی بحال نہیں ہوتی اور انسان کی زندگی دشوار ہوجاتی ہے۔ سجدہ و قیام میں راتوں کا گزرنا یہ درحقیقت ان کی زندگی کی اولیں ترجیح اور زندگی کے غالب رویئے کی ایک تعبیر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی ماں کا اکلوتا بیٹا جو اس کی زندگی کا واحد سہارا ہو، بیمار پڑجائے تو وہ اگرچہ چولہا بھی جھونکتی ہے، پیٹ کا جہنم بھی بھرتی ہے، آرام بھی کرتی ہے لیکن اس کی توجہ تمام تر بیٹے کی طرف لگی رہتی ہے تو اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ شب و روز اپنے بیٹے کی تیمارداری اور غمگساری میں مصروف رہتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وقت نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے اور نہ آرام کرتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا غم بچے کی بیماری اور اس کا اصل ہدف بچے کی تیمارداری ہے۔ یہاں بھی عبادالرحمن کے ہدف کو متعین کیا گیا ہے، ان کی زندگی کے اصل روپ کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اور ان کی اصل پہچان جس میں ان کا کردار جھلکتا ہے اس کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
Top