Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
البتہ ! جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْٓئَتُہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃ ِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 81 تا 82) (البتہ ! جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے، تو وہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) نجات اور عدم نجات کا قانون یہود نے نجات کے لیے جس طرح صرف نسبی انتساب کو کافی سمجھ لیا تھا اور باقی اہل مذاہب بھی اسی طرح کی متنوع گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ ان سب کی تردید کے لیے یہاں نجات اور عدم نجات کا اصل قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ تم کس نسل یا کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو تمہارا رنگ کس طرح کا ہے، تمہاری مالی حیثیت کیسی ہے، اس کے یہاں تو صرف ایک چیز قابل قبول ہے وہ ہے ایمان اور عمل۔ جن حقیقتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان پر ایمان لانا اور جن احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ان پر عمل کرنا یہ نجات کا ذریعہ ہے اور اسی پر نجات کا دارومدا رہے۔ البتہ جس شخص یا جس گروہ نے اللہ کی نافرمانی اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا اور پھر اس معصیت اور نافرمانی نے پوری طرح اسے اپنے گھیرے میں لے لیا کہ ایمان کا نور باقی رہا اور نہ فرمانبرداری کی آمادگی۔ یہ شخص جہنم کا ایندھن بنے گا۔ الفاظ پر غور کیجئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خَطِیْـٓـئَـتُـہٗ سے مراد ہر بدی اور نافرمانی نہیں بلکہ ایسی بدی اور ایسی معصیت جو بدی کرنے والے کو اپنے گھیرائو میں لے لے اور پوری طرح اسے ایمانی اور شرعی زندگی سے تہی دامن کر دے۔ وہ حرام کمائی کا ارتکاب کرنے لگے تو حلال کی پابندیوں کو ماننے سے انکار کردے، وہ تجدد کا شکار ہو تو ایمان کی پابندیوں کو رجعت پسندی خیال کرنے لگے۔ وہ اسلام کو اللہ اور بندے کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر پوری زندگی کو اس سے خارج کردے۔ اپنی معاشرت، معیشت، سیاست، تہذیب، تمدن، تعلیم اور قانون ہر چیز کو اسلام سے نہیں بلکہ اپنی پسند سے اختیار کرنا کافی سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرلینا میری نجات کے لیے کافی ہے باقی زندگی کے تمام معاملات میں، میں آزاد ہوں جس طرح چاہوں اس میں رویہ اختیار کروں۔ یہ وہ راستہ ہے جو انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور ایمان وعمل کی پابندی وہ راستہ ہے جو انسان کو جنت کی طرف لے جاتا ہے۔ پہلے راستے پر زندگی بھر چلنے والاہمیشہ جہنم میں رہے گا اور دوسرے راستے پر استقامت سے چلنے والاانشاء اللہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔ یہ وہ اصل الاصول ہے جس پر انسان کی نجات اور عدم نجات کا دارومدار ہے۔
Top