Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : در حقیقت حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : سور وَمَآ : اور جو اُهِلَّ : پکارا گیا بِهٖ : اس پر لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنے والا وَّلَا : اور نہ عَادٍ : حد سے بڑھنے والا فَلَا : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا ہے
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے حرام کیا ہے تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا، پھر جو کوئی مجبور ہوجائے اور وہ خواہشمند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَـآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَـلَا اِثْمَ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (البقرۃ : 173) (اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے حرام کیا ہے تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا، پھر جو کوئی مجبور ہوجائے اور وہ خواہشمند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے) ملتِ ابراہیم میں حلال و حرام روئے سخن مشرکین کی طرف ہے کہ تم نے جس طرح تحلیل وتحریم کا حق جو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اپنے لیے مباح کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں تم نے کتنی حلال نعمتیں ہیں جو حرام کر ڈالی ہیں اور کتنی حرام چیزیں ہیں جو اپنے لیے حلال کرلی ہیں۔ اور اس پر طرّہ یہ ہے کہ تم اپنی اس خانہ ساز شریعت کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہو۔ اور تم بات بات پر ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔ حالانکہ ملت ابراہیمی میں جو چیزیں حرام کی گئی تھیں وہ صرف وہ تھیں جو پیش نظر آیت میں ذکر کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی چیزیں تم نے خود حرام کر ڈالی ہیں اس کا ملت ابراہیم سے تو کوئی تعلق نہیں۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ اس آیت کریمہ اور بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے اور یا وہ خواہشاتِ نفس کے تحت اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام میں جو چیزیں حرام کی گئی ہیں وہ صرف وہ ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ یا سورة انعام کی ایک آیت میں اس سے بھی زیادہ وضاحت سے فرمایا گیا ہے۔ قُلْ لَّااَجِدُ فِیْ مَا اُوْحِیَ اِلیَّ مُحَرَّماً عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّا اَنْ یَّـکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَماً مَّسْفُوْحاً اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّـہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقاً اُہِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ بِہٖ ” کہہ دو ! مجھے جو وحی کی گئی ہے اس میں تو کسی کھانے والے کے لیے بجز اس کے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا کہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سور کا گوشت یہ چیزیں ناپاک ہیں یا پھر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی چیز کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کردیاجائے۔ “ (145) اس آیت کریمہ کے اگر سیاق وسباق کو سامنے رکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں یہ نہیں بتایا جارہا کہ اسلامی شریعت میں کیا چیزیں حلال ہیں اور کیا حرام ہیں ؟ بلکہ صرف یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ تم نے ملت ابراہیم کا نام لے لے کر جن چیزوں کو حرام کررکھا ہے ان کا ملت ابراہیم سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملتِ ابراہیم میں اگر کوئی چیزیں حرام تھیں تو وہ صرف چار چیزیں ہیں، جن کا ان دونوں آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اگر ان آیات کو شریعتِ اسلامی کے حوالے سے دیکھا جائے کہ یہی چار چیزیں اسلامی شریعت میں حرام ہیں اور اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔ تو یہ بات قرآن کریم کی دوسری آیات کے صریحاً خلاف ہے۔ مثال کے طور پر دیکھئے ! ان دونوں آیتوں میں میتۃ یعنی مردار کو حرام کیا گیا ہے۔ اور اس کی جو تفصیل سورة مائدہ میں بیان کی گئی ہے اس میں مزید سات چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ اَلْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبْعُ اِلَّامَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَـقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط بعض دوسری آیات میں اور بھی بعض چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ اس لیے ان آیات سے یہ سمجھنا کہ اسلامی شریعت میں صرف یہی چیزیں حرام ہیں سراسر قرآن کریم کی وضاحتوں کے خلاف ہے۔ ان آیات کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم نے عرض کیا کہ مشرکین سے کہا جارہا ہے کہ ملت ابراہیم میں تو صرف یہ چیزیں حرام ہیں باقی چیزوں کو تم نے کیسے حرام کرڈالا ؟ جبکہ حرام و حلال کا فیصلہ کرنا اللہ کی صفت ہے اور تم نے اپنے آپ کو اور یا اپنے بتوں کو اللہ کی صفات سے متصف کرڈالا۔ اس سے بڑا شرک اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اب ہم ان چیزوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں جنھیں اس آیت کریمہ میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ وہ چار چیزیں ہیں۔ 1۔ میتۃ ” مردار “ 2۔ خون، 3۔ لحم خنزیز، 4۔ وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان چاروں چیزوں کی جو تشریحات قرآن و سنت میں دی گئی ہیں ہم نہایت اجمال سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میتۃ۔ اس سے مراد ہر وہ مردہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے لیے شریعت نے ذبح کرنے کی شرط لگائی ہے۔ جتنے بھی حلال جانور ہیں ہم انھیں اسلامی طریقے سے اگر ذبح کرلیں تو ہمارے لیے حلال ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ذبح کے بغیر طبعی یا غیر طبعی موت مرجائیں تو وہ مردار کہلاتے ہیں۔ البتہ دو طرح کے مردار ہیں جو اسلامی شریعت نے ہمارے لیے حلال ٹھہرائے ہیں۔ وہ تمام آبی جانور جنھیں شریعت نے حلال ٹھہرایا ہے ان کا مردار بھی ہمارے لیے حلال ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے : اُحِلَّ لَـکُمْ صَیْدُالْـبَحْرِ ” تمہارے لیے سمندر کا شکار حلال کردیا گیا ہے “۔ اس کے لیے ذبح کرنا کوئی ضروری نہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ہمارے لیے دو مردار حلال کردیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسرا ٹڈی۔ “ مچھلی تو خشکی پر آکر تھوڑی دیر کے بعد مرجاتی ہے۔ ٹڈی اگرچہ خشکی پر مرتی نہیں لیکن اسے بھی بغیر ذبح کیے آپ پکا کر یا بھون کر کھاسکتے ہیں۔ ہاں ! البتہ مچھلی سڑکر پانی کے اوپر آجائے تو پھر وہ حرام ہوجاتی ہے۔ مردار کا جس طرح گوشت کھانا حرام ہے اسی طرح اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔ یہی حال تمام نجاستوں کا ہے۔ جس طرح ان کا استعمال حرام ہے اسی طرح ان کی خریدوفروخت اور ان سے نفع اٹھانا بھی حرام ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ مردار جانور یا کوئی بھی ناپاک چیز خود تو مسلمان استعمال کر ہی نہیں سکتا، البتہ اس کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی جانور کو کھلائے۔ جانور اپنے طور پر گندگی کھالیں جیسے مرغیاں نالیوں سے گندگی کھاتی رہتی ہیں، لیکن کسی مسلمان کے لیے اپنے اختیار سے کسی جانور کو گندگی کھلانا جائز نہیں۔ مجھے اس بات سے خیال گزرتا ہے کہ ہم جن مرغیوں کا گوشت کھاتے ہیں انھیں جو خوراک بڑے اہتمام سے ڈربوں میں بند رکھ کر کھلائی جاتی ہے، اس میں تو نہ جانے کتنی گندگیاں شامل ہوتی ہیں اور مردار کی کیا کیا آلودگیاں اس میں شامل کی جاتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اس بارے میں ہمارے فقہاکرام کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ وہ مرغی جو آزادانہ باہر گھوم پھر کر ہر اچھی اور گندی چیز غذا کے طور پر کھاتی ہے اس کے لیے علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا گوشت کھانے کا ارادہ ہو تو اسے ایک دو دن گھر میں بند رکھنا چاہیے۔ تاکہ اس کی گندی غذا کا اثر دو رہوجائے۔ لیکن جو مرغیاں نہایت گندہ خوراک سے پالی جاتی ہیں ان کے لیے کیا احتیاط کی جائے ؟ میتۃ سے متعلق احکام کی وضاحت اس آیت کریمہ میں میتۃ کے حرام ہونے کا حکم عموم کے ساتھ دیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میتۃ کے تمام اجزا کا استعمال حرام ہے۔ لیکن دوسری آیت کریمہ کے ایک جملے نے اس کی وضاحت فرمادی ہے یا اس عموم میں خصوص پیدا کردیا ہے۔ دوسری آیت میں عَلَی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ کا جملہ شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردار جانور کے وہ اجزا حرام ہیں جو کھانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے مردار جانور کی ہڈی، بال، اون، جو کھانے کی چیزیں نہیں، یہ سب پاک ہیں اور ان کا استعمال بھی جائز ہے۔ قرآن کریم نے ایک اور جگہ جانوروں کے بال اور ان کے اون کو مطلقاً حلال اور جائز الانتفاع ٹھہرایا ہے۔ اون اور بالوں کی طرح ہڈی سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اسے کھانے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے آپ کو تعجب ہو کہ ہڈی کو کھانے میں کون استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ ہڈی کا برادہ اور اس کا پوڈر مختلف غذائوں میں استعمال ہورہا ہے اور یہ جیلی نام کی چیزجو گھروں میں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے، اس کے استعمال میں مردار کی ہڈیاں تک استعمال ہوتی ہیں۔ اللہ کی پناہ ! آج کے دور میں حلال و حرام کی پہچان کس قدر مشکل ہوگئی ہے۔ کھال میں چونکہ خون وغیرہ کی نجاست شامل ہوتی ہے اس لیے اسے دباغت سے پہلے حرام قرار دیا گیا ہے اور دباغت دینے کے بعد وہ حلال اور جائز ہے۔ اسی طرح مردار جانور کی چربی اور اس سے بنائی ہوئی چیزیں بھی حرام ہیں، ان کا استعمال یکسر ممنوع ہے اور خریدوفروخت بھی حرام ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ابوسعید خدری، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اجمعین اور بعض دوسرے صحابہ ( رض) نے مردار کی چربی کو صرف کھانے کے لیے حرام قرار دیا ہے، خارجی استعمال کے لیے اس کی اجازت دی ہے۔ اس لیے اس کی خریدوفروخت کو بھی جائز رکھا ہے۔ (جصاص) لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ جو کچھ کہا جارہا ہے یہ ان حلال جانوروں کے بارے میں ہے جو بغیر ذبح کے کسی دوسرے طریقے سے مرجانے کی وجہ سے حرام ہوئے ہیں۔ رہے وہ جانور جو اپنی ذات میں حرام ہیں جیسے تمام درندے، تمام شکاری جانور، تمام مکروہ جانور، یا وہ جانور جن کو نجس العین قرار دیا گیا ہے جیسے کتا یا خنزیر وغیرہ ان کی کوئی چیز بھی حلال نہیں۔ ان کی ہر طرح کی خریدوفروخت ناجائز ہے۔ ان کی حرمت کا تعلق صرف کھانے پینے سے نہیں بلکہ ہر طرح کے استعمال سے بھی ہے۔ اَلدَّم۔ دوسری چیز جس کو حرام کیا گیا ہے، وہ دم ” خون “ ہے۔ اس آیت کریمہ میں دم کا لفظ مطلق استعمال ہوا ہے۔ لیکن سورة انعام میں اس کے ساتھ مسفوح کا لفظ بھی آیا ہے۔ دمامسفوحا کا معنی ہے ” بہتا ہوا خون “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر وہ خون حرام کی گیا ہے جس میں بہنے کی صلاحیت ہو، جو جانور کے ذبح ہونے کے بعد خود بخود نکلتا ہے۔ لیکن جو خون جانور کے بعض حصوں سے الگ نہیں ہوتا یا دھونے سے ختم نہیں ہوتاوہ حرام نہیں۔ خرگوش کا گوشت دھوتے رہئے پانی میں اس کے خون کی آمیزش ختم نہیں ہوگی۔ اس لیے ایک حد تک دھونے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر اس کے اندر کوئی خون رہ جاتا ہے تو وہ حلال ہے۔ اس لیے حضور نے فرمایا :” ہمارے لیے دو خون حلال کردیئے گئے ہیں، جگر اور طحال یعنی تلی۔ “ اسی طرح مچھر، مکھی، کھٹمل وغیرہ کا خون بھی ناپاک نہیں۔ کھایا تو نہیں جاتا لیکن اس سے کپڑا پلید نہیں ہوتا۔ ہاں اگر مقدار بڑھ جائے تو اسے دھو ڈالنا چاہیے۔ جس طرح خون کا کھانا پیناحرام ہے اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے۔ جس طرح تمام نجاسات کی خریدوفروخت اور اس سے نفع اٹھانا حرام ہے اسی طرح خون کی خریدوفروخت بھی حرام ہے اور اس سے حاصل کی گئی آمدنی بھی حرام ہے۔ انسان کی اصل تربیت اللہ سے تعلق اور شرعی احکام کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں مذہب بےاثر ہوگیا ہے اور انسان نے اپنی ذات یا اپنے مفادات کو خدا کی طرح پوجنا شروع کردیا ہے اور اس کے ذہن سے یہ بات نکل گئی ہے کہ میں اپنی ذات کو بھی اللہ کے دئیے ہوئے شعور سے ہٹ کر سمجھنے پر قادر نہیں ہوں وہیں وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ معیارات بدل گئے ہیں غور و فکر کے انداز بگڑ گئے ہیں، حتی کہ انسانی ذوق تک بہک گیا ہے۔ انسان کی فطرتِ سلیمہ ہمیشہ طیبات کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ہرگندی چیز سے اسے گھن آتی ہے اسی لیے اسلامی شریعت نے خبائث کو حرام قرار دیا ہے۔ لیکن تعجب ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے مہذب لوگ جو مدبر بھی مانے جاتے ہیں اور انھیں اپنی تہذیب پر بڑ افخر ہے۔ وہ اپنا پیشاب تک پیتے ہیں۔ ہندوستان کا ایک وزیراعظم بڑے شوق سے یہ حرکت کرتا تھا اور اخباری نمائندوں کو ترغیب دیتا تھا۔ انتڑیاں او خون جو خبائث میں شامل تھے کتنے مہذب ملک ہیں جن کے نہایت تعلیم یافتہ لوگ ان دونوں کو اپنی غذا میں شامل کرچکے ہیں۔ انتڑیوں میں خون بھر کر انھیں روسٹ کرلیا جاتا ہے اور پھر کاٹ کاٹ کر بڑے مزے سے کھایا جاتا ہے۔ زندہ جانوروں کے بھیجے تک اس طرح کھائے جاتے ہیں کہ جانور شکنجے میں جکڑا ہوانیچے تڑپ رہا ہوتا ہے اور صاحب بہادر بڑے شوق سے اسے تناول فرما رہے ہوتے ہیں۔ لحم الخنزیر۔ تیسری چیز جو اس آیت میں حرام کی گئی ہے وہ لحم خنزیر ہے۔ آیت میں حرمت خنزیر کے ساتھ لحم کی قید ذکر کی گئی ہے۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے مقصودگوشت کی تخصیص نہیں بلکہ اس کے تمام اجزا ہڈی کھال، بال، پٹھے سب ہی بالاجماع امت حرام ہیں۔ لیکن لحم کا لفظ بڑھاکر اشارہ اس طرف ہے کہ خنزیر دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ وہ ذبح کرنے سے پاک ہوسکتا ہو۔ اگرچہ کھانا حرام ہی رہے کیونکہ خنزیر کا گوشت ذبح کرنے سے بھی پاک نہیں ہوتاکیون کہ نجس العین بھی ہے اور حرام بھی ہے۔ صرف چمڑا سینے کے لیے اس کے بال کا استعمال حدیث میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ : چوتھی چیز جو حرام کی گئی ہے وہ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ ” وہ جانور جو غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو “ ، جس کی تین صورتیں متعارف ہیں۔ ہم اس کی تفصیل معارف القرآن سے نقل کرتے ہیں۔ اول یہ کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے۔ یہ صورت باتفاق وباجماعِ امت حرام ہے اور یہ جانور میتۃ ہے۔ اس کے کسی جز سے انتفاع جائز نہیں کیونکہ یہ صورت آیت مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ کا مدلول صریح ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو تقرب الیٰ غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جائے یعنی اس کا خون بہانے سے تقرب الیٰ غیر اللہ مقصود ہو لیکن بوقت ذبح اس پر نام اللہ ہی کا لیا جائے جیسے بہت سے ناواقف مسلمان بزرگوں، پیروں کے نام پر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بکرے، مرغے وغیرہ ذبح کرتے ہیں لیکن ذبح کے وقت نام اس پر نام اللہ ہی کا پکارتے ہیں یہ صورت بھی باتفاق فقہا حرام اور مذبوحہ مردار ہے۔ مگر تخریج دلیل میں کچھ اختلاف ہے، بعض حضرات مفسرین وفقہا نے اس کو بھی مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کا مدلول صریح قرار دیا ہے، جیسا کہ حواشی بیضاوی میں ہے : فکل مانودی علیہ بغیراسم اللہ فھوحرام وان ذبح باسم اللہ تعالیٰ حیث اجمع العلماء لو ان مسلما ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحہ التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (ہر وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام پر کردیا گیا وہ حرام ہے۔ اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو۔ اس لیے علماء و فقہاء کا اتفاق ہے کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لیے اگر کوئی مسلمان ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجاوے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ کہلائے گا) نیز درمختار کتاب الذبائح میں ہے۔ ذبح لقدوم الامیر ونحوہ کو احد من العظماء یحرم لانہ اھل بہ لغیر اللہ ولو ذکراسم اللہ واقرہ الشامی (ص : 214 ج : 5) (کسی امیریا بڑے کے آنے پر جانور ذبح کیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ وہ مَـآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ میں داخل ہے اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اور شامی نے اس کی تائید کی ہے) بعض حضرات نے اس صورت کو مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کا مدلول صریح تو نہیں بنایا کیونکہ وہ بحیثیت عربیت تکلف سے خالی نہیں۔ مگر بوجہ اشتراک علت یعنی تقرب الی غیر اللہ کی نیت کے اس کو بھی مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کے ساتھ ملحق کرکے حرام قرار دیا ہے۔ احقر کے نزدیک یہی وجہ احوط اور اسلم ہے۔ نیز اس صورت کی حرمت کے لیے ایک مستقل آیت بھی دلیل ہے، یعنی وَمَاذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ ، نصب ان تمام چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کی باطل طور پر پرستش کی جاتی ہے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جس کو معبودات باطلہ کے لیے ذبح کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وَمـَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ما اھل کا مدلول صریح تو وہی جانور ہے جس پر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا اور ذُبِحَ عَلَی النُّصُباس کے بالمقابل آیا ہے جس میں غیر اللہ کے نام لینے کا ذکر نہیں صرف بتوں وغیرہ کی خوشنودی کی نیت سے ذبح کرنا مراد ہے۔ اس میں وہ جانور بھی داخل ہیں جن کی ذبح تو کیا گیا ہے غیر اللہ کے تقرب کے لیے مگر بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (افادہ شیخ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی (رح ) امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے، ان کی عبارت یہ ہے : وجرت عادۃ العرب بالصیاح باسم المقصود بالذبیحۃ وغلب ذلک فی استعمالھم حتی عَبَّربہ عن النیۃ اللتیھی علۃ التحریم (تفیسر قرطبی ص 207 ج 2) (عرب کی عادت تھی کہ جس کے لیے ذبح کرنا مقصود ہوتاذبح کرنے کے وقت اس کا نام بلند آواز سے پکارتے اور یہ رواج ان میں عام تھا یہاں تک کہ اس آیت میں تقرب الی غیر اللہ کو جو کہ اصل علت تحریم ہے اہلال کے لفظ سے تعبیر کردیا) امام قرطبی نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد صحابہ کرام میں سے دو حضرات حضرت علی المرتضیٰ ( رض) اور حضرت صدیقہ عائشہ ( رض) کے فتاویٰ پر رکھی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے زمانہ میں فرزدق شاعر کے باپ غالب نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا جس پر کسی غیر اللہ کا نام لینے کا کوئی ذکر نہیں۔ مگر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس کو بھی مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ میں داخل قراردے کر حرام فرمایا اور سب صحابہ کرام نے اس کو قبول کیا، اسی طرح امام مسلم کے شیخ یحییٰ بن یحییٰ کی سند سے صدیقہ عائشہ ( رض) کی ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس کے آخر میں ہے کہ ایک عورت نے حضرت صدیقہ سے سوال کیا کہ ام المومنین : ہمارے کچھ رضاعی رشتہ دار عجمی لوگوں میں سے ہیں اور ان کے یہاں تو روز بروز کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا رہتا ہے۔ یہ اپنے تہواروں کے دن کچھ ہدیہ تحفہ ہمارے پاس بھی بھیج دیتے ہیں، ہم اس کو کھائیں یا نہیں ؟ اس پر صدیقہ عائشہ ( رض) نے فرمایا : اماماذبح لذلک الیوم فلا تاکلوا ولکن کلوا من اشجارھم۔ (تفسیر قرطبی ص : 207 ج : 2) جو جانور اس عید کے دن ذبح کیا گیا ہو وہ نہ کھائو لیکن ان کے درختوں کے پھل وغیرہ کھاسکتے ہو۔ الغرض یہ صورت ثانیہ جس میں نیت تو تقرب الیٰ غیر اللہ کی ہو مگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اول تو اشتراکِ علت یعنی نیت تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کے حکم میں ہے دوسرے وَمَاذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ کا بھی مدلول ہے اس لیے یہ بھی حرام ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کے کان کاٹ کر یا کوئی دوسری علامت لگا کر تقرب الی غیر اللہ اور تعظیم لغیر اللہ کے لیے چھوڑ دیاجائے، نہ اس سے کام لیں اور نہ اس کے ذبح کرنے کا قصد ہو بلکہ اس کے ذبح کرنے کو حرام جانیں یہ جانور مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ اور وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ دونوں میں داخل نہیں بلکہ اس قسم کے جانور کو بحیرہ یا سائبہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور حکم ان کا یہ ہے کہ یہ فعل تو بنَصِّ قرآن حرام ہے، جیسا کہ آیت مَاجَعَلَ اللُّہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلَاسَآئِبَۃٍ میں انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا۔ مگر ان کے اس حرام عمل سے اور اس جانور کو حرام سمجھنے کے عقیدہ سے یہ جانور حرام نہیں ہوجاتا بلکہ اس کو حرام سمجھنے میں تو ان کے عقیدہ باطلہ کی تائید وتقویت ہوتی ہے، اس لیے یہ جانور عام جانوروں کی طرح حلال ہے۔ مگر شرعی اصول کے مطابق یہ جانور اپنے مالک کی ملک سے خارج نہیں ہوا اس کا مملوک ہے اگرچہ وہ اپنے غلط عقیدہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میری ملک سے نکل کر غیر اللہ کے لیے وقف ہوگیا، مگر شرعاً اس کا یہ عقیدہ باطل ہے۔ وہ جانور بدستور اس کی ملک میں ہے۔ اب اگر وہ شخص خود اس جانور کو کسی کے ہاتھ فروخت کردے یا ہبہ کردے تو اس کے لیے یہ جانور حلال ہے۔ جیسا کہ بکثرت ہندو اپنے دیوتائوں کے نام پر بکری یا گائے وغیرہ کو اپنے نزدیک وقف کرکے چھوڑ دیتے ہیں، مندروں کے پجاریوں جو گیوں کو اختیار دیتے ہیں وہ جو چاہیں کریں، یہ مندروں کے پجاری ان کو مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کردیتے ہیں۔ یا اسی طرح بعض جاہل مسلمان بھی بعض مزارات پر ایسا ہی عمل کرتے ہیں کہ بکرا یا مرغا چھوڑ دیتے ہیں اور مزارات کے مجاورین کو اختیار دیتے ہیں وہ ان کو فروخت کردیتے ہیں تو جو لوگ ان جانوروں کو ان لوگوں سے خرید لیں جن کو اصل مالک نے اختیار دیا ہے ان کے لیے یہ خریدنا اور ذبح کرکے کھانا اور فروخت کرنا سب حلال ہے۔ نذر لغیر اللہ کا مسئلہ : یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی کھانا وغیرہ جن کو غیر اللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے، ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں۔ حضرات فقہا نے اس کو بھی ........... اشتراک علت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللّٰہ کے حکم سے قرار دے کر حرام کہا ہے اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے، کتب فقہ بحرالرائق وغیرہ میں اس کی تفصیلات مذکورہ ہیں۔ یہ مسئلہ قیاسی ہے جس کو بنص قرآنی متعلقہ حیوانات پر قیاس کیا گیا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم اللہ تعالیٰ کا کرم ہرحال میں بندوں کے شامل حال رہتا ہے۔ زندگی اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسے کھودینے کی یا ضائع کردینے کی کبھی اجازت نہیں۔ زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں رہتا اس میں نشیب و فراز ہر طرح کے آتے ہیں ایسا بھی ممکن ہے کہ آدمی کبھی کسی ایسی پریشانی کی گرفت میں آجائے کہ اس کے پاس اس پریشانی سے نکلنے یا زندگی بچانے کیلے کوئی حلال چیز میسر نہ ہو، حرام چیزیں اللہ نے روک دی ہیں اور حلال چیز اسے میسر نہیں۔ یہ وہ اضطرار ہے جس میں زندگی کا سفر دشوار ہوجاتا ہے۔ جس پروردگار نے زندگی عطا کی اور زندگی کی بیشمار نعمتیں بخشی ہیں اسی نے یہ کرم بھی فرمایا ہے کہ اگر کبھی ایسا موقعہ آجائے کہ تم حرام چیز کے استعمال پر مجبور کردئیے جاؤ تو پھر تمہیں کیا کرنا چاہیے اس آیت کے آخری حصے میں اسی بات کو بیان فرمایا گیا ہے۔ اضطرار کا مفہوم اضطر، ضر یضر سے باب افتعال ہے۔ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق ض کی مناسبت سے افتعال کی ت، ط سے بدل جاتی ہے۔ اضطرار اس کا مصدر ہے، اضطرار اس کیفیت کو کہتے ہیں جب آدمی حرام چیز کے استعمال پر اس طرح مجبور کردیا جائے کہ اس کے بغیر اس کی زندگی نہ بچ سکے۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ تم اگر ایسی کیفیت میں مبتلاہوجاؤ تو حرام چیزیں تو حلال نہیں ہوسکتیں، البتہ ! جان بچانے کی حد تک چند شرائط کے ساتھ تمہیں ان کے استعمال کی اجازت ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے اندر اس حرام چیز کی چاہت پیدا نہ ہو یعنی وہ مجبوراً اس حرام چیز سے فائدہ تو اٹھائے لیکن دل میں اس کی کراہت بدستور موجود رہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اس حرام چیز سے اتنا فائدہ اٹھائے جس سے اس کی جان بچ جائے۔ اس حد سے اسے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ان احتیاطوں کے ساتھ اگر اس حرام چیز سے فائدہ اٹھائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس حرام چیز کے استعمال کو معاف فرمادیں گے۔ رخصت اور عزیمت میں راہ اعتدال یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس آدمی کو مجبور کردیا گیا کہ وہ اس حرام چیز کو کھائے ورنہ اس کی جان نہیں بچے گی۔ تو کیا ایسی مجبوری اور اضطرار میں اللہ نے رخصت دی ہے۔ اس رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے یا آدمی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ میں اگر اس سے فائدہ نہ اٹھائوں اور اللہ کی رضا کے لیے اس حرام چیز سے بچتے ہوئے جان دے دوں تو کیا اس کی اجازت ہے یا نہیں ؟ بعض لوگوں نے تو رخصت پر عمل کرنے کو اس حد تک ضروری قرار دیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھاکر جان دے دیتا ہے تو ممکن ہے قیامت کے دن اس پر خودکشی کا مقدمہ قائم ہوجائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حرام چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور وہ اس سے بچتے ہوئے جان دے دیتا ہے تو یقینا وہ اللہ کے یہاں اجروثواب کا مستحق ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ راہ صواب ان دونوں باتوں کے درمیان میں ہے اور وہ یہ ہے کہ رخصت سے فائدہ اٹھانا شریعت کے مزاج کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن معاملات میں بھی انسانوں کو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھانا اللہ کا ایک طرح سے شکر ادا کرنا ہے کیونکہ ان رخصتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مہربانی اور رحمت کا اظہار فرمایا ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے اس لیے اس نے ہم پر ایسا بوجھ نہیں ڈالا جو ہماری طاقت سے زیادہ ہو۔ اس لیے جان پر کھیل کر رخصت کو نظرانداز کرکے عزیمت پر عمل کرنے کی کوشش کرنا یہ شریعت سے کشتی لڑنے کے مترادف ہے۔ بیمار کو روزہ قضا کرنے کی رخصت دی گئی ہے لیکن وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تمام روزے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس طرح سے وہ شریعت سے کشتی لڑتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے ” جو شریعت سے مقابلہ کرے گا وہ ڈھے جائے گا “ اس لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ کبھی معاملے کی نوعیت اس سے مختلف ہوتی ہے جو ایک مومن کی غیرت کا امتحان بن جاتی ہے۔ مثلاً کسی جگہ کوئی فاسق وفاجر اور ظالم قسم کا حکمران جبر کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کردیتا ہے کہ لوگوں کے لیے حرام راستے آسان ہوجاتے ہیں اور حلال اور جائز راستے آہستہ آہستہ بند ہونے لگتے ہیں نتیجۃًحلال و حرام کی تمیز مٹنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ عزیمت کی راہ اختیار کی جائے اور دوسروں کے ایمان کو زندہ کرنے کے لیے اپنی جان قربان کردی جائے۔ ایسے ہی موقعہ کے لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : اَفْضَلُ الْجَہَادِ کَلِمَۃُ حَقِّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ” سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے “ اور جو آدمی اس جہاد کے سلسلے میں شہید ہوجاتا ہے یعنی بادشاہ اس کا سر کٹوا دیتا ہے، آنحضرت ﷺ نے اسے سید الشہداء قرار دیا ہے۔ اس لیے اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ شخصی زندگی اور معمول کے حالات میں تو رخصت پر عمل کیا جائے لیکن جب احقاق حق اور ابطالِ باطل کا فرض پکار رہاہو اور اسلام کی عزت کا سوال سامنے ہو تو پھر رخصت پر نہیں عزیمت پر عمل کرنا چاہیے، چاہے اس کا نتیجہ کتنا ہی خطرناک نکلے۔ سیدناحسین ( رض) کا کارنامہ ہمیں اسی کا درس دیتا ہے اور امام احمد بن حنبل کی قربانیاں ہمیں یہی راہ دکھاتی ہیں۔ ایک مومن معمول کی زندگی میں نہایت اعتدال پسند اور نرم خو ہوتا ہے اور دوستوں کے لیے اس کا وجود بہار کے جھونکے کی مانند ہوتا ہے۔ لیکن معرکہ حق و باطل میں وہ عزیمت کا پیکر بن جاتا ہے اور باطل کا راستہ روکنے کے لیے ہر بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے۔ ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
Top