Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں ان کو کھائو اور اللہ ہی کے شکر گزار بنو اگر تم اس کی بندگی کرنے والے ہو۔
یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰـکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ۔ (البقرۃ۔ 172) (اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں ان کو کھائو اور اللہ ہی کے شکر گزار بنو اگر تم اس کی بندگی کرنے والے ہو) بدعات و خرافات کا ابطال دلائل سے بھی ہوتا ہے اور مستحکم کردار سے بھی اس آیت کریمہ میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ مشرکین اپنے مشرکانہ رسوم وآداب پر اڑے رہنا چاہتے ہیں اور وہ کسی طرح بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو تم انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ تحلیل وتحریم کے حوالے سے جس حد تک ان کے خیالات کی اصلاح دلائل سے ضروری تھی وہ ضرورت پوری کردی گئی۔ البتہ ان کی بدعات و خرافات کا اثر ختم کرنے اور اس کا زور توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ تمہارے اپنے عمل میں کوئی کمزوری نہیں ہونی چاہیے۔ کھانے پینے کے معاملے میں جب بھی کبھی ایسی چیز سامنے آئے جو مشرکین کے نزدیک حرام ہے اور اللہ نے اسے حلال کیا ہے، تو تمہارے لیے ازبس ضروری ہے کہ تم ایسی نعمت کو ضرور استعمال میں لائوتا کہ مشرکین کو اندازہ ہوجائے کہ ان کے رویے کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور خود تمہارے اندر اللہ کی کبریائی اور اس کی حاکمیت مطلقہ کا عقیدہ گہر اہوتا جارہا ہے۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ جن خیالات کا وہ مدتوں قائل رہاہو اور جن چیزوں کو عمر بھر استعمال کرتا رہا ہو تو جب اس سے مختلف اسے کسی بات کا حکم دیا جائے تو اس کے لیے اپنے خیالات کو بدلنا اور اپنے اکل وشرب کی عادات میں تبدیلی ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ باربار معمول سے مختلف کام کرتے ہوئے ایک جھجک پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ وہ کمزوری ہے جس سے انسان کے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔ بنی اسرائیل میں آل فرعون کے ساتھ رہ کر گائے کا تقدس بلکہ اس کی پرستش کا عقیدہ پیدا ہوگیا تھا۔ بنی اسرائیل جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے ہجرت کرکے صحرائے سینا میں پہنچ گئے تو وہاں سب کچھ بدل جانے کے باوجود بھی گائے کی محبت اور اس سے عقیدت ان کے دل سے نکلنے نہیں پاتی تھی۔ اس لیے پروردگار نے ایک خاص واقعہ کے حوالے سے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیاتا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ جس جانور کو ہم نے خود ذبح کیا ہے اور اس کا بیجان جسم ہمارے سامنے پڑا ہے اگر اس میں الوہیت کی کوئی بات ہوتی تو وہ اس طرح ہمارے ہاتھوں موت کا شکار نہ ہوتی۔ ہندوستان میں جب ہندئوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو ان کے لیے بھی سب سے بڑی رکاوٹ گائو سے عقیدت اور محبت کا عقیدہ تھا۔ وہ مسلمان ہو کر بھی گائے کا گوشت کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان کے اندر کا چور انھیں اس جسارت سے روکتا تھا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آج تک اس کے اثرات مسلمان معاشرے میں باقی ہیں۔ بہانے بہانے سے گائے کے گوشت سے پرہیز ابھی تک بہت سارے مسلمانوں میں باقی ہے۔ پورا یورپ گائے کا گوشت کھاتا ہے اور اسے چھوٹے گوشت پر ترجیح دیتا ہے اور انھیں کسی بیماری کا احساس نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے یہاں نجانے کتنی بیماریاں بڑے گوشت سے وابستہ کررکھی ہیں۔ اسی لیے علماء کرام نے یہ فتویٰ دے رکھا تھا کہ ” کوئی ہندو مسلمان ہونے کے بعد جب تک گائے کا گوشت نہ کھائے اس کا ایمان معتبر نہ ہوگا “۔ ایسی ہی کوئی صورتحال یہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنھیں وہ چیزیں کھانے میں تامل ہوگا جنھیں وہ جاہلیت میں حرام سمجھتے تھے اور اسلام نے اسے حلال کردیایا وہ انھیں حلال سمجھتے تھے اور اسلام نے انھیں حرام کردیا۔ انھیں حکم دیا جارہا ہے کہ تم پرانی زنجیریں توڑ ڈالو۔ اب وہ تمام پاکیزہ چیزیں جنھیں اسلامی شریعت نے حلال کردیا ہے انھیں نہ صرف خوشدلی سے استعمال کرو بلکہ دوسرا حکم یہ دیا کہ اس پر اللہ کا شکر بھی ادا کروکیون کہ اس سے بڑھ کر اور شکر کا کیا مقام ہوسکتا ہے کہ اللہ نے تمہیں گمراہی سے نکالا اور ہدایت کے راستے پر ڈال دیا اور تمہارے لیے ایسی نعمتوں کو جائز ٹھہرایا جو اپنے ظاہر اور اپنے باطن کے لحاظ سے پاکیزہ، خوشگوار، معتدل، صحت بخش اور روح پرور ہیں۔ اس کے بالمقابل شیطان نے تمہیں جن چیزوں کا خوگر بنا رکھا ہے وہ سب کی سب روح، عقل، جسم اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی اور بےحیائی اور بدکاری کی راہیں کھولنے والی ہیں۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر تم اللہ ہی کے بندہ ہو اور اسی کا اپنا معبود جانتے ہو تو پھر اس کی عطاکردہ نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے تمہیں جھجک کیوں لاحق ہوتی ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی کہیں شرک کے اثرات باقی ہیں اور جب تک یہ شرک کے اثرات نہیں نکلیں گے اللہ کے ساتھ تمہاری خالص بندگی مکمل نہیں ہوسکے گی۔ تمہیں اندر اور باہر ہر طرف سے اللہ کا بندہ بننا چاہیے کیونکہ ؎ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول سورة انعام کی آیات ِ ذیل میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمَُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَاحَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَااضْطُرِرْ تُمْ اِلَیْہِط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَذَرُوْا ظَاھِرَالْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗط اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ ۔ وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌط وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْن۔ (الانعام : 118 تا 121) (پس جس پر اللہ کا نام ذبح کے وقت لے لیا گیا ہو ان کو بےجھجک کھائو، اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو۔ اور آخر تم ان چیزوں کو کیوں نہ کھائو جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے جب کہ وہ چیزیں تمہارے سامنے وضاحت سے بیان کی جاچکی ہیں جو حرام کردی گئی ہیں الا آنکہ تم ان میں سے بھی کسی چیز کے کھانے پر مجبور ہوجاؤ۔ بہت سے لوگ اپنی من گھڑت باتوں کی آڑ لے کر بغیر کسی علم کے لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والوں کو۔ گناہ ظاہر اور گناہ باطن دونوں سے باز آئو۔ جو لوگ گناہ کی کمائی کررہے ہیں وہ اپنی کمائی کا عنقریب بدلہ پائیں گے۔ ہاں ! ان چیزوں میں سے نہ کھائو جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یہ اللہ کی نافرمانی ہے اور شیاطین ہیں جو اپنے دوستوں کو القا کررہے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ بحثیں اٹھائیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرکوں میں سے ہوجاؤ گے )
Top