Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 166
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ
اِذْ تَبَرَّاَ : جب بیزار ہوجائیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتُّبِعُوْا : پیروی کی گئی مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَتَقَطَّعَتْ : اور کٹ جائیں گے بِهِمُ : ان سے الْاَسْبَابُ : وسائل
اس وقت کا خیال کرو جب کہ مقتدا اپنے پیروکاروں سے اظہارِ برأت کریں گے اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے اور ان کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے
اِذْ تَبَرَّاالَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ ۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْاَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَمِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّئُ وْا مِنَّا ط کَذٰلِکَ یُرِیْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْھِمْ ط وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ ۔ (البقرۃ : 166 تا 167) (اس وقت کا خیال کرو جب کہ مقتدا اپنے پیروکاروں سے اظہارِ برأت کریں گے اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے اور ان کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔ اور ان کے پیرو بھی کہیں گے : اے کاش ! ہمیں دنیا میں ایک بار اور جانا نصیب ہو تاکہ ہم بھی ان سے اسی طرح اظہارِ برأت کرسکتے، جس طرح انھوں نے ہم سے اظہارِ برأت کیا ہے۔ اسی طرح اللہ ان کے اعمال ان کو سرمایہ حسرت بنا کردکھائے گا اور ان کو دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہوگا) متبوعین کی تابعین سے براء ت اِذْ تَبَرَّاالَّذِیْنَ بدل ہے اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ سے۔ یہ اسی عذاب کی مزید وضاحت ہے کہ مشرکوں نے جن لوگوں کو دنیا میں اللہ کا شریک اور ہمسر بنائے رکھا اور ان سے اس طرح محبت کی جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے تھی۔ قیامت کے دن وہ لوگ جب مدد کے لیے ان کے پاس جائیں گے تو وہ صاف انھیں پہچاننے سے انکار کردیں گے۔ اور ان سے اظہارِ برأت کریں گے۔ یہ انھیں باربار درخواست کریں گے کہ ہم دنیا میں آپ کے پیروکار رہے ہیں اور آپ سے محبت اور تعلق کو ہمیشہ اپنا اثاثہ سمجھا اور ہمیشہ آپ کی غیر مشروط اطاعت کی۔ لیکن وہ ان کے ساتھ ہر طرح کے تعلق سے انکار کردیں گے۔ دنیا میں جن تعلقات کی مضبوطی پر یہ ناز کرتے تھے اور دوسروں کو ڈراتے تھے وہاں وہ تعلقات یکسرختم ہو کر رہ جائیں گے۔ دنیا میں قیامت کی یہ منظرکشی یہ بتانے کے لیے ہے کہ جو لوگ اپنی رہنمائی اور رہبری کے لیے غلط رہنمائوں اور پیشوائوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر زندگی بھر ان کے پیچھے چلتے رہتے ہیں انھیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اور خاص طور پر امت مسلمہ کے افراد سابقہ امتوں کی ان گمراہیوں سے عبرت حاصل کریں اور ہر طرح اپنے آپ کو اس برے انجام سے بچانے کی کوشش کریں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھیں کہ برے رہنمائوں کے پیچھے چلنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی یقین پیدا کریں کہ قیامت آئے گی اور وہاں ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا۔ کوئی لیڈر اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئے گا اور خود لیڈر بھی اپنے انجام سے بچ نہیں سکیں گے۔ وہاں اگر کوئی چیزکام آئے گی تو وہ ایمان وعمل کا سرمایہ ہے، جو اللہ کے ساتھ حقیقی تعلق سے وجود میں آتا ہے اور اس تعلق کی تفصیلات سے قرآن وسنت مامور ہیں۔ آج جس نے ان ہدایات سے فائدہ اٹھالیا، وہ کل کو سرخرو ہوگا، ورنہ اس کا انجام بھی وہی ہوگا، جس کا تذکرہ ہم یہاں پڑھ رہے ہیں۔ تابعین کا رد عمل اگلی آیت کریمہ میں ایک اور منظر دکھایا جارہا ہے کہ جب پیروکار یہ دیکھیں گے کہ ان کے لیڈر اور ان کے رہنماان سے بالکل کٹ گئے ہیں اور وہ کسی طرح ان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ ردعمل کے طور پر اللہ سے درخواست کریں گے کہ یا اللہ ! ہمیں دنیا میں ایک بار جانے کا موقعہ عطا فرما تو ہم دنیا میں جاکران سے اسی طرح اظہارِ برأت کریں، جس طرح انھوں نے ہم سے کیا ہے۔ لیکن یہ ان کی خواہش حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ وہ باربار اس کی تمنا کریں گے، لیکن یہ حسرت، حسرت ہی رہے گی اور اپنے اعمال کے نتیجے میں جس عذاب سے وہ دوچار ہوچکے ہوں گے، اس سے نکلنا انھیں کبھی نصیب نہ ہوگا۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو اور بھی کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جب ہوش آئے گا تو پیروکار اور فرمانبرداری کرنے والے، اپنے لیڈروں سے بری طرح اظہارِ بےزاری کریں گے اور اللہ سے درخواست کریں گے کہ یا اللہ ! ہمارے لیڈروں کو دگنا عذاب دے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے ہمیں بھی گمراہ کیا۔ لیکن ان کا یہ واویلا حسرت کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا اور یہ بجائے خود ان کے لیے ایک عذاب کی حیثیت اختیار کرجائے گا کہ وہ اپنے رہنمائوں کے ساتھ اپنی قربانیوں اور وفاداریوں کو ایک عظیم اثاثہ سمجھتے تھے۔ لیکن آج ان کے وہی اعمال ان کے لیے سرمایہ حسرت بن جائیں گے۔
Top