Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
(بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور جہازوں کے چلنے میں جو سمندر میں ان چیزوں کو لے کر چلتے ہیں، جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْـکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّـآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃِ ص وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمَسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ (بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور جہازوں کے چلنے میں جو سمندر میں ان چیزوں کو لے کر چلتے ہیں، جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں) (البقرۃ : 164) مخلوق سے خالق پر استدلال اس آیت کریمہ میں مختلف مخلوقات اور مصنوعات کا ذکر فرماکر اس کائنات کے خالق اور صانع پر دلیل قائم کی گئی ہے اور پھر ان مخلوقات کے خواص پر توجہ دلا کر اس کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ وہ سب سے پہلے زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے وہ کہتا ہے کہ ذرا غور کرو ! یہ زمین و آسمان کے سارے کارخانے جو دنیا کے ہر طلسم سے بڑھ کر حیرت انگیز اور انسانی سائنس کے ہر شعبہ سے عجیب تر ہیں۔ کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ نہ یہ اپنے آپ وجود میں آسکتے ہیں اور نہ باقی رہ سکتے ہیں، جب تک کوئی صاحب شعور، صاحب ارادہ، قادرِ مطلق ہستی ان کی صانع و خالق نہ ہو۔ ان تمام مظاہر فطرت کا تسلسل و استمرار ان کی یک رنگی وباقاعدگی ان کا نظم وانضباط ہر عقل سلیم کو مجبور کررہا ہے کہ ان کے عقب میں ایک ذی اختیار فعال کا ہاتھ تسلیم کیا جائے۔ اسی عقل سلیم کو جو معمولی سی گھڑی کو بھی بغیر کسی ماہر فن اور صناع گھڑی ساز کے تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے تو پھر یہ عقل سلیم زمین و آسمان کے اس کارخانے کے بارے میں کیسے باور کرسکتی ہے کہ یہ کسی پیدا کرنے والے کے پیدا کیے بغیر ہی وجود میں آگیا ہے ؟ پھر آسمان و زمین کی پیدائش سے مراد صرف ان کا وجود ہی نہیں بلکہ ان کی وہ نفع رسانی اور نفع بخشی کی قوت بھی ہے جسے ہم جابجا اپنا کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آسمان کی وسعتوں کا تو آج تک کوئی اندازہ نہ سکا اور نہ شائد ہوسکے گا، لیکن زمین جو ہمارے قدموں کے نیچے بچھی ہوئی ہے خود اس کے اندر جو بیشمار منفعت بخش چیزیں موجود ہیں اور اس کے پہلو میں جو سمندر کا لامتناہی خزا نہ پھیلا ہوا ہے، جس کی مخلوقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کی مخلوقات سے بھی زیادہ ہیں۔ پھر ان تمام مخلوقات کو ملنے والازندگی کا سامان اور ان میں سے ایک ایک کے وجود کی بےپایاں حکمتیں جن کا اندازہ کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے۔ کیا یہ سب کچھ از خود وجود میں آگیا ؟ یا واقعی کوئی اس کا پیدا کرنے والا ہے اور اس نے کسی عظیم مقصد کے لیے ان کو پیدا کیا ہے ؟ اور پھر ان مخلوقات میں پایا جانے والا حیران کن نظم وضبط اور سب کا مل کر ایک متعین مقصد کے لیے سفرکا تسلسل اور جہد وعمل کا محور اور ان کی گردش کے متعین راستے اور ان کی افادیت کا ناقابلِ انقطاع فیضان ان میں سے ایک ایک چیز یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان کے پیچھے ایک فعال ہستی موجود ہے جو نہایت حکمت و دانش کی مالک اور تدبیر وقدرت سے آراستہ ہے۔ یہ زمین و آسمان اپنی بےپناہ وسعتوں کے باوجود اسی طرح اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی اطاعت میں بندھے ہوئے ہیں جس طرح کائنات کا ادنیٰ سے ادنیٰ ذرہ۔ لوگوں نے اگرچہ کہیں آکاش دیوتا اور دھرتی دیوتا وغیرہ جیسے تصورات اپنی طرف سے گھڑے، لیکن یہاں بتایا جارہا ہے کہ ان کی حیثیت مخلوق سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ کائنات کے نظم سے استدلال اس کے بعد اللَّیْلِ وَالنَّھَار کا ذکر فرمایا کہ ذرا ان رات اور دن کو دیکھو کس طرح ایک تسلسل، پابندی اور نہائت نظم وضبط کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ جب سے سورج اور چاندوجود میں آئے ہیں اور زمین نے حرکت کرنا سیکھا ہے کبھی لیل و نہار کی آمد ورفت میں نہ انقطاع واقع ہوا ہے اور نہ بد نظمی پیدا ہوئی ہے۔ دنیا نے ان کو بھی دیوی دیوتا کا درجہ دیا اور ان کی پوجا کی ہے۔ لیکن یہاں ان کا ذکر کرکے اشارہ کیا کہ ان کا غیر مخلوق یا خود آفریدہ ہونا تو الگ رہا، یہ وقت وزمان کے بےحس اور بےجان اجزاء تو خود اپنی حرکت تک پر قادر نہیں۔ زمین کی حرکت سے رات دن وجود میں آتے ہیں، موسم بدلتے ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں۔ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ وہ کون ہے جس کی عظیم الشان کاریگری اور بےمثال صناعی کا یہ نمونہ ہے ؟ فضا کے خلا میں کون ہے جو اسے تھامے ہوئے ہے ؟ اس کے اور چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کے درمیان فاصلہ کا ایک خاص تناسب کس نے قائم کررکھا ہے ؟ اس کی رفتار کی ایک خاص شرح کس نے متعین کردی ہے ؟ آفتاب سے اسے ایک خاص مقدار میں روشنی اور گرمی کون پہنچا رہا ہے ؟ چاند سے روشنی اور خنکی ایک متعین حساب کے ساتھ کس کا دست قدرت اس تک لارہا ہے ؟ آسمان اگر ٹھوس مادی اجسام ہیں تو بھی یا اگر خلا میں محض حد نظر ہیں تو بھی، ہر صورت میں ان کی وضع، ساخت، ترکیب، ہیئت، انسانی دسترس سے کتنی بالا تر ہے ؟ ثوابت اور سیار کے سکون و حرکت کا نظام کون قائم کیے ہوئے ہے ؟ ستاروں کی یہ روشنی اور ان کے طلوع و غروب میں یہ باقاعدگی کس کے حکم سے قائم ہے ؟ نظام فلکی کے بیشمار اجزاء اور عناصر میں یہ ترتیب اور باہمی تناسب کس کی حکمت وصنعت کے دم سے زندہ ہے ؟ رات اور دن کس طرح ایک برتر قانون کے اندر جکڑے نظر آرہے ہیں ؟ گرمی، سردی، برسات ہر موسم میں ان کے اندر مناسب وقت تبدیلیاں کون کرتارہتا ہے ؟ مختلف ملکوں میں ان کے طلوع و ظہور کے وقت کیسے بندھے ہوئے ہیں یہ کبھی نہیں ہو تاکہ جس وقت کلکتہ میں دن نکلتا ہے، دمشق میں بھی دن نکل آئے۔ نہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی شام کبھی ایران کی شام بن جائے۔ جنوری میں جو اوقات اندھیرا چھاجانے کے ہوتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جون میں وہی باقی رہ جائیں۔ آخر یہ رات دن کے بندھے ہوئے اور قانون کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تغیرات، کس کی حکومتِ قاہرہ اور حکمت کاملہ کی شہادت دے رہے ہیں ؟ بحر ذخارسارے براعظموں کو اپنی گرفت میں لیے رہنے والا، رقبہ میں خشکی سے چہار چند اپنی اس ساری عظمت وہیبت کے باوجود کس طرح مشت خاک انسان کے قبضہ میں آگیا ہے۔ کس طرح لکڑی کے تختوں کو جوڑ جاڑ کر ان میں لوہے کی کیلیں ٹھونک ٹھانک کر ان پر لوہے کی چادریں چڑھا کر انسان سمندر کے بڑے سے بڑے مہیب فاصلوں اور مسافتوں کو طے کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس میں مدوجزر کب ہوگا ؟ قمری مہینہ کی فلاں فلاں ہی تاریخوں پر ہوگا۔ اپنی ساری غضبناک تندی کے باوجود ایک خاص رقبہ کے حدود سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔ ایک مخصوص و متعین وزن کی چیزوں کو وہ اپنے اوپر تیرائے گا اور اس کے علاوہ وزن والی چیزوں کو ڈبو دے گا۔ اس کے پانی کا ایک مخصوص مزاج، خاص رنگ، خاص مزہ ہوگا۔ کنوئوں کے پانی سے مختلف، دریائوں کے پانی سے مختلف، اس طرح کے سینکڑوں دوسرے قانونوں کا پابند، اسے کس کی مشیت، کس کی قدرت، کس کی حکومت نے کر رکھا ہے ؟ بارش کا خاص خاص فصلوں میں خاص خاص موسموں میں یا خاص خاص فضائی تغیرات کے ماتحت ہونا، بخارات کا ایک خاص گرمی پاکر سمندری جزیرہ آب سے اٹھنا، ایک خاص فاصلہ تک اوپر جانا، ایک خاص درجہ کی سردی پاکر ان دخانی وہوائی اجزاء کا منجمد ہوجانا، ان کا بادل کی شکل اختیار کرلینا، ایک خاص درجہ ثقل تک بڑے بڑے بھاری اور بوجھل بادلوں کا فضا میں سنبھلے رہنا، پھر فلاں فلاں فضائی تغیرات کے ماتحت فلاں علاقہ تک جانا، پھر ایک بندھی ہوئی مقدار میں ایک متعین مدت کے اندر برس پڑنا، اس سے ازسر نو خشک زمین میں جان پڑجانا۔ یہ سارے ردو بدل کسی حکیم کی حکمت، کسی حاکم کی حکومت، کسی قادر کی قدرت کی کیسی کھلی ہوئی شہادت دے رہے ہیں۔ پھر حیات نباتی کے علاوہ خود حیات حیوانی جن عجائب کا مجموعہ ہے۔ ہر زندہ جسم میں بیشمار ذروں اور خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان کی جو ایک مخصوص ترتیب اور متعین ترکیب ہوتی ہے، ایک خاص درجہ کی حرارت جو حیات کو قائم رکھتی ہے، ایک خاص مقدار سے بڑھی ہوئی سردی جو اس لف میں نشر، اس اجتماع میں انتشار پیدا کردیتی ہے۔ نظام تغذیہ، نظام تنفس، نظام تناسل، نظام عصبی وغیرہ جسم کے اندر متعدد نظامات پھر ہر نظام کے تحت بیشمار قاعدے اور ضابطے اس سارے نظام اعظم کی تکوین و قیام پر کس کی مشیت، کس کی حکومت کارفرما ہے ؟ اس قسم کے سینکڑوں، ہزاروں سوالات پر انسان جتنا زیادہ غور اور نکتہ سنجی سے کام لے گا، توحید اور توحیدی حکمتوں کا نقش دل پر اور زیادہ ہوتاجائے گا۔ جاہلی اور غیر مومن قوموں کے فلسفہ اور سائنس کا صرف نقطہ نظر غلط ہوتا ہے، اس کی اگر تصحیح ہوجائے اور ان علوم مادی کا مطالعہ اگر ایمانی نقطہ نظر سے شروع کردیا جائے تو بجائے الحاد، ارتیاب و تشکک کے عرفان وایقان ہی کی راہیں روز بروز روشن ہوتی جائیں۔ (تفسیر ماجدی) اس آیت پر اگر مزیدتدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس میں شروع سے لے آخر تک اس کائنات کے متقابل بلکہ متضاد اجزاوعناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحاد وتوافق اور ان کی اس بےمثال بہم آمیزی و سازگاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لیے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھئے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ضدین کی نسبت رکھتے ہیں۔ لیکن ذرا گہری نگاہ سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطہ نظر سے آپس میں زوجین کا ساربط واتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہوجائیں بلکہ اس کی ہستی ہی نابود ہوجائے۔ اسی طرح یہ زمین نہ ہو تو کون بتاسکتا ہے کہ اس فضائے لامتناہی کے بیشمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علی ہذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جانداروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے، یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھئے اس کا پھیلائو کتنا ہوشربا اور ناپیداکنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہولناک ہیں۔ لیکن دیکھئے اس سرکشی و طغیانی کے باوجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لیے نہایت ہموار اور مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں۔ جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت ومعیشت، تمدن ومعاشرت اور علوم وفنون ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔ آگے آسمان سے بارش اور اس بارش سے زمین کے از سرِ نو باغ و بہار اور معموروآباد ہوجانے کا ذکر ہے۔ غور کیجئے ! کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان۔ لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط واتصال ہے۔ زمین اپنے روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کو ابھار نہیں دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہوائوں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں، لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے۔ جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کو ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں۔ یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کو مشرق ومغرب اور شمال اور جنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو غائب کردیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو افق پر نمودار کردیتی ہیں۔ قولِ فیصل اب سوال یہ ہے کہ غورو تدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے ؟ جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم ومدبرکا ارادہ ان سب پر حاکم و فرمانرواہے، جو ان تمام عناصر مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غورکیجئے ! تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے وہ یہ کہ یہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقاء ہوا ہے، وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصر مختلفہ میں ایک بالاتر مقصد کے لیے وہ سازگاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ غور کیجئے ! تو یہ ایک ہی حقیقت، ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدباب کررہی اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ (ماخوذ ” تدبر قرآن “ )
Top