Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
خَلْقِ
: پیدائش
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَ
: اور
اخْتِلَافِ
: بدلتے رہنا
الَّيْلِ
: رات
وَالنَّهَارِ
: اور دن
وَالْفُلْكِ
: اور کشتی
الَّتِىْ
: جو کہ
تَجْرِيْ
: بہتی ہے
فِي
: میں
الْبَحْرِ
: سمندر
بِمَا
: ساتھ جو
يَنْفَعُ
: نفع دیتی ہے
النَّاسَ
: لوگ
وَمَآ
: اور جو کہ
اَنْزَلَ
: اتارا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مِنْ
: سے
مَّآءٍ
: پانی
فَاَحْيَا
: پھر زندہ کیا
بِهِ
: اس سے
الْاَرْضَ
: زمین
بَعْدَ مَوْتِهَا
: اس کے مرنے کے بعد
وَبَثَّ
: اور پھیلائے
فِيْهَا
: اس میں
مِنْ
: سے
كُلِّ
: ہر قسم
دَآبَّةٍ
: جانور
وَّتَصْرِيْفِ
: اور بدلنا
الرِّيٰحِ
: ہوائیں
وَالسَّحَابِ
: اور بادل
الْمُسَخَّرِ
: تابع
بَيْنَ
: درمیان
السَّمَآءِ
: آسمان
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يَّعْقِلُوْنَ
: ( جو) عقل والے
(بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور جہازوں کے چلنے میں جو سمندر میں ان چیزوں کو لے کر چلتے ہیں، جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْـکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّـآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃِ ص وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمَسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ (بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور جہازوں کے چلنے میں جو سمندر میں ان چیزوں کو لے کر چلتے ہیں، جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں) (البقرۃ : 164) مخلوق سے خالق پر استدلال اس آیت کریمہ میں مختلف مخلوقات اور مصنوعات کا ذکر فرماکر اس کائنات کے خالق اور صانع پر دلیل قائم کی گئی ہے اور پھر ان مخلوقات کے خواص پر توجہ دلا کر اس کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ وہ سب سے پہلے زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے وہ کہتا ہے کہ ذرا غور کرو ! یہ زمین و آسمان کے سارے کارخانے جو دنیا کے ہر طلسم سے بڑھ کر حیرت انگیز اور انسانی سائنس کے ہر شعبہ سے عجیب تر ہیں۔ کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ نہ یہ اپنے آپ وجود میں آسکتے ہیں اور نہ باقی رہ سکتے ہیں، جب تک کوئی صاحب شعور، صاحب ارادہ، قادرِ مطلق ہستی ان کی صانع و خالق نہ ہو۔ ان تمام مظاہر فطرت کا تسلسل و استمرار ان کی یک رنگی وباقاعدگی ان کا نظم وانضباط ہر عقل سلیم کو مجبور کررہا ہے کہ ان کے عقب میں ایک ذی اختیار فعال کا ہاتھ تسلیم کیا جائے۔ اسی عقل سلیم کو جو معمولی سی گھڑی کو بھی بغیر کسی ماہر فن اور صناع گھڑی ساز کے تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے تو پھر یہ عقل سلیم زمین و آسمان کے اس کارخانے کے بارے میں کیسے باور کرسکتی ہے کہ یہ کسی پیدا کرنے والے کے پیدا کیے بغیر ہی وجود میں آگیا ہے ؟ پھر آسمان و زمین کی پیدائش سے مراد صرف ان کا وجود ہی نہیں بلکہ ان کی وہ نفع رسانی اور نفع بخشی کی قوت بھی ہے جسے ہم جابجا اپنا کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آسمان کی وسعتوں کا تو آج تک کوئی اندازہ نہ سکا اور نہ شائد ہوسکے گا، لیکن زمین جو ہمارے قدموں کے نیچے بچھی ہوئی ہے خود اس کے اندر جو بیشمار منفعت بخش چیزیں موجود ہیں اور اس کے پہلو میں جو سمندر کا لامتناہی خزا نہ پھیلا ہوا ہے، جس کی مخلوقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کی مخلوقات سے بھی زیادہ ہیں۔ پھر ان تمام مخلوقات کو ملنے والازندگی کا سامان اور ان میں سے ایک ایک کے وجود کی بےپایاں حکمتیں جن کا اندازہ کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے۔ کیا یہ سب کچھ از خود وجود میں آگیا ؟ یا واقعی کوئی اس کا پیدا کرنے والا ہے اور اس نے کسی عظیم مقصد کے لیے ان کو پیدا کیا ہے ؟ اور پھر ان مخلوقات میں پایا جانے والا حیران کن نظم وضبط اور سب کا مل کر ایک متعین مقصد کے لیے سفرکا تسلسل اور جہد وعمل کا محور اور ان کی گردش کے متعین راستے اور ان کی افادیت کا ناقابلِ انقطاع فیضان ان میں سے ایک ایک چیز یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان کے پیچھے ایک فعال ہستی موجود ہے جو نہایت حکمت و دانش کی مالک اور تدبیر وقدرت سے آراستہ ہے۔ یہ زمین و آسمان اپنی بےپناہ وسعتوں کے باوجود اسی طرح اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی اطاعت میں بندھے ہوئے ہیں جس طرح کائنات کا ادنیٰ سے ادنیٰ ذرہ۔ لوگوں نے اگرچہ کہیں آکاش دیوتا اور دھرتی دیوتا وغیرہ جیسے تصورات اپنی طرف سے گھڑے، لیکن یہاں بتایا جارہا ہے کہ ان کی حیثیت مخلوق سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ کائنات کے نظم سے استدلال اس کے بعد اللَّیْلِ وَالنَّھَار کا ذکر فرمایا کہ ذرا ان رات اور دن کو دیکھو کس طرح ایک تسلسل، پابندی اور نہائت نظم وضبط کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ جب سے سورج اور چاندوجود میں آئے ہیں اور زمین نے حرکت کرنا سیکھا ہے کبھی لیل و نہار کی آمد ورفت میں نہ انقطاع واقع ہوا ہے اور نہ بد نظمی پیدا ہوئی ہے۔ دنیا نے ان کو بھی دیوی دیوتا کا درجہ دیا اور ان کی پوجا کی ہے۔ لیکن یہاں ان کا ذکر کرکے اشارہ کیا کہ ان کا غیر مخلوق یا خود آفریدہ ہونا تو الگ رہا، یہ وقت وزمان کے بےحس اور بےجان اجزاء تو خود اپنی حرکت تک پر قادر نہیں۔ زمین کی حرکت سے رات دن وجود میں آتے ہیں، موسم بدلتے ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں۔ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ وہ کون ہے جس کی عظیم الشان کاریگری اور بےمثال صناعی کا یہ نمونہ ہے ؟ فضا کے خلا میں کون ہے جو اسے تھامے ہوئے ہے ؟ اس کے اور چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کے درمیان فاصلہ کا ایک خاص تناسب کس نے قائم کررکھا ہے ؟ اس کی رفتار کی ایک خاص شرح کس نے متعین کردی ہے ؟ آفتاب سے اسے ایک خاص مقدار میں روشنی اور گرمی کون پہنچا رہا ہے ؟ چاند سے روشنی اور خنکی ایک متعین حساب کے ساتھ کس کا دست قدرت اس تک لارہا ہے ؟ آسمان اگر ٹھوس مادی اجسام ہیں تو بھی یا اگر خلا میں محض حد نظر ہیں تو بھی، ہر صورت میں ان کی وضع، ساخت، ترکیب، ہیئت، انسانی دسترس سے کتنی بالا تر ہے ؟ ثوابت اور سیار کے سکون و حرکت کا نظام کون قائم کیے ہوئے ہے ؟ ستاروں کی یہ روشنی اور ان کے طلوع و غروب میں یہ باقاعدگی کس کے حکم سے قائم ہے ؟ نظام فلکی کے بیشمار اجزاء اور عناصر میں یہ ترتیب اور باہمی تناسب کس کی حکمت وصنعت کے دم سے زندہ ہے ؟ رات اور دن کس طرح ایک برتر قانون کے اندر جکڑے نظر آرہے ہیں ؟ گرمی، سردی، برسات ہر موسم میں ان کے اندر مناسب وقت تبدیلیاں کون کرتارہتا ہے ؟ مختلف ملکوں میں ان کے طلوع و ظہور کے وقت کیسے بندھے ہوئے ہیں یہ کبھی نہیں ہو تاکہ جس وقت کلکتہ میں دن نکلتا ہے، دمشق میں بھی دن نکل آئے۔ نہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی شام کبھی ایران کی شام بن جائے۔ جنوری میں جو اوقات اندھیرا چھاجانے کے ہوتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جون میں وہی باقی رہ جائیں۔ آخر یہ رات دن کے بندھے ہوئے اور قانون کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تغیرات، کس کی حکومتِ قاہرہ اور حکمت کاملہ کی شہادت دے رہے ہیں ؟ بحر ذخارسارے براعظموں کو اپنی گرفت میں لیے رہنے والا، رقبہ میں خشکی سے چہار چند اپنی اس ساری عظمت وہیبت کے باوجود کس طرح مشت خاک انسان کے قبضہ میں آگیا ہے۔ کس طرح لکڑی کے تختوں کو جوڑ جاڑ کر ان میں لوہے کی کیلیں ٹھونک ٹھانک کر ان پر لوہے کی چادریں چڑھا کر انسان سمندر کے بڑے سے بڑے مہیب فاصلوں اور مسافتوں کو طے کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس میں مدوجزر کب ہوگا ؟ قمری مہینہ کی فلاں فلاں ہی تاریخوں پر ہوگا۔ اپنی ساری غضبناک تندی کے باوجود ایک خاص رقبہ کے حدود سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔ ایک مخصوص و متعین وزن کی چیزوں کو وہ اپنے اوپر تیرائے گا اور اس کے علاوہ وزن والی چیزوں کو ڈبو دے گا۔ اس کے پانی کا ایک مخصوص مزاج، خاص رنگ، خاص مزہ ہوگا۔ کنوئوں کے پانی سے مختلف، دریائوں کے پانی سے مختلف، اس طرح کے سینکڑوں دوسرے قانونوں کا پابند، اسے کس کی مشیت، کس کی قدرت، کس کی حکومت نے کر رکھا ہے ؟ بارش کا خاص خاص فصلوں میں خاص خاص موسموں میں یا خاص خاص فضائی تغیرات کے ماتحت ہونا، بخارات کا ایک خاص گرمی پاکر سمندری جزیرہ آب سے اٹھنا، ایک خاص فاصلہ تک اوپر جانا، ایک خاص درجہ کی سردی پاکر ان دخانی وہوائی اجزاء کا منجمد ہوجانا، ان کا بادل کی شکل اختیار کرلینا، ایک خاص درجہ ثقل تک بڑے بڑے بھاری اور بوجھل بادلوں کا فضا میں سنبھلے رہنا، پھر فلاں فلاں فضائی تغیرات کے ماتحت فلاں علاقہ تک جانا، پھر ایک بندھی ہوئی مقدار میں ایک متعین مدت کے اندر برس پڑنا، اس سے ازسر نو خشک زمین میں جان پڑجانا۔ یہ سارے ردو بدل کسی حکیم کی حکمت، کسی حاکم کی حکومت، کسی قادر کی قدرت کی کیسی کھلی ہوئی شہادت دے رہے ہیں۔ پھر حیات نباتی کے علاوہ خود حیات حیوانی جن عجائب کا مجموعہ ہے۔ ہر زندہ جسم میں بیشمار ذروں اور خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان کی جو ایک مخصوص ترتیب اور متعین ترکیب ہوتی ہے، ایک خاص درجہ کی حرارت جو حیات کو قائم رکھتی ہے، ایک خاص مقدار سے بڑھی ہوئی سردی جو اس لف میں نشر، اس اجتماع میں انتشار پیدا کردیتی ہے۔ نظام تغذیہ، نظام تنفس، نظام تناسل، نظام عصبی وغیرہ جسم کے اندر متعدد نظامات پھر ہر نظام کے تحت بیشمار قاعدے اور ضابطے اس سارے نظام اعظم کی تکوین و قیام پر کس کی مشیت، کس کی حکومت کارفرما ہے ؟ اس قسم کے سینکڑوں، ہزاروں سوالات پر انسان جتنا زیادہ غور اور نکتہ سنجی سے کام لے گا، توحید اور توحیدی حکمتوں کا نقش دل پر اور زیادہ ہوتاجائے گا۔ جاہلی اور غیر مومن قوموں کے فلسفہ اور سائنس کا صرف نقطہ نظر غلط ہوتا ہے، اس کی اگر تصحیح ہوجائے اور ان علوم مادی کا مطالعہ اگر ایمانی نقطہ نظر سے شروع کردیا جائے تو بجائے الحاد، ارتیاب و تشکک کے عرفان وایقان ہی کی راہیں روز بروز روشن ہوتی جائیں۔ (تفسیر ماجدی) اس آیت پر اگر مزیدتدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس میں شروع سے لے آخر تک اس کائنات کے متقابل بلکہ متضاد اجزاوعناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحاد وتوافق اور ان کی اس بےمثال بہم آمیزی و سازگاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لیے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھئے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ضدین کی نسبت رکھتے ہیں۔ لیکن ذرا گہری نگاہ سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطہ نظر سے آپس میں زوجین کا ساربط واتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہوجائیں بلکہ اس کی ہستی ہی نابود ہوجائے۔ اسی طرح یہ زمین نہ ہو تو کون بتاسکتا ہے کہ اس فضائے لامتناہی کے بیشمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علی ہذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جانداروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے، یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھئے اس کا پھیلائو کتنا ہوشربا اور ناپیداکنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہولناک ہیں۔ لیکن دیکھئے اس سرکشی و طغیانی کے باوجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لیے نہایت ہموار اور مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں۔ جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت ومعیشت، تمدن ومعاشرت اور علوم وفنون ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔ آگے آسمان سے بارش اور اس بارش سے زمین کے از سرِ نو باغ و بہار اور معموروآباد ہوجانے کا ذکر ہے۔ غور کیجئے ! کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان۔ لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط واتصال ہے۔ زمین اپنے روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کو ابھار نہیں دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہوائوں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں، لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے۔ جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کو ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں۔ یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کو مشرق ومغرب اور شمال اور جنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو غائب کردیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو افق پر نمودار کردیتی ہیں۔ قولِ فیصل اب سوال یہ ہے کہ غورو تدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے ؟ جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم ومدبرکا ارادہ ان سب پر حاکم و فرمانرواہے، جو ان تمام عناصر مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غورکیجئے ! تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے وہ یہ کہ یہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقاء ہوا ہے، وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصر مختلفہ میں ایک بالاتر مقصد کے لیے وہ سازگاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ غور کیجئے ! تو یہ ایک ہی حقیقت، ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدباب کررہی اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ (ماخوذ ” تدبر قرآن “ )
Top