Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بےانتہارحم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے)
وَاِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ ج لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۔ (البقرۃ : 163) (اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بےانتہارحم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے) گزشتہ آیت کریمہ پر سورة البقرۃ کا پہلا باب ختم ہوگیا۔ اس میں بعض دوسرے اساسی مباحث کے ساتھ ساتھ زیادہ تر گفتگو بنی اسرائیل کے حوالے سے رہی۔ ان کے عقائد سے لے کر ان کی عادات واطوار تک مختلف باتیں زیر بحث آئیں اور ایک مکمل تنقید سے ان کی نااہلی کے اسباب واضح فرمائے گئے اور آخر میں منصب دعوت و امامت سے ان کی نااہلی کا اعلان کردیا گیا۔ اور پھر مسلمانوں کو ملت ابراہیم کا وارث قرار دے کر اس عظیم منصب کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کردی گئیں۔ اب پیش نظر آیت کریمہ سے اس سورة کا دوسرا باب شروع کیا جارہا ہے۔ جس میں اس نئی بننے والی امت کو اس وقت کے حالات کے مطابق ہدایات دی جارہی ہیں، شریعتِ الہٰی کی تجدید کی جارہی ہے۔ مشرکین اور اہل کتاب پر ضمنی طور پر تنقید کے ساتھ ساتھ امت اسلامیہ کو ان کے حقیقی مقاصد سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ توحید ہی اسلام کا مبدأ و معاد ہے اللہ نے انسانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے، ہر دور میں اس کی اساس اور بنیاد ” توحید “ رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی شعور کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ تصور توحید میں بھی ارتقاء ہوتا گیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ امتیں مذہبی طور پر اس وقت تباہ ہوئیں جب انھوں نے عقیدہ توحید کو بےمیل نہ رہنے دیا، اس میں شرک کے لیے راستے کھولے اور پھر آہستہ آہستہ اس نعمت سے محروم ہوگئیں۔ یہ نئی بننے والی امت چونکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے نئے سفر کا آغاز کررہی ہے اس لیے انھیں بھی سب سے پہلے جس بات کا حکم دیا جارہا ہے وہ وہی توحید ہے، جو دین کی اصل اساس ہے۔ چناچہ ہم پورے قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی کوئی اہم بحث ایسی نہیں جس میں عقیدئہ توحید کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔ قرآن کریم کا آغاز سورة فاتحہ میں عقیدہ توحید سے ہوا۔ سورة بنی اسرائیل نصف قرآن کی اہم ترین سورة ہے، وہاں دوبارہ اسی عقیدے کو نئی شان سے دہرایا گیا ہے۔ پھر قرآن پاک کی تعلیمات کا اختتام سورة اخلاص کی صورت میں اسی عقیدے پر کیا گیا ہے اور آخری دو سورتیں جنھیں ” معوذتین “ کہا جاتا ہے، وہ اسی خزانے کی حفاظت کے لیے محافظ کے طور پر اپنا فرض انجام دے رہی ہیں۔ اللہ کے وجود سے انکار انسانوں کو کبھی نہیں رہاکیون کہ اس کے وجود سے انکار اصلاً اپنی فطرت سے جنگ ہے، جو سراسر ایک منفی تصور ہے اور محض ایک منفی تصور زندگی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ تاریخ میں ہمیں ہر طرح کے بگاڑ کی شہادتیں ملتی ہیں۔ لیکن کبھی انسانوں کی کسی قابل ذکر تعداد نے اللہ کے وجود سے انکار کیا ہو اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ اس کی پہلی مثال ہماری قریبی تاریخ کا کیمونزم ہے جس نے انسان کو مذہب کے خلاف بغاوت پر اکسایا اور بالآخر اللہ کے وجود سے انکار کردیا۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس انکار پر اٹھنے والی ایک توانا تحریک جس نے دنیوی اعتبار سے بےپناہ ترقی کی ستر سال کے بعد ہی اپنے خطرناک زوال میں ڈوب گئی اور جن لوگوں کو جبراً اس سے دور کیا گیا تھا انھیں جب آزادی کا موقعہ ملا تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ان سے بہت کچھ چھن چکا ہے لیکن خدا کا تصور ان میں اب بھی باقی ہے۔ قرون ماضیہ کے وہ ادوار جنھیں ہم نہایت پسماندگی کا زمانہ سمجھتے ہیں، اللہ کے وجود کی شہادتیں مختلف ناموں سے ان میں بھی پائی جاتی ہیں (سورۃ الفاتحہ کے درس میں، میں اس کا کسی حد تک تذکرہ کرچکا ہوں) ۔ قرآن کریم شائد اسی وجہ سے اللہ کے وجود پر زیادہ بحث نہیں کرتا البتہ وہ اللہ کی توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر بحث کرتا ہے کیونکہ دنیانے ہمیشہاسی میں ٹھوکر کھائی ہے اور مختلف قسم کے شرک میں مبتلاہوکر اپنی اصل حیثیت کو گم کردیا ہے۔ اسی حقیقت کے تحت یہاں بھی امت مسلمہ کو سب سے پہلے توحید ہی پر توجہ دلائی گئی ہے۔ پہلے مثبت انداز اختیار کیا گیا ہے تاکہ توحید کا تصور دل و دماغ میں جڑ پکڑ جائے اور پھر منفی انداز اختیار کرکے ہر طرح کے شرک کی جڑ کاٹ دی ہے۔ ارشاد فرمایا : وَاِلٰـھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ” تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے “۔ اس کے بعد منفی انداز اختیار کرکے ہر طرح کے شرک کا خاتمہ کردیا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ ہم نے سورة فاتحہ میں ” اِلٰـہ “ کی معنوی حیثیت پر کافی بحث کی ہے۔ اسی طرح رحمٰن اور رحیم کو بھی سمجھانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ بہتر ہے کہ اسے وہاں دیکھ لیاجائے۔ البتہ ! یہاں نہایت اختصار سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ” اِلٰہ “ جس طرح ” معبود “ کو کہتے ہیں اسی طرح مطلوب و مقصود اور حاکم حقیقی کو بھی کہتے ہیں۔ انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے دل کی آبادی کس کی محبت سے ہونی چاہیے، وہ کون سا تعلق ہے، جو تمام تعلقات کا مبدا اور منتہا ہے۔ پھر وہ کون سی ذات ہے جسے انسان کے لیے راہنمائی فراہم کرنے کا حق ہے ؟ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی ہر سطح پر آئینی، قانونی، تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی ہدایات دینا اور پھر اس کی پابندی کرانا یہ کس کو زیب دیتا ہے ؟ انسان ہمیشہ تجربات کی زد میں رہا ہے، وہ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا رہا ہے۔ لیکن کوئی ایسا نظام زندگی تشکیل نہیں کرسکا جو اس کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا اور تمام مشکلات کو حل کرنے والاہو کیونکہ فطرتِ انسانی کو سمجھنا پوری طرح انسان کے لیے ممکن نہیں اور خواہشات اور مفادات کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کرلینا بھی انسان کے لیے آسان نہیں ہر خطے کے لوگ اپنے مفادات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہر قوم دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنے مخصوص تصورات رکھتی ہے۔ ہر نسل دوسری نسل کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔ ہر خطہ اپنے اندر زندگی گزارنے والوں میں کچھ فطری داعیات کو ابھارتا ہے، جو دوسروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ انسان پر عقل کی حکومت ہے، لیکن عقلوں میں انتہادرجے کا تفاوت ہے۔ مزید یہ کہ نئے نئے فلسفوں نے عقل کو آزاد نہیں رہنے دیا بلکہ اسے خواہشات، مفادات اور تعصبات کا ایجنٹ بنادیا ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ انسان اس جہانِ خیر وشر میں سواء السبیل تک پہنچنے پر اپنے تئیں قادر نہیں۔ جب بھی انسانوں نے ایسی کوششیں کی ہیں تو انسانی فکر کا پلڑا کسی نہ کسی طرف جھک گیا ہے۔ آج کے روشنیِ علم وہنر کے زمانے میں بھی قوموں کے اجتماعی ادارے ایسے فیصلے کررہے ہیں جنھیں اخلاقی لحاظ سے ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور انسانی اقدار کے حوالے سے ایک ایسی قیامت برپا ہے، جس نے جان مال اور آبرو کے حوالے سے بنیادی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ انھیں وجوہ کی بنا پر قرآن کریم بار بار لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ اگر تم ایک ایسی زندگی گزارنا چاہتے ہو جس میں دنیوی اور اخروی دونوں طرح کی فلاح نصیب ہو تو پھر تم اللہ کی توحید کا دامن مضبوطی سے تھام لو اور اس بات کو قبول کرلو کہ جس طرح تمام انسانوں کی جسمانی ضرورتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وجود میں آرہی ہیں اور اس کی صفت ربوبیت تمام مخلوقات کو پال رہی ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی ضرورتیں قدرت کی طرف سے پوری نہ ہورہی ہوں۔ اسی طرح ہماری روحانی، معنوی اور اجتماعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اس نے ہر قوم کو ہدایت بخشی ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے، اپنے پیغمبروں کی معرفت ایک ایسا نظام زندگی دیا ہے، جس میں آئین سے لے کر تہذیب تک ہر ضرورت کو پورا فرمایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس نے اپنے ذمہ اس لیے لے رکھا ہے کہ وہ ” رحمٰن اور رحیم “ ہے۔ اس کی رحمت جس طرح بچے کو پیدا کرتی، پروان چڑھاتی اور زندگی کی ضرورتیں مہیا فرماتی ہے۔ اسی طرح اس کی رحمت نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ تمہارا رب کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری انفرادی اور اجتماعی ضرورتیں کس طرح کے علم اور شعور سے پوری ہوسکتی ہیں۔ اس کے سامنے صرف ہماری دنیا نہیں بلکہ آخرت بھی ہے۔ اس لیے آخرت میں کامیابی کے لیے جس طرح کی رہنمائی ضروری تھی اور جس طرح کے اعمال درکار تھے، ان میں سے ایک ایک چیز سے ہمیں بہرہ ور فرمایا ہے کیونکہ یہ اس کی الوہیت کا تقاضا اور اس کی رحمت کا فیضان ہے۔
Top