Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
(اے ایمان والو ! ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو، بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْن۔ (البقرۃ : 153) (اے ایمان والو ! ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو، بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے ) آیت کا پس منظر اور تہہ منظر اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا پس منظر پیش منظر اور تہہ منظر بھی سمجھا جائے۔ اس کا پس منظر اور تہہ منظریہ ہے کہ یہ آیت کریمہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ہے اور مدینہ طیبہ میں آپ کے مخاطب اوس و خزرج کے علاوہ یہود کے تین قبیلے ہیں۔ مکہ معظمہ سے اگرچہ آپ ہجرت فرماچکے ہیں۔ لیکن وہ پس منظر میں رہ کرا بھی تک اسلام اور مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ جہاں تک یہود کا تعلق ہے ان کی اسلام اور آنحضرت ﷺ سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ بری طرح حسد کی آگ میں جل رہے تھے۔ جس مذہبی سیادت اور منصب مشیخیت پر وہ فائز تھے اور جس کی وجہ سے ان کے لیے فتوحات کا دروازہ کھلاہوا تھا، آنحضرت کی بعثت کے بعد وہ اپنے اس منصب کو ہلتا ہوا محسوس کررہے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ نبی آخرالزماں قریش میں تشریف لاچکے ہیں۔ بیت اللہ کو ان کا الگ قبلہ بنا کر اللہ نے ان کو انفرادیت دے دی ہے اور اس سے ان کا قومی تشخص ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ روزبروز مسلمانون کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسلامی قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ اس بڑھتی ہوئی قوت کو اپنی قومی سیادت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ محسوس کررہے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ہمیں اللہ کی جانب سے امامت و قیادت کے منصب سے معزول کرکے نبی آخرالزماں کی امت کو فائز کیا جارہا ہے۔ اب اگر یہ امت سیاسی طور پر بھی مستحکم ہوجاتی ہے تو ہمارے لیے جزیرہ عرب میں کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ اس پوری صورتحال نے انھیں غیظ وغضب کی انتہاتک پہنچا دیا تھا۔ دشمنی میں وہ پہلے بھی کم نہ تھے لیکن مسلمانوں کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ان کو امید دلاتا تھا کہ شائد یہ ایک نکتہ اشتراک مزید اشتراکات میں تبدیل ہوجائے۔ لیکن تحویلِ قبلہ کا حکم آنے کے بعد وہ دشمنی کے سوا ہر جذبے سے محروم ہوگئے۔ اب انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ جس طرح بھی ہوسکے اس نوزائیدہ تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے یا کم از کم ان کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جائیں۔ اس طرح سے مسلمانوں کے لیے مدینہ طیبہ، جس کے وسائل پر بہت حد تک یہود قابض تھے اور عوام کے اندر ان کا بےپناہ اثر رسوخ پایا جاتا تھا، ایک ایسی بستی میں تبدیل ہوگیا جس میں ان کے لیے ہر طرف خطرات کے ناگ لہراتے ہوئے نظر آتے تھے اور آئندہ انھیں اس سے بھی بڑے خطرات کا اندیشہ تھا۔ دوسری طرف قریش تھے۔ جنھوں نے مسلسل مسلمانوں کو اذیتیں پہنچا کر مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو بظاہر بےبس اور تنہا پاکر قتل کردینے کا منصوبہ بنا چکے تھے کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے آنحضرت ﷺ کو نہایت حفاظت کے ساتھ مدینہ پہنچا دیا۔ اس سے اگرچہ قریش کو بڑ ادھچکا لگا لیکن پھر بھی وہ یہ سمجھنے لگے کہ ان کی مسلمانوں سے جان چھوٹ گئی۔ اب مدینے کا اجنبی ماحول اور یہود جیسے خطرناک دشمنوں کی دشمنی مسلمانوں کو ختم کردینے کے لیے کافی ہوگی۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان تو روزبروز بڑھتے جارہے ہیں ان کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ نے بیت ابراہیمی کو ان کا قبلہ مقرر کردیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرنے لگے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے ملت ابراہیم پر مبعوث کیا ہے اس لیے آپ اور آپ کی امت بیت اللہ کے صحیح اور جائز وارث ہیں۔ اس صورتحال نے ان کے اندر بھی ایک آگ لگادی تھی اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ اگر مسلمانوں کو ختم کرنے یاروکنے کی بروقت کوشش نہ کی گئی تو مسلمان آگے بڑھ کر خانہ کعبہ کو واگزار کرانے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ خانہ کعبہ کو مرکز بنا کر اسلامی تحریک کو تیزی سے آگے بڑھاسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مکہ ان کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا اور عرب کی طاقت ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور پھر قریش ان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ آیت کا پیش منظر قریش اور یہود کے ان اندیشوں نے آہستہ آہستہ فتنے کی شکل اختیار کرنا شروع کردی اور دونوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے وعدے کرلیے۔ مسلمان اگرچہ ان حالات سے پوری طرح باخبر نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہیں وہ تو ہر طرح سے ان حالات کو جانتے تھے۔ اس لیے اس آیت کریمہ اور اگلی آیات میں مسلمانوں کو آنے والے خطرات سے متنبہ کیا اور ساتھ ہی ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کا حل بھی تجویز فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں اگرچہ خطرات کا ذکر نہیں لیکن ایک تو اس کے بعد کی آیات میں خطرات کی طرف واضح اشارے موجود ہیں اور دوسرا اس آیت میں جس طرح مدد چاہنے اور پھر اس کے لیے صبراختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اس میں جس طرح خطرات کی طرف اشارہ موجود ہے جسے ہر معمولی عقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے۔ آپ کسی فرد یا گروہ سے کہئے کہ تم اللہ سے مدد مانگو اور اس کے لیے صبر اور نماز کو اختیار کروتو جو شخص بھی اپنے ماحول سے واقف ہے اور اپنے فرائض کی مشکلات سے بھی باخبر ہے اسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ مجھے درحقیقت کیا کہا جارہا ہے۔ چناچہ مسلمان بھی اس سے پوری طرح باخبر ہوگئے کہ ہمارے سامنے خطرات کی گھٹائیں اٹھنے والی ہیں اس لیے ہمیں اس کے لیے تیاری شروع کردینی چاہیے۔ چناچہ تیاری کے لیے جو نسخہ تجویز ہوا، اس کے دو اجزا ہیں۔ ایک صبر، دوسرا نماز۔ خطرات اور مشکلات کا علاج نظریاتی قوتیں جب کبھی ناموافق صورتحال سے دو چار ہوتی ہیں تو ان کے لیے سب سے بڑا سہارا ان کی اپنے نظریات سے کمٹمنٹ، وابستگی اور ان پر استقامت ہوتی ہے۔ یہی چیز ہے جو قوموں کو مشکل سے مشکل حالات میں حوصلہ مند بناتی اور مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ دشمن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ انھیں بےحوصلہ کرکے ان کامورال توڑ ڈالا جائے تاکہ یہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگیں۔ ہر اٹھتی ہوئی آواز کو کوندتی ہوئی بجلی تصور کریں اور ہر چھوٹے بڑے خطرے کو دیکھ کر کمپرومائز کرنے پر تیار ہوجائیں۔ کسی قوم میں اگر واقعی ایسی کمزوریاں داخل ہوجائیں تو انھیں تباہ کرنے کے لیے دشمن کو زیادہ کوشش نہیں کرنا پڑتی کیونکہ جس طرح مدافعت کی قوتیں باہر سے کام کرتی ہیں، اس سے بڑھ کر اندر سے کام کرتی ہیں۔ کانپتے ہوئے ہاتھ اور سہمے ہوئے دماغ اور سراسیمہ قلوب کبھی بھی حالات کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اس لیے سب سے پہلے اسی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ تم اپنے اندر صبر کی قوت پیدا کرو، اپنے نظریات پر اڑجاؤ، ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاؤ، ڈرنے اور سہمنے کی بجائے جرأت اور استقامت کو اپنا ہتھیار بنائو۔ لیکن قربان جائیے قرآن کریم کی بلاغت پر کہ اس نے صبر کا لفظ استعمال کیا جو اپنے اندر بڑی معنوی وسعت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہم نے عرض کیا اس کے ساتھ ساتھ صبر کے مفہوم میں تین اور باتیں بھی شامل ہیں، جسے اہل علم صبر کی تین قسمیں شمار کرتے ہیں۔ 1۔ صبر علی الطاعات، 2۔ صبر عن المعصیات، 3۔ صبر علی المصائب 1۔ صبر علی الطاعات کا مطلب ہے اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند کردینا، نفس کو اطاعت کی زنجیر پہنا دینا، نفس کو اس قابل بنادینا کہ خواہشات اسے اپنے راستے پر چلنے کے لیے آمادہ نہ کرسکیں۔ امیدیں اور آرزوئیں نفس کو مجبور نہ کرسکیں کہ وہ شریعت کے حکم کو چھوڑ کر امیدوں اور آرزوئوں کی پیروی کرنے لگے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت دل و دماغ اور نفس کے لیے مرغوب ہوجائے اور گناہ اور نافرمانی ان کے لیے مکروہ بن جائے۔ 2۔ صبر عن المعصیات اس کا معنی ہے معصیتوں اور نافرمانیوں سے صبر۔ یعنی آدمی اپنے آپ کو اس طرح مضبوط بنا دے کہ کوئی نافرمانی اس سے سرزد نہ ہونے پائے۔ نافرمانی کے مقابلے میں وہ اڑ جائے۔ اس کے لیے اسے کیسی ہی قربانی دینی پڑے اس سے کبھی دریغ نہ کرے۔ 3۔ صبر علی المصائب مصیبتوں پر صبر۔ نیکی کے راستے میں مصیبتوں کا آنا ایک ایسی اٹل سنت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ جو آدمی حق کی علمبرداری کرتا ہے، باطل قوتیں اسے کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں اور جو شخص نیکی کو اپنا رویہ بنا لیتا ہے، برائی کی قوتیں اسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتی یا اسے بہکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوئے جو شخص رزق حلال پر اصرار کرتا ہے گھر سے لے کر اس کے دفتر تک کتنے لوگ ہیں جو اس کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ دوست احباب کی مجلس میں جو دوست اپنے دوستوں کے برے ارادوں کا ساتھ نہیں دیتا ان کی بری مجالس کی رونق نہیں بنتا ان کی خواہشات کی تائید نہیں کرتا، ایسے دوست کو کبھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایسی ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنا اور پیش آمدہ مشکلات کو برداشت کرنا صبر علی المصائب ہے۔ یہ صبر کی مختلف قسمیں ہیں، جس میں قدر مشترک صرف ایک ہے۔ وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت اور اللہ کی رضا کا حصول یہ وہ عملی وابستگی ہے جو نظریاتی وابستگی سے مل کر انسانی عزم کو مضبوط بناتی ہے۔ جس کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے میں باطل سے مقابلہ کرنے کی ایک ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے جو حق و باطل کے معرکے میں اصل مطلوب ہے۔ جو آدمی بھی یہ چاہتا ہے کہ میں حق و باطل کی آویزش میں اپنی ذمہ داریاں ادا کروں تو اسے سب سے پہلے اپنے اندر صبر کی قوت پیدا کرنی چاہیے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو نظریاتی پختگی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور عملی طہارت اور پاکیزگی کا بھی۔ اس کے بغیر کبھی آدمی باطل کے مقابلے میں کھڑا نہیں رہ سکتا۔ ؎ ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرخاکی میں جاں پیدا کرے دوسری چیز جس سے حق و باطل کے معرکے میں مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ نماز ہے۔ صبر کے سلسلے میں ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے اگر اسے پیش نظر رکھا جائے تو دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حق و باطل کے معرکے میں پامردی، استقلال، اور استقامت شرط اول ہے۔ اور دوسری یہ چیز کہ صبر کا تعلق جس طرح ثابت قدمی سے ہے اسی طرح نفس کو معصیت سے بچانے اور نفس کو اطاعت کی زنجیر پہنانے سے بھی ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں صرف غنیم اور فریقِ مخالف پر بالا دستی اور برتری مقصود نہیں ہوتی بلکہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی بھی مقصود ہوتی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس معرکے کا ہر سپاہی اس حق کا پیکر، اطاعت گزار اور علمبردار ہو جس کے لیے وہ اس معرکے میں اترا ہے اور اس کی زندگی کے کسی شعبے میں بھی اس باطل کی پرچھائیں بھی نہ پڑے جس کو وہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسے معرکے میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جس حق کے لیے معرکہ آرا ہے اس حق کے ساتھ وابستگی بلکہ غائیت درجہ والہانہ تعلق میں کمی نہ آنے پائے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتاجائے اور دوسری یہ بات کہ چونکہ باطل کا ایک رنگ نہیں وہ ہزار رنگوں میں زندگی کے بیشتر شعبوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کی سرکوبی کرنا یا اس کا مقابلہ کرنا آدمی کے اپنے وسائل سے ممکن نہیں کیونکہ ہر باطل کے پیچھے شیطانی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے کے لیے ایسے بڑے سہارے اور پشت پناہ کی ضرورت ہے، جس کی مدد میسر آجائے تو شیطانی قوتیں اس کا سامنا نہ کرسکیں۔ نماز سے مدد یہ دونوں قوتیں صرف نماز سے میسر آتی ہیں۔ نماز کے ذریعے آدمی کا اس ذات سے براہ راست والہانہ تعلق پیدا ہوجاتا ہے جو حق کی سرچشمہ اور منبع ہے۔ جو خود حق ہے اور حق اس سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہی ذات ہے جس کی مدد اور پشت پناہی کمزوروں کو مضبوط بناتی اور مغلوب کا غالب کردیتی ہے۔ ایک بندئہ خدا جب نماز کے ارادے سے ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ سوائے اللہ کے تعلق کے باقی ہر تعلق کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ان سے اظہارِ لاتعلقی کرتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ اس طرح سے وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میں اللہ کے سوا ہر آستانے پر جھکنے سے انکار کرتا ہوں اور ہر بڑائی اور آقائی کے دعویدار کی غلامی سے نفرت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ اپنے آقا کی مدح وثنا میں ڈوب جاتا ہے۔ اسی کی پناہ چاہتا ہے، اسی کے نام سے ہر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر اسی کی ذات کو مختلف صفات سے پکارتا ہے اور پھر اپنی عبدیت کا اظہار کرتے ہوئے عبدیت کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے اسی سے مدد کا خواستگار ہوتا ہے۔ فکر وعمل کی مختلف پگڈنڈیوں میں اسی سے صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرتا ہے۔ پھر اسی کی محبت اور اطاعت میں کبھی جھکتا ہے کبھی قیام کرتا ہے، کبھی غلاموں کی طرح بیٹھتا ہے، حتی کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ پھر اسی اظہارِ بندگی کے دوران وہ گھنٹوں اس کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے، جو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہیں۔ اس کی آیات رحمت پر رحمت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کی آیات عذاب پر اس کے عذاب سے پناہ مانگتا ہے۔ شب وروز میں پانچ مرتبہ اسی عمل کو دہراتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دل و دماغ میں اللہ کی کبریائی اس سے وفاداری، اپنی عاجزی اور اس کی بندگی کا تصور ایک مضبوط ایمان بن کر اس کے دل کی دھڑکن اور اس کے دل کی روشنی بن جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے اللہ کو حاضروناظر جانتا ہے۔ کوئی سا کام بھی کرے اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ کسی حال میں بھی ہو وہ جانتا ہے کہ میں اللہ کی نگاہوں میں ہوں۔ میں تنہا بےبس اور بےکس نہیں ہوں۔ جو ذات میرے دل میں مکیں ہے وہی میرے گردوپیش میں بھی ہے، میں اس کے حصار میں ہوں۔ دنیا کی کوئی قوت اس کے مقابلے میں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ جب تک مجھے زندہ رکھنا چاہے کوئی مجھے مار نہیں سکتا اور جب مارنا چاہے کوئی بچا نہیں سکتا۔ میری زندگی کارویہ اس کی اطاعت اور اس کی بندگی ہے اور میری زندگی کا سب سے بڑا ہدف اس کے نام، اس کی حرمت اور اس کے دین پر اپنے آپ کو قربان کردینا ہے۔ اس طرح نماز اسے اللہ کی بندگی کا پیکر بھی بناتی ہے اور ساتھ ہی اسے ایک ایسی توانائی اور قوت سے بھی بہرہ ور کرتی ہے جس کی موجودگی میں وہ نہ اس آستانے سے لاتعلق ہوتا ہے اور نہ کبھی کسی کمزوری کا شکار ہوتا ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں وہ یکہ و تنہا بھی ہو تو وہ اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھتا کیونکہ اس کا اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اگر وہ زندہ رہے تو حق کا خادم بن کر زندہ رہتا ہے اور اگر اسے موت اپنی طرف بلائے تو وہ شہادت کا طلب گار بن کر سب سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں چونکہ یہی دو قوتیں اساسی رول ادا کرتی ہیں، اس لیے بطور خاص ان کا حکم دیا کہ مسلمانو ! تم جن نازک حالات سے گزر رہے ہو اس میں ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد چاہوکیون کہ یہی دونوں چیزیں تمہیں حق کے ساتھ وابستہ بھی رکھیں گی اور باطل کے مقابلے میں تمہیں پامردی اور استقامت بھی دیں گی۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا : اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ بظاہر یہاں اللہ کی معیت کی بشارت صبر کرنے والوں کو دی گئی ہے، نماز کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ نے مندرجہ بالا گزارشات میں دیکھا کہ صبر نماز سے الگ کوئی چیز نہیں ہے اور نماز ہی دراصل صبر کی قوت بھی عطا کرتی ہے۔ اس لیے صابرین میں یہ دونوں ہی شامل ہیں۔ لیکن بعض اہل علم نے اسے اس طرح بھی سلجھایا ہے کہ نماز میں تو یقینا اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ نماز کے دوران جتنا آدمی اللہ کے قریب ہوتا ہے، اتنا کسی اور حالت میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے نماز کو ” معراج المومنین “ کہا گیا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز واقعی نماز ہو، محض بیگار ٹالنے کی کوشش نہ ہو۔ مزید یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس نماز کا یہاں ذکر کیا گیا ہے جو مشکلات و مسائل میں آدمی کے لیے سہارا بنتی ہے وہ صرف پنجوقتہ فرض نماز نہیں بلکہ اس میں تہجد اور تمام نفل نمازیں بھی شامل ہیں کیونکہ نفل نمازیں بالخصوص رات کی نمازیں جبکہ دیکھنے والا کوئی نہ ہو، ایک مومن میں حقیقی روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں اور انھیں سے اللہ کے ساتھ وہ مضبوط تعلق پیدا ہوتا ہے، جو کسی سخت سے سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا اور انھیں سے مومن کے دل میں وہ محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے، جو اللہ کے ساتھ اس کا حقیقی تعلق پیدا کرتی ہے۔ اندازہ فرمائیے ! جن خوش نصیبوں کو اللہ کی معیت کا وعدہ مل جائے ان کی خوش نصیبی کا کیا ٹھکانہ ہے اور پھر حق و باطل کے معرکے میں ان کی کمزوری کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کمزور تو وہ ہوتا ہے جو تنہا ہو یا جس کا ساتھ دینے والے کمزور ہوں۔ جس کے ساتھ اللہ ہو اس کے یہاں کمزوری کا کیا سوال ؟ وہ بظاہر کمزور دکھائی بھی دیتاہو، لیکن حقیقت میں وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ اسے طاقتور کی معیت حاصل ہے لیکن اس کا حقیقی احساس اس وقت ہوتا ہے جب آدمی حق و باطل کی کشمکش میں شریک ہو اور اسے انتہائی ناموافق حالات سے گزرنا پڑرہاہو اور رہا وہ شخص جو نمازیں تو پڑھتا ہے لیکن باطل سے مقابلہ کا کبھی کوئی تصور اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا اس کے لیے نماز ایک تسکین کا باعث تو بن سکتی ہے قوت کا باعث نہیں بنتی۔
Top