Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا میری شکرگزاری کرتے رہنا میری ناشکری نہ کرنا
فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَـکْفُرُوْنِ ۔ (البقرۃ :۔ 152) (پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا میری شکرگزاری کرتے رہنا میری ناشکری نہ کرنا) اللہ تعالیٰ اور اس امت کے درمیان ایک معاہدہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری، قرآن کریم کے نزول اور تحویلِ قبلہ کے حکم کے بعد اس امت کے وجود اس کی شیرازہ بندی اور اس کی بقا کے تمام سامان میسر ہوگئے یہ قافلہ حق اپنے سفر پر روانہ ہوچکا ہے۔ اب اس کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے۔ اور اس دنیا میں اپنے مفوضہ کردار کو ادا کرنا ہے۔ اسے خوب معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے وجود کی پہلی اینٹ اللہ کی یاد سے اٹھائی گئی ہے۔ اس کی زندگی کا سارا سرمایہ اس علم پر مشتمل ہے جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور اس امت کے دلوں کی روشنی اس اسوہ میں ہے جو اللہ کے رسول کا اسوہ ہے۔ اور ان کی تمام تر رفعتیں اور کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کی مرہونِ منت ہیں۔ وہی ہے جس کی معیت ہر وقت انھیں حاصل ہے وہ جس طرح ان کا حامی وناصر ہے اسی طرح ان کے اعمال کا نگران بھی ہے۔ غرضیکہ اللہ کی یاد اور اس کا استحضار ایک مومن کی زندگی ہے وہ ایمانیات سے لے کر آداب زندگی تک ہر لمحہ اللہ کی تعلیمات کا محتاج ہے اور اپنے ہر عمل میں قوت اور اس کی قبولیت کے لیے اللہ کی رحمت کا متمنی ہے۔ وہ اپنے کسی کام اور کسی ضرورت کے حوالے سے بھی اللہ سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔ اس کو سمیٹتے ہوئے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک مومن کی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اللہ کو یاد رکھے اور اللہ کی طرف سے بندے پر انعام یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کی بندگی کو قبولیت سے نوازے اور اپنی نصرت و تائید سے اس کی بھرپور مدد فرمائے۔ یہ گویا ایک طرح سے ایک معاہدہ ہے جو اللہ اور اس امت کے درمیان ہوا ہے۔ اور یہی معاہدہ ہر امت کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے حوالے سے بھی ہمیں بتایا گیا ہے کہ اسے بھی اسی طرح کی یاددہانی کی گئی تھی۔ اُذْکُرُو انِعْمَتِیَ الَّتِی اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعْھَدِکُمْ وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَ ۔ (میری اس نعمت کو یاد رکھو جو میں نے تم پر کی ہے اور میرے عہد کو پورا کرو اور میں اس عہد کو پور اکروں گا جو میں نے تم سے کیا ہے اور مجھ ہی سے ڈرو) یہی معاہدہ اس امت سے کیا گیا ہے کہ تم اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں جو اللہ اور اس کے رسول نے تم پر عائد کی ہیں ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہ کرو۔ اسی کے لیے جیو اور اسی کے لیے مرو، تمہارا ہدف صرف اعلائے کلمۃ الحق ہونا چاہیے۔ اس کی خاطر تمہیں دنیا بھر سے ٹکراناپڑے تو کبھی دریغ نہ کرو۔ اپنی ذات کی بالکل نفی کردو، اپنے مفادات اور اپنے مرغوبات کو اسلامی مفادات میں گم کردو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر مرحلے پر تمہیں اپنی نصرت سے نوازے گا۔ مشکل سے مشکل مرحلے پر تمہاری مدد کرے گا، تمہاری زمینیں تمہارے لیے سونا اگلیں گی۔ آسمانوں سے برکتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ لیکن ساتھ ہی ایک وارننگ بھی دی ہے جو اس آیت کے دروبست میں جھلک رہی ہے۔ ذرا اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے ! اس کا ترجمہ یہ ہے ” تم مجھے یاد رکھو تو میں تمہیں یاد رکھوں گا “ یاد رکھنے کا مفہوم یہ ہے کہ تم میری ہر نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔ تمہار اجسم، تمہاری جان، تمہارا مال، تمہاری زبانیں اور تمہارا قلم، تمہارے عہدے، تمہارے مناصب، تمہاری حکومتیں، تمہاری افرادی قوت، تمہارے ذرائع اور وسائل، تمہارے ذرائع ابلاغ، تمہاری فوج، یہ سب اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ ان کا شکر یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ کی بندگی اللہ کے بندوں کی خدمت، اللہ کے دین کی سربلندی، اللہ کے احکام کی اطاعت اور اللہ کے رسول کی سنت پر عمل میں صرف ہو۔ ناشکری یہ ہے کہ ان میں سے ہر چیزمذکورہ مقاصد سے مختلف مقاصد میں صرف ہو یا اپنی ذات اور ہوائے نفس کی خدمت میں خرچ ہو۔ کہا اگر تم مجھے یاد رکھو اور ناشکری نہ کروتو پھر میرا وعدہ ہے میں تمہیں یاد رکھوں گا یعنی تمہیں دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے نوازوں گا۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت تم بنو گے، تمہارا لوہا ہر لوہے کو کاٹے گا، تمہاری پیشانی کی سلوٹوں سے قوموں کی تقدیریں بدلیں گی۔ یہ محض خیال آرائی نہیں صدیوں تک دنیا اس امت کو اسی بلندی پر دیکھ چکی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے دور کے اللہ سے ڈرنے والے حکمران تھے، جو ایک مزدور سے بھی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ لیکن ان کی ہیبت کا عالم یہ تھا کہ اس وقت کی معلوم زمین پر کوئی غیر مسلم حکومت ایسی نہ تھی جو انھیں خراج نہ دیتی ہو۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بادل کے ایک آوارہ ٹکڑے کو دیکھ کر کہا :” تو جہاں چاہے جا کر برس، تیرے پانی سے جو پیداوار ہوگی وہ میرے ہی خزانے میں آئے گی “ پھر خود ہی اس کا مطلب بیان کیا کہ اگر یہ عالم اسلام پر برسے تو وہ میری مملکت ہے اور اگر یہ کسی غیرمسلم ملک پر برسے تو کوئی ایسا غیر مسلم ملک نہیں جو مجھے خراج نہ دیتاہو۔ آج یہ باتیں لوگوں کو افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخ اس سے انکار نہیں کرسکتی کہ ہم نے صدیوں تک ظالموں کی گردنیں جھکائی ہیں۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے : کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سردارا کہوں کیا ہم نشیں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا لیکن اسی آیت میں تنبیہ اور وارننگ بھی مضمر ہے کہ اگر تم مجھے یاد نہیں رکھو گے تو سوچ لو پھر اس کا انجام کیا ہوگا کیونکہ ہماری ہستی سے لے کر کامیابی تک پورا سفر اللہ کی ذات کا مرہونِ منت ہے۔ اگر وہ ہمیں اپنی یاد سے نکال دے تو نتیجہ اس کا وہی ہوگا جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی امت ہوتے ہوئے بھی آج ہم بدترین ذلت کا شکار ہیں۔ کوئی ملک کسی دوسرے کی مدد کرنے کی ہمت نہیں کررہا۔ بلکہ ہم تو پتلیوں کی طرح غیر مسلم قوتوں کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے مفادات سے زیادہ ان کے مفادات عزیز ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کو غیر مسلموں کی خاطر قتل کرنے سے بھی ہمیں دریغ نہیں۔
Top