Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب وہ ملتے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی مومن ہیں۔ اور جب اپنے سرداروں کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ہم تو ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں
وَاِذَا لَقُوْالَّذِیْنَ اٰٰمَنُوْا قَالُوْآاٰمَنَّا ط وَاِذَا خَلَوْااِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا قَالُوْآ اِنَّامَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِء ُ وْنَ ۔ اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَہُوْنَ ۔ (اور جب وہ ملتے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی مومن ہیں۔ اور جب اپنے سرداروں کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ہم تو ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں۔ اللہ ان سے مذاق کررہا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دئیے جارہا ہے، یہ بھٹکتے پھر رہے ہیں) (البقرۃ : 14 تا 15) ان دو آیات کریمہ میں پروردگار نے منافقین کی ایک اور قسم یا ان کی صفات میں سے ایک اور صفت کو بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے دو آیتوں میں جن منافقین کا ذکر ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں کسی حد تک ایمان کا اثر تھا۔ وہ دعوت اسلامی سے متاثر تھے لیکن اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ اگر زبانی اقرار کافی ہوتا تو انھیں اس سے انکار نہ تھا۔ البتہ ایمان کے لیے قربانیوں کا تقاضا ان کے لیے نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ وہ بھی غالباً ایمان کو اللہ کے سامنے دعا اور مناجات یا پوجا پاٹ کی حد تک محدود سمجھتے تھے۔ لیکن عملی زندگی کی کشمکش میں وہ کسی طرح اترنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن پیش نظر آیتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ منافقین ہیں جن کا ایمان سے کوئی تعلق نہ تھا جو محض مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے یا وقت گزاری کے لیے مسلمانوں میں آبیٹھتے تھے۔ اور پھر محض مسلمانوں کو بہلانے کے لیے ایمان کا اظہار کرتے تھے لیکن جب اپنے بڑوں سے ان کی ملاقات ہوتی تو وہ فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے معلوم ہوتا ہے اسلامی دعوت تم میں اثر کرگئی ہے تم ان میں اٹھنے بیٹھنے لگے ہو کہیں تم واقعی مسلمان تو نہیں ہوگئے ہو۔ تو وہ انھیں اطمینان دلاتے ہوئے کہتے کہ ہم ہر لحاظ سے تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو مسلمانوں کو محض بہلا رہے تھے یعنی ہم نے ان کو مذاق بنا رکھا ہے ہم مذاق ہی مذاق میں ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور وہ اس پر یقین کرلیتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ہمارا ایمان سے کوئی رشتہ نہیں۔ ان کا اپنے سرداروں سے یہ کہنا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس طرح تم ان کے بدترین دشمن ہو اور ہر وقت ان کی بیخ کنی کی فکر میں رہتے ہو ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہم وہاں صرف حالات معلوم کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم ان سے متاثر ہوگئے ہیں اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ یہود میں سے ہوں گے کیونکہ یہودسازش کے طور پر اپنے جاسوسوں کو مسلمانوں میں بھیجتے رہتے تھے۔ وہ جاسوسی بھی کرتے اور سوالات کی صورت میں مسلمانوں کے ذہنوں میں اشتباہات بھی پیدا کرتے۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح اسلام کی وابستگی کو ہر چیز پر ترجیح دے رکھی ہے اور اس راستے میں آنے والاہر رشتہ انھوں نے کاٹ پھینکا ہے اور وہ اسلام کے لیے دیوانہ ہوئے پھرتے ہیں ہم اس طرح ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس جاتے ضرور ہیں لیکن ہمیں اپنے گروہی تعصبات ان سے زیادہ عزیز ہیں اس لیے تم یہ گمان نہ کرو کہ ہم انھیں تم پر ترجیح دینے لگے ہیں اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں میں سے ہوں گے۔ یہ لوگ کسی گروہ میں سے بھی ہوں اسلوبِ کلام بتاتا ہے کہ تھے یہ منافقین میں سے۔ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے وہ ایسی کسی بات کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سامنے ان کی زبان پر ایمان کا اقرار ہی رہتا تھا۔ لیکن اپنے سرداروں کے پاس جاکر اپنے دل کی بات کرتے تھے اور اسی کا نام نفاق ہے۔ شیاطین کون ہیں ؟ ان آیتوں میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں جن کا مفہوم سمجھ لینا چاہیے۔ ایک ہے شَیٰطِیْنِ ۔ یہ شیطان کی جمع ہے۔ شیطان فعلان کے وزن پر ہے۔ اس کا معنی ہے سرکش، تند خو، متمرد، متکبر، ظاہر ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی کافرگروہ میں اللہ اس کے رسول اور دین کے خلاف اپنے گروہ کی قیادت کررہاہو اور اس کی سرکشی اور اس کا تمرد اسے راہ راست کی طرف نہ آنے دیتا ہو تو یہاں اس سے مراد ان منافقین یا کافروں کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ اللہ کا مذاق دوسرا لفظ اس آیت میں آیا ہے۔ مُسْتَھْزِئُ ْون۔ مستھزء کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے ” مذاق کرنے والا یا اڑانے والا “۔ دوسری آیت کریمہ میں اسی مادہ سے فعل مضارع اللہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اللہ یستھزء بھم ” اللہ ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ “ سوال یہ ہے کہ مذاق کرنا یا مذاق اڑانا، یہ انسان کی فروتر عادات میں سے ہے۔ اللہ کی طرف اس کی نسبت کسی بھی طرح مناسب نہیں تو یہاں اس کا استعمال اللہ کی ذات عظیم کے ساتھ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ ” استھزأ“ کا معنی جس طرح ” مذاق کرنا “ ہوتا ہے اسی طرح ” انتقام لینا “ بھی ہوتا ہے اور بعض قدیم مفسّرِین نے بھی یہ معنی مراد لیا ہے۔ اس لحاظ سے تو اس لفظ کا استعمال اللہ جل جلالہ کے لیے بالکل صحیح ہے۔ لیکن اکثراہلِ علم کا خیال یہ ہے اور اس میں کسی کا اختلاف بھی نہیں کہ عربی زبان میں کسی فعل کے سزا کے طور پر بھی اسی فعل کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جزاء سیئۃٍ سیئۃٌ مِثلُھَا ” برائی کی سزا اس کی طرح برائی ہے “۔ یہاں غور فرمائیے ! برائی کی سزا کو بھی برائی قرار دیا گیا ہے حالانکہ برائی کی سزا تو عدل اور انصاف ہوتی ہے۔ اسی طرح : وَلَاتَکُونُواکَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَاھُم انفُسَھُم ” ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے انھیں بھلادیا۔ “ حالانکہ بھول جانا، اللہ کی صفت نہیں، اللہ ہر طرح کی بھول سے پاک ہے۔ لیکن یہاں ان کے بھول جانے کی سزا کے طور پر یہ لفظ آیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی یہ لفظ اسی طرح استعمال ہوا ہے۔ منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے یعنی اللہ انھیں ان کے مذاق کی سز ا دیتا ہے۔ صرف صنعت تجانس کے طور پر ایک جیسے الفاظ لائے گئے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس سزا کا وضاحت کے ساتھ ذکر بھی فرمایا ہے کہ اللہ انھیں اس طرح سزادے رہا ہے کہ وہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا اظہار کررہے ہیں اب بجائے اس کے کہ پروردگار ان پر گرفت فرمائے ان پر عذاب بھیج کر انھیں تباہ کردے۔ اللہ مسلسل انھیں ڈھیل دئیے جارہا ہے اور ان کی رسی ڈھیلی چھوڑی جارہی ہے۔ اللہ کے پیغمبر ان کی اس سرکشی پر جب عذاب سے ڈراتے ہیں تو وہ پلٹ کر یہ کہتے ہیں کہ کہاں ہے وہ عذاب ؟ آخر وہ کہاں اٹک گیا ہے۔ وہ ہم تک پہنچنے کیوں نہیں پاتاوہ اس طرح کا جتنا مذاق اڑاتے ہیں اللہ تعالیٰ اتنی ہی انھیں ڈھیل دئیے جارہا ہے اور عذاب کو مؤخر کررہا ہے یہ ان کے مذاق کی ایسی خطرناک سزا ہے جس سے بڑھکر کسی خطرناک چیز کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا شکاری کنڈی پھینکنے سے پہلے کنڈی کے سرے پر گوشت کا ٹکڑا اٹکا دیتا ہے۔ مچھلی اسے غذا سمجھ کر اسے کھانے کے لیے لپکتی ہے تو وہ کانٹا اسکے منہ میں اترجاتا ہے۔ شکاری جب دیکھتا ہے کہ مچھلی آپھنسی ہے۔ تو وہ کھینچنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ تاکہ کانٹا اچھی طرح اس کے حلق میں اتر جائے۔ مچھلی اسے غذ اسمجھ کر خوش ہورہی ہے اور شکاری خوش ہے کہ کانٹا حلق میں اترتا جارہا ہے۔ ؎ مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل کا دراز ہوتے جانا دونوں پہلو رکھتا ہے۔ اس میں رحمت کا پہلو بھی ہے کہ شائد اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر گناہ گار تائب ہوجائیں اور سرکش راہ راست پر آجائیں اور۔ اس میں سزاکا پہلو بھی ہے کہ وہ رسی دراز کردیتا ہے تاکہ مجرم اپنے جرائم میں اضافہ کرتاچلا جائے اور پھر جب گرفت ہو تو بچ نکلنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ اس آیت میں مہلت سے دوسرا پہلو مراد ہے کہ وہ جس چیز کو اپنے لیے مذاق کا موقع سمجھے ہوئے ہے وہی ان کے لیے عذاب کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ لیکن رسی کے دراز ہونے نے انھیں بالکل اندھا کردیا ہے اور وہ اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ پروردگار پکڑنے میں جلدی اس لیے بھی نہیں کرتے کیونکہ اسے کمزور حکمران کی طرح اس بات کا اندیشہ نہیں ہوتا کہ آج اگر مجرم کو نہ پکڑا گیا تو ہوسکتا ہے پھر یہ گرفت میں نہ آئے۔ ممکن ہے یہ طاقت پکڑ لے اور ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔ کیونکہ اللہ کی طاقت کے سامنے کسی کی طاقت نہیں چلتی۔ وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے اس کے نہ پکڑنے کو اس کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ جتنا دیر سے پکڑتا ہے اتنا شدید پکڑتا ہے۔ ٹھیک کہا کسی نے : ؎ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیرگیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
Top