Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس طرح ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے، تو کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں۔ آگاہ رہو ! کہ بیوقوف یہی لوگ ہیں لیکن یہ جانتے نہیں۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْ اکَمَا اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآاَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآئُ ط اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّایَعْلَمُوْنَ ۔ (البقرۃ۔ 13) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس طرح ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے، تو کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں۔ آگاہ رہو ! کہ بیوقوف یہی لوگ ہیں لیکن یہ جانتے نہیں ) اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل باتیں غور کی دعوت دیتی ہیں۔ 1 اس آیت میں خطاب کن لوگوں سے ہے ؟ 2 یہاں ایمان سے کیا مراد ہے ؟ 3 الناس کون لوگ ہیں ؟ 4 السفھاء سے کون لوگ مراد ہیں ؟ 5 قرآن کریم نے جن لوگوں کو سفھاء کہا ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ وہ نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا نہیں جانتے ؟ اب ہم اسی ترتیب سے ان نکات کی وضاحت کرتے ہیں۔ 1 میں اس سے پہلے یہ گزارش کرچکا ہوں کہ ومن الناس سے منافقین کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ یہاں بھی مخاطب منافقین ہی ہیں۔ کیونکہ منافق ہی ایساشخص ہوتا ہے۔ جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن وہ اپنے دعوے میں مخلص نہیں ہوتا۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ دھوکہ دینے یا سازش کی نیت سے زبان سے ایمان کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل پر پوری طرح کفر کی حکمرانی ہوتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک چورا ہے پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک طرف گزری ہوئی زندگی کا پورا سرمایہ ہے جو اس نے کفر کی رفاقت میں گزارا ہے اور دوسری طرف اسلام کی دعوت ہے جو اس کے دل و دماغ کو اپیل کر رہی ہے۔ لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہا کہ میں کدھر جاؤں۔ اسلام کی طرف جانا چاہتا ہے تو اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات اس کا راستہ روک دیتی ہیں اور پرانے علاقات کا توڑنا خطرناک معلوم ہوتا ہے، کفر سے وابستہ رہنا چاہتا ہے تو طبیعت یکسو نہیں ہوتی۔ معلوم ہوتا ہے یہ دوسری طرح کے لوگ ہیں جن سے یہاں خطاب فرمایا جارہا ہے کہ تم ایمان لانا چاہتے ہو یا تم نے ایمان کا اقرار کرلیا ہے تو پھر ایمان کو محض زبان کے اقرارتک محدود نہ رکھو بلکہ ایمان کی حقیقت بھی اپنے دل اور اپنے عمل میں پیدا کرو۔ اس طرح کے لوگ ممکن ہے یہود میں بھی ہوں۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد اوس و خزرج میں موجود تھی، جن کا رئیس عبداللہ بن ابی تھا۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں خطاب یہود کو ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص مفہوم میں (جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے) اپنے آپ کو مومن کہتے تھے۔ لیکن جب انھیں حقیقی ایمان کی دعوت دی جاتی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی اور وہ بھڑک اٹھتے اور مسلمانوں پر تعریض کرنے لگتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں مسلمانوں کی طرح مومن کہلا نا بھی گوارا نہ تھا اور پھر وہ یہ باتیں چھپ کر نہیں صراحتہً مسلمانوں کے منہ پر کہتے تھے۔ میری عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ وہ اگر اس طرح کی باتیں پوری صراحت سے کہتے اور اعلانیہ مسلمانوں کو ہدف تنقید بناتے تو قرآن کریم کو ان کا نام لینے میں کیوں تأمل ہوتا۔ غائب کے صیغے سے ان کا ذکر کرنا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ اپنے عقائد اور خیالات کا کھل کر اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنی الگ مجلسوں میں آپس میں اس طرح کی باتیں کرتے تھے اور یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمانوں کی مجلسوں میں بالکل مسلمانوں کی طرح گھل مل کر بیٹھتے اور مجلس مشاورت میں بڑھ چڑھ کر اپنے اخلاص کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے۔ لیکن جب علیحدہ انھیں مجلس جمانے کا موقع ملتا تو وہاں دل کے پھپولے پھوڑتے۔ غزوہ بنی المصطلق میں پیش آنے والا واقعہ متعدد مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ آنحضرت ﷺ اس غزوہ سے فارغ ہو کر ابھی چشمہ مریسیع پر قیام فرما تھے کہ کچھ لوگ پانی لینے گئے۔ ان ہی میں حضرت عمر بن خطاب ص کا ایک مزدور بھی تھا، جس کا نام جہجاہ غفاری تھا۔ پانی پر ایک اور شخص سنان بن وبر جہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئی اور دونوں لڑپڑے۔ جُہنی نے پکارا : یامعشر الانصار (انصار کے لوگو ! مدد کو پہنچو) اور جہجاہ نے آواز دی : یامعشرالمہاجرین : (مہاجرین ! مدد کو آئو) رسول اللہ ﷺ (خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے اور) فرمایا :” میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ؟ اسے چھوڑ دو یہ بدبودار ہے “ اس واقعہ کی خبر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو ہوئی تو غصہ سے بھڑک اٹھا اور بولا :” کیا ان لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے ؟ یہ ہمارے علاقے میں آکر اب ہمارے ہی حریف اور مدمقابل ہوگئے ہیں۔ “ خدا کی قسم ہماری اور ان کی حالت پر تو وہی مثل صادق آتی ہے جو پہلوں نے کہی ہے کہ اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا تازہ کروتا کہ وہ تمہیں کو پھاڑ کھائے۔ سنو ! خدا کی قسم ! گر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہمیں کا معزز ترین آدمی ذلیل ترین آدمی کو نکال باہر کرے گا۔ “ پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر بولا ” یہ مصیبت تم نے خود مول لی ہے۔ تم نے انھیں اپنے شہر میں اتارا اور اپنے اموال بانٹ کردیئے۔ دیکھو ! تمہارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اگر اسے دینا بند کردو تو یہ تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلتے بنیں گے۔ “ اس وقت مجلس میں ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے۔ انھوں نے آکر اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی نے انھوں رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی اس وقت حضرت عمرص بھی موجود تھے انھوں نے آنحضرت سے عرض کی کہ آپ عباد بن بشیر کو حکم دیجئے کہ وہ عبداللہ بن ابی کو قتل کردے۔ آپ نے فرمایا : عمرص ! یہ بات مناسب نہیں لوگ کہیں گے محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کررہے ہیں۔ جب عبداللہ بن ابی کو اس بات کا علم ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اللہ کی قسم کھاکر کہنے لگا کہ آپ تک جو بات پہنچی ہے نہ میں نے وہ بات کہی اور نہ میں ایسی بات زبان پر لاسکتا ہوں۔ اس وقت وہاں انصار کے کچھ لوگ موجود تھے، انھوں نے بھی کہا کہ زید بن ارقم ابھی لڑکا ہے، ممکن ہے اسے وہم ہوگیا ہو اور اس شخص نے جو کچھ کہا ہے، اسے ٹھیک ٹھیک یاد نہ رکھ سکاہو۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کی معذرت قبول فرمالی۔ حضرت زید بن ارقم کا بیان ہے کہ اس پر مجھے ایسا غم لاحق ہوا کہ میں ایسے غم سے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں صدمے سے اپنے گھر میں بیٹھ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورة المنافقون نازل فرمائی اور اس میں منافقین کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس سورة میں منافقین کے بارے میں کسی حد تک تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن ہم صرف دو آیتوں کے دو حصے نقل کرتے ہیں۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَاتُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط (یہ منافقین وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرویہاں تک کہ وہ چلتے بنیں) (منافقون۔ 7) یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّط (یہ منافقین کہتے ہیں اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو اس سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا) (منافقون : 8) حضرت زیدص کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلوایا اور یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ پھر فرمایا اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔ اس ایک واقعہ سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مخاطب کون لوگ ہیں۔ 2 ایمان کی تعریف تو ایمان بالغیب کے سلسلے میں گزر چکی ہے۔ اسے اگر آپ پیش نظر رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ محض زبان سے ایمان کا اظہار کافی نہیں بلکہ اللہ کے یہاں جو ایمان قابل اعتبار ہے وہ وہ ہے جس میں دل کی تصدیق اور احکام پر عمل کا جذبہ بھی موجود ہو۔ جو ایمان حالات کے تابع نہ ہو بلکہ حالات اس کے تابع ہوں۔ جو مفادات سے متصادم ہونے کے وقت سپر انداز نہ ہو بلکہ مفادات اس کے سامنے سپرانداز ہوجائیں۔ حالات کیسے ہی منہ زور اور نامساعد کیوں نہ ہوں ایمان میں کسی طرح کا نقص واقع نہ ہونے پائے۔ یہ منافقین چونکہ حالات کے تیور دیکھ کر ایمان میں کمی بیشی کرتے رہتے تھے۔ اس لیے انھیں فرمایا جارہا ہے کہ تم ظاہری ایمان نہیں بلکہ حقیقی ایمان لائو۔ اس کی تائید قرآن کریم کے مختلف آیات سے ہوتی ہے۔ ہم صرف ایک آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلٰی رَسُولِہ (اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو ! ایمان لائو۔ اللہ، اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے) اس آیت میں بھی غور فرمایئے صاحب ایمان لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمہارا ایمان صرف زبان کا جمع خرچ ہے، لیکن یہ حقیقی ایمان نہیں، جب تک تم حقیقی ایمان نہ لائو اس ایمان کا اعتبار نہیں : ؎ زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں اس آیت میں ” الناس “ سے کون مراد ہیں ؟ 3 سوال یہ تھا کہ ہر ایمان والا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میرا ایمان حقیقی ایمان ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے کہا کہ تم اس طرح ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے۔ ظاہر ہے کہ یہاں الناس یعنی لوگوں سے مراد وہی لوگ ہیں۔ جو اس وقت تک ایمان لاچکے تھے۔ جنھیں ہم مہاجرین اور انصار کہتے ہیں۔ انہی کی طرف انگلی اٹھا کر کہا جارہا ہے کہ تم اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ حقیقی ایمان کے نمونے کیا ہیں۔ جس کی نقل تمہیں کرنی ہے۔ وہ یہ لوگ ہیں جو پہلے ایمان لاچکے ہیں۔ اور جن کا ایمان ہر آزمائش میں پورا اتر چکا ہے۔ مکہ میں جو لوگ ایمان لائے انھوں نے سالہا سال تک ایمان کی قیمت ادا کی۔ انھیں مارا پیٹا گیا، ادھیڑا کھدیڑا گیا، ان کے کاروبار تباہ ہوگئے، ایمان سے وابستگی کے باعث نہ جانے کتنے رشتے چھوٹ گئے۔ حتی کہ اسی ایمان کی خاطر انھوں نے مال و دولت اور آرام کی زندگی چھوڑ کر غربت اور بےوطنی کو اختیار کیا۔ گھر سے بےگھر ہوگئے، مدینہ اس حال میں آئے کہ نان شبینہ تک کے محتاج ہوگئے، کتنے ایسے لوگ تھے جن کے بیوی بچے ان سے الگ ہوگئے۔ لیکن ایمان کا رشتہ ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پایا۔ دوسری مثال اس حقیقی ایمان کی انصار مدینہ ہیں اور مہاجرین کی طرح یہ بھی الناس کا مصداق ہیں۔ انھوں نے ایمان کی قیمت ادا کرتے ہوئے نصرت اور ایثار کو نئے معنی پہنائے اور قربانی اور جاں فروشی کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ جس کی مثال تاریخ کے لیے پیش کرنا آسان نہیں۔ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے لیے انھوں نے اپنے گھر ہی نہیں کھولے بلکہ اپنے دلوں کے دروازے بھی کھول دیئے اپنی ہر چیز مہاجرین کی خدمت میں پیش کردی اور آنحضرت ﷺ کی رفاقت اور پیروی میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہی لوگ ہیں جنھیں نمونہ اور آئیڈیل ٹھہرا کر حکم دیا جارہا ہے کہ تم اگر سچے اور کھرے مومن بننا چاہتے ہو تو تمہیں ان لوگوں کی طرح ایمان لانا چاہیے اور ایمان کے بعد جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان لوگوں کی طرح انھیں ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ 4 یہی لوگ ہیں جنھیں منافقین نے سفھاء قراردیا۔ سفھاء سفیہ کی جمع ہے۔ سفیہ کا معنی ہے ” بےوقوف۔ “ منافقین کا کہنا یہ تھا کہ ہم ایمان تو لے آئے ہیں یعنی ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو مان لیا ہے۔ اب ہم سے یہ توقع کرنا کہ ہم اس طرح سے ایمان لائیں جس طرح سے مہاجرین اور انصار ایمان لائے ہیں۔ یہ ہم سے نہیں ہوسکتا کیونکہ ایمان لانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی عقل کے تقاضوں کو بھول جائیں۔ عقل آدمی کو خود آگاہ بناتی ہے۔ وہ سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا سکھاتی ہے۔ لیکن ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں انھیں اپنے ایمان اور دین کے مقابلے میں نہ اپنی ذات کی پرواہ ہے اور نہ اپنے مفادات کی۔ اپنی ذات اور اپنے مفادات سے بےگانہ ہوجانا یہ تو سفاہت بےوقوفی اور دیوانہ پن ہے۔ یہ ہم کیسے کرسکتے ہیں ؟ مسلمانوں کا سب سے بڑا آدمی ابوبکرص ہے۔ وہ اپنا سارا مال ومتاع اسلام کے لیے لٹا چکا ہے۔ اسلام لانے سے پہلے وہ امیر کبیر تھا اور اب وہ ایک فقیرآدمی ہے، اس نے اپنی چار نسلیں اسلام کے حوالے کردی ہیں۔ حق و باطل کے پہلے معرکے میں جب کہ اس کے ایک بیٹے عبدالرحمن ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے جنگ بدر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابا جان جنگ بدر میں آپ کئی مرتبہ میری تلوار کی زد میں آئے۔ لیکن میں نے پدری رشتے کا لحاظ کیا اور تلوار کھینچ لی۔ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میں آتے تو کبھی بچ کر نہ جاتے کیونکہ ایمان اللہ اور رسول سے ایک ایسے رشتے کا نام ہے جس کے مقابلے میں ہر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ منافقین کا کہنا یہ تھا کہ ان کے سب سے بڑے آدمی کی دیوانگی کا عالم یہ ہے تو کیا ہم ان پاگلوں اور دیوانوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ مقاصد اور ضروریات میں فرق نہ کرنا فتنہ ہے 5 پروردگار نے منافقین کے جواب میں فرمایا کہ ” قیامت تک آنے والے انسانو ! اس بات سے خبردار ہوجاؤ کہ منافقین کا مسلمانوں کو بیوقوف قرار دینا اور خود اپنے آپ کو عقلمند سمجھنا اور اپنی روش کو مبنی بر عقل قرار دینا ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ جو ہمیشہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے میں رکاوٹ بنے گا اور اس میں مبتلا ہونے والے لوگ ہمیشہ حق سے محروم رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ایک بہت بڑا سوال ہے جس کے حل کرنے پر انسانی روش اور انسانی رویے کے تعین کا دارومدار ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی کے کوئی مقاصد بھی ہیں یا حیوانوں کی طرح انسان بھی ضروریات زندگی کے حصول ہی میں زندگی گزاردینے کے لیے آزاد چھوڑا گیا ہے۔ جس طرح ایک حیوان ساری زندگی بنیادی ضرورتوں کے حصول اور اس سے متمع ہونے میں گزار دیتا ہے۔ وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے، پالتا ہے، موسم کی شدت سے بچنے کے لیے بھٹ بناتا ہے، اور اسی مصروفیت اور دلچسپی میں موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ مجھے کیوں زندگی ملی ہے زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ ان مقاصد کے بارے میں کبھی زندگی عطا کرنے والا بازپرس بھی کرے گا یا نہیں ؟ اگر تو انسانی زندگی اسی حیوانی زندگی کا دوسرا نام ہے کہ وہ کھائے پئیے، بچے پیدا کرے، عیش و عشرت کے سامان مہیا کرے اور پھر اسی عیش میں ساری زندگی گزار کے عالم آخرت کو سدھار جائے۔ تو پھر تو منافقین کی بات صحیح ہے اور مسلمان واقعی دیوانے ہیں۔ لیکن اگر انسانی زندگی کے کوئی مقاصد بھی ہیں اور ایک دن ایسا آنے والا ہے جب ان مقاصد کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی تو پھر فیصلہ طلب امر یہ ہے کہ جب ان مقاصدِ زندگی کے مطابق زندگی گزارنا مشکل بنادیا جائے اور ایک ایسی کشمکش شروع ہوجائے جس میں مقاصد زندگی کی بقاء اور اس پر عمل کرنے کے لیے جنگ لڑنی پڑے تو پھر عقل کا تقاضا کیا ہے ؟ کہ اپنے آرام و راحت کو بچانے کی فکر کی جائے، ضروریات زندگی اور تکلفات زندگی سے متعلق ایک ایک چیز کی حفاظت کی جائے یا یہ فیصلہ کیا جائے کہ چونکہ انسانی زندگی مقاصد سے عبارت ہے اور انھیں مقاصد کے مطابق زندگی گزارنا اور ان مقاصد کا احیاء کرنا اور آئندہ نسلوں کے لیے انھیں قیمتی سرمائے کے طور پر چھوڑ جانایہ وہ اصل ذمہ داری ہے جو مجھے بہرصورت انجام دینی ہے۔ اگر زندگی کی آسانیوں کے ساتھ یہ ذمہ داری نبھ سکے تو بہت بہتر ورنہ مسلمہ اصول کے مطابق ضروریاتِ زندگی کو قربان کیا جائے گا اور مقاصدِ زندگی کو بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مسلمہ اصول کا تقاضا یہ ہے کہ اس راستے میں اگر بھوکا رہنا پڑے تو بھوکا رہا جائے، کاروبار میں نقصان ہو تو اسے شوق سے برداشت کیا جائے، اس کے لیے جو بھی مصیبت اٹھانی پڑے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ اسی کو ایثار اور قربانی کہتے ہیں۔ کبھی اس کا حق مال دے کر ادا ہوتا ہے، کبھی آرام کو قربان کرکے اور کبھی جان وتن کی آزمائش سے گزر کر اور یہی وہ روش اور رویہ ہے جس پر ہمیشہ قومیں فخر کرتی رہی ہیں وطن کی حفاظت میں جان دے دینا سچائی کی خاطر کٹ مرنا، آزادی کے حصول کے لیے سب کچھ لٹادینا، اور جن باتوں اور جن حقائق کو آدمی دیانت داری سے حق سمجھتاہو اس کے لیے سب کچھ قربان کردینا یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس پر پوری انسانی تاریخ شاہد ہے۔ ہر قوم اپنے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ حالانکہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے سے بڑھ کر دیوانگی کیا ہوگی۔ زندہ رہنا عقل کا تقاضا ہے۔ موت قبول کرلینا یقینا اس تقاضے کی مخالفت ہے۔ لیکن کسی صداقت اور کسی مقصد کی خاطر موت قبول کرنا نہ صرف فرزانگی ہے بلکہ وہ ہمیشہ قابل تعریف سمجھی گئی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آدمی زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ وہ زندہ ہے تو کیوں اور مرتا ہے تو کس کی خاطر ؟ اگر وہ مقصد کے لیے زندہ رہتا ہے تو یہ زندگی مبارک ہے اور اگر وہ مقصد ہی کے لیے جان دے دیتا ہے تو یہ جان دے دینا درحقیقت زندگی کی حفاظت کا راستہ کھولنا ہے۔ کیونکہ مقاصد کے زندہ رہنے سے زندگی محفوظ ہوتی ہے اور مقاصد کے مٹ جانے سے زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ انسانی جان کا احترام نہ رہے تو انسانوں کے زندہ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ انسانی مال امانت نہ سمجھا جائے توخیانت، چوری اور ڈاکے روکنے کی کوئی صورت نہیں۔ عزتیں محترم نہ رہیں تو کسی کی عزت باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ شرم وحیاء اٹھ جائے تو عفتوں کے فانوس بجھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہی حال تمام ان صداقتوں کا ہے جو مقاصدِ زندگی سے جنم لیتی ہیں۔ ان مقاصد کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی قربانی دیناعقل کا تقاضا بھی ہے اور ایمان کا بھی۔ اور یہی قربانی جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں حقیقت میں زندگی بھی ہے اور زندگی کی ضمانت بھی۔ اقبال مرحوم نے اسی حقیقت کو آسان کرتے ہوئے کہا ؎ برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی یہ وہ حقیقت ہے جو قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں نمایاں کی ہے۔ کہ عقل والے وہ ہیں جو زندگی کو مقاصدِ زندگی سے ناپتے ہیں۔ ان کے یہاں اصل پیمانہ امروز و فردا یا سودوزیاں نہیں بلکہ مقاصد زندگی سے وابستگی اور انھیں کو بالا بلند کرنے کی کوشش ہے۔ اس راہ میں جو بھی مشکل پیش آئے وہ اس راستے کی سنت ہے جسے سامانِ سفر سمجھنا چاہیے۔ اور جو یہ سمجھتا ہے کہ زندگی صرف کھانے پینے اور داد عیش دینے کا نام ہے وہ درحقیقت دیوانہ ہے وہ نہیں جانتا کہ عقل کے صحیح تقاضے کیا ہیں۔ اور اس کو اندازہ نہیں کہ اگر اس تصور کو قبول کرلیا جائے تو اس زمین پر حقیقی انسانی زندگی ختم ہوجائے گی اور یہ زمین انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں بلکہ حیوانوں کا جنگل ہوگا جس میں حیوانیت کی حکومت ہوگی۔ انسانی زندگی کی یہ کمزوری ہے کہ انسان اگرچہ نصیحت سے سیکھتا ہے اور حقائق کو قبول کرتا ہے لیکن جب تک اس کے سامنے ان حقائق کا کوئی عملی نمونہ نہ آئے اسے پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا۔ پیش نظر آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے نمونے کے طور پر الناس کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان کے حوالے سے منافقین سے فرمایا کہ تم اگر واقعی مومن بننا چاہتے ہو تو تمہیں اس طرح ایمان لانا چاہییے جس طرح یہ لوگ ایمان لائے اور لوگوں سے ظاہر ہے صحابہ کرام مراد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کو ایمان اور ایمانی زندگی کے لیے ایک آئیڈیل اور نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو نہیں بلکہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے وہ ہر آدمی کے اندر پوشیدہ خیانتوں سے بھی واقف ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون دعوی ٔ ایمان میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔ اس کی طرف سے صحابہ کو ایمان کا نمونہ اور آئیڈیل قرار دینا اتنا بڑا اعزاز ہے جس سے بڑے اعزار کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صحابہ کرام ( رض) کے بعد بھی بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں جن کے احترام میں ہماری گردنیں جھکی رہتی ہیں۔ لیکن ہم ان کے بارے میں عقیدت و محبت سے بھرپور جو جذبات رکھتے ہیں۔ وہ محض ہمارے حسن ظن کی وجہ سے ہیں ورنہ یقین سے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہم دل میں چھپی ہوئی باتوں اور شخصیت کی گہرائیوں سے ہرگز واقف نہیں ہوسکتے اس لیے پروردگار کا صحابہ کرام کے بارے میں یہ سرٹیفیکٹ ان کے لیے تو ایک بڑا اعزاز ہے ہی ہمارے لیے ایک بہت بڑے اطمینان کا باعث ہے کہ ہم جب بھی اپنے دین و شریعت کے کسی معاملے میں شک وشبہ یا اختلاف کا شکارہوں تو ہمارے لیے کس قدر آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم صحابہ کرام کو دیکھیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں اور اس سے متعلق ان کا طرز عمل کیا ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ قرآن کریم نے صرف اسی جگہ صحابہ کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اور بھی کئی جگہ وضاحت سے صحابہ کو آئیڈیل کے طور پر پیش فرمایا۔ مثلاً فَاِنْ اٰمَنُوْابِمِثْلِ مَاآمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِاھْتَدَوا ” اگر وہ ایمان لائیں اس ایمان کی مانند جس طرح اے صحابہ تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پاگئے “۔ اس آیت کریمہ کو دیکھ لیجئے لوگوں کے ایمان کے لیے صحابہ کرام کے ایمان کو سند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی مختلف مواقع پر اپنے اصحاب کے لیے ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا۔ خلفاء راشدین کے بارے میں فرمایا : عَلَیْکُم بِسُنَّتِی وَسُنَّتِ الخُلَفَائِ الرَّاشِدِین ” تم لازم پکڑو میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو “ یعنی خلفاء راشدین کا طریقہ بالکل میری سنت کے مطابق اور اس کا عکاس ہے۔ تمہیں جہاں میری سنت نہ ملے لیکن چاروں خلفاء میں سے کسی ایک خلیفہ کی بھی سنت مل جائے تو وہ تمہارے لیے دین ہے اس کا اتباع کرو۔ عام صحابہ کے بارے میں فرمایا : اَصحَابِی کَاالنُّجُومِ بِاَیِّھِم اِقْتَدَیتُم اِھتَدَیتُم ” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کے بھی پیچھے چلو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ “ صحابہ کرام اپنی ساری عظمتوں کے باوجود انسانی جذبات رکھتے تھے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ان سے کسی کمزوری کا صدور ممکن ہے۔ لیکن باقی لوگوں میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی فوراً اصلاح کرتے ہیں۔ فورا اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی غلطی پر کبھی اصرار نہیں کرتے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے امت کو تنبہ فرمائی کہ دیکھنا میرے صحابہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا۔ ارشاد فرمایا : اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِی اَصحَابِی لاَتَتَّخِذُوھُمْ مِن بَعدِ ی غَرَضاً فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّی اَحَبَّھُم وَمَن اَبْغَضَھُم فَبِبُغضِی اَبغَضَھُم (میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں۔ دیکھنا میرے بعد انھیں ( تنقید کا) نشانہ نہ بنانا (اور یہ ذہن میں رکھنا) کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا) آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے باعث ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ صحابہ کے بارے میں ہمیشہ ادب کو ملحوظ رکھے ان کے بارے میں کبھی بدگمانی نہ کرے اور ذہن میں یہ بات تازہ رکھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حضور کے تربیت یافتہ ہیں۔ قرآن کریم ان کے سامنے نازل ہوا یہ دینی حقائق کے اولین گواہ ہیں۔ انھیں کی قربانیوں کے باعث اس دین کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور انھیں کے فیض کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے دور دراز خطوں میں مسلمان آباد ہیں۔ ہماری قریبی تاریخ میں انگریز کی سازش اور بہکاوے میں آکرعربوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی اور مکہ میں شریف مکہ نے انگریز کا ساتھ دے کر تاریخ کا رخ بدل دیا۔ اس سے مسلمانوں کو بےحد نقصان ہوا علامہ اقبال نے نہائت حزن وملال سے اس کا ذکر کیا لیکن ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی محبت کے باعث وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ عربوں نے جو بھی کیا وہ ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم بات کہتے ہوئے یہ کبھی نہیں بھولیں گے کہ رسول اللہ ﷺ بھی عرب تھے اس لیے ہم افراد پر تو تنقید کریں لیکن عربی نسبت کا احترام کم نہ ہونے پائے۔ اقبال نے کہا تھا ؎ متاعِ قافلہ ما حجازیاں بُردند ولے زباں نہ کشائی کہ یار ما عربی است
Top