Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 132
وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُ١ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ
وَوَصّٰی
: اور وصیت کی
بِهَا
: اس کی
اِبْرَاهِيمُ
: ابراہیم
بَنِيهِ
: اپنے بیٹے
وَيَعْقُوْبُ
: اور یعقوب
يٰبَنِيَّ
: اے میرے بیٹو
اِنَّ اللہ
: بیشک اللہ
اصْطَفَی
: چن لیا
لَكُمُ
: تمہارے لئے
الدِّينَ
: دین
فَلَا
: پس نہ
تَمُوْتُنَّ
: مرناہرگز
اِلَّا وَاَنْتُمْ
: مگر تم
مُسْلِمُوْنَ
: مسلمان
اور ابراہیم نے اسی ملت کی وصیت اپنے بیٹوں کو کی اور اسی کی وصیت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کی، اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو منتخب فرمایا تو تم نہ مرنا مگر اسلام کی حالت پر
وَوَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُط یَبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنُ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ط اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْحَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُلا اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ ط قَالُوْا نَعْبُدُاِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًاج وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 132 تا 133) (اور ابراہیم نے اسی ملت کی وصیت اپنے بیٹوں کو کی اور اسی کی وصیت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کی، اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو منتخب فرمایا تو تم نہ مرنا مگر اسلام کی حالت پر۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا جب اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے بعد کس کی پرستش کروگے وہ بولے کہ ہم تیرے معبود اور تیرے آبائو اجداد ابراہیم، اسمعیل اور اسحق۔ کے معبود کی پرستش کریں گے جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں) وصّٰی کا مصدر توصیۃ ہے۔ جس کا معنی ہے ” وصیت کرنا “۔ لیکن یہ یاد رہے کہ عربی کا لفظ وصیت اردو کے وصیت سے کہیں زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اردو میں بستر مرگ کی خواہشوں اور مرنے والے کی آخری ہدایتوں کو وصیت کہا جاتا ہے لیکن عربی میں اس کا معنی تعلیم اور تلقین کرنا ہے چاہے یہ تعلیم و تلقین کوئی شخص اپنی وفات کے وقت کرے یا زندگی کے کسی دوسرے مرحلے پر اور قرآن کریم نے اسے حکم دینے کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے اور عام عربی زبان میں بھی اس معنی میں اس کا استعمال عام ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے آٹھ تھے۔ 1:۔ حضرت اسمٰعیل، حضرت ِہاجرہ مصریہ کے بطن سے، 2:۔ حضرت ِ اسحق، حضرت سارہ عراقیہ کے بطن سے، 3:۔ زمران، 4:۔ یقسان، 5:۔ مدان، 6:۔ مدیان 7:۔ اسیاق 8:۔ سوخ۔ یہ سب حضرت قتورہ کے بطن سے تھے۔ حضرت یعقوب، حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحاق کے فرزند ہیں۔ اسرائیل آپ ہی کا دوسرا نام ہے۔ عمر حسب روایت تورات 147 سال کی پائی، زمانہ غالباً 2000 ق م تا 1853، ولادت کنعان فلسطین میں ہوئی، 1870 میں اپنے نامور فرزند حضرت یوسف نبی کے پاس منتقل ہوگئے اور وہیں وفات پائی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چار ازواجِ مطہرات سے بارہ فرزند تھے۔ ان کے نام حسب تصریح تورات حسب ذیل ہیں۔ 1: روبن، 2: شمعون، 3: لاوی، 4: یہوداہ، 5: اشکار، 6: زبلون، 7: یوسف (علیہ السلام) ، 8: بن یامین، 9: دان 10: نفتالی، 11: جد، 12: آشر۔ (پیدائش 35: 24، 26) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت حضرت ابراہیم کی اس وصیت کا ذکر اگرچہ یہود کے صحیفوں میں کہیں نہیں ملتالیکن انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگوں نے جن پر خصوصاً اللہ کے دین کی ذمہ داریاں رہی ہیں انھوں نے جس طرح اللہ کے دین کی سربلندی اور اپنی اولاد کو اس سے وابستہ رکھنے کے لیے زندگی بھر کام کیا اسی طرح جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا صحیفہ حیات اختتام کو پہنچ رہا ہے تو کسی مناسب وقت پر اپنی اولاد یا اپنے خاندان کے بڑے لوگوں کو جمع کرکے ان باتوں کی ضرور وصیت کرتے رہے ہیں، جنھیں وہ اپنی اولاد اور خاندان کے لیے دینی اور قومی حوالے سے انتہائی ضروری سمجھتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جس طرح پوری زندگی خلق اللہ کی ہدایت اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے گزری اس میں یہ بات انتہائی قرین قیاس ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں کو نہائت اہتمام سے اس کی وصیت فرمائی ہوگی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیسری پشت تک یہ اہتمام پورے عروج پر رہا حضرت یعقوب آپ کے پوتے ہیں انھوں نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی طرح نصیحت فرمائی اور مضمون چونکہ واحد ہے اس لیے قرآن کریم نے ایک ہی جگہ دونوں کو ذکر فرمایا تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واسطے سے قریش کو اس طرف توجہ دلائی جائے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حوالے سے بنی اسرائیل کو سوچنے پر مجبور کیا جائے۔ وصیت میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا کیا نصیحتیں فرمائی گئی ہوں گی، لیکن ان میں دو باتیں جو اساس کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کا اختصار سے یہاں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک تو یہ بات فرمائی کہ ” اے میرے بیٹو ! تم زندگی کے معاملات اور طرز عمل میں آزاد نہیں ہو کہ جس طرح چاہو زندگی گزارو بلکہ اللہ نے تمہارے لیے ایک دین یعنی طرز عمل اور ضابطہ حیات چن لیا ہے اور وہ سابق آیت کریمہ کے مطابق اسلام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی زندگی کا یہ رویہ بنانا ہوگا کہ تمہیں ہر معاملے میں اللہ کی ہدایت کو دیکھنا اور اسی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا اور سب کچھ اسی کے لیے قربان کرنا اور سپرد کردینا ہے۔ یہی وہ دین اسلام ہے جسے قرآن کریم نے بھی باربار ذکر کیا ہے اور یہاں تک فرمایا : اَفَغَیْرَدِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (کیا وہ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں طوعًا یا کرھًا سب اسی کے مطیع ہیں اور سب اسی کی جانب لوٹیں گے ) دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اس دین سے وابستگی زندگی کے کسی خاص دور کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو پوری زندگی کا معمول ہے یہی زندگی کا قانون اور دستور ہے اسی سے تنہائیاں آباد ہوتی ہیں، اسی سے شخصیتیں بنتی ہیں، اسی سے زندگی کو آداب ملتے ہیں۔ زندگی ڈھل جاتی ہے یہ دین نہیں ڈھلتا۔ اسی کے ساتھ وابستگی میں زندگی کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ لیکن دین اپنی آب وتاب کے ساتھ انسانیت کو روشنی دیتارہتا ہے۔ اس لیے فرمایا : فلَاَ تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ تمہیں پوری زندگی مرتے دم تک مسلم بن کر گزارنی ہے، اس میں یہودیت یا نصرانیت کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں حضرت ابراہیم کے سینکڑوں سال بعد وجود میں آئی ہیں، ان کا ملت ابراہیم سے کوئی تعلق نہیں۔ وصیت کا نفسیاتی پہلو حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب (علیہما السلام) کی اسی وصیت کو ایک دوسرے پہلو سے نہائت موثر بنایا جارہا ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ ایسی اولاد جو زندگی میں اپنے ماں باپ کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتی اور ماں باپ ہمیشہ ان سے شاکی رہتے ہیں، لیکن جب ماں باپ کا آخری وقت آتا ہے اور یہ بےنیاز اولاد جب دیکھتی ہے کہ ماں باپ کا ساتھ چھوٹنے لگا ہے تو انھیں اپنے رویے پر کچھ نہ کچھ توجہ ہوتی ہے۔ جو وقت گزر گیا اسے تو اولاد لوٹا نہیں سکتی لیکن آخری وقت کی نصیحتوں کو وہ ضرور کوشش کرتی ہے کہ آویزہ گوش بنائے۔ یہاں اسی انسانی فطرت کو متوجہ کیا گیا ہے کہ اے اہل کتاب تم نے آج تک اپنے بزرگ آبائواجداد کی نصیحتوں کو توڑنے مروڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ لیکن کاش تمہیں معلوم ہو تاکہ انھوں نے بوقت مرگ کیا نصیحتیں کی تھیں۔ تم انھیں یہودیت یا نصرانیت کے مورث اعلیٰ سمجھتے ہو کیا تم اس وقت موجود تھے۔ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا آخری وقت آیا تم یقینا موجود نہیں تھے لیکن تمہارا خدا تو موجود تھا۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ آخری وقت میں حضرت یعقوب نے کیا نصیحت کی تھی۔ تم نے اگر آج تک ان کی تعلیمات اور فرمودات پر کان نہیں دھرا تو ان کی آخری وقت کی وصیت کا تو خیال کرو۔ انھوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کرکے پوچھا تھا کہ بتائو تم ہمارے بعد کس کی بندگی کرو گے تو ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم یہودیت اور نصرانیت کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔ یا ہم آپ کی پوجا کریں گے۔ کیونکہ آپ اللہ کے نبی ہیں ہمارے باپ ہیں اللہ کی برگزیدہ شخصیت ہیں۔ آپ سے بڑھ کر بندگی اور پوجا پاٹ کا اور کون مستحق ہوسکتا ہے ؟ انھوں نے نہائت عاجزی اور وثوق کے ساتھ جواب دیا تھا کہ ہم اسی معبود کو پوجیں گے جو آپ کے آبائواجداد کا معبود ہے اور جس طرح آپ نے اسی کی تسلیم وانقیاد میں زندگی گزاری ہے ہم بھی اسی تسلیم وانقیاد کو اپنا وطیرہ بنائیں گے۔ جس طرح آپ اس کے مسلم بن کے رہے ہیں ہم بھی اس کے اسی طرح مسلم بن کر رہیں گے۔ تورات سے قرآن کی تائید اس وصیت کا ذکر اگرچہ تورات میں نہیں ملتا لیکن یہود کے لٹریچر میں اس وصیت سے ملتی جلتی جو روایت ملتی ہے اس کے الفاظ اگرچہ قرآن کے الفاظ سے کچھ مختلف ہیں لیکن ان سے تائید قرآن کے بیان ہی کی ہوتی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی تفسیر میں یہود کے لٹریچر سے مندرجہ ذیل دو حوالے نقل کیے ہیں۔ ایک حضرت اسحاق کی وصیت سے متعلق ہے دوسرا حضرت یعقوب کی وصیت سے متعلق ہے۔ ” جب اسحاق نے دیکھا کہ اس کا وقت موعود آپہنچا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا : میں تمہیں خدا تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں جس کی صفات اعلیٰ ، عظیم، قیوم، عزیز ہیں اور جو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا خالق ہے کہ تم خوف اسی کا رکھنا اور عبادت اسی کی کرنا۔ “ (گنزبرگ، قصص یہود، جلد اول صفحہ 416) ” یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا مجھے اندیشہ ہے کہ تم میں سے کوئی بت پرستی کا میلان رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں بارہ بیٹوں نے کہا : سن اے اسرائیل ! اے ہمارے باپ ! ہمارا خدا وہی خدائے لم یزل ہے، جس طرح تیرا دلی ایمان ایک خدا پر ہے، اسی طرح ہم سب کا دلی ایمان ایک خدا پر ہے۔ “ (گنز برگ کی قصص یہود جلد 2، صفحہ 41) ان وصیتوں کی واضح حکمتیں اس وصیت میں غور کیجئے ! اس میں متعدد باتیں سرسری نظر سے بھی محسوس ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کی نگاہ میں سب سے اہم بات جس کو انھوں نے زندگی کے آخری لمحوں میں بطور امانت اپنی اولاد کے سپرد کیا ہے۔ وہ اللہ کی توحید اور اللہ کے احکام کی بےساختہ اطاعت ہے۔ ان کی پوری زندگی اس امانت سے عبارت ہونی چاہیے۔ وہ زندگی کے جھمیلوں میں اور کچھ بھی بھول جائیں تو مضائقہ نہیں مگر یہ کبھی نہ بھولیں کہ ان کا معبود اور ان کا حاکم حقیقی صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ یہ زندگی اسی کی امانت ہے اس لیے اسی کی اطاعت اور بندگی میں گزرنی چاہیے۔ دوسری بات جو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی چوتھی نسل تک بھی اس بات میں کوئی تردد نہیں تھا کہ جس طرح ان کے آبائواجداد ایک اللہ کے پوجنے والے تھے اور ان کی زندگی اسلام کی سچی تصویر تھی ہماری زندگی بھی ہوبہو اسی طرح ہونی چاہیے اور ہمیں بھی انھیں کے نقوش قدم پر زندگی کا سفر رواں دواں رکھنا چاہیے اور تیسری بات جو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل نے بنی اسماعیل کے بارے میں عجیب و غریب تصورات بنا لیے ہیں اور ان کو اپنے ہم مرتبہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں حتیٰ کہ ان کے جدامجد حضرت اسماعیل سے اپنا تعلق یکسر توڑ لیا ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی نسل میں ہمیں ایسا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا وہ پورے احترام کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو بھی اپنے آبائواجداد میں شمار کرتے ہیں اور انھیں بھی اللہ کا عظیم رسول سمجھتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جس طرح حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی دوسری نسل اس وقت وجود میں آچکی تھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بھی دوسری نسل سرزمین مکہ میں پھیل رہی ہوگی۔ اس وقت تک حضرت یعقوب کی اولاد یعنی بنی اسرائیل میں حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کے بارے میں کوئی منفی تاثر نظر نہیں آتاوہ یقینا ان کے بارے میں اپنے دلوں میں وہی احساسات رکھتے ہوں گے جو بھائیوں کی صالح اولاد ایک دوسرے کے لیے رکھتی ہے بلکہ تورات میں جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی وحی میں بنی اسماعیل کو ان کا بھائی کہہ کر ذکر کیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کا تذکرہ بھائی کہہ کر ہی کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حسد اور عناد کا جذبہ جو بعد میں بنی اسرائیل میں بنی اسماعیل کے بارے میں پیدا ہوا اس وقت تک پیدا نہیں ہوا تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے یہ منفی جذبات کب پیدا ہوئے اور کیوں پیدا ہوئے۔ اگلی آیت کریمہ میں بحث سمیٹ کر اس کا خلاصہ مخاطب کے سامنے رکھا جارہا ہے جو درحقیقت دل و دماغ میں اتارنا مقصود ہے۔
Top