Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 57
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ١ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا
اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ الَّذِيْنَ : جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں يَبْتَغُوْنَ : ڈھونڈتے ہیں اِلٰى : طرف رَبِّهِمُ : اپنا رب الْوَسِيْلَةَ : وسیلہ اَيُّهُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ : زیادہ قریب وَيَرْجُوْنَ : اور وہ امید رکھتے ہیں رَحْمَتَهٗ : اس کی رحمت وَيَخَافُوْنَ : اور ڈرتے ہیں عَذَابَهٗ : اس کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَ : عذاب رَبِّكَ : تیرا رب كَانَ : ہے مَحْذُوْرًا : ڈر کی بات
جن کو یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کے قرب کی طلب میں سرگرم ہیں کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ قرب حاصل کرتا ہے، اور وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک آپ ﷺ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے۔
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ط اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 57) (جن کو یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کے قرب کی طلب میں سرگرم ہیں کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ قرب حاصل کرتا ہے، اور وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک آپ ﷺ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے۔ ) ایک غلط فہمی کا ازالہ مشرکینِ عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ دنیا کی مشکلات میں بھی وہ بیٹیاں ہمارے کام آتی ہیں اور اگر واقعی قیامت ہوئی تو وہاں بھی وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لیں گی۔ وہ انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے یہ گمان کرتے تھے کہ جس طرح بیٹیاں ضد کرکے اپنے باپ سے اپنی بات منوا لیتی ہیں، اسی طرح ہم جیسے بھی ہیں فرشتے بیٹیاں ہونے کی حیثیت سے ضد کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیں گے اور ہمیں اس کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ نادانوں تم جن کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہے منوا سکتے ہیں، گویا کہ پروردگار ان کی بات یا ان کی ضد کے سامنے مجبور ہوجاتا ہے حالانکہ تمہیں معلوم نہیں کہ فرشتے باوجود اس کے کہ اپنی خلقت اور سرشت کے اعتبار سے پاکیزہ اور معصوم واقع ہوئے ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک اپنی بندگی، اطاعت اور کارگزاری کے باعث اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈنے کی فکر میں رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور اسی کو بارگاہِ ایزدی میں ذریعہ بنا کر تقرب کی تلاش کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور معصوم ہونے کے باوجود ہر وقت اپنے رب کے عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور اس کی بےنیازیوں سے ڈرتے ہیں اور یہ ڈرنا کوئی بےجا بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب چیز ہی ایسی ہے جس سے ڈرا جانا چاہیے۔ اس کی مخلوقات میں جو چیزیں تکلیف پہنچا سکتی ہیں، انسان ابھی تک ان کی تکلیف اور ضرررسانی سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرسکا۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان میں زور پیدا ہوتا ہے تو انسان کے سارے تحفظات دھرے رہ جاتے ہیں۔ سیلاب آتا ہے تو بند ٹوٹ جاتے ہیں، آگ پھیلتی ہے تو فائربریگیڈ کام نہیں کرتے، زمین پھٹتی ہے تو ہمارے تمام اسباب تحفظ کی بجائے اس میں دھنس جاتے ہیں۔ چہ جائیکہ وہ تکلیف جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب بن کے آئے اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ لیکن مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خدا کے علاوہ کوئی اور بھی بچا سکتا ہے، اس سے بڑی کوئی بھول نہیں ہوسکتی۔
Top