Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
(اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ پکارو ان کو جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے۔ وہ تو قدرت نہیں رکھتے، تم سے تکلیف دور کرنے کی اور نہ اسے ٹالنے کی۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلاَ یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَلاَ تَحْوِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 56) (اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ پکارو ان کو جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے۔ وہ تو قدرت نہیں رکھتے، تم سے تکلیف دور کرنے کی اور نہ اسے ٹالنے کی۔ ) اوپر کی آیات جملہ ہائے معترضہ تھیں، اب پھر توحید کے مضمون کو جہاں سے چھوڑا تھا وہیں ملایا جارہا ہے۔ مشرکین سے کہا جارہا ہے کہ تم جن قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود سمجھتے ہو، انھیں پکارو، پھر دیکھو وہ تمہاری پکار کا جواب دیتے ہیں اور تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ اور اگر وہ تمہارے پکارنے پر تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے اور تم سے کسی تکلیف کا ازالہ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ اسے ٹال تک نہیں سکتے تو پھر تم نے انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک کس مقصد کے لیے بنا رکھا ہے۔ علامہ قرطبی نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قریش کو قحط میں مبتلا کردیا گیا تو انھوں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر فریاد کی اور اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ ان سے دریافت کریں کہ جن معبودوں کی پرستش اور عبادت کرتے ہیں ان سے جا کر فریاد کیوں نہیں کرتے۔ پھر خود ہی بتادیا کہ وہ بےچارے خود بےبس ہیں۔ اس مشکل وقت میں وہ تمہاری کوئی امداد نہیں کرسکتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو خدا مشکل میں کام نہ آئے اور جو معبود مصیبت کو دور نہ کرے اس کی پوجا کرنے سے کیا حاصل۔ دو باتیں آیت میں تدبر سے کام لیا جائے تو دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور اس کی پوجا پاٹ کرنا شرک ہے۔ اسی طرح غیر اللہ سے استمداد اور استعانت اور انھیں مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔ دونوں میں عبادت ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حق صرف اپنے لیے مخصوص رکھا ہے کہ اسی کو سجدہ کیا جائے، اسی کے سامنے دست سوال پھیلایا جائے اور اسی کو غیب میں پکارا جائے۔ دوسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیر اللہ سے مراد صرف بت نہیں بلکہ وہ تمام قوتیں اور تمام شخصیتیں ہیں جنھیں لوگ ہمیشہ عبادت یا استمداد کے لیے پکارتے رہے۔ چاہے وہ بت ہوں، چاہے وہ گزرے ہوئے بزرگ جن کی عقیدت میں لوگوں نے ان کے مجسمے بنا لیے، چاہے وہ فرشتے ہوں اور چاہے وہ مظاہر فطرت ہوں۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کیا جاتا ہے بہر صورت شرک ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور دوسروں میں یہ فرق ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے دعا چاہی جاتی ہے کیونکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں تقرب کی وجہ سے عزت کیے جاتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور یا بعض لوگوں کے نزدیک ان کی برکت سے دعا مانگی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کی بندگی اور اطاعت کا لحاظ فرماتے ہوئے ان کی برکت کی لاج رکھتی ہے۔
Top