Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
(ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ یاددہانی حاصل کریں لیکن یہ چیز ان کی بیزاری ہی میں اضافہ کیے جارہی ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّکَّرُوْا ط وَمَا یَزِیْدُ ھُمْ اِلاَّ نُفُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 41) (ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ یاددہانی حاصل کریں لیکن یہ چیز ان کی بیزاری ہی میں اضافہ کیے جارہی ہے۔ ) تصریف کا مفہوم تصریف کے معنی پھیرنے اور گردش دینے کے ہیں۔ کسی حقیقت کو مختلف اسالیب اور گو ناگوں طریقوں سے واضح کرنا کہ جس سے سمجھنے میں کوئی کمی باقی نہ رہ جائے، اسے تصریف کہتے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ جس کو انیس نے کہا تھا ؎ اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں قرآن کریم نے توحید کے مضمون کو اتنے مختلف طریقوں سے دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی کند ذہن آدمی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے سمجھنے میں دشواری محسوس ہورہی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی متعصب اور ہٹ دھرم آدمی جو اپنی بات پہ ہرحال میں باقی رہنا چاہے، اسے سمجھانا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ شخص بھی جس نے زندگی ایک مختلف ماحول میں گزاری ہو جس کی وجہ سے اس کا ایک خاص ٹیسٹ بن گیا ہو۔ اس کے عقلی پیمانے خاص اندازوں میں ڈھل چکے ہوں، اس کی ترجیحات یکسر بدل گئی ہوں، اس کے اندر آہستہ آہستہ اک نیا شخص وجود میں آجاتا ہے جو پہلے شخص سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ آپ اسے پہلے جیسا شخص بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ شخص پہلے شخص سے رشتہ کاٹ چکا ہے۔ آپ اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ جو بچے ملاوٹ زدہ چیزیں کھا کر جوان ہوئے ہیں انھیں خالص چیزیں بیمار کردیتی ہیں۔ بناسپتی گھی کھانے والا مکھن اور خالص گھی کی غذائیت سے نہ صرف کہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا بلکہ اس کی خوشبو بھی اسے بدبو معلوم ہوتی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی قرآن کریم نے بھی نہ جانے کتنے اسالیب بدل کر مشرکین کو عقیدہ توحید سمجھانا چاہا اور شرک سے نفرت دلانا چاہی، لیکن بت پرستی اور شرک کی چند در چند آلودگیوں نے ان کے دل و دماغ اور ان کی روحانی قوتوں کو ایسا مسموم کیا کہ وہ صرف عقیدہ توحید ہی کیا ہر خیر کی بات سے محروم ہوگئے۔ سمجھ میں نکتہ توحید آتو سکتا ہے ترے ذہن میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے اس محرومی کا نتیجہ یہ ہے کہ انھیں جیسے جیسے توحید کے قریب لانے اور یاددہانی حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ویسے ویسے ان کے اندر حق کے خلاف جذبہ تنفر پیدا ہوتا جاتا ہے۔ گویا کہ وہ قرآن کریم کی اس تشبیہ کی صحیح تعبیر ہیں۔ کَاَنَّہُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَۃٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ ۔
Top