Al-Qurtubi - As-Saff : 8
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں لِيُطْفِئُوْا : کہ بجھادیں نُوْرَ اللّٰهِ : اللہ کے نور کو بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے مونہوں سے وَاللّٰهُ : اور اللہ مُتِمُّ : پورا کرنے والا ہے نُوْرِهٖ : اپنے نور کو وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ : اور اگرچہ ناپسند کرتے ہوں کافر
یہ چاہتے ہیں کہ خدا (کے چراغ) کی روشنی کو منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔
تفسیر یریدون……اطفاء کا معنی بجھانا ہے (3) ۔ دونوں لفظ آگ کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اطفاء اور اخما دنیا اور ظہور میں بھی استعمال ہوتے ہیں جو آگ کے قائم مقام ہیں۔ اطفاء اور اخماد میں ایک وجہ سے فرق ہے۔ اطفاء قلیل اور کثیر دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اخماد کثیر میں استعمال ہوتا ہے، قلیل میں استعمال نہیں ہوتا، یہ جملہ تو کہا جاتا ہے : اطفات السراج یہ نہیں کہا جاتا : اخمدت السراج۔ نور اللہ کے بارے میں یہاں پانچ قول ہیں۔ (1) مراد قرآن ہے، وہ قول کے ذریعے اس کو باطل کرنے اور جھٹلانے کا ارادہ کرتے ہیں ؛ یہ حضرت ابن عباس اور ابن زید کا قول ہے۔ (2) مراد اسلام ہے۔ وہ کلام کے ذریعے اس کو رد کرنا چاہتے ہیں ؛ یہ سدی کا قول ہے۔ (3) مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے۔ وہ بناوٹی جھوٹی خبروں کے ساتھ آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں : یہ ضحاک کا قول ہے۔ (4) اللہ تعالیٰ کے دلائل ہیں وہ اپنے انکار اور تکذیب کے ساتھ دلائل کا ابطال چاہتے ہیں ؛ یہ ابن بحر کا قول ہے۔ (5) یہ ضرب المثل ہے۔ جس نے اپنے منہ سے سورج کے نور کو بجھانا چاہا تو وہ اسے محال اور ممتنع پائے گا اسی طرح جس نے حق کو باطل کرنے کا ارادہ کیا ؛ اسے ابن عیسیٰ نے بیان کیا ہے۔ اس آیت کا شان نزول ہے جو عطا نے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر چالیس روز تک وحی نہیں آئی تو کعب بن اشرف نے کہا : اے یہودیو ! خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ نے اس نور کو بجھا دیا جو ان پر نازل ہوتا تھا ان کا معاملہ مکمل ہونے والا نہیں رسول اللہ ﷺ غمگین ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا اور اس کے بعد وحی کا اتصال رہا ؛ ماوردی نے ان تمام چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔ آفاق میں ظاہر کرنے کے ساتھ۔ ابن کثیر، حمزہ، کسائی اور بعض نے عاصم سے واللہ متم نورہ اصفافت کے ساتھ قراءت کی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کل نفس ……(آل عمران :185) اور اس جیسی دوسری آیات ہیں جس طرح اس کی وضاحت سورة آل عمران میں گزر چکی ہے باقی قراء نے متم نورہ پڑھا ہے کیونکہ اسم فاعل کا صیغہ مستبقل کے معنی میں ہے تو یہ عمل کرے گا۔ ولو کرہ الکفرون۔ تمام قسم کے کافر اسے ناپسند کریں۔
Top