Al-Qurtubi - Al-An'aam : 79
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ
اِنِّىْ : بیشک میں وَجَّهْتُ : میں نے منہ موڑ لیا وَجْهِيَ : اپنا منہ لِلَّذِيْ : اس کی طرف جس فَطَرَ : بنائے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین حَنِيْفًا : یک رخ ہو کر وَّمَآ اَنَا : اور نہیں میں مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنیوالے
میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
آیت نمبر 79 قولہ تعالیٰ آیت : انی وجھت وجھی یعنی میں نے اپنی عبادت اور توحید سے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کا قصد کیا۔ آیت میں الوجہ کا ذکر کیا کیونکہ چہرہ ان اعضاء میں سے زیادہ ظاہر ہے جن سے انسان پہچانا جاتا ہے۔ حنیفا اس کا معنی ہے حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ آیت : وما انا من المشرکین یہ ما کا اسم اور خبر ہے۔ اور جب تو وقف کرے تو کہے : انا تو تو نے بیان حرکت کے لیے الف کا اضافہ کردیا اور یہی صحیح لغت ہے۔ اور اخفش نے کہا ہے : عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : أن۔ اور کسائی نے کہا ہے : عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : أنہ یہ تین لغات ہیں۔ اور حالت وصل میں تین لغات ہیں کہ درج کلام میں الف کو حذف کردیا جائے، کیونکہ یہ حالت وقف میں بیان حرکت کے لیے زائد کیا گیا ہے۔ اور عربوں میں سے بعض حالت وصل میں الف کو ثابت رکھتے ہیں، جیسا کی کسی شاعر کا قول ہے : أنا سیف العشیرۃ فاعرفونی اور یہی بعض بنی قیس اور ربیعہ کی لغت ہے۔ یہ فراء سے منقول ہے اور بعض عرب حالت وصل میں کہتے ہیں : آن فعلت، مثلا عان فعلت، اسے کسائی نے بعض قضاعہ سے بیان کیا ہے۔ آیت : وحآجہ قومہ قال اتحآجونی فی اللہ وقد ھدٰئن ولا اخاف ما تشرکون بہ الآ ان یشآء ربی شیا وسع ربی کل شیء علما افلا تتذکرون۔ ” اور جھگڑنے لگی ان سے ان کی قوم، آپ نے کہا : کیا تم جھگڑتے ہو مجھ سے اللہ کے بارے میں حالانکہ اس نے ہدایت دے دی ہے مجھے۔ اور نہیں ڈرتا میں ان سے جنہیں تم شریک بناتے ہو اس کا، مگر یہ کہ چاہے میرا ہی پروردگار کوئی تکلیف پہنچانا، گھیرے ہوئے ہے میرا رب ہر چیز کو (اپنے) علم سے تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کروگے “۔ قولی تعالیٰ آیت : وحآجہ قومہ یہ جھگڑنے اور جدال کرنے پر دلیل ہے۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے بارے میں آپ سے جھگڑا کیا۔ آیت : قال اتحآجونی فی اللہ نافع نے نون کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے نون کی مشدد پڑھا ہے۔ اور اس میں ابن عامر سے ہشام کی روایت مختلف ہے۔ جس نے اسے مشدد پڑھا ہے۔ اس نے کہا ہے : اس میں اصل دونوں ہیں۔ پہلی علامت رفع ہے اور دوری فعل اور یا کے درمیان بطور فاصلہ ہے، پس جب فعل میں دوہم مثل حرف جمع ہوگئے اور وہ ثقیل ہوگئے تو ایک نون کو دوسری میں ادغام کردیا گیا چناچہ تشدید واقع ہوگئی اور واؤ کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے تاکہ التقائے ساکنین نہ ہو، ایک واؤ اور دوسرا مشدد حروف میں سے پہلا۔ پس یہ مدد و ساکنوں کے درمیان فاصلہ ہوئی۔ اور جنہوں نے تخفیف کی ہے انہوں نے اجتماع مثلین کو خفیف سمجھتے ہوئے دوسرے نون کو حذف کردیا ہے۔ اور پہلی کو حذف نہیں کیا گیا، کیونکہ وہ رفع کی علامت ہے۔ اور اگر اسے حذف کردیا جائے تو مرفوع، مجزوم اور منصوب کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گا۔ اور ابو عمر و ابن العلاء سے بیان کیا گیا ہے کہ قرأت غلط ہے۔ اور سیبویہ نے اسے جائز قرار دیا ہے اور کہا ہے : انہوں نے تضعیف (مضاعف) کو ثقیل سمجھا ہے۔ اور شعر بھی کہا ہے : تراہ کا لثغام یعل مسکا یسوء الفالیات اذا فلینی قولہ تعالیٰ آیت : ولا اخاف ما تشرکون بہ یعنی کیونکہ وہ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اور انہوں نے آپ کو اپنے الہٰوں کی کثرت کے سبب خوفزدی کیا تھا۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے زندہ کر دے اور اسے قدرت دے دے تو اس وقت اسے اس کے ضرر اور نقصان کا خوف ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : آیت : الا ان یشآء ربی شیا کا یہی معنی ہے۔ یعنی مگر یہ کہ میرا رب ہے کہ وہ مجھے گناہ کے بدلے کوئی شے اور مصیبت لاحق کرے، جس کے مطابق میں نے عمل کیا تو اس کی مشیت مکمل ہوگئی۔ یہ استثنا ہے یہ پہلے کلام میں نہیں ہے۔ اور بہ میں با ضمیر میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ معبود کے لیے ہو اور فرمایا : آیت : الا ان یشاء ربی یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہے گا کہ میں ان سے خوفزدہ ہوں، پھر فرمایا : وشع ربی کل شیء علما یعنی اس کا علم ہر شی کو محیط ہے۔ اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
Top