Al-Qurtubi - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کردیا۔ اور ایک مدت اسکے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو۔
آیت نمبر : 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ھوالذی خلقکم من طین “۔ یہ آیت خبر ہے، اس کے مفہوم میں دو قول ہیں : ایک وہ ہے جو مشہور ہے اور اکثر علماء کی یہی رائے ہے اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خلق سے مراد آپ کی نسل ہے اور فرع اور اپنے اصل کی طرف منسوب ہوتی ہے اسی وجہ سے فرمایا (آیت) ” خلقکم “ جمع کی ضمیر ذکر فرمائی آپ کو خطاب فرمایا جب کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، یہ حسن، قتادہ، ابن ابی نجیح، سدی، ضحاک، اور ابن زید [ کا قول ہے دوسرا یہ ہے کہ نطفہ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ) کو حقیقت میں اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا، پھر اسے تبدیل کیا حتی کہ اس سے انسان بن گیا، یہ نحاس نے ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : جب اللہ تعالیٰ نے عالم کبیر کا پہلے ذکر فرمایا تو اس کے بعدعالم صغیر کا ذکر فرمایا اور وہ عالم صغیر انسان ہے اس میں وہ سب کچھ رکھا جو عالم کبیر میں ہے جیسا کہ ہم نے آیت توحید کے تحت سورة بقرہ میں بیان کیا ہے ابو نعیم الحافظ نے اپنی کتاب میں مرہ عن ابن مسعود ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرشتہ جو رحم پر متعین ہوتا ہے وہ نطفہ کو پکڑتا ہے پھر اپنی ہتھیلی پر رکھتا ہے، پھر کہتا ہے : اے رب ! اس کے اعضاء مکمل بنانے ہیں یا نامکمل بنانے ہیں ؟ اگر مکمل بنانے کا ارشاد ہوتا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے اس کا رزق کیا ہے ؟ اس کا اثر کیا ہے ؟ اس کی عمر کیا ہے ؟ ارشاد ہوتا ہے : ام الکتاب میں دیکھو۔ وہ لوح محفوظ میں دیکھتا ہے تو اس میں وہ اس کا رزق اس کا اثر، اس کی عمر اور کا عمل دیکھتا ہے اور پھر وہ ایسی جگہ کی مٹی پکڑتا ہے جس جگہ اسے دفن ہونا ہے پس اس مٹی کے ساتھ اس نطفہ کو گوندھتا ہے۔ (آیت) ” منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم “۔ (طہ : 55) سے یہی مراد ہے، حضرت ابوہریرہ سے تخریج کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کوئی بچہ نہیں ہوا مگر اس پر اس کی قبر کی مٹی سے چھڑکاؤکیا گیا “ (1) (حلیۃ ولیاء جلد 2، صفحہ 280) میں کہتا ہوں : اس بنا پر ہر انسان مٹی اور ماء مہین سے پیدا کیا گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة المومنون میں خبر دی ہے، پس آیات اور احادیث موافق ہوجائیں گی اور تعارض اور اشکال اٹھ جائے گا۔ واللہ اعلم۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے متعلق اخبار سورة بقرہ میں گزر چکی ہیں، یہاں ہم کچھ مزید ان کی صفات عمر اور وفات وغیرہ کے متعلق ذکر کرتے ہیں۔ ابن سعد نے ” الطبقات “ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے ہیں (2) (جامع ترمذی کتاب التفسیر جلد 2، صفحہ 159، ایضا سنن ابی داؤد، باب التفاخر بالاخساب حدیث نمبر 4452، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایسی زمین سے پیدا کیا جسے دجناء کہا جاتا ہے “۔ حسن نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) کا سینہ ضریۃ سے پیدا کیا گیا، جوہری نے کہا : ضریۃ بنی کلاب کا ایک شہر ہے جو بصرہ کے راستہ پر ہے یہ مکہ کے زیادہ قریب ہے، حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو بھیجا تو اس نے زمین کی سطح سے مٹی اور نمکین مٹی سے کچھ اٹھایا اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق کیا گیا پس جو اس کی میٹھی مٹی سے تخلیق کیا گیا وہ جنت کی طرف جانے والا ہے اگرچہ وہ کافر کا بیٹا بھی وہ اور جو اس کی نمکین مٹی سے تخلیق کیا گیا وہ آگ کی طرف جانے والا ہے اگرچہ وہ کسی متقی کا بیٹا بھی ہو، اسی وجہ سے ابلیس نے کہا تھا ؛ کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو جس کو تو نے پیدا کیا ؟ کیونکہ وہ مٹی وہی لایا تھا، پھر آپ کا نام آدم رکھا گیا، کیونکہ انہیں ادیم الارض (زمین کی سطح) سے پیدا کیا گیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام سے مروی ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے ساتھ کے آخر میں پیدا کیا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کا سرآسمان کو چھوتا تھا۔۔۔۔۔ فرمایا پھر اسے زمین کی طرف جھکایا حتی کہ وہ ساٹھ ہاتھ لمبے اور سات ہاتھ چوڑے ہوگئے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کا سر آسمان چھوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا۔۔۔۔۔۔ پھر اسے زمین کی طرف جھکایا حتی کہ وہ ساٹھ ہاتھ لمبے اور سات ہاتھ چوڑے ہوگئے، حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) بہت زیادہ لمبے گھنگھریالے بالوں والے تھے گویا لمبی کھجور ہیں، حضرت ابن عباس سے مروی ہے ان کی حدیث میں طول کا ذکر ہے حضرت آدم (علیہ السلام) نے ہند سے مکہ کی طرف پیدل چالیس حج کیے، حضرت آدم (علیہ السلام) کو جب اتارا گیا تو ان کا سر آسمان کو چھوتا تھا اسی وجہ سے وہ گنجے ہوگئے اور آپ کی اولاد بھی گنجی ہوتی ہے، آپ کے قد کی طوالت کی وجہ سے خشکی کے جانور بھاگ گئے اور اس دن سے وہ وحشی بن گئے، حضرت آدم (علیہ السلام) کا وصال نہ ہوا حتی کہ ان کی اولاد کی اولاد چالیس ہزار ہوگئی، آپ نے اس پہاڑ کی چوٹی پر وصال فرمایا جس پر آپ اترے تھے حضرت شیث (علیہ السلام) نے جبریل (علیہ السلام) سے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) کی نماز جنازہ پڑھاؤ جبریل (علیہ السلام) نے حضرت شیث (علیہ السلام) سے کہا : تم آگے بڑھو اور اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھاؤاور ان پر تیس تکبریں کہو، پانچ تو نماز جنازہ کی ہیں اور پچیس حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت کے لیے ہیں، بعض نے کہا : اس پر چار تکبیریں کہیں۔ حضرت شیث (علیہ السلام) کی اولاد نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک غار میں رکھا اور اس پر محافظ مقرر کیے تاکہ قابیل کے بیٹوں میں سے کوئی ان کے قریب نہ آئے، جو لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آتے تھے اور آپ کے لیے استغفار کرتے تھے وہ حضرت شیث (علیہ السلام) کے بیٹے تھے، حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر نو سو چھتیس سال تھی، کہا جاتا ہے : کیا اس آیت میں دلیل ہے کہ جو ہر ایک جنس سے ہیں ؟ اس کا جواب ہے : ہاں کیونکہ جب مٹی زندہ، قادر علیم انسان بن سکتی ہے تو جواہر کا بھی ہر حال کی طرف تبدیل ہونا جائز ہے، کیونکہ حکم میں عقل برابری کا تقاضا کرتی ہے پتھروں کا انسان کی طرف بدلنا جائز اور صحیح ہے اس کی دلیل یہی آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ثم قضی اجلا “۔ اجلا، مفعول ہے (آیت) ” واجل مسمی عندہ “ مبتدا خبر ہے، ضحاک نے کہا : ” اجلا “ سے مراد موت ہے (آیت) ” واجل مسمی عندہ “ سے مراد قیامت کی مدت ہے، اس بنا پر معنی یہ ہوگا کہ اس نے مدت کا فیصلہ فرمایا اور اس نے تمہیں بتایا کہ تم موت نے موت تک ٹھہرنا ہے اور اس نے تمہیں قیامت کی مدت کے بارے آگاہ نہیں کیا، حسن، مجاہد، عکرمہ، خصیف، قتادہ، نے کہا : یہ حسن کے الفاظ ہیں : جس دن اس نے تجھے پیدا کیا اس دن سے دنیا کی مدت کا تیرے مرنے تک کا فیصلہ کیا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” واجل مسمی عندہ “ یعنی آخرت کی مدت اس کے پاس ہے، بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” قضی اجلا “۔ یعنی ہمیں بتایا گیا ہے حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے (آیت) ” واجل مسمی “ آخرت کی مدت کا علم اس کے پاس ہے، بعض نے فرمایا (آیت) ” قضی اجلا “ اس سے مراد وہ ہے جو ہم چاند اور کھیتی باڑی کے اوقات جانتے ہیں (آیت) ” واجل مسمی “ سے مراد موت کی مدت ہے انسان نہیں جانتا کہ وہ کب مرے گا، حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد (رح) نے کہا : آیت کا معنی یہ ہے کہ قضی اجلا دنیا کی موت کا فیصلہ فرمایا (آیت) ” واجل مسمی عندہ “ آخرت کی ابتدا کا فیصلہ اس کے پاس ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے کہا : پہلی اجل سے مراد نیند میں روحوں کو قبض کرنا ہے اور دوسری اجل سے مراد موت کے وقت روح کا قبض کرنا ہے حضرت ابن عباس سے بھی یہ مروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ثم انتم تمترون “۔ یہ مبتدا خبر ہیں، یعنی تم اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے میں شک کرتے ہو بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے تم شک کرنے والوں کے جھگڑا کی طرح جھگڑتے ہو، التماری کا معنی شک کی بنا پر جھگڑنا ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” افتمرونہ علی مایری ” (النجم)
Top