Al-Qurtubi - Al-An'aam : 3
وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ١ؕ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ اللّٰهُ : اللہ فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور فِي الْاَرْضِ : زمین میں يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے سِرَّكُمْ : تمہارا باطن وَجَهْرَكُمْ : اور تمہارا ظاہر وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تَكْسِبُوْنَ : جو تم کماتے ہو
اور آسمان اور زمین میں وہی ایک خدا ہے۔ تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتین جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔
آیت نمبر : 2 تا 5۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وھوا للہ فی السموت وفی الارض “۔ اس میں سوال یہ ہے کہ وھوا للہ فی السموت وفی الارض کا عامل کیا ہے، اس کے کئی جوابات ہیں : (1) اس کا مطلب ہے ھو اللہ المعظم او المعبود فی السموت وفی الارض۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ ہی بلند شان والا ہے یا معبود ہے جیسے تو کہتا ہے : زید الخلیفۃ فی الشرق والغرب، یعنی شرق وغرب میں اس کا حکم ہے، یہ معنی بھی جائز ہے، کہ یہ خبر کے بعد خبر ہو، معنی یہ ہوگا وھوا للہ فی السموات وھواللہ فی الارض بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ھو اللہ یعلم سرکم وجھرکم فی السموت وفی الارض فلا یخفی علیہ شیء یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور زمین میں تمہارے اعلانیہ امور اور بھیدوں کو جانتا ہے اس پر کوئی چیزمخفی نہیں ہے۔ نحاس نے کہا : یہ میرے نزدیک عمدہ قول ہے، حمد بن جریر نے کہا : واللہ فی السموات ویعلم سرکم وجھرکم فی الارض پس یعلم دونوں صورتوں میں مقدم ہے، پہلا قول اشکال سے سلام ہے اس کے علاوہ بھی اقوال قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حرکت، انتقال اور امکنہ کے شغل سے پاک ہے۔ (آیت) ” ویعلم ما تکسبون “۔ یعنی خیر وشر میں سے جو تم کماتے ہو، الکسب سے مراد نفع حاصل کرنے یا نقصان کو دور کرنے کے لیے فعل کرنا ہے اسی وجہ سے اللہ کے فل کو کسب نہیں کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما تاتیھم من ایۃ یعنی علامت جیسے چاند کا پھٹنا وغیرہ، من جنس کے استغراق کے لیے ہے تو کہتا ہے : ما فی الدار من احد گھر میں کوئی نہیں ہے۔ (آیت) ’ من ایت ربھم “۔ دوسرا من بعضیۃ ہے (آیت) ” معرضین “۔ کانوا “ کی خبر ہے الاعراض سے مراد ان آیات میں غور وفکر کا ترک کرنا ہے جن کے ذریعے توحید پر استدلال کرنا ان پر واجب تھا جیسے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس کی تخلیق کی علامت، یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ وہ قدیم، حی اور تمام اشیاء سے غنی ہے، قادر ہے جس کو کوئی چیز عاجز نہیں کرتی، عالم جس پر کوئی چیز مخفی نہیں جو اس معجرات اپنے نبی ﷺ کے لیے قائم کیے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اس کے لائے ہوئے پیغام کی صداقت پر استدلال کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فقد کذبوا “ یعنی مشرکین مکہ نے جھٹلایا، (آیت) ” بالحق “ یعنی قرآن تو بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” بالحق “ سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے، (آیت) ” فسوف یاتیھم “ یعنی ان پر عذاب نازل ہوگا، الانباء سے مراد اخبار ہیں، یعنی عذاب جیسے تیرا قول ہے : اصبر وسوف یاتیک الخبر تو صبر کر عنقریب تیرے پاس خبر (عذاب) آجائے گی، اس سے مراد وہ ہے جو انہیں جنگ بدر وغیرہ میں تکلیف پہنچی تھی، بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد قیامت کا عذاب ہے۔
Top