Al-Qurtubi - Al-An'aam : 158
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ١ؕ یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا١ؕ قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ
هَلْ يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ انتظار کررہے ہیں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ تَاْتِيَهُمُ : ان کے پاس آئیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے رَبُّكَ : تمہارا رب اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے بَعْضُ : کچھ اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّكَ : تمہارا رب يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْ : آئی بَعْضُ : کوئی اٰيٰتِ : نشانی رَبِّكَ : تمہارا رب لَا يَنْفَعُ : نہ کام آئے گا نَفْسًا : کسی کو اِيْمَانُهَا : اس کا ایمان لَمْ تَكُنْ : نہ تھا اٰمَنَتْ : ایمان لایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے اَوْ : یا كَسَبَتْ : کمائی فِيْٓ اِيْمَانِهَا : اپنے ایمان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی قُلِ : فرمادیں انْتَظِرُوْٓا : انتظار کرو تم اِنَّا : ہم مُنْتَظِرُوْنَ : منتظر ہیں
یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ انکے پاس فرشتے آئیں۔ یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں ؟ (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گناہوں سے توبہ کرنا مفید نہ ہوگا) ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں۔
آیت نمبر : 158 قولہ تعالیٰ : آیت : ھل ینظرون اس کا معنی ہے میں نے ان پر حجت قائم کردی اور ان پر کتاب نازل کی لیکن وہ ایمان نہ لائے، پس وہ کس کی انتظار کر رہے ہیں ؟ آیت : ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملٰئکۃ کس کی انتظار کر رہے ہیں بجز اس کے کہ موت کے وقت ان کی اروا اح کو قبض کرنے کے لیے فرشتے ان کے پاس آئیں۔ اویاتی ربک حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا : اس کا مفہوم ہے : امر ربک یا ان کے بارے میں قتل وغیرہ سے متعلقہ تیرے رب کا حکم آجائے، کبھی مضاف الیہ کو ذکر کیا جاتا ہے اور اس سے مراد مضاف ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : وسئل القریۃ ( یوسف : 82) مراد اھل القریۃ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واشربوا فی قلوبھم العجل ( البقرہ : 93) اس میں مراد حب العجل ہے۔ اسی طرح یہاں بھی ہے یاتی امر ربک، یعنی عقوبۃ ربک اور عذاب ربک (تیرے رب کی سزا اور تیرے رب کا عذاب آجائے گا) ۔ اور کہا جاتا ہے : یہ ان متشابہ آیات میں ہے : یہ ان متشابہ آیات میں سے ہے جن کی تاویل سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اور اسی کی مثل میں بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ آیت : او یاتی بعض ایت ربک کہا گیا ہے : ایت ربک سے مراد سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اس کے بارے بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیا میں مہلت دی جائے گی اور جب ساعت ( قیامت) ظاہر ہوجائے گی تو پھر کوئی مہلت نہ ہوگی اور یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کے آنے سے مراد قیامت کے دن میدان حشر میں اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے آنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : وجاء ربک والملک صفا صفا (الفجر) ( اور جب آپ کا رب جلوہ فرما ہوگا اور فرشتہ قطار در قطار حاضر ہوں گے) اللہ تعالیٰ کے آنے میں کسی نوع کی کوئی حرکت، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا اور زوال وغیرہ نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں تب ہوتی ہیں جب آنے والا جسم یا جوہر ہو اور جس نظریہ پر جمہور ائمہ اہل السنتہ ہیں وہ کہتے ہیں : وہ آتا ہے، نزول فرماتا ہے لیکن وہ اسے کسی کیفیت کے ساتھ مکیف نہیں کرتے، کیونکہ اس کی مثل کوئی شی نہیں ہے۔ ارشاد گرامی ہے : آیت : لیس کمثلہ شیء وھو السمع البصیر (الشور) ( نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز اور وہی سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے) اور صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشا اد فرمایا : ” تین چیزیں جب ظاہر ہوجائیں گی تو پھر کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا یا اس نے اپنے ایمان کی حالت میں کوئی عمل خیز نہیں کیا، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا نکلنا اور دابۃ الارج کا ظاہر ہر نا “۔ اور صفوان بن عسال مرادی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بیشک مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اس کی مسافت ستر برس کی ہے اسے بند نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج اس کی طرف سے طلوع ہوجائے “ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب طلوع الشمس من مغربھا، حدیث نمبر 4059، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے دار قطنی، دارمی اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے : ھذا حدیث حسن صحیح، اور سفیان نے بیان کیا ہے : یہ شام کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اس دن تخلیق فرمایا جس دن زمین و آسمان پیدا فرمائے۔ مفتوحا یعنی توبہ کے لیے کھولا گیا ہے اور بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔ فرمایا : حدیث حسن صحیح ( یہ حدیث حسن صحیح ہے) میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس سب کو خوارج اور معتزلہ نے جھٹلایا ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو سنا کہ انہوں نے کہا : اے لوگو ! بلا شبہ رجم حق ہے اس کے بارے تم کسی دھوکے میں نہ آنا اور بیشک اس کی نشانی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا ہے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی رجم کیا ہے اور بلا شبہ ہم نے ان دونوں کے بعد رجم کیا ہے۔ اور عنقریب اس امت سے ایک قوم ہوگی وہ رجم کو جھٹلائیں گے، دجال کی تکذیب کریں گے، مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کا انکار کریں گے، عذاب قبر کو نہیں مانیں گے، شفاعت کا انکار کریں گے اور اس قوم کو جھٹلائیں گے جو آگ (جہنم) سے نکالیں جائیں گے اس میں جلنے کے بعد۔ اسے ابو عمر نے ذکر کیا ہے (مسند امام احمد، حدیث نمبر 156 ) ۔ اور ثعلبی (رح) نے ایک طویل حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ذکر کیا ہے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے اور وہ اسی کے ہم معنی ہے کہ ” سورج کو لوگوں سے روک لیا جائے گا جس وقت زمین میں گناہ زیادہ ہوجائیں گے اور نیکی ختم ہوجائے گی اور کوئی اس کا حکم نہیں دے گا اور گناہ پھیل جائے گا اور اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔ ایک رات کی مقدار عرش کے نیچے، جب بھی وہ سجدہ ریز ہوگا اور اپنے رب سے اجازت طلب کرے گا وہ کہاں سے طلوع ہو تو اسے کوئی جواب نہیں ملے گا یہاں تک کہ چاند اس کے ساتھ برابر ہوجائے گا اور وہ بھی اس کے ساتھ سجدہ ریز ہوگا اور ازن طلب کرے گا کہ وہ کہاں سے طلوع ہو تو ان دونوں کو کوئی جواب نہیں دیا جائے گا یہاں تک کہ سورج کو تین راتوں کی مقدار اور چاند کو دوراتوں کی مقدار روک لیا جائے گا اور زمین میں تہجد گزراروں کے سوا اس رات کی طوالت کو کوئی نہیں پہچان سکے گا اور اس وقت مسلمانوں کے شہروں میں سے ہر شہر میں ان کی ایک قلیل سے جماعت ہوگی، پس جب دونوں کے لیے تین راتوں کی مقدار مکمل ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) کو بھیجے گا اور وہ فرمائیں گے :” بیشک رب کریم سبحانہ وتعالیٰ تم دونوں کو حکم ارشاد فرما رہا ہے کہ تم اپنے مغارب کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور وہاں سے طلوع ہوجاؤ اور یہ کہ تم دونوں کے لیے ہمارے پاس کوئی روشنی اور نور نہیں ہے “۔ پس وہ دونوں سیاہ حالت میں اپنے مغارب سے طلوع ہوں گے، نہ سورج کی روشنی ہوگی اور نہ چاند کا نور ہوگا، اس سے پہلے ان کے گرہن میں ان کی مثال موجود ہے، پس اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وجمع الشمس والقمر (القیامہ) ( اور ( بےنوری میں) سورج اور چاند یکساں ہوجائیں گے) اور ارشاد گرامی ہے : آیت : اذا الشمس کورت (التکوریر) ( یاد کرو) جب سورج لپیٹ دیا جائے گا) پس یہ دونوں بلند ہوں گے اس طرح جیسے دو جوڑے گئے اونٹ۔ اور جب سورج اور چاند آسمان کے نصف تک پہنچ جائیں گے تو ان کے پاس جبرائیل امین (علیہ السلام) آئیں گے اور وہ انہیں سینگوں سے پکڑ لیں گے اور انہیں مغرب کی طرف واپس لوٹا دیں گے اور وہ اپنے مغارب میں غروب نہیں ہوں گے بلکہ وہ دونوں باب التوبۃ میں غروب ہوں گے پھر وہ دونوں کواڑ واپس لوٹائے جائیں گے، پھر ان دونوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ جڑ جائے گا اور وہ دونوں اس طرح مل جائیں گے گویا ان کے درمیان کبھی کوئی شگاف ( اور دراڑ) تھی ہی نہیں۔ اور جب توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا تو اس کے بعد کسی بندے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اس کے بعد اسے نیکی نفع نہیں دے گی جسے وہ کرے گا، مگر وہ آدمی جو اس سے پہلے نیکوکار ہو تو وہ اس پر عمل کرتا رہے گا جس پر وہ اس دن سے پہلے عمل پیرا تھا، پس اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : یوم یاتی بعض ایت ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل او کسبت فی ایمانھا خیرا ( انعام : 158) (لیکن) جس روز آئے گی کوئی نشانی آپ کے رب کی تو نہ نفع دے گا کسی کو اس کا یمان لانا جو نہیں ایمان لا چکا تھا اس سے پہلے یا نہ کی تھی اپنے ایمان کے ساتھ کوئی نیکی) پھر اس کے بعد سورج اور چاند کو روشنی اور نور عطا کردیا جائے گا، پھر وہ لوگوں پر اسی طرح طلوع و غروب ہوتے رہیں گے جیسے وہ اس سے قبل طلوع و غروب ہوتے تھے۔ علماء نے بیان کیا ہے : سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد کسی نفس کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہ ان کے دلوں میں اس خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے خالص ہوا ہے جس کے ساتھ نفس کی تمام شہوات کو ٹھنڈا کردیا گیا ہے اور قوائے بدنیہ میں سے ہر قوت سست اور مانند پڑگئی ہے، پس تمام لوگ قیامت قریب آنے کے یقین کی وجہ سے اس آدمی کی طرح ہوگئے ہیں جس پر موت حاضر ہو ( کیونکہ اس کی طرح) اس سے بھی گناہوں کی تمام انواع کی طرف دعوت دینے والے جذبات منقطع ہوچکے ہیں اور اب ان کے ابدان سے ان کا صدور باطل ہے، پس جس نے اس قسم کی حالت میں توبہ کی تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، جیسا کہ قریب المرگ آدمی کی توبہ قبول نہیں کی جاتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، جلد 1، صفحہ 324) ( بیشک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول نہیں فرماتا جب تک وہ ( موت کے وقت) غرغر کی آواز نہ نکالے) یعنی اس کی روح راس الحلق تک پہنچ جائے اور وہ وقت اس معاینہ اور مشاہدہ کا ہے جس میں وہ دیکھ لیتا ہے کہ اس کا ٹھکانا جنت میں ہے یا جہنم میں، پس سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا مشاہدہ بھی اس کی مثل ہے۔ اور اس پر چاہیے کہ جس نے اس کا مشاہدہ کیا جب تک وہ زندہ رہے اس کی توبہ مردود ہو اور جو اس وقت موجود ہو اس کا حکم بھی مشاہدہ کرنے والے کی طرح ہو، کیونکہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے بارے میں، اس کے نبی ﷺ کے بارے میں اور اس کے وعدہ کے بارے میں ضرروی اور بدیہ ہوگیا ہے۔ اور اگر ایام دنیا اتنے عرصہ تک پھیل جائیں کہ لو اس عظیم واقعہ کو بھول جائیں جیسے وقوع پذیر ہوا اور اس کے بارے میں وہ بہت تذکرہ کریں اور اس کے بارے خبر خاص ہوجائے اور اس سے تواتر ختم ہوجائے ( یعنی اب وہ خبر متواتر نہ رہے) تو اس وقت جس نے اسلام قبول کیا یا توبہ کہ تو اس سے اسے قبول کرلیا جائے گا۔ واللہ اعلم اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث یاد کی ہے اور اس کے بعد میں اسے نہیں بھولا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بیشک ( قیامت کے) ظاہر ہونے کے اعتبار سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے اور لوگوں پر چاشت کے وقت دابۃ کا نکلنا ہے ان میں سے جو بھی دوسری سے پہلے ظاہر ہوگی تو اس کے قریب ہی دوسری علامت ظاہر ہوجائے گی “ (صحیح مسلم، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 404) اور اس بارے میں حضرت حذیفہ ؓ نے بیان فرمایا ہے : کہ رسول اللہ ﷺ ایک کمرہ میں تشریف فرما تھے اور اس سے نیچے ہم تھے، پس آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ” تم کس کے بارے ذکر کر رہے ہو ؟ “ ہم نے عرض کی : قیامت کے بارے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دس علامات ظاہر ہوجائیں۔ ایک خسف ( زمین کا دھنسنا) مشرق میں، ایک خسف مغرب میں اور ایک خسف جزیرہ عرب میں، دخان ( دھواں) کا ظاہر ہونا، دجال کا نکلنا، دابۃ الارض، یاجوج ماجوج، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور ایک آگ جو کہ قعر عدن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کرلے جائے گی “ (صحیح مسلم، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 393) ۔ حضرت شعبہ نے بیان کیا ہے : مجھے عبدالعزیز بن رفیع نے ابو الطفیل سے اور انہوں نے ابو سریہ سے اسی طرح بیان کیا ہے اور وہ حضور نبی کریم ﷺ کا ذکر نہیں کرتے۔ اور ان دو میں سے ایک نے دسویں علامت کے طور پر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے نزول کا ذکر کیا ہے۔ اور دوسرے نے کہا ہے : اور ایک ہوا ظاہر ہوگی جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : علامات کی ترتیب میں یہ حدیث متفق ( انتہائی قابل اعتماد) ہے۔ ان میں سے بعض واقع ہوچکی ہیں اور وہ تینوں خسف ہیں جیسا کہ جیسا کہ ابو الفرج علامہ جوزی نے عراق، عجم اور مغرب میں واقع ہونے کا ذکر کیا ہے اور ان کے سبب خلق کثیر ہلاک ہوئی۔ انہوں نے کتاب ” فہوم الآثار “ وغیرہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور دابہ کا ذکر سورة النمل میں آئے گا اور یاجوج ماجوج کا سورة الکہف میں آئے گا۔ اور کہا جاتا ہے : بیشک یہ علامات تسلسل کے ساتھ سال بسال دھاگے میں پروئے ہوئے موتیوں کی مثل ظاہر ہوں گی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سورج کو مغرب سے طلوع کونے میں حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کو کہا تھا : آیت : فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب فبھت الذی کفر ( البقرہ : 258) ( کہ اللہ تعالیٰ نکالتا ہے سورج کو مشرق سے تو تو نکال لا اسے مغرب سے ( یہ سن کر) ہوش اڑ گئے اس کافر کے) اور ان کے بعد آنے والے ملاحدہ اور نجومی اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ ( کام) ہونے والا نہیں ( یعنی سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو سکتا) تو اللہ تعالیٰ ایک دن اسے مغرب سے طلوع فرمائے گا تاکہ وہ منکرین کو اپنے قدرت دکھائے کہ سورج اس کی بادشاہی اور سلطنت میں ہے، اگر وہ چاہے تو وہ اسے مشرق سے طلوع کرے اور اگر چاہے تو وہ اسے مغرب سے طلوع کرے۔ اور اس پی یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ توبہ اور ایمان کا روان کے لیے ہے جو منکرین میں سے ایمان لائے اور توبہ کی، کیونکہ وہ سورج کے طلوع ہونے کے بارے حضور نبی مکرم ﷺ کی خبر کو جھٹلانے والے ہیں اور رہے اس کی تصدیق کرنے والے تو ان کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس سے پہلے کا ان کا ایمان ان کے لیے نفع بخش ہوگا۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : کسی کافر کا نہ کوئی عمل قبول کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ جب کہ وہ اس وقت اسلام لایا جب اس نے اسے دیکھا، مگر وہ جوان دنوں صغیر ( نابالغ) ہو اگر وہ اس کے بعد اسلام لے آیا تو اس سے اسے قبول کرلیا جائے گا اور جو گنہگار مومن تھا پس اس نے گناہ سے توبہ کرلی تو اس سے قبول کرلی جائے گی۔ اور عمران بن حصین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : سورج طلوع ہونے کے وقت اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس وقت ایسی چیخ ہوگی جس میں بہت سے لوگ ہلاک ہوجائیں گے، پس جو اس وقت اسلام لایا یا اس نے توبہ کہ اور ہلاک ہوگیا تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور جس نے اس کے بعد توبہ کہ تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ اسے ابو اللیث سمرقندی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا : لوگ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد ایک سو بیس سال باقی رہیں گے یہاں تک کہ وہ کھجور کے درخت لگائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی اپنے غیب کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ حضرت ابن عمر اور ابن زبیر ؓ نے یوم تاتی تا کے ساتھ پڑھا ہے، مثلا تلتقطہ بعض السیارۃ ہے اور ذھبت بعض اصابعہ ہے۔ اور جریر نے کہا ہے : لما اتی خیر الزبیر تواضعت سورة المدینۃ والجبال الخشع مبرد نے کہا ہے : تانیث مونث کی مجاورت کی بنا پر ہے نہ کہ اصل کی بنیاد پر۔ اور ابن سیرین نے لا تنفع کو تا کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : وہ ذکر کرت ہیں کہ یہ ابن سیرین کی غلطی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : اس میں نحو کا باریک سا قانون ہے اسے سیبویہ نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ ایمان اور نفس میں سے ہر ایک دوسرے پر مشتمل ہے پس ایمان کو مونث لایا گیا، کیونکہ وہ نفس میں سے ہے اور اس کے ساتھ ہے۔ اور سیبویہ نے کہا ہے : مشین کما اھتزت رماح تسفھت اعالیھا مر الریاح النواسم مہدون نے کہا ہے : بہت سے ائمہ مضاف مذکر کے فعل کو مونث لاتے ہیں جب اس کی اضافت مونث کی طرف ہو اور مضاف مضاف الیہ کا بعض ہو یا اس سے ہو یا اس کے ساتھ ہو۔ اور ای پر ذی الرمہ کا قول ہے : مشین۔۔۔ البیت پس مر ( کے لیے فعل) مونث لایا گیا ہے، کیونکہ یہ الریاح کی طرف مضاف ہے اور وہ مونث ہے جب کہ المرمن الریاح ہے۔ اور نحاس نے کہا : اس میں ایک دوسرا قول بھی ہے وہ یہ کہ ایمان کو مونث لایا گیا ہے، کیونکہ وہ مصدر ہے جیسا کہ مصدر مونث کے لیے مذکر فعل لایا جاتا ہے، مثلا آیت : فمن جآءہ موعظۃ من ربہ ( البقرہ : 275) اور جیسا کہ شاعر نے کہا : فقد عذرتنا فی وحابتہ العذر اور ایک قول میں عذر کو مونث لایا گیا ہے، کیونکہ یہ بمعنی المعذرہ ہے۔ آیت : قل انتظروا انا منتظرون آپ ( انہیں) فرمائیں تم بھی انتظار کرو ہم بھی ( تمہارے عذاب کا) انتظار کر رہے ہیں۔
Top