Al-Qurtubi - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) راستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں۔ ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔
آیت نمبر 159 قولہ تعالیٰ : آیت : ان الذین فرقوا دینھم اسے حمزہ اور کسائی نے فارقوا الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی قراءت ہے، یہ المفارقۃ اور الفراق سے ماخوذ ہے۔ یہ اس معنی پر ہے کہ انہوں نے اپنا دین چھوڑ دیا اور اس سے نکل گئے۔ اور حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : واللہ ما فرقوہ ولکن فارقوہ ( قسم بخدا ! انہوں نے دین میں تفرقہ نہیں ڈالا بلکہ انہوں نے دین کو چھوڑ دیا ) ۔ اور باقیوں نے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، سوائے نخعی کے، کیونکہ انہوں نے اسے فرقو مخفف پڑھا ہے، یعنی وہ بعض احکام کے ساتھ ایمان لائے اور بعض کے ساتھ انہوں نے کفر کیا۔ حضرت مجاہد، قتادہ، سدی اور ضحاک رحمۃ اللہ علیہم کے قول کے مطابق مراد یہودی و نصاری ہیں۔ اور وہ تفرقہ کی صفت کے ساتھ متصف ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : وما تفرق الذین اوتوا الکتب الا من بعد ما جآء تھم البینۃ ( البینۃ) ( اور نہیں بٹے فرقوں میں اہل کتاب مگر اس کے بعد کہ آگئی ان کے پاس روشن دلیل) اور مزید فرمایا : آیت : ویریدون ان یفرقوا بین اللہ ورسلہ ( النساء : 150) ( اور چاہتے ہیں کہ فرق کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان) ۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ مراد مشرکین ہیں، ان میں سے بعض نے بتوں کی پوجا کی اور بعض نے فرشتوں کی پر شتش کی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے اور کفار کو شامل ہے۔ اور ہر وہ جس نے بدعت کا ارتکاب کیا اور ایسا عمل پیش کیا جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم نہیں دیا تو اس نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ (مجمع الزوائد، کتاب التفسیر، جلد 7، صفحہ 92) نے حضور نبی مکرم ﷺ سے اس آیت آیت : ان الذین فرقوا دینھم کے تحت روایت کیا ہے کہ یہ اہل بدعت، شبہات میں مبتلا کرنے والے اور اس امت کے گمراہ لوگ ہیں۔ اور بقیہ بن ولید نے بیان کیا ہے کہ ہمیں شعبہ بن حجاج، مجالد نے شعبی سے انہوں نے شرعح کے واسطہ سے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو فرمایا : آیت : ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا بلاشبہ یہ اس امت میں سے اصحاب بدعت، ہوس پرست اور اصحاب ضلالت و گمراہی ہیں (ایضا) ۔ اے عائشہ ! بیشک ہر گنہگار کے لیے توبہ ہے سوائے بدعت کا ارتکاب کرنیوالوں اور ہوس پرستوں کے، ان کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے اور میں ان سے بری ہوں اور وہ ہم سے بری نہیں۔ اور لیث بن ابی سلیم نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکریم ﷺ سے آیت : ان الذین فرقوا دینھم قراءت کی۔ اور شیعا کا معنی ہے متفرق گروہ اور جماعتیں۔ اور ہر قوم جن کا نظریہ ( اگر) ایک ہو ان میں سے سے بعض بعض کی رائے کی اتباع اور پیروی کرتے ہوں تو وہی شیع ہے۔ آیت : لست منھم فی شیء پس آپ ﷺ نے ان سے اپنی برات ثابت کردی۔ اور یہ آپ ﷺ کے اس ارشاد کی طرح ہے : من غشنا فلیس منا یعنی ہم اس سے بری ہیں۔ اور شاعر کا قول ہے : اذا حاولت فی اسد فجورا فانی لست منک ولست منی ای انا ابرامنک ( یعنی میں تجھ سے بری ہوں گا) ۔ اور فی شی محل نصب میں ہے، کیونکہ یہ خبریں موجود ضمیر سے حال ہے، یہ ابو علی نے کہا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : اس میں مضاف محذوف ہے اور معنی ہے لست من عقابھم فی شی ( ان کی سزا سے آپ کا کوئی علاقہ نہیں) بلا شبہ آپ فقط ڈرانا ہے۔ آیت : انما امرھم الی اللہ ( ان کا معاملہ صرف اللہ ہی کے حوالے ہے) یہ حضور نبی کریم ﷺ کے لیے تسلی اور حوصلہ افزائی ہے۔
Top