Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
لَا تَاْكُلُوْٓا
: نہ کھاؤ
اَمْوَالَكُمْ
: اپنے مال
بَيْنَكُمْ
: آپس میں
بِالْبَاطِلِ
: ناحق
اِلَّآ
: مگر
اَنْ تَكُوْنَ
: یہ کہ ہو
تِجَارَةً
: کوئی تجارت
عَنْ تَرَاضٍ
: آپس کی خوشی سے
مِّنْكُمْ
: تم سے
َلَا تَقْتُلُوْٓا
: اور نہ قتل کرو
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے نفس (ایکدوسرے)
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِكُمْ
: تم پر
رَحِيْمًا
: بہت مہربان
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہوجائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
آیت نمبر :
29
۔ اس آیت میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” بالباطل “۔ یعنی بغیر حق کے، اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا اور سورة بقرہ میں اس کا معنی بیان کیا ہے اور باطل طریقہ سے مال کھانے کی ایک صورت بیع العریان بھی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص تجھ سے کوئی سامان لے یا تجھ سے جانور کرائے پر لے اور تجھے ایک درہم یا اس سے زیادہ رقم دے اس شرط پر کہ اگر وہ اس چیز کو خریدے گا یا سواری پر سوار ہوگا تو وہ سامان کی قیمت یا جانور کے کرایہ سے ہوگا اور اگر سامان نہیں خریدے گا یا سواری کرائے پر نہیں لے گا تو جو اس نے تجھے دیا ہے وہ تیرا ہوگا، یہ جائز نہیں ہے اور حجازی علماء اور عراقی علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ کیونکہ یہ جوائے اور دھوکے اور خطرے کے بیع سے ہے اور یہ بغیر عوض اور بغیر ہبۃ کے مال کھانا ہے اور یہ بالاجماع باطل ہے۔ بیع عریان فسخ ہوگی جب اس بیع واقع ہوگی خواہ وہ قبضہ سے پہلے ہو یا قبضہ کے بعد ہو، اگر سامان موجود ہوگا تو وہ واپس کیا جائے گا اور اگر سامان ضائع ہوچکا ہوگا تو قبضہ کے دن کی قیمت لوٹائی جائے گی، ابن سیرین، مجاہد، نافع بن عبدالحارث اور زید بن اسلم نے بیع العریان کو جائز قرار دیا ہے اور زید بن اسلم کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز قرار دیا، ابو عمرو ؓ نے کہا : یہ نبی مکرم ﷺ سے صحیح طریقہ سے ثابت نہیں ہے، یہ عبدالرزاق نے اسلمی عن زید بن اسلم کے سلسلہ سے مرسل روایت کی ہے اور اس جیسی روایت حجت نہیں ہوتی، اور یہ احتمال ہے کہ بیع العریان جو جائز ہے اور اس تاویل پر ہو جو امام مالک (رح) اور ان کے ساتھ فقہاء نے کی ہے وہ تاویل یہ ہے کہ پہلے تو وہ اسے رقم دے دے پھر اس پہلی رقم کو ثمن سے شمار کیا جائے جب بیع کی تکمیل کو اختیار کرے۔ امام مالک (رح) اور دوسرے علماء کے نزدیک اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، مؤطا امام مالک (رح) میں عن الثقۃ عندہ عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع العربان سے منع فرمایا (
1
) (موطا امام مالک (رح) کتاب البیوع، صفحہ
568
) ابو عمر (رح) نے کہا : علماء نے اس مقام میں الثقۃ عندہ میں کلام کی ہے، بعض علماء نے کہا کہ انہوں نے ابن لہیعہ سے یہ حدیث لی یا ابن وہب عن ابن لہیعہ کے سلسلہ سے روایت کی۔ ابن لہیعہ علماء میں سے ہے مگر کہا جاتا ہے کہ اس کی کتابیں جل گئی تھیں پھر جب اس کے بعد وہ اپنے حافظہ سے بیان کرتا تھا تو غلطی کرتا تھا اور جو ابن لہیعہ سے ابن مبارک اور ابن وہب نے روایت کیا ہے وہ بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے اور بعض علماء نے ابن لہیعۃ کی تمام احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس وسیع علم تھا اور وہ کثرت سے احادیث رکھتا تھا مگر علماء کے نزدیک یہی حال تھا جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ تجارت جو باہمی رضا مندی سے ہو، تجارت سے مراد خرید وفروخت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثل ہے، (آیت) ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ (بقرہ :
275
) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور تجارۃ کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی الا ان تقع تجارۃ۔ اس پر سیبویہ نے یہ شعر دلیل دیا ہے : فدی لبنی ذھل بن شیبان ناقتی، اذا کان یوم ذو کواکب اشھب : اس کان کو تامہ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ فاعل کے ساتھ مکمل ہوجاتا ہے اور اسے مفعول کی احتیاج نہیں ہوتی، تجارۃ نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اس صورت میں ناقصہ ہوگا، کیونکہ بغیر خبر کے اسم کے ساتھ مکمل نہیں ہوتا پس اسم اس میں مضمر ہوگا اور اگر چاہے تو اس کو مقدر کرلے یعنی ” الا ان تکون الاموال تجارۃ “۔ پس مضاف کو حذف کیا گیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھا گیا، یہ پہلے گزر چکا ہے اسی سے یہ ارشاد ہے (آیت) ” وان کان ذوعسرۃ “۔ (بقرہ :
280
) مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تجارۃ “۔ لغت میں تجارت سے مراد معاوضہ ہے اسی سے وہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ بندے کو ان اعمال صالحہ کے عوض دیتا ہے جو اس کے فعل کا بعض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم “۔ (الصف) ترجمہ : اے ایمان والوں کیا میں آگاہ کروں تمہیں ایسی تجارت پر جو بچائے تمہیں درد ناک عذاب سے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یرجون تجارۃ لن تبور “۔ (فاطر) ترجمہ : وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہر گز نقصان والی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسکم واموالھم “۔ (توبہ :
111
) ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ نے خرید لی ہیں ایمانداروں سے انکی جانیں اور ان کے مال۔ ان تمام صورتوں میں بیع وشراء کا ذکر مجازا ہے، بیع وشرا کو عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کے ساتھ اغراض حاصل ہوتی ہیں، تجارت کی دو قسمیں ہی بغیر نقل اور سفر کے حضر میں پھیرنا ہے۔ یہ تربص اور احتکار ہے، اور معزز لوگوں نے اس سے اعراض کیا ہے، متقین نے اس سے دلچسپی نہیں رکھی، دوسری صورت یہ ہے کہ سفر کے ساتھ مال گھمانا اور دوسرے شہروں کی طرف منتقل کرنا ہے، یہ اہل مرؤت کے لائق ہے اور اس میں منفعت عام ہے مگر اس میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور دھوکا بھی بڑا ہوتا ہے، نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : مسافر اور اس کا مال ہلاکت پر ہوتا ہے مگر جو اللہ تعالیٰ بجالے، یعنی خطرہ ہے نے کہا : یہ آیت متصوفین کے قول کے فساد پر بڑی دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) ہر معاوضہ تجارت ہے خواہ وہ عوض کسی اعتبار سے ہو، مگر (آیت) ” بالباطل “۔ کا ارشاد اس سے ہراس عوض کو خارج کردیتا ہے جو شرعا جائز نہیں مثلا سود، یا جہالت یا فاسد عوض کو مقدر کرنا جیسے شراب، خنزیر وغیرہ، اور اس سے ہر وہ عقد بھی خارج ہوجاتا ہے جو جائز تو ہوتا ہے لیکن اس میں عوض نہیں ہوتا جیسے قرض، صدقہ ہبۃ لیکن ثواب اس سے ملتا ہے اور تبرعات کی عقود دوسرے دلائل کے ساتھ جائز ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر آئیں گے یہ دونوں طرفیں متفق علیہما ہیں اور اس سے وہ دعوت بھی خارج ہوگئی جس کی طرف تمہارا بھائی تمہیں بلاتا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ ایک شخص اس آیت کے نزول کے بعد کسی کے پاس کھانا کھانے سے اجتناب کرتا تھا، تو اس آیت کو سورة نور کی آیت سے منسوخ کردیا : فرمایا : (آیت) ” لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم اوبیوت ابآئکم او بیوت امھتکم او بیوت اخوانکم او بیوت اخوتکم او بیوت اعمامکم او بیوت عمتکم او بیوت اخوالکم او بیوت خلتکم او ماملکتم مفاتحہ او صدیقکم لیس علیکم جناح ان تکلوا جمیعا او اشتاتا “۔ (النور :
61
) ترجمہ : نہ اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ تم پر اس بات میں کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں میں الخ) ایک امیر آدمی اپنے کھانے کی طرف اہل میں سے کسی شخص کو بلاتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ میں اس سے کھانے میں حرج دیکھتا ہوں اور وہ کہتا : مجھ سے اس کا مسکین زیادہ حق دار ہے پس اس ارشاد میں میں اس چیز کا کھانا حلال فرمایا جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اور اہل کتاب کا کھانا حلال فرمایا (
1
) (سنن ابو داؤد، کتاب الاطعمہ، جلد
2
، صفحہ
171
) مسئلہ نمبر : (
5
) اگر تو بازار سے کوئی چیزخریدے پھر اس چیز کا مالک تجھے خریدنے سے پہلے کہے : تو اس کو چکھ لے تیرے لیے حلال ہے، پس تو اس سے نہ کھا، کیونکہ اس کا کھانے کی اجازت دینا خریدنے کی وجہ سے ہے، بعض اوقات تمہارے درمیان سودا واقع نہیں ہوتا پس اس کا کھانا مشتبہ ہوگا، لیکن اگر وہ تیرے لیے اس چیز کی صفت بیان کرے پھر تو اس سے خریدے اور تو اسے اس صفت پر نہ پائے تو تجھے اختیار ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) جمہور علماء تجارت میں غبن کے جواز کے قائل ہیں مثلا کوئی شخص ایک یاقوت ایک درہم میں بیچے حالانکہ وہ سو درہم کے مساوی ہو تو یہ تیرے لیے جائز ہے، کیونکہ مالک جس کی ملکیت صحیح ہے اس کے لیے اپنے بہت سے مال کو تھوڑے مال کے ساتھ بیچنا جائز ہے، اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے جب کہ اس کی قدر معروف ہو، جس طرح ہبۃ جائز ہے، اگر ہبہ کیا جائے، اور اس میں اختلاف ہے جب اس کی قدر معروف نہ ہو، ایک قوم نے کہا : اگر اس کی قدر معروف ہو یا نہ ہو یہ بیع جائز ہے جب کہ بیچنے والا دانا، آزاد اور بالغ ہو، اور ایک جماعت نے کہا : جب غبن تہائی سے تجاوز کر جائے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
41
دارالکتب العلمیہ) تو مردود ہے اس سے قریب قریب اور تجارت میں متعارف غبن مباح ہے لیکن بہت زیادہ غبن جائز نہیں ہے، یہ ابن وہب کا قول ہے جو امام مالک (رح) کے اصحاب میں سے ہیں پہلا قول صحیح ہے، کیونکہ زانیہ لونڈی کی حدیث میں ہے ” اس کو بیچ دو اگرچہ بالوں کی رسی کے بدل ہو (
3
) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود جلد
2
، صفحہ
258
) اور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے کہا تھا : ” اس کو نہ خرید اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں ہی بیچ دے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” لوگوں کو چھوڑو اللہ تعالیٰ بعض کو بعض سے رزق دیتا ہے۔ (
4
) (صحیح مسلم کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
4
) اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” کوئی شہری دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے (
5
) (صحیح مسلم کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
4
) ان ارشادات میں قلت و کثرت، تہائی وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” عن تراض منکم “۔ یعنی تم جو باہم رضا مندی سے کرو، یہاں تراض بمعنی رضا ہے لیکن باب مفاعلہ اس لیے ذکر کیا، کیونکہ تجارت دو شخص کے درمیان ہوتی ہے، علماء کا تراضی کے بارے میں اختلاف ہے، ایک جماعت نے کہا : بیع کا تمام اور جزم بیع کی عقد کے بعد ابدان کے جدا ہونے کے ساتھ ہے یا ایک دوسرے کو کہے : تو اختیار کرلے، دوسرا کہے : میں نے اختیار کرلیا، اس صورت میں عقد کے بعد سودا پختہ ہوجائے گا اگرچہ ابدان کے ساتھ جدا بھی نہ ہوں (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
41
دارالکتب العلمیہ) یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا قول ہے۔ اور امام شافعی، ثوری، اوزاعی، لیث، ابن عیینہ، اسحاق وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے امام اوزاعی نے کہا : بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں مگر تین بیوع میں اختیار نہیں سلطان کا مال غنیمت کی بیع کرنا، میراث میں شرکت کیبیع کرنا اور تجارت میں شرکت کرنا جب ان تین بیوع کا سودا ہوگا تو بیع واجب ہوجائے گی اور دونوں کو اختیار نہیں ہوگا اور فرمایا : جدائی کی حد یہ ہے کہ بائع اور مشتری میں سے ہر ایک دوسرے سے چھپ جائے یہ اہل شام کا قول ہے، اور لیث نے کہا : جدائی یہ ہے کہ ایک کھڑا ہوجائے، امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے تھے : دونوں کو اختیار ہے جب تک جسموں کے ساتھ جدا جدا ہوجائیں خواہ انہوں نے کہا ہو کہ اختیار کرلو یہ نہ کہا ہو حتی کہ ابدان کے ساتھ اپنی اپنی جگہ سے جدا ہوجائیں، یہ بھی امام شافعی (رح) کا قول ہے اور اس باب میں یہی صحیح ہے، کیونکہ اس کے متعلق احادیث وارد ہیں۔ یہ حضرت ابن عمر ؓ حضرت ابو برزہ ؓ اور علماء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : بیع کا تمام یہ ہے کہ زبان سے بیع کرنا، اس سے بیع پختہ ہوجائے گی اور اختیار اٹھ جائے گا، امام محمد بن حسن نے کہا : البیعان بالخیار مالم یتفرقا “۔ (
2
) (صحیح بخاری کتاب البیوع جلد
1
، صفحہ
279
) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بائع جب کہے : میں نے تجھے (یہ چیز) بیچی تو اس کے لیے رجوع کا حق ہے جب تک کہ مشتری نے یہ نہ کہا ہو کہ میں نے قبول کیا، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک (رح) نے اس پر نص قائم فرمائی، یہ ابن خویزمنداد نے حکایت کیا ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کو رجوع کا حق نہیں، یہ قول سورة بقرہ میں گزر چکا ہے پہلے قول کے قائلین نے حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو برزہ، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص، حضرت ابوہریرہ، حضرت حکیم بن حزم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرھم کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی مکرم ﷺ سے انہوں نے روایت کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : بیع کرنے والوں کو خیار ہے جب تک جدا نہ ہوجائیں یا ایک دوسرے کو کہے : اختیار کرلے (
3
) (سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
213
) یہ دوسری روایت الابیع الخیار اور الا ان یکون بیعھما عن خیار کا معنی ہے یعنی بیع کے مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے کو کہے : بیع کا نفاذ یا بیع کا فسق اختیار کرلے اگر وہ بیع کا قائم رکھنا اختیار کرے تو بیع مکمل ہوجائے گی اگرچہ ایک دوسرے سے جدا بھی نہ ہوں حضرت ابن عمر ؓ جو حدیث کے روای ہیں وہ جب کسی سے بیع کرتے اور اس بیع کو نافذ کرنا پسند کرتے تو تھوڑا سا چل پڑتے اور پھر لوٹ آتے۔ ” الاصول “ میں ہے : جو حدیث روایت کرتا ہے وہ اس کی تاویل کو زیادہ جانتا ہے خصوصا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیونکہ وہ بات کو زیادہ جاننے والے تھے اور حالات سے زیادہ واقف تھے، ابوداؤد، دارقطنی نے ابو الوضی سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم ایک لشکر میں سفر پر تھے تو ایک شخص آیا جس کے ساتھ ایک گھوڑا تھا ہم میں سے ایک شخص نے اسے کہا : کیا تو یہ گھوڑا اس غلام عوض بیچے گا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ اس نے گھوڑا غلام کے عوض بیچ دیا، پھر اس نے ہمارے ساتھ رات گزاری جب صبح ہوئی تو وہ اپنے گھوڑے کی طرف گیا، تو خریدنے والے نے اسے کہا : اب تجھے گھوڑے سے کیا غرض ؟ کیا تو نے مجھے یہ فروخت نہیں کیا تھا ؟ اس نے کہا : مجھے اس بیع کی کوئی ضرورت نہیں، پھر خریدنے والے نے کہا : تجھے اس سے کیا غرض ؟ تو مجھے یہ بیچ چکا ہے، ان دونوں کو لوگوں نے کہا : یہاں رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابو برزہ ؓ موجود ہیں تم دونوں ان کے پاس جاؤ حضرت ابو برزہ ؓ نے ان دونوں سے کہا کیا تم رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں، بو برزہ ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دونوں بیع کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں، اور میں نہیں دیکھتا کہ تم جدا ہوئے تھے، یہ دونوں صحابی ہیں اور حدیث کے مخرج کو انہوں نے جان لیا اور اس کے مقتضا پر عمل کیا بلکہ یہ صحابہ کا عمل تھا سالم نے کہا : حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : ہم جب بیع کرتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک کو خیار ہوتا تھا جب تک کہ بیع کرنے والے دونوں جدا نہ ہوجاتے تھے، حضرت عبداللہ نے فرمایا : میں نے اور حضرت عثمان نے بیع کی میں نے انہیں وادی کی زمین دی اور ان کی خیبر کی زمین لی، حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : جب میں نے سودا کردیا تو میں الٹے پاؤں چلنے لگا اس خوف سے کہ کہیں حضرت عثمان میرے جدا ہونے سے پہلے مجھے سودا لوٹا نہ دیں یہ روایت دارقطنی نے نقل کی ہے پھر فرمایا : اہل لغت نے فرقت اور فرقت میں فرق کیا ہے ؟ فرقت کو کلام کے اعتبار سے اور فرقت ابدان کے اعتبار سے جدائی کو لیا ہے، احمد بن یحی ثعلب نے کہا : مجھے ابن اعرابی نے مفضل سے روایت کر کے بتایا کہ فرقت دو کلاموں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے اور فرقت دو شخصوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے یعنی میں نے دو کلموں کے درمیان فرق کیا تو دونوں جدا ہوگئیں، اور فرقت کا مطلب ہے : دو آدمیوں کے درمیان جدائی کی تو دونوں جدا ہوگئے۔ افتراق کلام کے لیے استعمال کیا اور التفرق ابدان کے لیے استعمال کیا، مالکی علماء نے آیۃ الذین سے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” اوفوا ابالعقود “۔ (المائدہ :
1
) سے حجت پکڑی ہے، یہ دونوں شخص عقد کرچکے ہیں اور اس حدیث میں الوفاء بالعقود کا ابطال ہے انہوں نے فرمایا : کبھی التفرق قول کی تفریق میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عقد نکاح اور اس طلاق کا وقوع جس کو اللہ تعالیٰ نے فراق کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ “۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تکونوا کالذین تفرقوا “۔ (آل عمران :
105
) اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : تفترق امتی (میری امت جدا ہوجائے گی) آپ ﷺ نے بابدانھا نہیں فرمایا۔ دار قطنی وغیرہ نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے شعیب کو یہ کہتے ہوئے سنا، وہ فرماتے ہیں، میں نے نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا : جو شخص کسی دوسرے سے کوئی چیز خریدے تو ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہوگا حتی کہ اپنی جگہ سے جدا ہوجائیں مگر یہ کہ خیار کا سودا ہو پس ان میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے ساتھی سے جدا ہوجائے اس خوف سے کہ اس کا ساتھی سودا واپس نہ کر دے (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد
3
، صفحہ
50
) ان علماء نے فرمایا : یہ چیز دلیل ہے کہ افتراق سے پہلے ان کے درمیان بیع مکمل ہوچکی ہے، کیونکہ سودا واپس کرنا صحیح نہیں ہوتا مگر اسی صورت میں جب بیع مکمل ہوچکی ہو، فرماتے ہیں : المتبایعان بالخیار (
2
) (سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
213
) کا معنی ہے کہ دونوں خیار میں برابر ہیں جب تک کہ انہوں نے عقد نہیں کیا جب دونوں نے عقد کرلیا تو اس میں خیار باطل ہوگیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو انہوں نے افتراق بالکلام سے اس کی علت بیان کیا ہے اس سے مراد ابدان ہیں جس طرح ہم نے سورة آل عمران میں بیان کیا ہے اگرچہ بعض جگہ میں افتراق بالکلام صحیح ہوتا ہے لیکن اس جگہ صحیح نہیں ہے، اس کا بیان یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ وہ ہمیں اس کلام کے متعلق خبر دیں جس کے ساتھ اجتماع واقع ہو اور اس کے ساتھ بیع مکمل ہوگئی کیا یہ وہ کلام ہے جس سے افتراق یا اس کے علاوہ کا ارادہ کیا گیا ہے ؟ اگر وہ کہیں کہ اس کے علاوہ ہے تو پھرگئے اور ایسی بات لائے جو غیر معقول ہے، کیونکہ وہاں اس کلام کے علاوہ کوئی کلام تھی ہی نہیں۔ اگر وہ کہیں کہ یہ بعینہ وہ کلام ہے تو انہیں کہا جائے گا : یہ کیسے جائز ہے کہ وہ کلام جس کے ساتھ وہ جمع ہوئے اور جس کے ساتھ ان کی بیع مکمل ہو، اسی کلام کے ساتھ جدا ہوئے ؟ یہ عین محال ہے اور فاسد قول ہے، رہا آپ ﷺ کا قول کہ کسی کے لیے اپنے ساتھی سے جدا ہونا حلال نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ سودا واپس نہ کر دے۔ (
1
) (جامع ترمذی کتاب البیوع جلد
1
، صفحہ
150
) اس کا معنی استحباب پر محمول ہے، اگر یہ قول صحیح ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کا ارشاد ہے : من اقال مسلما اقالہ اللہ عثرتہ (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع جلد
2
، صفحہ
134
) (جو کسی مسلمان کو سودا واپس کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی لغزش معاف کر دے گا) اور مسلمانوں کے اجماع سے حجت پکڑی ہے کہ ظاہر حدیث کے خلاف پر ایسا کرنے والے کے لیے یہ حلال ہے اور مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ساتھی سے جدا ہوجائے تاکہ اس کی بیع کو نافذ کر دے اور وہ واپس نہ کرسکے مگر یہ کہ جب وہ چاہے اور اس وجہ سے انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے جس نے لا یحل روایت کیا ہے اس کی روایت رد ہے اگر اس خبر کی وجہ سے استحباب نہ ہو ورنہ بالاجماع یہ باطل ہے اور رہی یہ تاویل کہ المتبایعان سے مراد المتساویان ہے یہ لفظ کے ظاہر سے عدول ہے، اس کا معنی ہے ان دونوں کے عقد کے بعد انہیں اختیار ہے جب تک کہ وہ دونوں اپنی مجلس میں ہیں مگر ایسی بیع جس میں ایک اپنے ساتھی سے کہے کہ تو اختیار کرلے پس وہ اختیار کرلے، ایسی صورت میں دونوں کا اختیار ختم ہوجائے گا اگرچہ وہ جدا نہ بھی ہوں، اگر خیار فرض کیا جائے تو معنی ہوگا : مگر بیع الخیار، پھر بیع الخیار، پھر خیارجسموں کے ساتھ جدا ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا، اس باب کی تتمیم اختلافی کتب میں موجود ہے اور عمرو بن شعیب کے قول میں سمعت ابی یقول حدیث کی حدیث کی صحت کے لیے دلیل ہے۔ دارقطنی نے کہا : ہمیں ابوبکرنیساپوری نے کہا انہوں نے کہا ہمیں محمد بن علی الوراق نے بیان کیا کہ میں نے امام احمد بن حنبل (رح) سے کہا شعیب نے اپنے باپ سے کوئی چیز سنی ہے انہوں نے کہا : وہ کہتے تھے : مجھے میرے باپ نے بتایا میں نے پوچھا اس کے باپ نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے سنا ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : ہاں میرا خیال ہے اس نے اس سے سنا ہے، دارقطنی نے کہا : میں نے ابوبکر نیساپوری کو یہ کہتے ہوئے سنا وہ عمروبن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص ہے عمرو بن شعیب کا اپنے باپ شعیب سے سماع صحیح ہے اور شعیب کا اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماع صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) دارقطنی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سچا امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا “۔ (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد
3
، صفحہ
7
) اور تاجر کے لیے اپنے سامان کی ترویج اور تزیین کے لیے قسم اٹھانا مکروہ ہے یا سامان پیش کرتے وقت نبی مکرم ﷺ پر درود پڑھنا مکروہ ہے مثلا وہ اس طرح کہے : صلی اللہ علی محمد ! یہ کتنا عمدہ سامان ہے، اور تاجر کے لیے مستحب ہے کہ فرائض کی ادائیگی سے تجارت اسے مشغول نہ رکھے جب نماز کا وقت آجائے تو اسے تجارت کو چھوڑ دینا مناسب ہے تاکہ وہ اس آیت کے مصداق لوگوں میں سے ہوجائے، (آیت) ” رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ “۔ (النور :
37
) ترجمہ : ایسے مرد جنہیں تجارت اور بیع ذکر الہی سے غافل نہیں کرتی) مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
9
) یہ آیت اور مذکورہ احادیث صوفیاء میں سے ان لوگوں کا رد کرتی ہیں جو تجارت اور صنعت کے ذریعے خوارک حاصل کرنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باطل ذرائع سے مال کھانے کو حرام کیا ہے اور تجارت کے ذریعے مال کو حلال کیا ہے اور یہ بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم اس میں ایک مسئلہ ہے حضرت حسن ؓ نے کثرت پر دلالت کی بنا پر ” تقتلوا “ پڑھا ہے اس پر اہل تاویل کا اجماع ہے کہ اس آیت سے مراد بعض کے بعض کو قتل کرنے سے نہی ہے، پھر لفظ اپنے آپ کے قتل کو بھی شامل ہے یعنی دنیا پر حرص اور طلب مال کے لالچ میں اس کو قتل نہ کرے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
42
) یعنی اپنے آپ کو ایسے دھوکوں میں ڈالے جو اسے تلف تک پہنچانے والے ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ تنگی اور غضب میں اپنے آپ کو قتل نہ کرو، ان تمام صورتوں کو نہی شامل ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ نے اس آیت سے حجت پکڑی تھی جب انہوں نے غزوہ ذات السلاسل میں اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے جنبی ہونے حالت میں ٹھنڈے پانی سے غسل نہیں کیا تھا نبی مکرم ﷺ نے ان کے احتجاج کو قائم رکھا تھا اور ان پر آپ ﷺ مسکرائے تھے اور مزید کچھ نہ کہا تھا، اس حدیث کو ابو داؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
Top