Al-Qurtubi - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہوجائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
آیت نمبر : 29۔ اس آیت میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” بالباطل “۔ یعنی بغیر حق کے، اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا اور سورة بقرہ میں اس کا معنی بیان کیا ہے اور باطل طریقہ سے مال کھانے کی ایک صورت بیع العریان بھی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص تجھ سے کوئی سامان لے یا تجھ سے جانور کرائے پر لے اور تجھے ایک درہم یا اس سے زیادہ رقم دے اس شرط پر کہ اگر وہ اس چیز کو خریدے گا یا سواری پر سوار ہوگا تو وہ سامان کی قیمت یا جانور کے کرایہ سے ہوگا اور اگر سامان نہیں خریدے گا یا سواری کرائے پر نہیں لے گا تو جو اس نے تجھے دیا ہے وہ تیرا ہوگا، یہ جائز نہیں ہے اور حجازی علماء اور عراقی علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ کیونکہ یہ جوائے اور دھوکے اور خطرے کے بیع سے ہے اور یہ بغیر عوض اور بغیر ہبۃ کے مال کھانا ہے اور یہ بالاجماع باطل ہے۔ بیع عریان فسخ ہوگی جب اس بیع واقع ہوگی خواہ وہ قبضہ سے پہلے ہو یا قبضہ کے بعد ہو، اگر سامان موجود ہوگا تو وہ واپس کیا جائے گا اور اگر سامان ضائع ہوچکا ہوگا تو قبضہ کے دن کی قیمت لوٹائی جائے گی، ابن سیرین، مجاہد، نافع بن عبدالحارث اور زید بن اسلم نے بیع العریان کو جائز قرار دیا ہے اور زید بن اسلم کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز قرار دیا، ابو عمرو ؓ نے کہا : یہ نبی مکرم ﷺ سے صحیح طریقہ سے ثابت نہیں ہے، یہ عبدالرزاق نے اسلمی عن زید بن اسلم کے سلسلہ سے مرسل روایت کی ہے اور اس جیسی روایت حجت نہیں ہوتی، اور یہ احتمال ہے کہ بیع العریان جو جائز ہے اور اس تاویل پر ہو جو امام مالک (رح) اور ان کے ساتھ فقہاء نے کی ہے وہ تاویل یہ ہے کہ پہلے تو وہ اسے رقم دے دے پھر اس پہلی رقم کو ثمن سے شمار کیا جائے جب بیع کی تکمیل کو اختیار کرے۔ امام مالک (رح) اور دوسرے علماء کے نزدیک اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، مؤطا امام مالک (رح) میں عن الثقۃ عندہ عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع العربان سے منع فرمایا (1) (موطا امام مالک (رح) کتاب البیوع، صفحہ 568) ابو عمر (رح) نے کہا : علماء نے اس مقام میں الثقۃ عندہ میں کلام کی ہے، بعض علماء نے کہا کہ انہوں نے ابن لہیعہ سے یہ حدیث لی یا ابن وہب عن ابن لہیعہ کے سلسلہ سے روایت کی۔ ابن لہیعہ علماء میں سے ہے مگر کہا جاتا ہے کہ اس کی کتابیں جل گئی تھیں پھر جب اس کے بعد وہ اپنے حافظہ سے بیان کرتا تھا تو غلطی کرتا تھا اور جو ابن لہیعہ سے ابن مبارک اور ابن وہب نے روایت کیا ہے وہ بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے اور بعض علماء نے ابن لہیعۃ کی تمام احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس وسیع علم تھا اور وہ کثرت سے احادیث رکھتا تھا مگر علماء کے نزدیک یہی حال تھا جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ تجارت جو باہمی رضا مندی سے ہو، تجارت سے مراد خرید وفروخت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثل ہے، (آیت) ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ (بقرہ : 275) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور تجارۃ کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی الا ان تقع تجارۃ۔ اس پر سیبویہ نے یہ شعر دلیل دیا ہے : فدی لبنی ذھل بن شیبان ناقتی، اذا کان یوم ذو کواکب اشھب : اس کان کو تامہ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ فاعل کے ساتھ مکمل ہوجاتا ہے اور اسے مفعول کی احتیاج نہیں ہوتی، تجارۃ نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اس صورت میں ناقصہ ہوگا، کیونکہ بغیر خبر کے اسم کے ساتھ مکمل نہیں ہوتا پس اسم اس میں مضمر ہوگا اور اگر چاہے تو اس کو مقدر کرلے یعنی ” الا ان تکون الاموال تجارۃ “۔ پس مضاف کو حذف کیا گیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھا گیا، یہ پہلے گزر چکا ہے اسی سے یہ ارشاد ہے (آیت) ” وان کان ذوعسرۃ “۔ (بقرہ : 280) مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تجارۃ “۔ لغت میں تجارت سے مراد معاوضہ ہے اسی سے وہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ بندے کو ان اعمال صالحہ کے عوض دیتا ہے جو اس کے فعل کا بعض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم “۔ (الصف) ترجمہ : اے ایمان والوں کیا میں آگاہ کروں تمہیں ایسی تجارت پر جو بچائے تمہیں درد ناک عذاب سے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یرجون تجارۃ لن تبور “۔ (فاطر) ترجمہ : وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہر گز نقصان والی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسکم واموالھم “۔ (توبہ : 111) ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ نے خرید لی ہیں ایمانداروں سے انکی جانیں اور ان کے مال۔ ان تمام صورتوں میں بیع وشراء کا ذکر مجازا ہے، بیع وشرا کو عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کے ساتھ اغراض حاصل ہوتی ہیں، تجارت کی دو قسمیں ہی بغیر نقل اور سفر کے حضر میں پھیرنا ہے۔ یہ تربص اور احتکار ہے، اور معزز لوگوں نے اس سے اعراض کیا ہے، متقین نے اس سے دلچسپی نہیں رکھی، دوسری صورت یہ ہے کہ سفر کے ساتھ مال گھمانا اور دوسرے شہروں کی طرف منتقل کرنا ہے، یہ اہل مرؤت کے لائق ہے اور اس میں منفعت عام ہے مگر اس میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور دھوکا بھی بڑا ہوتا ہے، نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : مسافر اور اس کا مال ہلاکت پر ہوتا ہے مگر جو اللہ تعالیٰ بجالے، یعنی خطرہ ہے نے کہا : یہ آیت متصوفین کے قول کے فساد پر بڑی دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) ہر معاوضہ تجارت ہے خواہ وہ عوض کسی اعتبار سے ہو، مگر (آیت) ” بالباطل “۔ کا ارشاد اس سے ہراس عوض کو خارج کردیتا ہے جو شرعا جائز نہیں مثلا سود، یا جہالت یا فاسد عوض کو مقدر کرنا جیسے شراب، خنزیر وغیرہ، اور اس سے ہر وہ عقد بھی خارج ہوجاتا ہے جو جائز تو ہوتا ہے لیکن اس میں عوض نہیں ہوتا جیسے قرض، صدقہ ہبۃ لیکن ثواب اس سے ملتا ہے اور تبرعات کی عقود دوسرے دلائل کے ساتھ جائز ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر آئیں گے یہ دونوں طرفیں متفق علیہما ہیں اور اس سے وہ دعوت بھی خارج ہوگئی جس کی طرف تمہارا بھائی تمہیں بلاتا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ ایک شخص اس آیت کے نزول کے بعد کسی کے پاس کھانا کھانے سے اجتناب کرتا تھا، تو اس آیت کو سورة نور کی آیت سے منسوخ کردیا : فرمایا : (آیت) ” لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم اوبیوت ابآئکم او بیوت امھتکم او بیوت اخوانکم او بیوت اخوتکم او بیوت اعمامکم او بیوت عمتکم او بیوت اخوالکم او بیوت خلتکم او ماملکتم مفاتحہ او صدیقکم لیس علیکم جناح ان تکلوا جمیعا او اشتاتا “۔ (النور : 61) ترجمہ : نہ اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ تم پر اس بات میں کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں میں الخ) ایک امیر آدمی اپنے کھانے کی طرف اہل میں سے کسی شخص کو بلاتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ میں اس سے کھانے میں حرج دیکھتا ہوں اور وہ کہتا : مجھ سے اس کا مسکین زیادہ حق دار ہے پس اس ارشاد میں میں اس چیز کا کھانا حلال فرمایا جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اور اہل کتاب کا کھانا حلال فرمایا (1) (سنن ابو داؤد، کتاب الاطعمہ، جلد 2، صفحہ 171) مسئلہ نمبر : (5) اگر تو بازار سے کوئی چیزخریدے پھر اس چیز کا مالک تجھے خریدنے سے پہلے کہے : تو اس کو چکھ لے تیرے لیے حلال ہے، پس تو اس سے نہ کھا، کیونکہ اس کا کھانے کی اجازت دینا خریدنے کی وجہ سے ہے، بعض اوقات تمہارے درمیان سودا واقع نہیں ہوتا پس اس کا کھانا مشتبہ ہوگا، لیکن اگر وہ تیرے لیے اس چیز کی صفت بیان کرے پھر تو اس سے خریدے اور تو اسے اس صفت پر نہ پائے تو تجھے اختیار ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) جمہور علماء تجارت میں غبن کے جواز کے قائل ہیں مثلا کوئی شخص ایک یاقوت ایک درہم میں بیچے حالانکہ وہ سو درہم کے مساوی ہو تو یہ تیرے لیے جائز ہے، کیونکہ مالک جس کی ملکیت صحیح ہے اس کے لیے اپنے بہت سے مال کو تھوڑے مال کے ساتھ بیچنا جائز ہے، اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے جب کہ اس کی قدر معروف ہو، جس طرح ہبۃ جائز ہے، اگر ہبہ کیا جائے، اور اس میں اختلاف ہے جب اس کی قدر معروف نہ ہو، ایک قوم نے کہا : اگر اس کی قدر معروف ہو یا نہ ہو یہ بیع جائز ہے جب کہ بیچنے والا دانا، آزاد اور بالغ ہو، اور ایک جماعت نے کہا : جب غبن تہائی سے تجاوز کر جائے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 41 دارالکتب العلمیہ) تو مردود ہے اس سے قریب قریب اور تجارت میں متعارف غبن مباح ہے لیکن بہت زیادہ غبن جائز نہیں ہے، یہ ابن وہب کا قول ہے جو امام مالک (رح) کے اصحاب میں سے ہیں پہلا قول صحیح ہے، کیونکہ زانیہ لونڈی کی حدیث میں ہے ” اس کو بیچ دو اگرچہ بالوں کی رسی کے بدل ہو (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود جلد 2، صفحہ 258) اور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے کہا تھا : ” اس کو نہ خرید اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں ہی بیچ دے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” لوگوں کو چھوڑو اللہ تعالیٰ بعض کو بعض سے رزق دیتا ہے۔ (4) (صحیح مسلم کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 4) اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” کوئی شہری دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے (5) (صحیح مسلم کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 4) ان ارشادات میں قلت و کثرت، تہائی وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” عن تراض منکم “۔ یعنی تم جو باہم رضا مندی سے کرو، یہاں تراض بمعنی رضا ہے لیکن باب مفاعلہ اس لیے ذکر کیا، کیونکہ تجارت دو شخص کے درمیان ہوتی ہے، علماء کا تراضی کے بارے میں اختلاف ہے، ایک جماعت نے کہا : بیع کا تمام اور جزم بیع کی عقد کے بعد ابدان کے جدا ہونے کے ساتھ ہے یا ایک دوسرے کو کہے : تو اختیار کرلے، دوسرا کہے : میں نے اختیار کرلیا، اس صورت میں عقد کے بعد سودا پختہ ہوجائے گا اگرچہ ابدان کے ساتھ جدا بھی نہ ہوں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 41 دارالکتب العلمیہ) یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا قول ہے۔ اور امام شافعی، ثوری، اوزاعی، لیث، ابن عیینہ، اسحاق وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے امام اوزاعی نے کہا : بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں مگر تین بیوع میں اختیار نہیں سلطان کا مال غنیمت کی بیع کرنا، میراث میں شرکت کیبیع کرنا اور تجارت میں شرکت کرنا جب ان تین بیوع کا سودا ہوگا تو بیع واجب ہوجائے گی اور دونوں کو اختیار نہیں ہوگا اور فرمایا : جدائی کی حد یہ ہے کہ بائع اور مشتری میں سے ہر ایک دوسرے سے چھپ جائے یہ اہل شام کا قول ہے، اور لیث نے کہا : جدائی یہ ہے کہ ایک کھڑا ہوجائے، امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے تھے : دونوں کو اختیار ہے جب تک جسموں کے ساتھ جدا جدا ہوجائیں خواہ انہوں نے کہا ہو کہ اختیار کرلو یہ نہ کہا ہو حتی کہ ابدان کے ساتھ اپنی اپنی جگہ سے جدا ہوجائیں، یہ بھی امام شافعی (رح) کا قول ہے اور اس باب میں یہی صحیح ہے، کیونکہ اس کے متعلق احادیث وارد ہیں۔ یہ حضرت ابن عمر ؓ حضرت ابو برزہ ؓ اور علماء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : بیع کا تمام یہ ہے کہ زبان سے بیع کرنا، اس سے بیع پختہ ہوجائے گی اور اختیار اٹھ جائے گا، امام محمد بن حسن نے کہا : البیعان بالخیار مالم یتفرقا “۔ (2) (صحیح بخاری کتاب البیوع جلد 1، صفحہ 279) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بائع جب کہے : میں نے تجھے (یہ چیز) بیچی تو اس کے لیے رجوع کا حق ہے جب تک کہ مشتری نے یہ نہ کہا ہو کہ میں نے قبول کیا، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ امام مالک (رح) نے اس پر نص قائم فرمائی، یہ ابن خویزمنداد نے حکایت کیا ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کو رجوع کا حق نہیں، یہ قول سورة بقرہ میں گزر چکا ہے پہلے قول کے قائلین نے حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو برزہ، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص، حضرت ابوہریرہ، حضرت حکیم بن حزم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرھم کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی مکرم ﷺ سے انہوں نے روایت کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : بیع کرنے والوں کو خیار ہے جب تک جدا نہ ہوجائیں یا ایک دوسرے کو کہے : اختیار کرلے (3) (سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 213) یہ دوسری روایت الابیع الخیار اور الا ان یکون بیعھما عن خیار کا معنی ہے یعنی بیع کے مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے کو کہے : بیع کا نفاذ یا بیع کا فسق اختیار کرلے اگر وہ بیع کا قائم رکھنا اختیار کرے تو بیع مکمل ہوجائے گی اگرچہ ایک دوسرے سے جدا بھی نہ ہوں حضرت ابن عمر ؓ جو حدیث کے روای ہیں وہ جب کسی سے بیع کرتے اور اس بیع کو نافذ کرنا پسند کرتے تو تھوڑا سا چل پڑتے اور پھر لوٹ آتے۔ ” الاصول “ میں ہے : جو حدیث روایت کرتا ہے وہ اس کی تاویل کو زیادہ جانتا ہے خصوصا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیونکہ وہ بات کو زیادہ جاننے والے تھے اور حالات سے زیادہ واقف تھے، ابوداؤد، دارقطنی نے ابو الوضی سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم ایک لشکر میں سفر پر تھے تو ایک شخص آیا جس کے ساتھ ایک گھوڑا تھا ہم میں سے ایک شخص نے اسے کہا : کیا تو یہ گھوڑا اس غلام عوض بیچے گا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ اس نے گھوڑا غلام کے عوض بیچ دیا، پھر اس نے ہمارے ساتھ رات گزاری جب صبح ہوئی تو وہ اپنے گھوڑے کی طرف گیا، تو خریدنے والے نے اسے کہا : اب تجھے گھوڑے سے کیا غرض ؟ کیا تو نے مجھے یہ فروخت نہیں کیا تھا ؟ اس نے کہا : مجھے اس بیع کی کوئی ضرورت نہیں، پھر خریدنے والے نے کہا : تجھے اس سے کیا غرض ؟ تو مجھے یہ بیچ چکا ہے، ان دونوں کو لوگوں نے کہا : یہاں رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابو برزہ ؓ موجود ہیں تم دونوں ان کے پاس جاؤ حضرت ابو برزہ ؓ نے ان دونوں سے کہا کیا تم رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں، بو برزہ ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دونوں بیع کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں، اور میں نہیں دیکھتا کہ تم جدا ہوئے تھے، یہ دونوں صحابی ہیں اور حدیث کے مخرج کو انہوں نے جان لیا اور اس کے مقتضا پر عمل کیا بلکہ یہ صحابہ کا عمل تھا سالم نے کہا : حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : ہم جب بیع کرتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک کو خیار ہوتا تھا جب تک کہ بیع کرنے والے دونوں جدا نہ ہوجاتے تھے، حضرت عبداللہ نے فرمایا : میں نے اور حضرت عثمان نے بیع کی میں نے انہیں وادی کی زمین دی اور ان کی خیبر کی زمین لی، حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : جب میں نے سودا کردیا تو میں الٹے پاؤں چلنے لگا اس خوف سے کہ کہیں حضرت عثمان میرے جدا ہونے سے پہلے مجھے سودا لوٹا نہ دیں یہ روایت دارقطنی نے نقل کی ہے پھر فرمایا : اہل لغت نے فرقت اور فرقت میں فرق کیا ہے ؟ فرقت کو کلام کے اعتبار سے اور فرقت ابدان کے اعتبار سے جدائی کو لیا ہے، احمد بن یحی ثعلب نے کہا : مجھے ابن اعرابی نے مفضل سے روایت کر کے بتایا کہ فرقت دو کلاموں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے اور فرقت دو شخصوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے یعنی میں نے دو کلموں کے درمیان فرق کیا تو دونوں جدا ہوگئیں، اور فرقت کا مطلب ہے : دو آدمیوں کے درمیان جدائی کی تو دونوں جدا ہوگئے۔ افتراق کلام کے لیے استعمال کیا اور التفرق ابدان کے لیے استعمال کیا، مالکی علماء نے آیۃ الذین سے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” اوفوا ابالعقود “۔ (المائدہ : 1) سے حجت پکڑی ہے، یہ دونوں شخص عقد کرچکے ہیں اور اس حدیث میں الوفاء بالعقود کا ابطال ہے انہوں نے فرمایا : کبھی التفرق قول کی تفریق میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عقد نکاح اور اس طلاق کا وقوع جس کو اللہ تعالیٰ نے فراق کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ “۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تکونوا کالذین تفرقوا “۔ (آل عمران : 105) اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : تفترق امتی (میری امت جدا ہوجائے گی) آپ ﷺ نے بابدانھا نہیں فرمایا۔ دار قطنی وغیرہ نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے شعیب کو یہ کہتے ہوئے سنا، وہ فرماتے ہیں، میں نے نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا : جو شخص کسی دوسرے سے کوئی چیز خریدے تو ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہوگا حتی کہ اپنی جگہ سے جدا ہوجائیں مگر یہ کہ خیار کا سودا ہو پس ان میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے ساتھی سے جدا ہوجائے اس خوف سے کہ اس کا ساتھی سودا واپس نہ کر دے (1) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 50) ان علماء نے فرمایا : یہ چیز دلیل ہے کہ افتراق سے پہلے ان کے درمیان بیع مکمل ہوچکی ہے، کیونکہ سودا واپس کرنا صحیح نہیں ہوتا مگر اسی صورت میں جب بیع مکمل ہوچکی ہو، فرماتے ہیں : المتبایعان بالخیار (2) (سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 213) کا معنی ہے کہ دونوں خیار میں برابر ہیں جب تک کہ انہوں نے عقد نہیں کیا جب دونوں نے عقد کرلیا تو اس میں خیار باطل ہوگیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو انہوں نے افتراق بالکلام سے اس کی علت بیان کیا ہے اس سے مراد ابدان ہیں جس طرح ہم نے سورة آل عمران میں بیان کیا ہے اگرچہ بعض جگہ میں افتراق بالکلام صحیح ہوتا ہے لیکن اس جگہ صحیح نہیں ہے، اس کا بیان یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ وہ ہمیں اس کلام کے متعلق خبر دیں جس کے ساتھ اجتماع واقع ہو اور اس کے ساتھ بیع مکمل ہوگئی کیا یہ وہ کلام ہے جس سے افتراق یا اس کے علاوہ کا ارادہ کیا گیا ہے ؟ اگر وہ کہیں کہ اس کے علاوہ ہے تو پھرگئے اور ایسی بات لائے جو غیر معقول ہے، کیونکہ وہاں اس کلام کے علاوہ کوئی کلام تھی ہی نہیں۔ اگر وہ کہیں کہ یہ بعینہ وہ کلام ہے تو انہیں کہا جائے گا : یہ کیسے جائز ہے کہ وہ کلام جس کے ساتھ وہ جمع ہوئے اور جس کے ساتھ ان کی بیع مکمل ہو، اسی کلام کے ساتھ جدا ہوئے ؟ یہ عین محال ہے اور فاسد قول ہے، رہا آپ ﷺ کا قول کہ کسی کے لیے اپنے ساتھی سے جدا ہونا حلال نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ سودا واپس نہ کر دے۔ (1) (جامع ترمذی کتاب البیوع جلد 1، صفحہ 150) اس کا معنی استحباب پر محمول ہے، اگر یہ قول صحیح ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کا ارشاد ہے : من اقال مسلما اقالہ اللہ عثرتہ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع جلد 2، صفحہ 134) (جو کسی مسلمان کو سودا واپس کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی لغزش معاف کر دے گا) اور مسلمانوں کے اجماع سے حجت پکڑی ہے کہ ظاہر حدیث کے خلاف پر ایسا کرنے والے کے لیے یہ حلال ہے اور مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ساتھی سے جدا ہوجائے تاکہ اس کی بیع کو نافذ کر دے اور وہ واپس نہ کرسکے مگر یہ کہ جب وہ چاہے اور اس وجہ سے انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے جس نے لا یحل روایت کیا ہے اس کی روایت رد ہے اگر اس خبر کی وجہ سے استحباب نہ ہو ورنہ بالاجماع یہ باطل ہے اور رہی یہ تاویل کہ المتبایعان سے مراد المتساویان ہے یہ لفظ کے ظاہر سے عدول ہے، اس کا معنی ہے ان دونوں کے عقد کے بعد انہیں اختیار ہے جب تک کہ وہ دونوں اپنی مجلس میں ہیں مگر ایسی بیع جس میں ایک اپنے ساتھی سے کہے کہ تو اختیار کرلے پس وہ اختیار کرلے، ایسی صورت میں دونوں کا اختیار ختم ہوجائے گا اگرچہ وہ جدا نہ بھی ہوں، اگر خیار فرض کیا جائے تو معنی ہوگا : مگر بیع الخیار، پھر بیع الخیار، پھر خیارجسموں کے ساتھ جدا ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا، اس باب کی تتمیم اختلافی کتب میں موجود ہے اور عمرو بن شعیب کے قول میں سمعت ابی یقول حدیث کی حدیث کی صحت کے لیے دلیل ہے۔ دارقطنی نے کہا : ہمیں ابوبکرنیساپوری نے کہا انہوں نے کہا ہمیں محمد بن علی الوراق نے بیان کیا کہ میں نے امام احمد بن حنبل (رح) سے کہا شعیب نے اپنے باپ سے کوئی چیز سنی ہے انہوں نے کہا : وہ کہتے تھے : مجھے میرے باپ نے بتایا میں نے پوچھا اس کے باپ نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے سنا ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : ہاں میرا خیال ہے اس نے اس سے سنا ہے، دارقطنی نے کہا : میں نے ابوبکر نیساپوری کو یہ کہتے ہوئے سنا وہ عمروبن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص ہے عمرو بن شعیب کا اپنے باپ شعیب سے سماع صحیح ہے اور شعیب کا اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماع صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) دارقطنی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سچا امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا “۔ (1) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 7) اور تاجر کے لیے اپنے سامان کی ترویج اور تزیین کے لیے قسم اٹھانا مکروہ ہے یا سامان پیش کرتے وقت نبی مکرم ﷺ پر درود پڑھنا مکروہ ہے مثلا وہ اس طرح کہے : صلی اللہ علی محمد ! یہ کتنا عمدہ سامان ہے، اور تاجر کے لیے مستحب ہے کہ فرائض کی ادائیگی سے تجارت اسے مشغول نہ رکھے جب نماز کا وقت آجائے تو اسے تجارت کو چھوڑ دینا مناسب ہے تاکہ وہ اس آیت کے مصداق لوگوں میں سے ہوجائے، (آیت) ” رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ “۔ (النور : 37) ترجمہ : ایسے مرد جنہیں تجارت اور بیع ذکر الہی سے غافل نہیں کرتی) مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (9) یہ آیت اور مذکورہ احادیث صوفیاء میں سے ان لوگوں کا رد کرتی ہیں جو تجارت اور صنعت کے ذریعے خوارک حاصل کرنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باطل ذرائع سے مال کھانے کو حرام کیا ہے اور تجارت کے ذریعے مال کو حلال کیا ہے اور یہ بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم اس میں ایک مسئلہ ہے حضرت حسن ؓ نے کثرت پر دلالت کی بنا پر ” تقتلوا “ پڑھا ہے اس پر اہل تاویل کا اجماع ہے کہ اس آیت سے مراد بعض کے بعض کو قتل کرنے سے نہی ہے، پھر لفظ اپنے آپ کے قتل کو بھی شامل ہے یعنی دنیا پر حرص اور طلب مال کے لالچ میں اس کو قتل نہ کرے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 42) یعنی اپنے آپ کو ایسے دھوکوں میں ڈالے جو اسے تلف تک پہنچانے والے ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ تنگی اور غضب میں اپنے آپ کو قتل نہ کرو، ان تمام صورتوں کو نہی شامل ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ نے اس آیت سے حجت پکڑی تھی جب انہوں نے غزوہ ذات السلاسل میں اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے جنبی ہونے حالت میں ٹھنڈے پانی سے غسل نہیں کیا تھا نبی مکرم ﷺ نے ان کے احتجاج کو قائم رکھا تھا اور ان پر آپ ﷺ مسکرائے تھے اور مزید کچھ نہ کہا تھا، اس حدیث کو ابو داؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
Top