Al-Qurtubi - An-Nisaa : 30
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ عُدْوَانًا : سرکشی (زرد) وَّظُلْمًا : اور ظلم سے فَسَوْفَ : پس عنقریب نُصْلِيْهِ : اس کو ڈالیں گے نَارًا : آگ وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے اور یہ خدا کو آسان ہے
آیت نمبر : 30 ذلک کا ارشارہ قتل کی طرف ہے، کیونکہ وہ قریب مذکور ہے، یہ عطا کا قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا اشارہ باطل کے ذریعے سے مال کھانے اور قتل نفس کی طرف ہے، کیونکہ ان دونوں کے متعلق نہی متواتر آئی ہے پھر نہی کے مطابق وعید وارد ہوئی ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس سورت کے آغاز سے جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان تمام کی طرف یہ اشارہ ہے، طبری نے کہا : (آیت) ” ذلک کا اشارہ ان چیزوں کو شامل ہے جو آخری وعید کے بعد منع کی گئی ہیں اور وہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النسآء کرھا “۔ کیونکہ سورت کے آغاز میں جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان کے ساتھ وعید متصل ہے مگر (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النسآء کرھا “۔ کے قول کے بعد وعید نہیں ہے مگر یہ آیت کریمہ : (آیت) ’ ومن یفعل ذلک عدوانا “۔ العدوان، حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 43۔ 42 دارالکتب العلمیہ) اور الظلم کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ پر نہ رکھنے کو کہتے ہیں، اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، وعید کو عدوان اور ظلم کے ذکر کے ساتھ مقید فرمایا تاکہ اس سے سہو اور غلطی کا فعل نکل جائے، عدوان اور ظلم دونوں کا ذکر فرمایا، حالانکہ ان کے معانی قریب قریب ہیں، ان کی وجہ ان کے الفاظ کا اختلاف ہے اور کلام میں یہ حسن ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : والقی قولھا کذبا ومینا : اس جملہ میں کذبا اور مینا کا ذکر کیا، حالانکہ دونوں کا معنی جھوٹ ہے۔ اور الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے عطف عمدہ ہوتا ہے، کہا جاتا ہے : ” بعدا وسحقا “۔ اس سے یعقوب (علیہ السلام) کا قول ہے (آیت) ” انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ “۔ (یوسف : 86) لفظ کے اختلاف کی وجہ سے یہ عمدہ ہے۔ (آیت) ” نصلیہ “۔ اس کا معنی ہے ہم اسے آگ کی گرمی مس کریں گے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 43 دارالکتب العلمیہ) ہم ان آیات اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کی حدیث کو جمع کرنے کا مفہوم نافرمانوں اور گناہ کبیرہ کرنے والوں میں بیان کیا ہے جن کے لیے وعید نافذ ہوگی پس اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اعمش اور نخعی نے نصلیہ کو نون کے فتح کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ صلی نارا سے منقول ہے یعنی میں نے اس کو گرم کیا۔ اور حدیث میں ہے : شاۃ مصلیۃ، بھونی ہوئی بکری، اور جنہوں نے نون کو ضمہ دیا ان کے نزدیک ہمزہ سے منقول ہے۔ مثلا طعمت اور اطعمت۔
Top