Al-Qurtubi - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو (اگلے لوگوں کے طریقے بتائے) اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر : 26۔ یعنی تمہارے لیے تمہارے دین کے معاملات اور معاملات کے مصالح بیان کر دے اور جو تمہارے لیے حلال ہے اور جو تمہارے لیے حرام ہے اسے بیان کر دے، یہ کسی بھی واقعہ کے حکمت سے خالی نہ ہونے پر دلیل ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ما فرطنا فی الکتب من شیء “۔ (الانعام : 38) اس کی مزید وضاحت آگے آئے گی، اس کے بعد فرمایا (آیت) ” یرید اللہ ان یخفف عنکم “۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہلکا کرے تم سے (پابندیوں کا بوجھ) یہ انکے ساتھ آیا ہے اور پہلا ارشاد لام کے ساتھ تھا۔ فراء نے کہا : عرب لام، کی اور ان کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں، ان کی جگہ کی کے معنی پر لام کو امرت اور اردت میں ذکر کیا جاتا ہے “ عرب کہتے ہیں اردت ان تفعل، اردت لتفعل “۔ کیونکہ دنوں مستقبل کو طلب کرتے ہیں اور ظننت لتفعل جائز نہیں ہے کیونکہ تو کہتا ہے : ظننت ان قد قمت، اور قرآن حکیم میں ہے (آیت) ” وامرت لاعدل بینکم “۔ (الشوری : 15) اومرنا لنسلم لرب العلمین “۔ (الانعام) (آیت) ” یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم “۔ (الصف : 8) (آیت) ” یریدون ان یطفئوا نور اللہ “۔ (التوبہ : 32) شاعر نے کہا : ارید لانسی ذکرھا فکانما تمثل لی لیلی بکل سبیل (1) (المحریر الوجیز، جلد 2، صفحہ 40) اس شعر میں یرد ان انسی مراد ہے نحاس نے کہا : زجاج نے اس قول میں غلطی کی ہے اور کہا : اگر لام بمعنی ان ہوتا تو اس پر دوسرا لام داخل ہوتا ہے جیسے تو کہتا ہے : جئت کی تکرمنی۔ پھر تو کہتا ہے : جئت لکی تکرمنی اور ہم نے یہ شعر بطور دلیل پڑھا : اردت لکیما یعلم الناس انھا سراویل قییس والوفود شھود : اس کی تقدیر یہ ہے اردتہ لیبین لکم، نحاس نے کہا : اس پر امر اتنا بڑھا کہ بعض قراء نے کہا : لام ان بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ اس سے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لیے بیان فرمائے۔ (آیت) ” ویھدیکم سنن الذین من قبلکم “۔ یعنی اہل حق میں سے۔ بعض علماء نے فرمایا : یھدیکم “۔ کا معنی ہے وہ تمہارے لیے تم سے پہلے اہل حق اور اہل باطل لوگوں کے طرق کو بیان کرتا ہے۔ بعض اہل نظر نے کہا : اس میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس آیت سے پہلے جو حرام کیا وہ ہم سے پہلے لوگوں پر بھی حرام تھا، نحاس نے کہا : یہ غلط ہے، کیونکہ معنی ہوگا وہ تمہارے لیے تم سے پہلے لوگوں کا امر بیان کرتا ہے۔ اور کبھی معنی ہوگا وہ تمہارے لیے بیان فرماتا ہے جس طرح کہ اس نے تم سے پہلے انبیاء کے لیے بیان فرمایا، پس بعینہ اور اس کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ اور کہا جاتا ہے کہ (آیت) ” یرید اللہ “ کا قول قصہ کی ابتدا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تمہارے لیے اپنی طاعت کی کیفیت بیان کرے (آیت) ” یھدیکم “۔ یعنی تمہارے پہلے لوگوں کے طرق بیان کرے انہوں نے جب میرے احکام کو ترک کیا تو میں نے انہیں کیسے سزا دی اور تم جب ایسا کروں گے تو میں تمہیں سزا نہیں دوں گا بلکہ میں تم پر نظر رحمت کروں گا (آیت) ” واللہ علیم “۔ اللہ اسے جانتا ہے جو توبہ کرتا ہے اور (آیت) ” حکیم “۔ توبہ کی قبولیت میں اس کی حکمت کار فرما ہے۔
Top