Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو (اگلے لوگوں کے طریقے بتائے) اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کہنا سراسر غلط ہے اور کئی وجوہ سے اس کا انتقاض لازم آتا ہے۔ ایک تو یہ کہ معترض نے اپنے اس قول میں اس علت اور وجہ کی نشاندہی نہیں کی جو ایک حکم کے تحت ان دونوں صورتوں کی یکجائی کی مو جب بن رہی ہے نہ ہی اس دلالت کا ذکر کیا جو اس علت کی صحت کو ثبت کرتی ہے جو دعویٰ ان باتوں سے خالی ہوگا وہ ساقط تصور کیا جائے گا اور قابل قبول نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر معترض کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ اگر کسی شخص کے پاس آزاد عورت کے مہر کی مقدار رقم ہو تو اس رقم کا وجود اس عورت کی ماں یا بیٹی سے نکاح کی ممانعت میں وہی کردار ادا کرے گا جو اس عورت سے نکاح کا وجود ادا کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا جس سے معترض کے اس قول کا بطلان واضح ہوجاتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مملوک نکاح کی کی نظیر نہیں ہوتاکیون کہ ظہار کی صورت میں مملوک آزاد کرنا فرض ہوتا ہے اور ظہار کرنے ولامملوک کی موجودگی میں کفارہ ادا کرنے کے لیے کسی اور طرف رخ نہیں کرسکتا۔ جبکہ نکاح کے امکان کے باوجود مرد کے لیے نکاح نہ کرنا جائز ہوتا ہے اس بنا پر مملوک کی قیمت خرید کی موجودگی، ملکیت میں مملوک کی موجودگی کی طرح ہوتی ہے کیونکہ اسے آزاد کرنا فرض ہوتا ہے اور ظہار کرنے والے کو حتی الامکان اسے آزاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس نکاح فرض نہیں ہے کہ مہر کی موجودگی میں اس تک رسائی اس پر لازم آتی ہو۔ اس لیے کسی کی ملکیت میں مہر کی موجودگی لونڈی کے ساتھ نکاح کی ممانعت میں کسی طرح مؤثر نہیں ہوتی اور اس کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں یکساں ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ عقد میں آزاد عورت کے ہوتے ہوئے مرد کسی لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا تو اس کی وجہ وہ روایت ہے جو حسن اور مجاہد نے حضور اکرم ﷺ سے نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (لاتنکح الامۃ علی الحرۃ، آزاد عورت پر لونڈی بذریعہ نکاح نہیں لائی جاسکتی۔ اگر یہ روایت موجود نہ ہوتی تو عقد میں آزاد عورت کے ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح کی ممانعت نہ ہوتی کیونکہ قرآن مجید میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے جو اس ممانعت کا موجب بنتا ہو۔ دوسری طرف قیاس بھی اس کی اباحت کا موجب ہے لیکن ہمارے اصحاب نے اس معاملے میں قیاس کو ترک کر کے روایت کی پیروی کی ہے۔ واللہ اعلم کتابی لونڈی سے نکاح کا بیان ابوبکر جصاص (رح) کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حس، مجاہد، سعید بن عبدالعزیز اور ابوبکر بن عبداللہ بن ابی مریم رحمہم اللہ سے اس کی کراہت نقل کی گئی ہے۔ سفیان ثوری (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ ابومیسرہ اور دوسرے حضرات کا قول ہے اس کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفر رحمہم اللہ کا قول بھی یہی ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے یہ منقول ہے کہ اگر ایسی لونڈی کا مالک کافر ہو تو نکاح مکروہ ہے تاہم اگر نکاح ہوجائے تو وہ جائز ہوگا۔ شاید امام ابویوسف (رح) کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ اس لونڈی کے آقا کا غلام ہوگا حالانکہ وہ اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بنا پر مسلمان متصور ہوگا۔ اس لیے ایسا نکاح مکروہ ہے جس طرح مسلمان غلام کو کافر کے ہاتھوں فروخت کرنا مکروہ ہے، امام مالک ، اوزاعی، امام شافعی اور لیث بن سعد رحمہم اللہ کا قول ہے کہ یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ اس نکاح کے جواز کی دلیل ان آیات کا عموم ہے جن کا ذکر اس سے پہلے باب میں گذر چکا ہے اور جو آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت کی موجودگی میں لونڈی کے ساتھ نکاح کے جواز کی موجب ہیں۔ کتابی لونڈی کے ساتھ نکاح کے جواز پر ان کی دلالت مسلمان لونڈی کے ساتھ نکاح کی اباحت پر دلالت کی طرح ہے۔ ان میں سے جو آیت خصوصی طور پر اس مسئلے پر دلالت کرتی ہے وہ یہ قول باری ہے (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم، اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جو ان قوموں میں سے ہوں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی) جریر نے لیث سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد عفیف اور پاک دامن عورتیں ہیں۔ ہیشم نے مطرف سے اور انہوں نے شعبی (رح) سے روایت کی ہے کہ ان عورتوں کا احصان یہ ہے کہ غسل جنابت کرتی ہوں اور زنا سے اپنی شرمگاہ کو بچاتی ہوں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ احصان کا اسم کتابیہ کو بھی شامل ہے قول باری ہے (والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم) اس میں اللہ تعالیٰ نے ملک یمین کو محصنات سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ احصان کے اسم کا ان پر بھی اطلاق ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کا استثنا نہ کرتا، نیز قول باری ہے (فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ) اس مقام پر احصان کے اسم کا اطلاق لونڈیوں پر ہوا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ محصنات کا اسم آزاد اور لونڈی دونوں قسم کی کتابی عورتوں پر ہوتا ہے اور تعالیٰ نے اپنے قول (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) میں کتابی عورتوں سے نکاح مطلق رکھا ہے تو یہ حکم آزاد اور لونڈی دونوں قسم کی کتابی عورتوں کے لیے عام ہوگا۔ اگر کتابی عورتوں سے نکاح کے عدم جواز کے قائلین قول باری (ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن، اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک یہ ایمان نہ لے آئیں) اور ایسی عورت مشرکہ ہوتی ہے۔ نیز دوسری آیت میں فرمایا (ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المؤمنات فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنا) اس آیت کی رو سے لونڈیوں کے ساتھ نکاح کو مسلمان لونڈیوں تک محدود کردیا گیا ہے کتابی لونڈیاں اس میں داخل نہیں ہیں تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ کتابی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی ممانعت کا حکم بحالہ باقی رہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مشرکات کیا سم کا اطلاق کتابی عورتوں کو شامل نہیں ہے اس کا اطلاق صرف بت پرستوں پر ہوتا ہے دوسروں پر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (لم یکن الذین کفروا من اہل الکتاب والمشرکین منفکین، اہل کتاب میں سے کافر نیز مشرکین باز آنے والے نہیں تھے) میں اہل کتاب اور مشرکین کے درمیان فرق کردیا ہے۔ آیت میں مشرکین کو اہل کتاب پر عطف کیا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین کے اسم کا اطلاق صرف بت پرستوں پر ہوتا ہے دوسروں پر نہیں ہوتا اس لیے اس کا عموم کتابی عورتوں کو شامل نہیں ہے۔ اس لیے کتابی لونڈیوں سے نکاح کی ممانعت کے لیے اسے آڑ بنانا درست نہیں ہے۔ نیز فقہاء امصار کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) کو قول باری (ولا تنکحوا المشرکات) پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے، وہ اس طرح کہ ان فقہاء کے درمیان آزاد کتابی عورتوں سے نکاح کے جواز کے متعلق کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ اس لیے قول باری (ولاتنکحوا المشرکات) یا تو اطلاق کے لحاظ سے کتابی اور بت پرست دونوں قسم کی عورتوں کو عام ہوگا یا اس کا اطلاق صرف بت پرست عورتوں تک محدود ہوگا کتابی عوتیں اس میں شامل نہیں ہوں گی۔ اگر یہ اطلاق صرف بت پرست عورتوں تک محدود ہوگا تو اس کی وجہ سے ہم پر کیا گیا اعتراض ساقط ہوجائے گا کیونکہ اس صورت میں یہ کتابی عورتوں سے نکاح کی نفی نہیں کرے گا۔ اگر یہ اطلاق دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہوگا جبکہ ہم اسے اس کے ظاہر پر محمول کریں تو پھر اس صورت میں سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ اطلاق قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) پر مرتب ہے کیونکہ آزاد عورتوں کے سلسلے میں مذکورہ بالا آیت کے ساتھ ساتھ اس آیت پر عمل کے متعلق سب کا اتفاق ہے۔ جی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ یا تو یہ دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں یا کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت مشرکت عورتوں سے نکاح کی ممانعت سے متأخر ہے یا اس کے برعکس ہے یعنی مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت سے متاخر ہے اگر ان دونوں آیتوں کا ایک ساتھ نزول تسلیم کرلیا جائے تو کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت کے ساتھ مشرکت عورتوں سے نکاح کی ممانعت کی ترتیب کی جہت سے دونوں آیتوں پر عمل ہوگا۔ یا یہ کہ کتابی عورتوں سے نکاح کا حکم اس کے بعد نازل ہوا تھا اس صورت میں بھی اس پر عمل ہوسکے گا یا یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت سے متاخر تسلیم کرلی جائے اگر ایسا ہوجائے تو ممانعت کا نزول کا بی عورتوں سے نکاح کی اباحت پر مرتب مانا جائے گا۔ اس لیے تمام صورتوں میں اباحت پر عمل ہوگا خواہ صورت حال جو بھی ہو۔ علاوہ ازیں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) کا نزول مشرک عورتوں سے نکاح کی تحریم کے بعد ہوا۔ کیونکہ تحریم کی آیت سورة بقرہ میں ہے اور کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت سورة مائدہ میں ہے جو سورة بقرہ کے بعد نازل ہوئی۔ اگر مشرکات کا اسم کتابی عورتوں کو شامل تسلیم کرلیا جائے تو اس صورت میں سورة مائدہ کی آیت کو تحریم مشرکات کے حکم کے متعلق فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ پھر کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت کرنے والی آیت نے آزاد کتابی عورتوں سے کتابی لونڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اور اس کے عموم کے مقتضی میں دونوں اصناف داہل ہیں تو اب ان دونوں پر عمل واجب ہے اور تحریم نکاح مشرکات کے حکم کو کتابی لونڈیوں سے نکاح کے جواز کے سدّراہ بنایا جائے جس طرح اسے آزاد کتابی عورتوں سے نکاح کے جواز کے سدّ راہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (من فتیاتکم المؤمنات) میں مومنہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کے جواز کی تخصیص کردی ہے تو اس کی تاویل ہم گذشتہ مسئلہ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ الفاظ میں تخصیص اس پر دلالت نہیں کرتی کہ حکم کے ساتھ مخصوص صورتوں کے سوا باقی ماندہ صورتوں کا حکم اس حکم کے خلاف ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) سے اباحت نکاح کے سلسلے میں استدلال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ احصان کا اسم ایک مشترک لفظ ہے جس کا اطلاق مختلف معانی پر ہوتا ہے۔ یہ لفظ عموم کا مفہوم ادا نہیں کرتا کہ پھر اسے اپنے مقتضیٰ کے مطابق جاری کیا جائے بلکہ یہ مجمل لفظ ہے جس کا حکم شرع کی طرف سے بیان پر موقوف ہے۔ اس لیے جن صورتوں کے لیے شریعت کی طرف سے رہنمائی ہوگئی یا ان پر اتفاق امت ہوگیا ہم ان کا رخ کریں گے اور آیت کے حکم کو ان ہی عورتوں پر جاری کریں گے اور چونکہ آیت سے کتابی لونڈیاں مراد لینے پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی تو ہم اس کے جواز کے اثبات کے لیے کسی اور دلیل کی طرف رجوع کریں گے۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلف کی ایک جماعت سے قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) کے متعلق منقول ہے کہ آیت میں محصنات سے مراد عفیف اور پاک دامن عورتیں ہیں کیونکہ احصان کے اسم کا اطلاق عفت اور پاک دامنی کے معنوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے تمام عفیف عورتوں میں لفظ کے عموم کا اعتبار واجب ہوگیا کیونکہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس احصان سے عفت مراد ہے۔ احصان کے دوسرے معانی کے متعلق کوئی دلیل قائم نہیں ہوئی کہ یہاں ان میں سے کوئی اور معنی بھی مراد ہے۔ دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس احصان کی یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں تمام شرائط بتمام و کمال پائی جائیں۔ اس لیے احصان کی جس شرط پر اسم کا اطلاق ہوگا اور سب کا اس پر اتفاق پائے جائے گا کہ یہ شرط یہاں مراد ہے ہم اس کا اثبات کردیں گے اور اباحت کے لیے اس کے علاوہ کسی اور شرط کا اثبات کرنے والے کو یہ ضرورت پیش آئے گی کہ وہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے کوئی دلیل پیش کرے۔ اگر یہ کہا جائے کہ احصان کے اسم کا حریت اور آزادی پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) سے آزاد عورتیں مراد لینے میں آپ کے لیے کیا رکاوٹ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا جب یہ بات معلوم ہے کہ اس مقام پر احصان کا ذکر کر کے اس کی ساری شرطوں کو یکجا کردینا مراد نہیں ہے تو پھر کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس مقام پر وہ احصان کے اسم کے اطلاق کو کسی خاص معنی تک محدود کر کے دوسرے معانی نظر انداز کر دے۔ بلکہ درست طریقہ یہ ہے کہ جب اسم کا کسی پہلو سے اس معنی پر اطلاق ہوتا ہو تو اس صورت میں اس معنی کی حد تک اس کے عموم کا اعتبار کرنا واجب ہوگا جب لونڈی کو احصان کا اسم اس وقت شامل ہوتا ہے جب اس کا اطلاق بعض معانی مثلا عفت وغیرہ پر ہوتا ہے تو پھر اس میں لفظ کے عموم کا اعتبار کرنا جائز ہے۔ اگر معترض کے لیے یہ جائز ہوجائے کہ وہ احصان کے اسم کو حریت کے معنی تک محدود کردے اور دوسرے معنی کو نظر انداز کر دے تو کسی اور کے لیے یہ بھی جائز ہوسکتا ہے کہ وہ احصان کے اسم کو عفت کے معنی تک محدود رکھے جبکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ جب لفظ کے عموم پر عمل کرنا ممکن ہو تو ہم اس کے حکم کو مجمل رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی پر احصان کے اسم کا اطلاق کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب، پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصنات کے لیے مقرر ہے) بعض کے نزدیک اس سے مراد ہے ” جب وہ اسلام لے آئیں “ اور بعض کے نزدیک جب وہ نکاح کرلیں۔ اس طرح ان لونڈیوں پر حد کے ایجاب میں اس عموم کا اعتبار پوری طرح مناسب رہا۔ ایک اور آیت میں فرمایا (والمحصنات من المؤمنات) اس میں احصان کی تمام شرطوں کا حصول مراد نہیں بلکہ صرف عفت مراد ہے اور محصنات کے معنی ہیں عفیف اور پاک دامن عورتیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شوہروں والی عورتوں سے نکاح کی تحریم اپنے اس قول میں فرمادی (والمحصنات من النساء الا ما مالکت ایمانکم) اس طرح اس آیت میں شوہروں والی عورتوں سے نکاح کی تحریم میں عموم ہے۔ البتہ وہ عورتیں اس حکم سے خارج ہیں جنہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) کی کیفیت ہے۔ اس میں احصان کا ذکر ان عورتوں کے متعلق عموم اعتبار سے مانع نہیں ہے جن پر عفت کی جہت سے اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسا کہ سلف سے اسے بارے میں اقوال منقول ہیں۔ عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ فقہاء کی درمیان کتابی لونڈی سے ملک یمین کی بنا پر ہمبستری کی اباحت میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ اس لیے جس عورت سیملک یمین کی بنا پر ہمبستری جائز ہے اس کے ساتھ ملک نکاح کی بنا پر ہمبستری کا جواز بھی اسی صورت میں ہونا چاہیے جس صورت میں تنہاء آزاد عورت سے نکاح جائز ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک مسلمان عورت سے ملک یمین کی بنا پر جب ہمبستری جائز ہوتی ہے تو نکاح کی بنا پر بھی اس کے ساتھ ہمبستری کا جواز ہوتا ہے اور جب رضاعی بہن، ساس ، بہو اور سوتیلی ماؤں سے ملک یمین کی بنا پر ہمبستری حرام ہوتی ہے تو نکاح کی بنا پر بھی ان کے ساتھ ہمبستری کا جواز نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کتابی لونڈی کے ساتھ ملک یمین کی بنا پر ہمبستری کے جواز پر سب کا اتفاق ہے تو نکاح کی بناپر اس سے ہمبستری کا صورت میں جواز واجب ہے جس صورت میں تنہاء آزاد عورت سے ہمبستری جائز ہوتی ہے۔ اگر یہ نکتہ اٹھایا جائے کہ بعض دفعہ ملک یمین کی بنا پر کتابی لونڈی سے ہمبستری جائز ہوتی ہے لیکن نکاح کی بنا پر جائز نہیں ہوتی مثلا جس صورت میں مرد کے عقد میں عورت پہلے سے موجود ہو۔ تو اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ہم نے اپنے مذکورہ بیان کو تمام صورتوں میں کتابی لونڈی سے نکاح کے جواز کی علت قرار نہیں دیا بلکہ ہم نے اسے اس صورت میں نکاح کے جواز کی علت بنایا ہے جب لونڈی تنہاء ہو اور اسے عقد کے تحت کسی اور عورت کے ساتھ اکٹھا نہ کیا گیا ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمان لونڈی کے ساتھ نکاح کا جواز نہ ہوتا جب مرد کے عقد میں اس عورت کی بہن موجود ہوتی خواہ وہ لونڈی کیوں نہ ہوتی۔ اس لیے ہماری بیان کردہ علت درست ہے اور اپنی تمام معلومات میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے کہیں بھی اس کا انتقاض لازم نہیں آتا۔ اس لیے معترض کا اٹھایا ہوا نکتہ اعتراض اس پر لازم نہیں آتا کیونکہ اس علت کی بنیاد کتابی لونڈی سے اس صورت میں نکاح کے جواز پر ہے جب وہ تنہا ہو اور عقد نکاح میں اسے کسی اور عورت کے ساتھ اکٹھا نہ کیا جائے۔ لونڈی کا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینا قول باری ہے (فانکحوہن باذن اہلہن، لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت لونڈی کے نکاح کے بطلان کے مقتضی ہے جبکہ یہ نکاح اس کے آقا کی اجازت کے بغیر ہوا ہو۔ اس لیے کہ یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ جواز نکاح میں اجازت کا ہونا شرط کی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ نکاح خود واجب نہیں ہے۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ کا ارشدا ہے (من اسلم فلیسم فی کیل معلوم و وزن معلوم الی اجل معلوم، جو شخص بیع سلم کرنا چاہے وہ متعین کیل، وزن اور متعین مدت کی صورت میں ایسا کرے) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بیع سلم کرنا چاہے تو اس کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ نکاح کا بھی یہی معاملہ ہے اگرچہ یہ واجب نہیں لیکن جو شخص کسی لونڈی سے نکاح کرنے کا ارادہ کرنے تو وہ اس کے آقا کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔ حضور اکرم ﷺ سے غلام کے نکاح کے سلسلے میں اس قسم کی روایت مروی ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن شاذان نے، انہیں معلّٰی نے، انہیں عبدالوارث نے انہیں قاسم بن عبدالواحد نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا (اذا تزوج العبد بغیر اذن مولاہ فہو عاہر، جب کوئی غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا تو وہ بدکار قرار پائے گا) ۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن الخطابی نے ، انہیں ابو نعیم الفضل بن دکین نے، انہیں حسن بن صالح نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت جابر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے (ایما عبد تزوج بغیر اذن مولاہ فہو عاہر، جو غلام بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا وہ بدکار قرار پائے گا۔ عبیداللہ بن عمر نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ” آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح کرلینا زنا ہے۔ “ ہشیم نے یونس سے اور انہوں نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنے غلام اور اس کی بیوی کی اس بنا پر پٹائی کی تھی کہ اس نے ان کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تھا، پھر آپ نے میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔ نیز غلام نے اپنی بیوی کو کچھ دیا تھا آپ نے اس سے واپس لے لیا۔ حسن سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی (رح) اور شعبی (رح) کا قول ہے کہ جب غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو یہ معاملہ آقا کے سپرد کردیا جائے گا اگر وہ چاہے گا تو اسے باقی رکھے گا اور اگر چاہے گا تو ردّ کر دے گا۔ عطاء کا قول ہے کہ آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح کرلینا زنا نہیں ہے لیکن غلام ایسا کر کے راہ سنت سے ہٹ جانے والا قرار پائے گا۔ قتادہ نے خلاص سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کے ایک غلام کی نے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا۔ یہ معاملہ حضرت عثمان ؓ کے پاس پہنچا ، آپ نے غلام اور اس کی بیوی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا، اس عورت کو پچاس درہم دلوائے اور پانچ میں سے تین حصے لے لیئے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف میں سے جن حضرات کے اقوال ہم نے نقل کردیئے ہیں وہ اس پر متفق ہیں کہ نکاح کرلینے کی صورت میں غلام اور اس کی بیوی پر حد جاری نہیں ہوگی۔ حد کی روایت صرف حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو سزا انہیں دی تھی وہ تعزیر تھی حد نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راوی نے اسے حد سمجھ لیا۔ حضرت علی اور حضرت عمر ؓ کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر عدت کے اندر کسی عورت سے نکاح کرلیا تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی ہمیں نہیں معلوم کہ اس مسئلے میں کسی صحابی نے ان دونوں حضرات کی مخالفت کی ہو۔ اب جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیتا ہے اس کا معاملہ عدت کے اندر نکاح کرلینے والی عورت کے معاملے کے مقابلے میں زادہ ترم ہوتا ہے کیونکہ غلام کے اس نکاح پر عامۃ التابعین اور فقہاء امصار کے نزدیک جواز کا حکم لاحق ہوسکتا ہے جبکہ کسی کے نزدیک بھی عدت گزارنے والی عورت کے نکاح کو جواز کا حکم لاحق نہیں ہوسکتا اس لیے کہ کتاب اللہ میں اس کی تحریم کا ذکر منصوص ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتی یبلغ الکتاب اجلہ، نکاح کی گرہ کو اس وقت تک پختہ نہ کرو جب تک عدت کی مقررہ مدت اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے) اس کے مقابلے میں غلام کے نکاح کی تحریم خبر واحد اور نظر یعنی قیاس کی جہت سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے والے غلام کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ بدکار ہے اور آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے (وللعاہر الحجر، بدکار کے لیے پتھر ہے) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور اکرم ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد میں غلام مراد نہیں ہے اس پر سب کا اتفاق ہے۔ کیونکہ اکر غلام زنا کا مرتکب ہوجائے تو اسے رحم کی سزا نہیں دی جاتی۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے مجازًا اور تشبیہًا عاہر کہا ہے اسے زانی کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس نے ایک ممنوع ہمبستری کے جرم کا ارتکاب کیا تھا جبکہ حضور اکرم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ (العینان تزنیان والرجلان تزنیان، آنکھیں زنا کرتی ہیں، پاؤں زنا کرتے ہیں) ۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد مجازی معنوں پر محمول ہے۔ نیز آپ نے یہ فرمایا (ایما عبد تزوج بغیر اذن مولاہ فہو عاہر) یہاں آپ نے ہمبستری کا ذکر نہیں فرمایا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ صرف نکاح کرنے کی بنا پر بدکار اور زانی نہیں بن جاتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کا اسے بدکار کہنا مجازًا ہے اور یہ فرما کر آپ ﷺ نے اسے زانی اور بدکار کے مشابہ قرار دیا ہے۔ قول باری (فانکحوہن باذن اہلہن) اس پر دلالت کرتا ہے کہ عورت اپنی لونڈی کا نکاح کر اسکتی ہے اس لیے کہ قول باری (اہلن) میں مراد موالی ہیں، یعنی آقا اور مالکن ۔ کیونکہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لونڈی کا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینا جائز نہیں ہے۔ نیز آقا کے علاوہ کسی اور کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا جبکہ آقا عاقل بالغ ہو اور کا اپنے مال میں تصرف بھی جائز ہو۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ عورت اپنی لونڈی کا نکاح نہیں کر اسکتی بلکہ اس کام کی سپرداری کسی اور عورت کے ذمے لگائے گی لیکن ظاہر کتاب سے اس قول کی تردید ہوتی کیونکہ کتاب اللہ میں عورت کا خود نکاح کرانے اور اس کی اجازت سے کسی دوسری عورت کے نکاح کرانے اور اس کی اجازت سے کسی دوسری عورت کے نکاح کرانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر مالکن نے اپنی لونڈی کے نکاح کرانے کی کسی دوسری عورت کو اجازت دے دی تو اس کا نکاح درست ہوگا کیونکہ اس صورت میں وہ لونڈی مالکن کی اجازت سے ہی کسی کی منکوحہ بنے گی۔ ظاہر آیت آقا کی اجازت سے لونڈی کے نکاح کے جواز کا مقتضی ہے۔ جب آقا یا مالکن لونڈی کے نکاح کے معاملے کو کسی اور عورت کیسپرد کر دے تو اس کا درست ہوجانا بھی ضروری ہے کیونکہ ظاہر آیت نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے اس کی ممانعت کی ہے انہوں نے ییت کے حکم کو کسی دلالت کے بغیر خاص کردیا ہے نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مالکن خود اپنی لونڈی کے نکاح کی مالک نہیں ہے تو پھر اس کام کے لیے کسی اور کو وکیل بنانا بھی درست نہیں ہوگا اس لیے کہ انسان کا کسی کو صرف ان امور میں اپنا وکیل بنانا درست ہوتا ہے جن کا وہ خود مالک ہوتا ہے۔ لیکن جن امور کا وہ خود مالک نہیں ہوتا ان میں کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز نہیں ہوتا۔ خصوصا ان عقود میں جن کے احکام کا تعلق وکیل سے نہیں ہوتا بلکہ وکیل بنانے والے شخص موکل سے ہوتا ہے اگر ایک شخص کوئی سودا یا معاملہ طے کرتا ہو لیکن اس کا یہ سوادا اور معاملہ درست قرار نہ دیا جاتا ہو تو ہمارے نزدیک ایسا شخص ان عقود مین کسی کو اپنا وکیل بناسکتا ہے جن کے احکام کا تعلق وکیل سے ہوتا ہے۔ خرید و فروخت کے سودے اور عقود نیز اجارے کے عقود ایسے ہیں جن کے احکام کا تعلق وکیل سے ہوتا ہے۔ موکل سے نہیں ہوتا۔ لیکن عقد نکاح کے حکم کا تعلق موکل سے ہوتا ہے۔ وکیل سے نہیں ہوتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نکاح کے وکیل کے ذمہ نہ مہر لازم آتا ہے اور نہہی بضع اس کے حوالے ہوتا ہے۔ اس لیے اگر عورت عقد نکاح کی مالک نہیں ہوتی تو اس کام کے لیے اس کا سکی اور کو وکیل بنانا بھی درست نہ ہوتا۔ کیونکہ عقود کے احکام کا وکیل سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب اس کا کسی اور کو وکیل بنانا درست ہوگیا اور احکام کا تعلق اس کی ذات سے رہا، وکیل سے نہیں رہا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ عورت عقد کی مالک ہے۔ قول باری (واتوہن اجورہنن بالمعروف، انہیں ان کے مہر معروف طریقے سے ادا رکردو) نکاح ہوجانے کی صورت میں مہر کے وجوب پر دلالت کرتا ہے خواہ مہر مقرر ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ مہر واجب قرار دینے کے سلسلے میں آیت کے اندر مہر مقرر کرنے والے اور مہر مقرر نہ کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اس سے مہر مثل مراد ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (بالمعروف) اس لفظ کا اطلاق ان امور میں ہوتا ہے جن کی بنیاد عام طور پر اور متعارف صورت میں اجتہاد اور غالب ظن پر ہوتی ہے جیسا کہ قول باری (وعلی المولودلہ رزقہن وکسوتہن بالمعروف ، بچے کے باپ کے ذمے دودھ پلانے والیوں کا معروف طریقے سے کھانا اور کپڑا ہے) ۔ قول باری (و اتوہن اجورہن ) کے ظاہر کا اقتضاء یہ ہے کہ اسے مہر حوالے کردینا واجب ہے، تاہم مہر آفا کے لیے واجب ہوتا ہے لونڈی کے لیے نہیں کیونکہ آقا ہی اس کے ساتھ ہمبستری کا مالک ہوتا ہے۔ اب جبکہ اس نے ہمبستری کو عقد نکاح کی بنا پر لونڈی کے شوہر کے لیے مباح کردیا ہے تو اس کے بدل کا بھی وہی مستحق ہوگا جس طرح لونڈی کی خدمت کسی کو کرایے پر دینے کی صورت میں کرایہ کا مستحق آقا ہوتا ہے لونڈ ی نہیں ہوتی۔ مہر کا بھی یہی حکم ہے۔ علاوہ لونڈی کسی چیز کی مستحق نہیں ہوتی اس لئے وہ مہر کو اپنے قبضے میں لینے کی مستحق قرار نہیں دی جائے گی۔ آیت کو دو میں سے ایک معنی پر محمول کیا جائے گا یا تو اس سے یہ مراد ہوگی کہ آقا کی اجازت کی شرط پر انہیں ان کے مہر حوالے کر دو ۔ اس صورت میں جس اذن کا شروع میں ذکر ہوچکا ہے وہ مہر حوالے کرنے کے ذکر کے اند پوشیدہ ہوگا جس طرح نکاح کا جواز اس کے ساتھ مشروط تھا۔ اس لیے عبارت کی ترتیب یہ ہوگی ” فانکحوہن باذن اہلہن و اتوہن اجورہن باذنہم “ (ان کے ساتھ ان کے سرپرستوں کی اجازت سے نکاح کرو اور ان کی اجازت سے انہیں ان کے مہر حوالے کردو) اس طرح یہ دلالت حاصل ہوگی کہ آقا کی اجازت کے بغیر انہیں ان کے مہر حوالے کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری (ولاحافظین فروجہم والحافظات، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں) یہاں معنی یہ ہیں ” اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرے والیاں “ اسی طرح (والذاکرین اللہ کثیرا والذاکرات، اور کثرت سے اللہ و یاد کرنے والے اور یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں) یہاں معنی ہیں ” اللہ و یاد کرنے والیاں “ آیت زیر بحث میں اس بات کی نفی کردی گئی ہے کہ لونڈی اپنا نکاح کرنے کی مالکہوتی ہے۔ بلکہ اس کا آقا اس سے بڑھ کر اس کام کا مالک ہوتا ہے۔ اس پوشیدہ یعنی ” اذن “ پر اس نفی کی دلالت ہورہی ہے۔ قول باری ہے (ضر اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شئ، اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی ہے، ایک مملوک غلام کی جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا) ۔ اس میں غلام کی ملکیت کی عموم کی صورت میں نفی کی کئی ہے اس میں یہ دلالت بھی ہے کہ لونڈی ابنے مہر کی حق دار نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی مالک ہوتی ہے ایک اور معنی جس پر آیت کو محمل کیا جائے گا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہر حوالے کرنے کی نسبت لونڈیوں کی طرف کیے ہے لیکن اس سے مراد آقا ہے جس طرح کو کئی شخص ایک نابالغ بچی یا لونڈی کے ساتھ اس کے باپ یا آقا کی اجازت سے نکاح کرلے تو اس صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ” انہیں ان کے مہر دے دو “ تاہم مراد یہ ہوگی کہ باپ یا آقا کو مہر دے دو ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص پر یتیم کا قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو تو اس وقت یہ کہنا درست ہوگا کہ ” فلاں شخص یتیم سے اس کا حق روک رہا ہے “ اور اگرچہ یتیم اس حق کو اپنے قبضے میں لینے کی اہلیت نہیں رکھتا پھر بھی مقروض کو یہ کہا جائے گا کہ ” یتیم کو اس کا حق دے دو “ اسی طرح قول باری ہے (و ات ذا لاقربی حقہ و المسکین وابن اسبیل، اور قرابت دار کو اس کا حق ادا کرو اور مسکین کو اور مسافر کو) ۔ آیت کے الفاظ ان اصناف ثلاثہ کے نابالغوں اور بالغوں دونوں پر مشتمل ہیں اور نابالغوں کو کچھ دینا دراصل ان کے سرپرستوں کو دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح جائز ہے کہ قول باری (و اتوہن) میں مراد ایسے لوگوں کو دینا ہے جو اس مہر کے مستحق ہوں یعنی ان لونڈیوں کے مالکان۔ امام مالک کے بعض رفقاء کا یہ خیال ہے کہ لونڈی ہی اپنے مہر کو قبضے میں لینے کی حقدارے۔ اور آقا جب اپنی لونڈی خدمت کی خاطر کسی کو کرایے پردے دے تو اس صورت میں آقا کرایے کا احق دار ہوگا لونڈی نہیں ہوگی۔ ان حضرات نے مہر کے مسئلے میں قول باری (و اتوہن اجورہن) سے استدلال کیا ہے۔ ہم نے سابقہ سطور میں آیت کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے وجہ بیان کردی ہے کہ لونڈی اپنے مہر کو قبضے میں لینے کی کیوں حق دار نہیں ہوتی ہے۔ علازہ ازیں اگر مہر لوں ڈی کو دینا اس بنا پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس کے بضع کا بدل ہے تو پھر کرایہ بھی اس کو ہی دینا واجب ہوگا کیونکہ کرایہ لونڈی کے منافع کا بدل ہے۔ نیز جب آقا ہی لونڈی کے منافع کا مالک ہوتا ہے جس طرح وہ اسکے بضع کا مالک ہے اس لیے اگر آقا لونڈی کے کرایے کا حقدار ہوتا ہے، لونڈی حقد دار نیہں ہوتی تو یہ بھی ضروری ہے کہ مہر پر قبضے کا وہی حق دار قارر پائے، لونڈی حق دار نہ قرار پائے کیونکہ آقا کی ملکیت کا بدل ہے لونڈی کی ملکیت کا بدل نہیں۔ اس لیے کہ لونڈی نہ تو اپنے بضع کے منافع کی مالک ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے جسم کے منافع کی اور دون۔ ں صورتوں میں آقا ہی عقد یعین سودا طے کرنے والا ہوتا ہے اور اسکے ہی ذریعہ اجارے اور نکاح کا معاملہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اس لیے ان دووں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ درج بالا مسئلہ کے قائل نے یہ بتات نقل کی ہے کہ بعض عراقیوں نے (اشارہ احناف کی طرف ہے) یہ جائز قارر دیا ہے کہ آقا اپنی لونڈی کا نکاح مہر کے بغیر اپنے غلام سے کرسکتا ہے جبکہ یہ چیز کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا یہ مخالف کس شدت سے اپنے دعوے کو کتاب و سنت کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے کلام پر غور کرے اور اس کے الفاظ کو پرکھے تو اس کے سامنے ہمارے اس دوست کے دعوں کا پول کھل جائے اور ان کے اثبات کا کوئی ذریعہ نظر نہ آئے۔ اگر اس قائل نے اپنے قول سے یہ مراد لی ہے کہ عراقیوں یعین احناف نے مہر مقرر کیے بغیر آقا کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کرا دے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے نکاح کے جواز کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ قول باریے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء ما لم تمسوہن او تفرضوا لہن فریضۃ، تم پر کوئی گنا ہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا مہر مقرر کرنے سے قبل طلاق دے دو ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے نکاح میں طلاق کی صحت کا حکم لگا دیا ہے جس میں کوئی مہر مقرر نہ گیا ہو اس لیے ہمارے دوست کا یہ دعوی کہ ہمارا یہ مسئلہ کتاب کے خلاف ہے اس کی تردید خود کتاب اللہ نے کردی۔ اگر ہمارے اس قائل کی یہ مراد ہو کہ عراقیوں کا مسلک یہ ہ کہ اس نکاح یک صورت میں مہر ثابت نہیں ہوتا اور کسی بدل کے بغیر لونڈی کا بضع مباح ہوجاتا ہے تو ہمیں نہیں معلوم کہ عراق کے اہل علم میں سے کسی نے یہ بات کہی ہوگی۔ سا طرح ہمارے اس قائل کے قول سے دو نتائج اخذ ہوئے اول اس کا یہ دعوی کہ ہماری بات کتاب اللہ کے خلاف ہے جبکہ ہم نے یہ ثبت کردیا کہ ہماری بات کتاب اللہ کے عین مطابق ہے اور اس کی بات کتاب اللہ کے سراسر خلاف ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے ہے کہ اس قائل نے بعض عراقیوں کی طرف سا بات کی نسبت کی ہے کہ جب آقا اپنے غلام کا ناح اپنی لونڈی سے کر دے گا تو عقد نکاح کے ساتھ ہی مہر واجب ہوجائے گا کیونکہ کسی بدل کے بغیر بضع کو مباح کرلینا ممتنع ہوتا ہے۔ پھر جب آقا اس مہر کا مستحق ہوگا تو اس وقت یہ مہر ساقت ہوجائے گا کیونکہ لونڈی تو اس مہر کی مالک قرار نہیں پائے گی آقا ہی اس کے مال کا مالک ہوتا ہے دوسری طرف غلام پر آقا کا کوئی دین اور قرض ثابت نہیں ہوتا اس لیے مہر کا سقوط لازم آئے گا۔ غرض اس مسئلے میں دو حالتیں ہیں پہلی عقد کی حالت ہے جس میں غلام پر مہر ثابت ہوجاتا ہے اور دوسری وہ حالت ہے جب عقد کے بعد مہر آقا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور اس کے بعد ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال بالکل اس صورت کی طرح ہے کہ اگر ایک شخص کا کسی کے ذمے مال ہو اور وہ مال اسے ادا کر دے۔ اس شخص نے جس مال پر قبضہ کیا ہے اس کی دوحالتیں ہیں ایک تو اس کے قبضے کی حالت۔ اس حالت میں وہ اس مال کا اس حیثیت سے مالک ہوگا کہ یہ مال قابل تاوان تھا اور پھر دوسری حالت یہ مال اس مال کا بدلہ ہوجائیگا جو اس شخص کے ذمے تھا یا جس طرح ہم خریداری کے لیے مقرر شدہ وکیل کے متعلق کہتے ہیں کہ خرید شدہ چیز عقد بیع کے ساتھ ہی وکیل کی طرف منتقل ہوجائے گی لیکن وکیل اس کا مالک نہیں بنے گا پھر دوسری حالت میں اس کی ملکیت موکل کی طرف منتقل ہوجائے گی اس کے بہت سے نظائر اور ہیں جن کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے فقہی اصطلاحات اور مسائل کے متعلق ریاضت کی ہو اور فقہاء کی مجالست اختیار کر کے ان سے اخذ کیا ہو۔ قول باری ہے (محصنات غیر مسافحات ولامتخذی اخدان، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوکر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں) ۔ یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ نکاح کرو تاکہ وہ اس کے ذریعے احصان کی صفت سے متصف ہوجائیں اور آزاد شہوت رانی نہ کریں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ ان کے ساتھ نکاح صحیح کے ذریعے ازدواجی تعلق پیدا کیا جائے اور یہ کہ ان کے ساتھ زنا کے طریقے پر ہمبستری نہ کی جائے کیونکہ یہاں احصان کی معنی نکاح کے ہیں اور سفاح زنا کو کہتے ہیں۔ قول باری ہے (ولا متخذات اخدان) یعین ان کے ساتھ ہمبستری اس طریقے پر نہ ہو جس کا زمانہ جاہلیت میں رواج تھا یعنی چوری چھپے آشنائی ہوجاتی اور پھر ہمبستری کرلیے جاتی۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گروہ ایسا تھا جو چوری چھپے زنا کو درست سمجھتا تھا اور کھلم کھلا زنا کو حرام قرار دیتا تھا۔ عورت کے آسنا کو ” خِدَن “ کہتے ہیں جو اس کے ساتھ چوری چھپے زنا کا ارتکاب کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فواحش کی تمام ظاہر و باطن صورتوں کی ممانعت کردی اور نکاح صحیح یا ملک یمین کے بغیر ہر وطی سے ڈانٹ کر روک دیا۔ فتاۃ نوجوان عورت کو کہتے ہیں۔ بوڑھی آزاد عورت کو فتاۃ نہیں کہتے لیکن لونڈی کو خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھی فتاۃ کہا جاتا ہے۔ بوڑی ہونے کی باوجود اسے فتاۃ کہنی کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ لونڈی ہو نیکی بنا پر اس کی وہ توقیر نہیں ہوتی جو ایک بڑی عمر والی بوڑھی خاتون کی ہوتی ہے۔ فتوت۔ ناتجربہ کاری اور کم عمری کی حلت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ لونڈی اور غلام کی حد کا بیان قول باری ہے (فاذا احثن فان اتین بفاحشۃ فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب) جب یہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور پھر کسی بدچلنی کا ارتکاب کریں تو انہیں اس سزا کی نصف سزا دو جو خاندانی عورتوں کے لیے ہے۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ لفظ (احصن) کی الف فتح کے ساتھ قرأت کی گئی ہے اور الف کے ضمہ کے ساتھ بھی۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر، مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے کہ جب الف پر پیش کی علامت کے ساتھ اس کی قرأت کی جائے تو معنی ہوگے ” جب یہ نکاح کرلیں “۔ حضرت، حضرت ابن مسعودؓم ، شعبی اور ابراہیم نخعی رحہما اللہ سے منقول ہے کہ الف پر زبر کی علامت کے ساتھ اس لفظ کے معنی ہیں ” جب یہ مسلمان ہوجائیں۔ “ حسن کا قول ہے انہیں اسلام اور ان کے شوہر صفت احصانے متصف کردیتے ہیں۔ لونڈی پر حدب کب واجب ہوتی ہے اس بارے یمں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ لفظ (اُحصن) میں پہلی تاویل کے قائلین کے نزدیک لونڈی پر اس وقت تک حد واج نہیں ہوگی جب تک اس کا نکاح نہ ہوجائے خواہ وہ مسلمان کیوں ہوچکی ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور آپ کے ہم خیال حضرات کا یہی قول ہے جن حضرات نے اس لفظ کی دوسری تاویل کی ہے ان کے نزدیک ایک لونڈی اگر مسلمان ہونے کے بعد زنا کا ارتکاب کرے گی تو اس پر حد جاری ہوجائے گی خواہ اس کا ابھی نکاح نہ بھی ہوا ہو۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور آپ کے ہم خیال حضرات کا یہی قول ہے۔ بعض کا قول ہے کہ دوسری تاویل ایک بعید تاویل ہے کیونکہ ان کے ایمان کا ذکر پہلے ہوچکا ہے چناچہ قول باری ہے (من فتیاتکم المؤمنات) اس لیے یہ کہنا بعید ہے کہ ” تمہاری مومن لونڈیوں میں سے ، پھر جب وہ ایمان لے آئیں “۔ ابوبکر جصاص اس قول پر رائے زنی کرتے ہئوے کہتے ہیں کہ بات ایسی نہیں ہے اس لیے کہ قول باری (من فتیاتکم المؤمنات) کا ذکرنکاح کے سلسلے میں ہے۔ اسکے بعد ایک اور حکم کا ذکر شروع ہوگیا یعنی حد زنا کا ذکر اس لیے نئے سرے سے پھر اسلام کا ذکر درست ہے۔ مفہوم یہ ہوگا۔ ” جب یہ لونڈیاں مسلمان ہ۔ ں اور پھر کسی بدچلنی کا ارتکاب کریں تو ان پر خاندانی عورتوں یعنی محصنات کی سزا سے نصف سزا ہے “۔ اس مفہوم پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اگر اس تاویل کی گنجائش نہ ہوتی تو حضرت عمر، حضرت ابن مسعود ؓ اور دوسرے حضرات جن کیا قولا کا ہم ذکر کیا ہے اس لفظ کی کبھی تاویل نہ کرتے۔ اس میں کوئی امتناع نیہں ہے کہ اس لفظ میں اسلام اور نکاح دونوں ہی مراد ہیں کیونکہ لفظ میں دونوں کا احتمال موجود ہے اور سلف نے بھی اس لفظ کو ان ہی دو معنوں پر محمول کیا ہے۔ اسلام اور نکاح لونڈی پر حد واجب کرنے کے لیے شرط نہیں ہیں کہ اگر لونڈی میں صفت احصان نہ ہو یعنی وہ مسلمان نہ ہو یا اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ کیونکہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابوداؤد نے انہیں عبداللہ بن مسلمہ نے امام مالک (رح) سے ، انہ۔ ں نے ابن شہاب زہری (رح) سی انہوں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نیز زید بن خالد جہنی سے کہ حضور اکرم ﷺ سے اس لونڈی کے متلعق پوچھا گیا تھا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ محصنہ نہیں تھی تو آپ نے فرمایا (ان زنت فاجلدوہا ثم ان زنت فاجلدوہا، ثم ان زنت فاجلدوہا ثم زنت فبیعوہا ولو بضفیر، اگر وہ زنا کا ارتکاب کرے تواسیکوڑے لگاؤ اگر دوبارے کرے و دوبارہ کوڑے لگاؤ اگر سہ بارہ کرے توسہ بارہ کوڑے لگاؤ اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو اسے فروخت کر دو خواہ ایک رسی کے بدلے کیوں نہ ہو) ۔ سعید المقبری کی جو روایت اپنے والد سے اور والد کی روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہے کہ اس کے الفاظ یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ہر مرتبہ فرمایا ( فلیقم علیہا کتاب اللہ) اس لونڈی پر اللہ کی کتاب قائم کرے) یعنی اس پر حد جاری کرے۔ حضور اکرم ﷺ اپنے اس ارشاد مبارک کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ احصان کی صفت سے متصف نہ ہونے کے باوجود بھی اس پر حد جاری کرنا واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فاذا احصن) میں احصان کی جو شرط بیان کی ہے اسکا کیا فائدہ ہوگا جبکہ لونڈی پر ہر صورت میں حد جاری ہوگی خواہ اس کیا ندر صفت احصان ہو یا نہ ہو، تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جب آزاد عورت پر صرف اس صورت میں رجم کی حد جاری کی جاتی ہے جب وہ مسلمان اور شادی شدہ ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا ہے کہ لونڈیاں اگرچہ اسلام یا نکاح کے ذریعے محصنہ ہوچکی ہوں ان پر آزاد عورت کی حد کے نصف سے زائد سزا واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس وہم کا پیدا ہوجانا درست ہوتا کہ احصان کی موجودگی اور غیر موجودگی کی صورتوں میں ان کی حالت میں فرق ہوتا ہے۔ یعین اگر محصنہ ہ۔ گی توا سے رجم کی سزادی جائے گی اور اگر غیر محصنہ ہوگی تو اس پر نصف حد جاری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور فرما کر یہ واضح کردیا کہ لونڈی پر تمام احوال میں نصف حد سے زائد جاری نہیں ہو کی اس طرح لونڈی کی حد کے ذکر کے ساتھ احصان کی شرط کے ذکر کا یہ فائدہ ہے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس پر احصان کی موجودگی میں آزاد عورت کی حدت کا نصف واجب کردیا تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد کوڑے ہیں کیونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی۔ قول باری (فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب) میں یہ مراد ہے کہ احصان کی صفت حریت کی جہت سے ہو یعنی آزاد عورتیں ہوں وہ احصان مراد نہیں ہے جو رجم کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کرتا تو یہ کہتا درست نہیں ہوتا کہ لونڈی پر نصف رجم ہے اس لیے کہ رجم کے حصے اور ٹکڑے نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے صرف لونڈی کے لیے زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس سزا کا نصف مقرر کردیا جو آزاد عورت کیلیے مقرر ہے اور امت نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ اس معاملے میں غلام بھی لونڈی کی طرح ہے کیونکہ ظاہری طور پر جس سبب کی حد کی عمر کا موجب سمجھا گیا تھا وہ غلام میں بھی موجود ہے یعنی غلامی۔ اسی طرح قول باری (والذین یرمون المحصنات، جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں) میں صرف محصنات کا ذکر کیا گیا ہے اور امت نے اس سے قدف کی صورت میں محصن مردوں کا حکم بھی اخذ کرلیا کیونکہ محصنہ کے اندر پاکدامنی، آزادی اور اسلام وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے اس پر تہمت لگانے والے پر حد قذف جاری ہوتی ہے۔ ان اسباب کی موجودگی میں محصن مردوں پر تہمت لگانے والوں کے لیے بھی یہی حکم ثابت کردیا گیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ احکام کے اسباب جب سمجھ میں آجائیں تو جہاں یہ اسباب پائے جائیں گے وہاں حکم کا ثبوت ہوجائے گا الا یہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جس سے اس بات کا پتہ چل جائے کہ حکم صرف بعض صورتوں تک محدود ہے اور بعض دوسری صورتیں اس سے خارج ہیں۔ فصل آیا نکاح فرض ہے یا مستحب ؟ قول باری (فانکحوہن باذن اہلہن واتوہن اجورہن) اس پر دلالت کرتا ہے کہ واجب کو مستحب پر عطف کرنا درست ہوتا ہے اس لیے کہ نکاح فرض نہیں ہے بلکہ ندب یعنی مستحب ہے اور مہر اداکرنا واجب ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (فانکحوا ماطاب لکم من النساء) پھر فرمایا (واتوا النساء صدقاتہن نحلۃ) واجب پر مستحب کا عطف بھی درست ہوتا ہے۔ مثلا قول باری ہے (ان اللہ یأمرکم بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی) اللہ تمہیں عدل واحسان اور قرابت داروں کو عطاء کرنے کا حکم دیتا ہے) عدل کرنا واجب اور احسان کرنا مستحب ہے۔ قول باری (ذلک لمن خشی العنت منکم، یہ تم میں سے ان کے لیے ہے جنہیں بند تقوی ٹوٹنے کا اندیشہ ہو) حضرت ابن عباس ؓ، سعید بین جبیر، ضحاک اور عطیہ عوفی کا قول ہے کہ اس سیمراد زنا ہے، دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ اس سے مراد دینی یا دنیاوی لحاظ سے پہنچنے والا شدید ضرر اور نقصان ہے یہ مفہوم قول باری (ودو ما عنتم، تمہیں شدید نقصان پہنچنے یک ان لوگوں نے تمنا کی۔ قول باری (لمن خشی العنت منکم) اس قول باری فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات) کی طرف راجع ہے اور یہ بات لونڈی سے نکاح نہ کرنے اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح کو محدود رکھنے کی دی گئی ترغیب میں شرط کے طور پر مذکور ہے تاکہ اس کا پیدا ہونے والا بچہ کسی اور کا غلام نہ بن جائے لیکن اگر کسی شخص کو بند تقوی ٹوٹنے کا خطرہ ہو اور وہ اپنے آپ کو حرام کاری کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ نہ پاتا ہو تو پھر لونڈی سے نکاح کی اباحت ہے اور کوئی کراہت نہیں، نہ نکاح کرلینے میں اور نہ ہی نکاح نہ کرنے میں۔ اس ارشاد کے بعد پھر فرمایا (و ان تصبروا خیرلکم) اس کے ذریعے یہ واضح فرمایا دیا کہ مستحب اور پسندیدہ فعل تو یہی ہے کہ لونڈی سے مطلق نکاح نہ کیا جائے اس طرح آیت کی دلالت لونڈی سے نکاح کی کراہت کی مقتضی ہے بشرطیکہ بند تقوی ٹوٹنے کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن اگر یہ خطرہ موجود ہو تو پھر لونڈی سے نکاح مباح ہے بشرطیکہ اس کے عقد میں پہلے سے کوئی آزاد عورت موجود نہ ہو۔ تاہم پسندیدہ بات یہی ہے کہ لونڈی سے مطلق ترک نکاح کیا جائے خواہ بند تقوی ٹوٹنے کے خطرہ کے باوجود بھی لونڈیوں سے مطلق ترک نکاح کی ترغیب دی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لونڈی سے نکاح کے نتیجے میں اس کے نطفے سے پیدا ہونے والا بچہ ماں کے آقا کا غلام بن جائے گا۔ تاہم ملک یمین کے تحت موجود لونڈی سے اولاد حاصل کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی اولاد آزاد ہوگی۔ حضور اکرم ﷺ سے ایسی روایت موجود ہے جو لونڈی سے نکاح کی کراہت کے سلسلے میں آیت کے ہم معنی ہے۔ ہمیں اس کی روایت عبدالباقی بن قانع نے کی۔ انہیں محمد بن الفضل بن جابر السقطی نے انہیں محمد بن عقبہ بن ہرم السدسی نے ، انہیں ابو امیہ بن یعین نے، انہیں ہشام بن عروہ نے ، اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا (انکحوا لاکفاء وانکحوہن واختار وا الطفکم و ایاکم و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) اپنے ہم کفو اور ہم پلہ لوگوں سے شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرو اور عورتوں کو بھی ہم کفو لوگوں کے نکاح میں دو اور اپنے نطفوں کے لیے انتخاب سے کام لو اور حبشیوں کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ یہ بگڑی ہوئی شکلوں والی مخلوق ہے) ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” ہم کفو اور ہم پلہ لوگوں سے شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرو “۔ لونڈی سے نکاح کی کراہت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ لونڈی آزاد مرد کی کفو اور اس کے ہم پلہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد کہ ” اپنے نطفوں کے لیے انتخاب و اختیار سے کام لو “ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ تاکہ اس کے نطفے سے پیدا ہونے والا بچہ مملوک غلام نہ بن جائے حالانکہ اس کا ماء حیات آزاد ہوتا ہے۔ اس میں غلامی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا لیکن لونڈی سے نکاح کی بنا پر وہ غلامی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ایک اور روایت میں حضور اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (تخیروا النطفکم فان عرق السوء یدرک ولو بعد حین، اپنے نطفوں کے لیے انتخاب سے کام لو کیونکہ برائی کی رگ بالآخر پھڑک اٹھتی ہے خواہ اس مین کچھ عرصہ کیوں نہ لگ جائے۔ ) قول باری ہے (یریدالہل لیبین لکم و یہدیکم سنن الذین من قبلکم و یتوب علیکم) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گذرے ہوئے صلحاء کرتے تھے وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے) یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سے وہ باتیں واضح کردینا چاہتا ہے جن کی معرفت کی ہمیں ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرسے بیان اور وضاحت کی دو صورتیں ہوتی ہیں اول نص کے ذریعے دوم۔ دلالت کے ذریعے ۔ کوئی واقعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس سے خالی نہیں ہوتا کہ اس کے متعلق نص یا دلیل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہو۔ اس آیت کی نظیر یہ قول باری ہے (ثم ان علینا بیانہ، اس کا بیان کرنا ہمارے ذمے ہوتا ہے) نیز قول باری ہے (ہذا بیان للناس ، یہ لوگوں کے لیے بیان ہے) نیز فرمایا (ما فرطنا فی الکتاب من شئ، ہم نے کتاب میں کسی قسم کی کوئی تفریط نہیں کی) قول باری (ویہدیکم سنن الذین من قبلکم) کے متعلق بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس آیت سے قبل دو آیتوں میں جن عورتوں سے نکاح کی تحریم کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ عورتیں انبیاء متقدمین کی امتوں میں بھی حرام تھیں۔ بعض دوسرے لوگ اس آیت کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس میں مختلف شریعتوں کی یکسانیت اور اشتراک پر کوئی دلالت نہیں ہے آیت کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم سے قبل گذر جانے والے لوگوں کے طریقوں کی تمہیں رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انکے ذریعے تمہارے سامنے وہ باتیں آجائیں جنہیں اختیار کرنا تمہارے اپنے مفاد میں ہے۔ جس طرح یہی باتیں اللہ تعالیٰ نے ان گذرے ہوئے لوگوں سے بیان کی تھیں اگرچہ عبادت کے طریقے اور شرعی احکام ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن جہاں تک اللہ کے بندوں کے مفادات و مصالح کا تعلق تھا ان سب میں یکسانیت کا رنگ موجود تھا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گذری ہوئی امتوں میں حق پرست اور باطل پرست گروہوں کے طریقے تمہارے سامنے بیان کرنا چاہتا ہے تاکہ تم باطل سے اجتناب کرو اور حق کے پیرو کار بن جاؤ۔
Top