Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 30
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا
( وقال الرسول۔۔۔۔۔ ) (1 ؎۔ سنن ابی دائود کتاب الادب باب من یزمر یجالس، حدیث 4191، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) وقال الرسول یرب رسول سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے۔ رسول اللہ ﷺ ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہیں :” ان قوی اتخذوا ھذا القرآن مجھورا “ کفار نے قرآن حکیم کے بارے میں ناحق بات کی تھی کہ یہ جادو ہے، یہ شعر ہے، یہ مجاہد اور نخعی سے مروی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مجھورا کا معنی متروک ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد : ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین “ کے ساتھ تسلی دی، جس طرح اے محمد ! ہم نے مشرکوں میں سے آپ کے دشمن بنائے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کے قول میں وہ ابو جہل تھا۔ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے ان کی قول کے مشرکوں کو ان کا دشمن بنا دیا، پس میرے حکم پر صبر کیجئے جس طرح انہوں نے صبر کیا، بیشک میں تجھے ہدایت دینے والا ہوں اور جو بھی تیرے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اس کے خلاف تیری مدد کرنے والا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : رسول اللہ ﷺ کا قول : یرب یہ قیامت کے روز ہوگا، یعنی انہوں نے قرآن کو چھوڑا، مجھے چھوڑا اور مجھے جھٹلایا۔ حضرت انس ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور اپنے مصحف کو لٹکا دیا اس کی دیکھ بھال نہ کی اور اس کو نہ دیکھا وہ مصحف قیامت کے روز اس کے ساتھ چمٹے ہوئے آئے گا، وہ عرض کرے گا : اے رب العالمین ! تیرے اس بندے نے مجھے نظر انداز کردیا میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرما “۔ ثعلبی نے اس (1) کو ذکر کیا ہے۔ ” وکفی بریک ھادیا و نصیرا، مادیا و نصیرا “ حال یا تمیز ہونے کی حیثیت میں منصوب ہے یعنی تجھے ہدایت سے نوازے گا اور تیرے مدد فرمائے گا، تو جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے ان کی پرواہ نہ کر۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ کا دشمن ابو جہل ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعت ہو۔
Top