Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠ ۧ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
وَّلَمْ
: اور نہ
تَجِدُوْا
: تم پاؤ
كَاتِبًا
: کوئی لکھنے والا
فَرِھٰنٌ
: تو گرو رکھنا
مَّقْبُوْضَةٌ
: قبضہ میں
فَاِنْ
: پھر اگر
اَمِنَ
: اعتبار کرے
بَعْضُكُمْ
: تمہارا کوئی
بَعْضًا
: کسی کا
فَلْيُؤَدِّ
: تو چاہیے کہ لوٹا دے
الَّذِي
: جو شخص
اؤْتُمِنَ
: امین بنایا گیا
اَمَانَتَهٗ
: اس کی امانت
وَلْيَتَّقِ
: اور ڈرے
اللّٰهَ
: اللہ
رَبَّهٗ
: اپنا رب
وَلَا تَكْتُمُوا
: اور تم نہ چھپاؤ
الشَّهَادَةَ
: گواہی
وَمَنْ
: اور جو
يَّكْتُمْهَا
: اسے چھپائے گا
فَاِنَّهٗٓ
: تو بیشک
اٰثِمٌ
: گنہگار
قَلْبُهٗ
: اس کا دل
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِمَا
: اسے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
عَلِيْم
: جاننے والا
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) مسئلہ نمبر : (
35
) جب اللہ تعالیٰ نے عقود مداینہ میں شاہد کے لئے عدالت اور رضا کی شرط عائد کی ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں تو پھر نکاح میں ان کا شرط ہونا بدرجہ اولی ہے، بخلاف امام ابوحنیفہ (رح) کے جہاں انہوں نے فرمایا : بیشک نکاح دو فاسق آدمیوں کی شہادت کے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے، سو آپ نے اموال میں جس احتیاط کا حکم دیا ہے اس کی نکاح سے نفی کردی ہے حالانکہ یہ زیادہ اولی اور ضروری ہے کیونکہ اس کے ساتھ حل و حرمت اور حد ونسب تعلق رکھتے ہیں (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
255
، ) میں (مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا قول انتہائی ضعیف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رضا اور عدالت کی شرط عائد کی ہے اور اس کا پسندیدہ ہونا خالی اسلام سے معلوم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو اس کے احوال میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، اور فقط اس کے اس قول سے دھوکہ نہیں کھایا جائے گا کہ میں مسلمان ہوں، بسا اوقات اس میں ایسی چیزیں جمع ہوجاتی ہیں جو اس کی شہادت کو رد کرنے موجب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا ویشھد اللہ علی ما فی قلبہ وھو الدالخصام، واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا یھلک الحرث والنسل، واللہ لا یحب الفساد، (البقرہ) ترجمہ ؛ اور اے (سننے والے) لوگوں سے وہ بھی ہے کہ پسند آتی ہے تجھے اس کی گفتگو دنیاوی اور وہ گواہ بناتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس پر جو اس کے دل میں ہے، (اور اللہ تعالیٰ ) فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا) اور مزید فرمایا : (آیت) ” واذا رایتھم تعجبک اجسامھم “۔ الایہ (المنافقون :
4
) ترجمہ : اور جب آپ انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے خوشنما معلوم ہوں گے۔ مسئلہ نمبر : (
36
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان تضل احدھما “۔ ابو عبید نے کہا ہے : تضل “ بمعنی تنسی ہے (کہ ان میں سے ایک بھول جائے) اور شہادت میں ضلال کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ بھول جانا اور کچھ یاد ہو اور آدمی اس کے درمیان حیران باقی رہ جاتا ہے یہی ضال اور جو پوری شہادت بھول جائے تو اس کے لئے یہ نہیں کہا جاتا : ضل فیھا، (وہ اس میں بھول گیا) حمزہ نے جزا کے معنی کی بنا پر ان میں ہمزہ نے جزا کے معنی کی بنا پر ان میں ہمزہ کو مکسور پڑھا ہے اور (آیت) ” فتذکر “ میں فا کو اس کا جواب قرار دیا ہے، اور شرط اور جواب شرط رجل وامراتان کی صفت ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہیں۔ اور تذکر “ استیناف کی بنا پر مرفوع ہے، جیسا کہ یہ قول مرفوع ہے۔ (آیت) ” ومن عاد فینتقم اللہ منہ (المائدہ :
95
) ترجمہ : جو (اب) پھر گیا تو انتقام لے گا اللہ تعالیٰ اس سے۔ یہ سبیویہ کا قول ہے۔ اور جنہوں نے ان میں ہمزہ کو مفتوح پڑھا ہے تو یہ مفعول لہ ہے اور اس میں عامل محذوف ہے اور جماعت کی قرات کے مطابق ’ فتذکر “ منصوب ہے اور اس فعل پر معطوف ہے جس کا ان کے ساتھ نصب دی گئی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : تضل تا اور ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا جائز ہے اور تضل تا کے کسرہ اور ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے، پس جس نے کہا : تضل یہ ان کی لغت پر ہے جنہوں نے کہا ہے : ضللت تضل “۔ اور اسی پر آپ تضل کہتے ہیں اور تا کو کسرہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ ماضی فعلت ہونے پر دلالت کرے، اور جھدری اور عیسیٰ ابن عمر نے انتضل تا کو ضمہ، ضاد کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، بمعنی تنسی (یعنی اگر ان میں سے ایک بھلا دی جائے) اور اسی طرح ان دونوں سے ابو عمرو الدانی نے بیان کیا ہے، اور نقاش نے جحدری سے تا کے ضمہ اور ضاد کین کسرہ کے ساتھ نقل کیا ہے، بمعنی ان تضل الشھادۃ (کہ وہ شہادت کو بھلا دے) جیسا کہ آپ کہتے ہیں : اضللت الفرس والبعیر (میں نے گھوڑے اور اونٹ کو گم کردیا۔ جب وہ دونوں تجھ سے ضائع ہوجائیں اور چلے جائیں اور چلے جائیں ہو تو انہیں نہ پاسکے۔ (تب یہ جملہ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
37
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فتذکر “ ابن کثر اور ابو عمرو نے ذال اور کاف کو مخفف پڑھا ہے اور اس پر معنی یہ ہوگا کہ تو اسے شہادت میں مذکر کی طرف لوٹا دے، کیونکہ عورت کی شہادت نصف شہادت ہے اور جب دو عورتوں نے شہادت دی تو دونوں کا مجموعہ ایک مرد کی شہادت کی طرح ہوگا، سفیان بن عیینہ اور ابو عمرو بن العلاء نے یہی کہا ہے، اور اس میں بہت بعد اور دوری ہے، کیونکہ وہ ضلال جس کا معنی نسیان ہے اس کے مقابلہ میں صرف ذکر (یاد دلانا) ہی آسکتا ہے اور یہی جما عت کی قرات کا معنی ہے۔ فتذکر “ یعنی وہ دوسری اسے آگاہ کرے جب وہ غافل ہوجائے اور بھول جائے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابو عمرو کی قرات اس کی طرف راجع ہے، یعنی اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے کہا جاتا ہے۔ تذکرت الشیء واذکرتہ غیری وذکرتہ “ (میں نے اسے یاد دلایا) ان تمام کا معنی ایک ہے الصحاح میں اس طرح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
38
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یاب الشھدآء اذا مادعوا “۔ حسن نے کہا ہے یہ آیت دو امروں کو جمع کئے ہوئے ہے اور وہ دونوں یہ ہیں کہ تو انکار نہ کرے جب تجھے تحصیل شہادت کے لئے بلایا جائے اور نہ تب جب تجھے ادائے شہادت کی طرف بلایا جائے اور حضرت ابن عباس ؓ نے یہی کہا ہے اور حضرت قتادہ، ربیع اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا ہے : یعنی (تو انکار نہ کرے جب تجھے بلایا جائے) تاکہ تو شہادت اخذ کرلے اور اسے کتاب میں ثابت اور محفوظ کرلے، اور مجاہد نے کہا ہے : آیت کا معنی ہے جب تجھے ادائے شہادت کے لئے بلایا جائے درآنحالیکہ وہ شہادت تجھے حاصل ہوچکی ہو۔ اور نقاش نے حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف نسبت کی ہے کہ آپ نے آیت کی اس طرح تفسیر بیان فرمائی ہے، حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے پس جب تجھے بلایا جائے تاکہ تو پہلے شہادت دین تو تو اگر چاہے تو جا اور اگر چاہے تو نہ جا۔ ابو مجلز، عطاء ابراہیم، ابن جبیر، سدی، ابن زید، وغیرہم نے یہی کہا ہے اور اس بنا پر متعاقدین کے پاس گواہوں کا حاضر ہونا واجب نہیں ہے، البتہ قرض لینے دینے والے دونوں افراد پر لازم ہے کہ وہ گواہوں کے پاس حاضر ہوں اور دونوں لینے دینے والے دونوں افراد پر لازم ہے کہ وہ گواہوں کے پاس حاضر ہوں، پس جب وہ دونوں انکے پاس حاضر ہوں اور دونوں انہیں کتاب میں اپنی شہادت ثبت اور محفوظ کرنے کی درخواست کریں تو یہی وہ حالت ہے اس ارشاد سے مراد لینا جائز ہے : (آیت) ” ولا یاب الشھدآء اذا مادعوا “۔ یعنی گواہ انکار نہ کریں جب انہیں شہادت کے اثبات کے لئے بلایا جائے اور جب ان کی شہادت ثابت ہوجائے، پھر انہیں حاکم کے پاس شہادت ادا کرنے کے لئے بلایا جائے تو یہ وہ دعوت ہے جس کے سبب حاکم کے پاس ان دونوں کی حاضری ہوگی، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور ابن عطیہ نے کہا ہے جیسا کہ حسن نے کہا ہے : آیت ندب کے اعتبار سے دو امروں کو جمع کئے ہوئے ہے، پس مسلمانوں پر اپنے بھائیوں کی معاونت کرنا مستحب ہے، پس جب گواہوں کی کثرت کے سبب وسعت ہو اور حق معطل ہونے اور مٹنے سے محفوظ ومامون ہو تو یہ دعوت مستحب ہے اور جسے بلایا گیا ہے اس کے لئے معمولی عذر کے سبب پیچھے رہ جانا جائز ہے۔ اور اگر وہ بغیر عذر کے بھی پیچھے رہ جائے تو نہ اس پر گناہ ہے اور نہ اس کے لئے ثواب ہے۔ اور جب ضرورت ہو اور حق کے معطل ہونے کا تھوڑا سا بھی خوف ہو تو ندب قوی ہوجائے گا اور یہ وجوب کے قریب ہوجائے گا اور جب اسے یہ علم ہو کہ شاہد کے شہادت سے پیچھے ہوجانے کے سبب حق ضائع اور تلف ہوجائے گا تو پھر اس پر شہادت دینا واجب ہے، بالخصوص جب شہادت اسے حاصل ہوچکی ہو اور دعوت اسے ادا کرنے کے لئے ہو، کیونکہ یہ ظرف زیدہ پختہ کرنے والی ہے، کیونکہ یہ گردن میں قلادہ ہے اور امانت ادا کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس آیت سے اس پر دلیل ظاہر ہوتی ہے کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ لوگوں کے لئے گواہوں کا انتظام کرے اور بیت المال سے ان کے لئے ان کی ضروریات پوری کرے اور ان کا لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے تحمل شہادت کے بغیر اور کوئی کام نہ ہو، اور اگر اس طرح نہ ہوا تو حقوق ضائع اور باطل ہوجائیں گے سو معنی یہ ہوگا : گواہ انکار نہ کریں جب وہ لوگوں کے حقوق اخذ کریں کہ وہ انہیں ادا کریں گے۔ واللہ اعلم۔ اور اگر کہا جائے : یہ شہادت تو بالاجرت ہے، تو ہم کہیں گے : یہ خالصۃ ایسی قوم کی شہادت ہے جنہوں نے اپنے حقوق بیت المال سے پورے کئے اور یہ قاضیوں اور والیوں کی تنخواہوں اور ان جمیع مصالح کی طرح ہے جو مسلمانوں کے لئے معاون ہوتے ہیں، اور یہ (شہادت) بھی من جملہ انہی میں سے ہے، واللہ اعلم۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والعاملین علیھا “۔ پس انکے لئے مقرر کردیئے۔ مسئلہ نمبر : (
39
) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ولا یاب الشھدآء اذا مادعوا “۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ شاہد وہ ہے جو حاکم کے پاس چل کرجاتا ہے اور یہ ایسا امر ہے جس پر شریعت کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس کے مطابق ہر زمانے میں عمل کیا گیا ہے اور ہر امت نے اسے سمجھا ہے، اور ان کی امثال میں سے یہ ہے ” فی بیتہ یوت الحکم “۔ (اس کے گھر میں حکم (فیصلہ کرنے والا ثالث) کو لایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
40
) اور جب یہ ثابت ہوگیا تو غلام گواہوں کی جماعت سے خارج ہوگیا اور یہی ” من رجالکم “ کے عموم کو خاص کر رہا ہے، کیونکہ اس کے لئے اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے (شہادت کے لئے) آنا صحیح ہے، کیونکہ وہ بذات خود مستقل بالحکم نہیں ہے، بلاشبہ وہ غیر کی اجازت سے تصرف کرتا ہے نتیجتا وہ منصب شہادت سے اسی طرح گرگیا ۔ جیسا کہ وہ ولایت کے مرتبہ سے گرگیا ہے، ہاں بلکہ ! جیسا کہ وہ جمعہ، جہاد اور حج کے فرض کی ادائیگی سے گرا ہوا ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
257
، دارالفکر) اس کا بیان آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
41
) ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ شہادت کی طرف بلانے کی حالت میں ہے، رہا وہ جس کے پاس کسی آدمی کے حق میں شہادت ہو اور اس کا وہ مستحق جو اس سے نفع حاصل کرسکتا ہے اور وہ اسے نہ جانتا ہے تو ایک قوم نے کہا ہے اس شہادت کو ادا کرنا مستحب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” ولا یاب الشھدآء اذا مادعوا “۔ اور بلانے کے وقت اللہ تعالیٰ نے ادائے شہادت کو فرض قرار دیا ہے اور جب نہ بلایا جائے تو پھر شہادت دینا مستحب ہے کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے : ” گواہوں میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی شہادت دینے کے لئے آئے اس سے قبل کہ اسے اس کے لئے کہا جائے “ اسے ائمہ نے روایت کیا ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ شہادت دینا فرض ہے اگرچہ اس کے بارے درخواست نہ کی جائے جبکہ حق کے ضائع یا فوت ہونے کا خوف ہو یا اس پر طلاق یا عتق کا خوف ہو جیسے بیوی ہونے اعتبار سے اس سے استمتاع کرنے اور غلام سے خدمت لینے کا تصرف حاصل تھا وغیرہ ذلک، پس جس نے اس میں سے کوئی شی اخذ کر رکھی ہو تو اس شہادت کو ادا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے اور وہ اس کی ادائیگی کو اس پر موقوف نہیں کرے گا کہ اسے شہادت کیلئے کہا جائے اور وہ اس طرح حق کو ضائع کر دے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” واقیموا الشھادۃ للہ “۔ (الطلاق :
2
) ترجمہ ؛ گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے دو ۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” الا من شھد بالحق وھم یعلمون “۔ (الزخرف) ترجمہ : ہاں شفاعت کا حق انہیں ہے جو حق کی گواہی دیں اور وہ (اس کو) جانتے بھی ہیں۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے صحیح روایت میں ہے۔ : انصر اخاک ظالما او مظلوما “۔ (تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو) تو اس پر اس کی مدد کرنا متعین ہوگیا اس شہادت کی ادائیگی کے ساتھ جو اس کے پاس ہو اس حق کو زندہ کرنے کے لئے جسے انکار مار دے (ضائع کر دے) مسئلہ نمبر : (
42
) اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ آدمی جس پر شہادت دینا واجب ہو ان وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر جو ہم نے ذکر کی ہیں اور وہ اسے ادا نہ کرے تو یہ شاہد اور شہادت میں عیب ہے اور اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سے کسی حق کے بارے ہو تو وہ خالصۃ اس نفس شہادت میں عیب ہوگا اور اس کے بعد اسے ادا کرنا اس کے لئے مناسب نہ ہوگا، پہلا قول صحیح ہے کیونکہ وہ شے جو اس کے عیب کو ثابت کر رہی ہے وہ اس کا اس امر کو ادا نہ کرنے کے سبب فاسق ہوجانا ہے، جس امر کی ادائیگی بغیر عذر کے اس پر واجب تھی اور فسق مطلق شہادت کی اہلیت کو سلب کرلیتا ہے اور یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
43
) حضور ﷺ کے اس ارشاد : خیر الشھداء الذی یاتی بشھادتہ قبل انیسالھا اور اس ارشاد کے درمیان جو حدیث عمران بن حصین میں ہے کوئی تعارض نہیں (وہ ارشاد یہ ہے) ان خیرکم قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذی یلونھم ثم الذین یلونھم “۔ (بےشک تم میں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں پھر وہ جو ان کے ساتھ ملنے والے ہیں پھر وہ جو ان کے ساتھ ملنے والے ہیں۔ ) پھر عمران نے کہا : میں نہیں جانتا کیا رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ کے بعد دو بار ذکر فرمایا یا تین بار پھر ان کے بعد قوم ہوگی جو شہادت دیں گے اور انہیں شاہد نہیں بنایا جائے گا وہ خیانت کریں گے اور انہیں امین نہیں بنایا جائے گا، وہ نذریں مانیں گے اور پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا (
1
) صحیح بخاری کتاب الرقاق، باب ما یحذر من زھرۃ الدنیا، حدیث نمبر
5948
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) دونوں کو صحیحین نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث تین وجوہ پر محمول ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹا گواہ ہو وہ ایسی شے کے بارے گواہی دیتا ہے جس پر اسے شاہد نہ بنایا گیا ہو، یعنی ایسی شے کے بارے میں جسے نہ اس نے خوداخذ کیا ہو اور نہ ہی اس جانب اس کی توجہ کرائی گئی ہو۔ اور ابوبکر بن ابی شیبہ (رح) نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے باب الجابیہ پر خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا : بیشک رسول اللہ ﷺ ہم میں اسی طرح قیام فرما تھے جیسے میں تم میں کھڑا ہوں پھر آپ نے فرمایا : یایھا الناس اتقوا اللہ فی اصحابی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم یفشوا الکذب شھادۃ الزور “۔ (اے لوگو ! میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو پھر ان کے بارے میں جو ان کے پیچھے آئیں گے پھر ان کے بارے میں جو ان کے پیچھے آئیں گے پھر جھوٹ اور جھوٹی شہادت پھیل جائے گی) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ہو جسے حرص اور طمع اس شے کے نافذ کرنے پر برانگیختہ کرے جس کے ساتھ وہ شہادت دے گا لہذا وہ درخواست سے قبل ہی شہادت دینے میں جلدی کرتا ہے، پس یہ شہادت مردود ہے کیونکہ یہ ایسی خواہش پر دلالت کرتی ہے جو شاہد پر غالب ہوتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے جسے ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے جو کہ اس حدیث کے بعض طرق کے راوی ہیں : وہ ہمیں عہد اور شہادت سے معنی کرتے تھے اور ہم ابھی بچے تھے۔ (آیت
282
کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں) آیت نمبر :
283
۔ اس آیت میں چوبیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) جب اللہ تعالیٰ نے اموال ودیون کی حفاظت کی مصلحت کے لئے لکھوانے اور گواہ بنا لینے کے مستحب ہونے کا ذکر فرمایا، تو اس کے بعد ایسے عذروں کا تذکرہ کیا جو لکھوانے سے مانع ہیں اور ان کی صورت میں رہن (گروی رکھنا) کا حکم بیان فرمایا اور عذر کے احوال میں سے سفر پر نص بیان فرمائی جو سفر تمام عذروں پر غالب ہے، بالخصوص اس وقت میں کثرت غزوات کی وجہ سے اور معنوی طور پر اس میں ہر عذر داخل ہے، بسا اوقات سفر کے بغیر حضر میں بھی کاتب کا ملنا متعذر اور مشکل ہوجاتا ہے جیسا کہ لوگوں کی مشغولیت کے اوقات اور رات کا وقت اور یہ بھی کہ مقروض کی ذمہ داری کے فساد کا خوف ہو تو یہ بھی ایک ایسا عذر ہے جو رہن کے مطالبہ کو ثابت کرتا ہے، حضور نبی مکرم ﷺ نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی جس سے آپ نے جو ادھار لینے کا مطالبہ کیا، تو اس نے کا ہ : بلاشبہ محمد ﷺ میرا مال لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ’ اس نے جھوٹ بولا ہے بلاشبہ میں زمین میں بھی امین ہوں اور آسمان میں بھی امین ہوں اگر وہ مجھ پر اعتبار کرتا تو میں یقینا اسے ادا کردیتا تم میری زرہ اس کے پاس لے جاؤ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
386
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، ایضا سنن ترمذی حدیث نمبر
1134
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، روایت بالمعنی) پس آپ ﷺ کا وصال ہوا درآنحالیکہ آپ کی زرہ اس کے پاس گروی پڑی ہوئی تھی، ابھی اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جمہور علماء نے کہا ہے : سفر میں گروی رکھنا نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں گروی رکھنا سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور یہ صحیح ہے اور ہم نے حضر میں آیت سے معنوی طور پر اس کے جائز ہونے کو بیان کیا ہے کیونکہ کبھی اعذار حضر میں بھی مترتب ہوتے ہیں اور سوائے حضرت مجاہد، ضحاک اور داؤد کے کسی سے بھی حضر میں اس کا ممنوع ہونا مروی نہیں ہے، اس حال میں کہ وہ آیت سے استدلال کرتے ہیں اور آیت میں کوئی حجت نہیں ہے، کیونکہ یہ کلام اگرچہ شرط کے مخرج میں نکلا ہے سو اس سے مراد غالب احوال ہیں۔ اور آیت میں حالت سفر میں رہن کا ہونا ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو حالت سفر کے بغیر ممنوع ہوتی ہیں، صحیحین وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت مذکور ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت تک اناج خریدا اور اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھی (
2
) (صحیح مسلم، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
31
، وزرارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب البیوع، صفحہ
1926
، جلد
1
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا اور آپ کی زرہ یہودی کے پاس گھر والوں کے لئے تیس صاع جو کے عوض گروی پڑی ہوئی تھی۔ (
3
) (سنن نسائی کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
229
) مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولم تجدوا کاتبا “ جمہور نے کاتبا پڑھا بمعنی وہ آدمی جو لکھتا ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابی، حضرت مجاہد، حضرت ضحاک، حضرت عکرمہ اور حضرت ابو العالیہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ” ولم تجدوا کتابا پڑھا ہے (
4
) (الکشاف جلد
1
، مکتب الاعلام الاسلامی) ابوبکر انباری نے کہا ہے : حضرت مجاہد نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور فرمایا ہے : اس کا معنی ہے پس اگر تم دوران سفر سیاہی نہ پاؤ اور حضرت ابن عباس ؓ سے کتابا بھی مروی ہے (
5
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
386
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) نحاس نے کہا ہے : یہ قرات شاذ ہے اور قرات عامہ اس کے خلاف ہے، اور بہت کم ہی کوئی شے قرات عامہ سے خارج ہوتی ہے مگر اس میں طعن ہوتا ہے اور کلام تو کاتب کے بارے چل رہی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” ولیکتب بینکم کاتب بالعدل “۔ ترجمہ : اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا عدل و انصاف کے ساتھ لکھے “۔ اور کتاب پوری جماعت کا تقاضا کرتا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : کتاب اس اعتبار سے حسین ہے کہ ہر مصیبت کے لئے ایک کاتب ہو، پس یہ جمع کے لئے کہا گیا ہے : ولم تجدوا، کتاب، (اور تم لکھنے والے نہ پاؤ) مہدوینے ابو العالیہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کتبا پڑھا ہے اور یہ کتاب کی جمع ہے اس حیثیت سے کہ نوازل (مصائب) مختلف ہیں، اور رہی حضرت ابی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قراۃ کتابا تو نحاس اور مکی نے کہا ہے : یہ کاتب کی جمع ہے جیسے قائم و قیام ہے، مکی نے کہا ہے معنی یہ ہے :” اور اگر دوات، قلم اور قرطاس موجود نہ ہوں اور لکھنے والے کے وجود کی نفی اس آلہ کے معدوم ہونے کے ساتھ ہوتی ہے جو متفق علیہ ہے اور کاتب کی نفی بھی کتاب کی نفی کا تقاضا کرتی ہے پس دونوں قراتیں حسین اور اچھی ہیں مگر مصحف کے خط کی جہت سے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
386
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فرھن مقبوضۃ “۔ ابو عمر اور ابن کثیر نے فرھن را اور ھا کے ساتھ پڑھا ہے اور ان دونوں سے ھا کی تخفیف بھی مروی ہے اور طبری نے کہا ہے : ایک قوم نے یہ تاویل کی ہے کہ رھن را اور ھا کے ضمہ کے ساتھ رھان کی جمع ہے اور وہ جمع الجمع ہے، اسے زجاج نے فراء سے بیان کیا ہے : (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
387
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) اور مہدوی نے کہا ہے : فرھان مبتدا ہے اور خبر محذوف ہے اور معنی ہے فرھان مقبوضۃ یکفی من ذالک (تو کوئی چیز گروی رکھ لیا کرو اور اس پر قبضہ دے دیا کرو اس میں یہ کافی ہوجائے گا) نحاس نے کہا ہے : عاصم بنابی النجود نے فرھن ھا کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے اور وہ اہل مکہ سے روایت کرتے ہیں اس میں باب رھان ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے : بغل وبغال، (خچر) کبش وکباش (مینڈھا) اور رھن اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ رھان کی جمع ہو، مثلا کتاب اور کتب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ رھن کی جمع ہے، جیسا کہ سقف اور سقف، حلق، اور حلق، فرش اور فرش، ، نشر اور نشر اور ان کے مشابہ دیگر الفاظ، اور رھن ھا کے سکون کے ساتھ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ضمہ ثقیل ہونے کے وجہ سے حذف کردیا گیا ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ رھن کی جمع ہے، مثلا سھم حشر یعنی باریک اور تیز تر۔ اور سھام حشر اور پہلا زیادہ اولی ہے، کیونکہ پہلا نعت (صفت) نہیں ہے اور یہ صفت ہے۔ اور ابو علی فارسی نے کہا ہے اور رھن کی جمع مکسر جمع قلت کے وزن پر میں نہیں جانتا کہ آئی ہو، اور اگر آئے تو اس کا قیاس افعل ہے جیسے کلب اور اکلب ہے، گویا کہ وہ قلیل کے سبب کثیر سے مستغنی ہیں، جیسا کہ جمع کثرت کے وزن کے ساتھ جمع قلت کے وزن سے اس قول میں مستغنی ہیں، پس رھن دونوں وزنوں پر جمع بنائی جاتی ہے اور وہ دونوں فعل اور فعال ہیں، اخفش نے کہا ہے : فعل کی جمع فعل کے وزن پر قبیح ہے اور یہ قلیل اور شاذ ہے، فرمایا : اور کبھی رھان کی جمع رھن آئی ہے، گویا کہ رھن کی جمع رھان بنائی جاتی ہے اور رھان کی جمع رھن بنائی جاتی ہے جیسا کہ فراش اور فرش ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) رھن کا معنی ہے کسی حق کے عوض توثیق اور اعتماد کے لئے کسی خاص چیز کو روک لینا تاکہ اس کے ثمن کی تعریف بیان کی ہے اور یہ عرب کلام میں بمعنی دوام اور استمرار ہے، ابن سیدہ نے کہا ہے : ورھنہ ای ادامہ یعنی اس نے اسے ہمیشہ رکھا، اور یہ رھن بمعنی دام سے ہے۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : الخبز واللحم لھم راھن وقھوۃ راو وقھا ساکب (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
386
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) اس میں راہن ہمیشہ رہنے والا کے معنی میں استعمال ہورہا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : رھن الشیء رھنا۔ ای دام یعنی شے ہمیشہ ری اور اھنت لھم الطعام والشراب اور میں نے ان کے لئے طعام و شراب ہمیشہ رکھا، وھو طعام راھن اور الراھن کا معنی الثابت (یعنی ثابت رہنے والا، ہمیشہ رہنے والا) اور الراھن کا معنی ہے اونٹوں اور لوگوں میں سے کمزور ہونے والا۔ شاعر کا قول ہے : اما تری جسمی خلا قد رھن ھزلا وما مجد الرجال فی السمن : اس میں رہن کمزور کے معنی میں مستعمل ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : وہ رہن جو کہ وثقیہ اور اعتماد کے معنی میں ہے کہا جاتا ہے وہ الرھن سے ہے، ارھنت ارھانا (میں نے شے گروہ رکھی) اسے ان میں سے بعض نے بیان کیا ہے۔ اور ابو علی نے کہا ہے : ارھنت فی الغالاۃ (میں نے مہنگائی میں اضافہ کردیا) اور رہی قرض اور بیع کی صورت تو اس میں ہے فرھنت۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
387
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) (پس میں نے قرض اور بیع کے عوض شے گروی رکھی
9
اور ابو زید نے کہا ہے : ارھنت فی السلعۃ ارھانا (میں نے سامان کی قیمت خوب چڑھا دی) اور یہ مہنگائی کے معنی میں خاص ہے۔ کسی شاعر کا قول ہے : عیدیہ میں دنانیر بڑھا دیئے گئے ہیں : شایر اونٹنی کا وصف بیان کر رہا ہے اور العید مھرہ کا ایک قبیلہ ہے اور مھرہ کے اونٹ بڑے عمدہ اور اعلی نسل کے ہوتے ہیں۔ اور زجاج نے کہا ہے : گروی رکھنے کے معنی میں کہا جاتا ہے : رھنت اور ارھنت (میں نے گروی رکھی) ابن اعرابی اور اخفش نے یہی کہا ہے۔ عبداللہ بن ہمام السلولی نے کہا ہے : فلما خشیت اظافیرھم نجوت وارھنتھم مالکا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
387
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) اس میں ارھنتم گروی رکھنے کے معنی میں ہے۔ تعلب نے کہا ہے : تمام رواۃ نے ارھنتم کہا ہے اس بنا پر کہ رھنتہ اور ارھنتہ دونوں جائز ہیں سوائے اصمعی کے کیونکہ انہوں نے اسے وارھنھم روایت کیا ہے، اس بنا پر کہ انہوں نے فعل مضارع کا عطف فعل ماضی پر کیا ہے اور اسے ان کے اس قول کے مشابہ قرار دیا ہے۔ : قمت واصک وجھہ اور یہ مذہب حسن اور اچھا ہے، کیونکہ وہ واؤ حالیہ اور اصک کو پہلے فعل کے لئے حال بنایا گیا ہے اس معنی کی بنا پر قمت صاعا وجہ یعنی میں نے اسے چھوڑا درآنحالیکہ اوہ ان کے پاس مقیم تھا، کیونکہ یہ نہیں کہا جاتا : ارھنت الشیء “ بلکہ یہ کہا جاتا ہے : رھنۃ (میں نے شے گروی رکھی) اور آپ کہتے ہیں : رھنت لسانی بکذا (میں نے اپنی زبان اتنے کے عوض گروی رکھ دی) اور اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا، ارھنت اور ابن السکیت نے کہا ہے : اس میں ارھنت بمعنی اسلفت ہے۔ (یعنی میں نے قرض دیا) اور مرتھن وہ ہوتا ہے جو گروی کے طور پر شے لیتا ہے اور وہ شے جو گروی رکھی جائے وہ مرھون اور رھین کہلاتی ہے اور اس کی مؤنث رھینۃ ہے اور راھنت فلانا علی کذا امراھنۃ کا معنی ہے میں نے فلاں کو اتنے کی شرط پر خطرے میں ڈال دیا (ای خاطرتہ) اور ارھنت بہ ولدی ارھانا ای اخطرتھم بہ خطرا۔ یعنی میں نے اس کے عوض اپنی اولاد کو خطرے میں ڈال دیا۔ (یعنی شرط پر رکھ دیا) اور الرھینۃ الرھائن کی واحد ہے، یہ تمام جوہری سے منقول ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : بیع اور قرض کے معاملہ میں بلا اختلاف کہا جائے گا : رھنت رھنا، پھر اسی صدر سے اس شے کا نام رکھ دیا گیا ہے جودی جاتی ہے۔ تو کہتا ہے : رھنت رھنا، جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے رھنت ثوبا۔ (
1
) مسئلہ نمبر : (
6
) ابو علی نے کہا ہے جب رہن بمعنی ثبوت اور دوام ہے تو اسی وجہ سے فقہاء کے نزدیک رہن باطل ہوجاتی ہے جب وہ کسی وجہ سے مرتہن کے قبضے سے نکل کر راہن کے پاس چلی جائے، کیونکہ وہ اس سے نکل چکی ہے جو اختیار مرتھن کو اس کے بارے دیا گیا تھا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
386
دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) میں (مفسر) کہتا ہوں : ہمارے نزدیک اس بارے میں یہی معتمد علیہ ہے کہ رہن جب راہن کی طرف مرتہن کے اختیار سے لوٹ جائے تو رہن باطل ہوجائے گی اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے بھی یہی کہا ہے مگر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ عاریۃ ودیعۃ (امانت کے طور پر) لوٹے تو پھر رہن باطل نہ ہوگی۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس کا راہن کے قبضہ کی طرف لوٹنا مطلق سابقہ حکم کو باطل نہیں کرتا اور ہماری دلیل فرھن مقبوضۃ ہے پس جب مرھونہ شی قابض کے ہاتھ سے نکل جائے تو یہ الفاظ نہ لغۃ اس پر صادق آتے ہیں اور نہ ہی حکما اس پر صادق آتے ہیں اور یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) جب کوئی قولا گروی رکھے اور فعلا اس پر قبضہ نہ کرے تو وہ حکما ثابت نہ ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فرھن مقبوضۃ “۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے صرف اس رہن کا حکم ارشاد فرمایا ہے جو موصوف بالقبض ہو اور جب صفت نہ پائی جائے تو پھر ضروری ہے کہ حکم بھی نہ پایا جائے (
3
) (احکام القرآن جلد،
1
، صفحہ
260
۔ اور یہ بالکل عیاں اور ظاہر ہے۔ اور مالکیہ نے کہا ہے : رہن عقد کے ساتھ لازم ہوجاتی ہے اور رہن کو رہن دینے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ مرتہن اسے خاص کرسکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ (المائدہ :
1
) ترجمہ ؛ پورا کرو (اپنے) عہدوں کو۔ اور یہ بھی ایک عقد ہے اور مزید ارشاد ہے : (آیت) ” اوفوا بالعھد “۔ (الاسراء
34
) ترجمہ : وعدہ پورا کرو۔ اور یہ بھی ایک عہد ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ” المؤمنون عند شروطھم “۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الاجارۃ جلد
1
، صفحہ
303
، وزارت تعلیم، سنن ابی داؤد کتاب الاقضیہ، حدیث
3120
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (مومنین اپنی شروط کے ساتھ ہوتے ہیں) اور یہ بھی ایک شرط ہے، پس ہمارے نزدیک قبضہ کمال فائدہ کے لئے شرط ہے اور ان دونوں ائمہ کے نزدیک قبضہ اس کے صحیح ہونے اور لازم ہونے کے لئے شرط ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” مقبوضۃ “۔ یہ لفظ مرتھن کی رہن کے ساتھ بینونت اور علیحدگی کا تقاضا کرتا ہے اور لوگوں نے مرتہن کے قبضہ کے صحیح ہونے پر اجماع کیا ہے اور اسی طرح اس کے وکیل کے قبضہ پر (بھی اجماع ہے) اور عادل آدمی کے قبضہ کے بارے اختلاف ہے جو رہن کو اس کے ہاتھوں پر رکھے گا، پس امام مالکرحمۃ اللہ علیہ آپ کے تمام اصحاب اور جمہور علماء نے کہا ہے : عادل کا قبضہ کرنا قبضہ ہے اور ابن ابی لیلی، قتادہ، حکم اور عطا رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : وہ قبضہ نہیں ہے اور رہن مقبوض نہیں ہوگی مگر تب جب وہ مرتہن کے پاس ہو اور انہوں نے اسے تعبدا دیکھا ہے، اور جمہور کا قول معنی کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ جب وہ عادل کے پاس ہوگیا تو وہ لغۃ اور حقیقۃ مقبوض ہوگیا، کیونکہ عادل آدمی صاحب حق کا نائب ہے اور وہ قائم مقام وکیل کے ہے اور یہ ظاہر ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اور اگر رہن کو عادل آدمی کے قبضہ میں رکھ دیا جائے اور وہ ضائع ہوجائے تو نہ مرتہن ضامن ہوگا اور نہ وہ جس کے قبضہ میں اسے رکھا گیا، کیونکہ مرتہن کے قبضہ میں تو کوئی شے نہیں آئی جس کا وہ ضامن ہوگا اور جس کے قبضہ میں وہ شے دی گئی ہے وہ امین ہے اور امین ضامن نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (
10
) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” مقبوضۃ “۔ تو ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ لفظ اپنے ظاہر اور مطلق ہونے کے ساتھ تقاضا کرتا ہے کہ مشترک شے کو رہن رکھنا جائز ہے، بخلاف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علہیم اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم کے (
2
) (احکام القرآن جلد
1
صفحہ
261
) ان کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی گھر کا تیسرا حصہ، اپنے غلام اور تلوار کا نصف حصہ بطور رہن رکھے، پھر انہوں نے کہا ہے : جب دو آدمیوں کا ایک آدمی پر مال (قرض) ہو اور وہ دونوں اس میں شریک ہوں اور وہ آدمی اس کے عوض دونوں کے پاس زمین رہن رکھ دے تو وہ جائز ہے بشرطیکہ دونوں اس پر قبضہ کرلیں۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہ مشترک شے کو رہن رکھنے کی اجازت ہے، کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نصف گھر کا مرتہن ہے، ابن منذر نے کہا ہے : مشترک شے کو رہن رکھنا جائز ہے جیسا کہ اسے بیچنا جائز ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) ہمارے علماء کے نزدیک جو شے ذمہ میں ہو اس کو گروی رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ وہ بھی مقبوض ہے بخلاف ان کے جنہوں نے اس سے منع کیا ہے اور اس کی مثال یہ ہے دو آدمی مل کر کاروبار کریں ان میں سے ایک کا دوسرے کے ذمہ قرض ہو، پس اس نے اپنا وہی قرض اس کے پاس رہن رکھ دیا جو اس کے ذمہ واجب الادا ہو، ابن خویز منداد نے کہا ہے : ہر وہ سامان جس کی بیع کرنا جائز ہے اس کو رہن رکھنا بھی جائز ہے اور اسی علت کی وجہ سے ہم نے اس شے کو رہن رکھنا جائز قرار دیا ہے جو مرتہن کے ذمہ واجب الاداہو، کیونکہ اس کی بیع جائز ہے اور اس لئے بھی کہ وہ مال ہے اس کے ساتھ توثیق واقع ہوسکتی ہے تو پھر اس کا رہن ہونا بھی جائز ہے (تو گویا اسے) موجودسامان پر قیاس کیا گیا ہے۔ اور جنہوں نے اس سے منع کیا ہے انہوں نے کہا ہے : کیونکہ اس پر قبضہ کرنا متحقق نہیں ہوتا اور رہن کے لازم ہونے میں قبضہ کرنا شرط ہے اور اس لئے بھی کہ قرض کی میعاد مکمل ہونے کے وقت اس سے حق پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حق کا استیفا اس کی مالیت سے ہوتا ہے نہ کہ اس کے عین سے اور دین میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ نمبر : (
12
) امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” سواری پر اس کے نفقہ کے عوض سوار ہوا جاسکتا ہے جبکہ وہ رہن رکھی ہوئی اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ اس کے نفقہ کے عوض پیا جاسکتا ہے جب مرہونہ ہو اور جو سوار ہوگا اور دودھ پئے گا اسی پر نفقہ ہوگا (
1
) (صحیح بخاری، کتاب البیوع، جلد
1
، صفحہ
341
، وزارت تعلیم، ایضا، کتاب الرہن جلد
1
، صفحہ
2329
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو داؤد نے بھی نقل کیا ہے اور دونوں جگہوں پر یشرب کی بجائے یحلب (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
141
، وزارت تعلیم، ایضا کتاب الاجارہ، جلد
2
، صفحہ
3059
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (دودھ دوہنا) کا لفظ ذکر کیا ہے۔ خطابی نے کہا ہے : یہ کلام مبہم ہے نفس لفظ میں اس کا بیان نہیں ہے جو سوار ہوگا اور دودھ دوہے گا کیا وہ راہن ہے یا مرتہن ہے یا وہ عادل آدمی ہے جس کے قبضہ میں مرہونہ شے دی گئی ؟ میں (مفسر) کہتا ہوں : دو حدیثوں میں مبین مفسر ذکر آیا ہے اور انہیں کے سبب علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے، دارقطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ” جب کوئی جانور گروی رکھا جائے تو اس کا چارہ مرتہن پر ہو گا اور وہ دودھ دوہ کر پی سکتا ہے اور اسی پر اس کا نفقہ ہوگا جو دودھ پئے گا (
3
) (سنن دارقطنی، جلد
3
، صفحہ
34
، حدیث نمبر
135
، وزارت تعلیم۔ آپ نے اسے احمد بن علی حدثنا زیاد بن ایوب حدثنا ھثیم حدثنا زکریا عن الشعبی عن ابی ہریرہ ؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق کا قول ہے کہ مرتھن بقدر نفقہ مرہونہ جانور کا دودھ دوھ کر اور اس پر سواری کرکے اس سے نفع اٹھا سکتا ہے۔ اور ابو ثور نے کہا ہے : جب راہن اس پر خرچ کرتا ہے تو پھر مرتہن اس سے نفع نہیں اٹھا سکتا اور اگر راہن اس پر خرچہ نہ کرے اور اسے مرتہن کے قبضہ میں چھوڑ دے اور وہی اس پر خرچہ کرے تو اس کے لئے اس پر سوار ہونا اور غلام سے خدمت لینا جائز ہے، اور امام اوزاعی اور لیث نے بھی یہی کہا ہے اور دوسری حدیث بھی دارقطنی نے روایت کی ہے اور اس کی اسناد میں کلام ہے اس کا بیان آگے آئے گا۔ اسماعیل بن عیاش کی حدیث میں سے ہے کہ ابن ابی ذئب نے زہری سے انہوں نے مقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :” رہن ملکیت میں نہیں آئے گی اور اس کے مالک کے لئے اس کے منافع ہیں اور اس پر اس کا تاوان ہے۔ (
1
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
1
، صفحہ
528
) اور یہی امام شافعی، شعبی اور ابن سیرین کا قول ہے اور یہی امام مالک اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔ امام شافعی ؓ نے کہا ہے : رہن کے منافع راہن کے لئے ہیں اور اس کا نفقہ بھی اسی پر ہے اور مرتھن رہن سے کسی قسم کی منفعت حاصل نہیں کرسکتا سوائے وثیقہ کی حفاظت کرنے کے۔ خطابی نے کہا ہے : یہی اقوال میں سے اولی اور زیادہ صحیح ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : ” رہن ملکیت میں نہیں آئے گا وہ اپنے اس مالک کے لئے ہوگا جس نے اسے رہن رکھا ہے۔ (اسی کے لئے اس کے منافع ہیں اور اسی پر اس کا تاوان (خرچہ) ہے ) “ (خطابی نے کہا : آپ ﷺ کا قول : من صاحبہ، لصاحبہ کے معنی میں ہے۔ ) عرب لام کی جگہ من استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا قول ہے : امن ام اوفی دمنۃ لم تکلم : میں (مفسر) کہتا ہوں : لصاحبہ صراحۃ موجود ہے لہذا تاویل کی ضرورت نہیں اور امام طحاوی نے کہا ہے : یہ اس وقت تھا جبکہ ربا مباح تھا اور منفعت لانے والے قرض سے منع نہیں کیا گیا تھا اور نہ ایک شے کے بدلے دوسری شے لینے سے منع کیا گیا تھا اگرچہ وہ دونوں غیر متساوی ہوں، پھر اس کے بعد ربا حرام کردیا گیا، اور امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مرہونہ لونڈی کے ساتھ راہن کے لئے وطی کرنا جائز نہیں اور اسی طرح اس کا اس سے خدمت لینا بھی جائز نہیں، اور علامہ شعبی نے کہا ہے : وہ رہن سے کسی بھی اعتبار سے نفع حاصل نہیں کرے گا اور یہی شعبی ہیں جنہیں نے حدیث روایت کی ہے اور اس کے خلاف فتوی دیا ہے اور ان کے نزدیک وہ جائز نہیں مگر وہ منسوخ ہوچکا ہے، ابن عبدالبر نے کہا ہے : اس پر اجماع ہے کہ مرہونہ شے کا دودھ اور اس کی پشت راہن کے لئے ہے اور وہ اس سے خالی نہیں ہوگا کہ مرتہن کا اپنے لئے دودھ دوہنا راہن کی اجازت کے ساتھ ہوگا یا اس کی اجازت کے بغیر ہوگا، پس اگر اس کی اجازت کے بغیر ہو تو حضور نبی کریم ﷺ سے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے : ” کوئی بھی کسی کے جانور کا دودھ نہ دوہے مگر اس کیا اجازت کے ساتھ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب اللقطہ، جلد
2
، صفحہ
80
وزارت تعلیم، صحیح بخاری، کتاب اللقطہ، حدیث نمبر
2255
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ اس کا رد کرتی ہے اور اس کے نسخ کا تقاضا کرتی ہے اور اگر اجازت کے ساتھ ہو تو پھر مجہول، غرر، اس شے کی بیع جو تیرے پاس نہ ہو اور اس کی بیع جو ابھی پیدا نہیں کی گئی کی تحریم کے بارے میں مجمع علیہ اصول ہے، چناچہ یہ بھی اسے رد کر دے گا کیونکہ ایسا ربا کے حرام ہونے کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھا، واللہ اعلم۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : اگر مرتہن نے رہن سے نفع اٹھانے کی شرط لگا لی تو اس کی دو حالتیں ہیں : اگر وہ قرض کے عوض ہو تو پھر جائز نہیں ہے اور اگر وہ بیع یا اجارہ کی وجہ سے ہو تو جائز ہے، کیونکہ وہ مذکور ثمن کے عوض سامان کو بیچنے والا ہوجائے گا اور رہن کے منافع مدت معلوم تک ہیں گویا کہ وہ بیع اور اجارہ ہے اور جہاں تک قرض کا تعلق ہے تو وہ ایسا قرض ہوجائے گا جو منفعت کو لایا ہے اور اس لئے بھی کہ قرض دینے کا مقصود تو یہ ہے کہ وہ باعث قربت ہو اور جب اس میں نفع داخل ہوجائے گا تو وہ جنس میں زیادتی ہوجائے گی اور وہی ربا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) رہن کا ملکیت میں آنا جائز نہیں اور وہ یہ کہ مرتہن شرط لگا لے کہ مرہونہ شے اس سے حق کے عوض ہوجائے گی اگر اس نے مقررہ مدت تک وہ حق ادا نہ کیا اور یہ جاہلیت کے افعال میں سے تھا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ساتھ باطل کردیا، لا یغلق الرھن (
1
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
1
، صفحہ
528
) رہن ملکیت میں نہیں آئے گی، اسی طرح ہم نے اسے قاف کو رفع دینے کے ساتھ خبر پر مقید کردیا ہے، یعنی لیس یغلق الرھن، آپ کہتے ہیں : اغلقت الباب فھو مغلق، (میں نے دروازہ بند کیا پس وہ بند ہوگیا) اور غلق الرھن فی ید مرتھنہ ‘ یہ تب کہا جاتا ہے جب اسے اس کے قبضہ چھڑایا نہ جاسکے جیسا کہ شاعر نے کہا : اجارتنا من یجتمع یتفرق ومن یک رھنا للحوادث یغلق۔ اور زہیر نے کہا ہے : وفارقتکبرھن لا فکاک لہ یوم الوداع فامسی الرھن قد غلقا (
2
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
1
، صفحہ
528
) مسئلہ نمبر : (
14
) دارقطنی نے سفیان بن عیینہ کی حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے زیاد بن سعد سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” رہن ملکیت میں نہیں آئے گی اسی کے لئے اس کے منافع ہوں گے اور اسی پر اس کا تاوان (اخراجات) ہوگا (
3
) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد
3
، صفحہ
33
) زیاد بن سعد ثقہ حفاظ میں سے ایک ہیں اور یہ اسناد حسن ہے اور اسے مالک نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے مرسل روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” رہن ملکیت میں نہیں آئے گی (
4
) (مؤطا امام املک، کتاب الاقضیہ، صفحہ
637
) ۔ ابو عمر (رح) نے کہا ہے : اسی طرح اسے روایت کیا ہے ہر اس راوی نے جس نے امام مالک (رح) سے المؤطا روایت کی ہے جہاں تک میں جانتا ہوں، مگر معن بن عیسیٰ نے اسے متصل بیان کیا ہے اور معن ثقہ راوی ہے مگر مجھے یہ خدشہ ہے کہ اس میں علی بن عبد الحمید غضائری عن مجادہ بن موسیٰ عن معن بن عیسیٰ سے خطا ہوئی ہے، اور اس میں ابو عبداللہ عمروس نے ابہری سے اپنی اسناد کے ساتھ ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : لہ غنمہ وعلیہ غرمہ (
5
) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، جلد
3
، صفحہ
33
) اور راویوں نے ان الفاظ کے رفع میں اختلاف کیا ہے، سو ابن ابی ذئب اور معمر وغیرہما نے انہیں مرفوع قرار دیا ہے اور اسے ابن وہب نے روایت کیا ہے اور کہا : یونس نے کہا ابن شہاب نے بیان کیا ہے اور حضرت سعید بن مسیب ؓ کہتے تھے : رہن اسی کے لئے جس نے اسے رہن رکھا ہے، اسی کے لئے اس کے منافع ہیں اور اسی پر اس کا خرچہ ہے۔ اور ابن شہاب نے خبر دی ہے کہ یہ حضرت سعید بن مسیب ؓ کا قول ہے حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی نہیں ہے۔ (
1
) (احکام القرآن للجصاص جلد
1
، صفحہ
528
) مگر معمر نے اسے ابن شہاب سے مرفوع ذکر کیا ہے اور معمر ابن شہاب سے روایت کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر مضبوط اور ثقہ ہے اور اس کے مرفوع ذکر کیا ہے اور معمر ابن شہاب سے راویت کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر مضبوط اور ثقہ ہے، اور اس کے مرفوع ہونے پر یحی بن ابی انیسہ نے ان کی اتباع کی ہے، اور یحی قوی راوی نہیں ہے۔ دراصل اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مرسل منقول ہے، اگرچہ جہتوں سے یہ متصل بھی ہے لیکن وہ اسے معلل قرار دیتے ہیں اور اس کے باوجود یہ حدیث ہے جسے ان میں سے کسی نے مرفوع بیان نہیں کیا اگرچہ اس کی تاویل اور اس کے معنی میں اختلاف ہے۔ اور اسے دارقطنی نے بھی اسماعیل بن عیاش عن ابن ابی ذئب عن الزھری عن سعید عن ابی ہریرہ ؓ کی سند سے مرفوع بیان کیا ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : اسماعیل نے ابن ابی ذئب سے اس کا سماع نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے اسے عباد بن کثیر عن ابن ابی ذئب سے سنا ہے اور عباد ان کے نزدیک ضعیف ہے، قابل حجت نہیں ہے، اور اساعیل بھی ان کے نزدیک حدیث میں غیر مقبول ہے جب وہ اپنے شہر والوں کے علاوہ کسی اور سے حدیث بیان کرے، اور جب وہ شامیوں سے حدیث بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے اور جب وہ اہل مدینہ وغیرہم سے حدیث بیان کرے تو اس کی حدیث میں بہت زیادہ خطا اور اضطراب ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) رہن کی نمو اور بڑھوتری اس کے ساتھ داخل ہوتی ہے اگر وہ ایسی ہو جسے الگ نہ کیا جاسکتا ہو جیسا کہ اس کا موٹا تازہ ہونا یا وہ نسل ہو جیسا کہ ولادت اور جنین اور وہ جو اس معنی میں ہو جیسا کہ کھجور کے پودوں کو ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا اور جو ان کے سوا ہو مثلا غلہ، پھل، دودھ اور اون وغیرہ یہ اس میں داخل نہ ہوں گے مگر یہ کہ وہ (مرتہن) اس کی شرط لگا لے، اور ان دونوں قسموں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اولاد زکوۃ میں ماؤں کے تابع ہوتی ہے اور اون، دودھ اور درختوں کا پھل اس طرح نہیں ہیں، کیونکہ یہ زکوۃ میں اصل کے تابع نہیں ہیں اور نہ ہی یہ اس کی صورت میں ہیں اور نہ اس کے معنی میں اور نہ یہ اس کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں، پس ان کا اپناحکم ہے ان کے لئے اصل کا حکم نہیں ہے، بخلاف بچے اور جنین کے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مسئلہ نمبر : (
16
) اور اس آدمی کا رہن رکھنا جائز ہے جس کے مال کو قرض محیط ہو جب تک کہ وہ اسے مفلس قرار نہ دے اور مرتہن قرض خواہوں کی نسبت رہن کا زیادہ حق رکھتا ہے، امام مالک (رح) اور لوگوں کی ایک جماعت نے یہی کہا ہے اور امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ اور عبدالعزیزبن ابی سلمہ نے یہ کہا ہے کہ قرض خواہ مرتہن کے ساتھ اس میں داخل ہوں گے اور یہ کوئی شے نہیں ہے، کیونکہ وہ جس پر پابندی عائد نہ کی گئی ہو تو اس کے تصرفات بیع وشراء میں سے تمام احوال میں صحیح ہوتے ہیں اور قرض خواہوں نے اس شرط پر اس کے ساتھ معاملہ کیا کہ وہ خرید وفروخت کرے اور (قرض) ادا کرے، اس باب میں امام مالک (رح) کا قول مختلف نہیں ہے اور رہن بھی اسی طرح ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
17
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان امن بعضکم بعضا “۔ الایۃ یہ شرط ہے اور اس کے ساتھ اس کی وصیت کو مربوط کیا گیا ہے جس پر ادا کرنے اور ٹال مٹول ترک کرنے کا حق ہے، یعنی اگر وہ جس پر حق ہے صاحب حق کے نزدیک امین اور ثقہ ہو تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی امانت اسے ادا کر دے، اور قولہ (آیت) ” فلیؤد “ یہ الادا سے ماخوذ ہے اور مہموز ہے۔ (اور یہ جواب شرط ہے) اور ہمزہ کی تخفیف بھی جائز ہے، اور ہمزہ کو واؤ کی صورت میں نقل کیا گیا ہے اور اسے الف سے نہیں بدلا گیا اور نہ ہی بین بین بنایا گیا ہے، کیونکہ الف کا ماقبل صرف مفتوح ہو سکتا ہے اور یہ امر وجوب کے معنی میں ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی واجب ہونے پر اجماع ہے اور اس بارے میں حاکم کے حکم کے ثبوت پر اور اس کے مقروضوں کو اس پر جبر کرنے پر اجماع ہے اور مزید قرینہ غیر کا مال حرام ہونے میں صحاح کی احادیث ہیں۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر
6891
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
18
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” امانتہ “ الامانۃ مصدر ہے اور اس کے ساتھ اس شے کا نام رکھا گیا ہے جو کسی کے ذمہ ہو، اور اس کی اضافت اس کی طرف ہے جس پر قرض ہے۔ اس حیثیت سے اس کی اس طرف ایک نسبت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ولا تؤتوا السفآہء اموالکم “۔ (النساء
5
) اور نہ دین دو نادانوں کو اپنے مال۔ مسئلہ نمبر : (
19
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولیتق اللہ ربہ “ اور اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اس بارے میں کہ وہ حق میں سے کوئی شے نہ چھپائے۔ اور قولہ : (آیت) ” ولا تکتموا الشھادۃ “ یہ قول باری تعالیٰ : ولا یضارر عین کلمہ کے کسرہ کے ساتھ کی تفسیر ہے اور شاہد کو اس سے منع کیا گیا ہے، کہ وہ شہادت چھپانے کے ساتھ ضرر پہنچائے اور یہ نہی متعدد قرائن کے ساتھ وجوب پر دلالت کرتی ہے، اور ان سے ایک وعید ہے اور نہی کا محل وہاں ہے جہاں شاہد کو حق کے ضائع ہونے کا خوف ہو، اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : شاہد پر شہادت دینا لازم ہے جہاں اسے شہادت دینے کے لئے کہا جائے اور وہاں وہ خبر دے جہاں اس سے خبر کا مطالبہ کیا جائے، فرمایا : اور تو یہ نہ کہہ اخبربھا عند الامیر (میں اس کے بارے امیر کے پاس خبر دوں گا) بلکہ (یہ کہہ) اخبرھا بھا (میں اسے اس کے بارے خبر دوں گا) شاید وہ رجوع کرلے اور واپس لوٹ آئے، ) ابو عبدالرحمن نے ولا یکتموا یا کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے نہی للغائب بنایا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) جب حق پر گواہ موجود ہوں تو ان پر اس کی ادائیگی کفایۃ متعین ہے پس اگر دو اسے ادا کردیں اور حاکم انہیں دو پر اکتفا کرلے تو باقیوں سے فرض ساقط ہوجائے گا اور اگر وہ اس کے ساتھ اکتفا نہ کرے تو اسے جاری رکھنا متعین ہے، یہاں تک کہ اثبات واقع ہوجائے، اور یہ صاحب حق کی دعوت کے ساتھ معلوم ہو سکتا ہے پس جب وہ اس کو کہے : تو میرا حق زندہ (ثابت) کر دے اس شہادت کو ادا کر کے جو میرے لئے تیرے پاس ہے تو وہ اس پر متعین ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (
21
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ “۔ اس میں دل کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کیونکہ چھپانا اس کے افعال میں سے ہے اور کیونکہ وہ ایک ایسا گوشت کا ٹکڑا ہے جس کی اصلاح سے سارے کا سارا بدن اصلاح پا لیتا ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا (
2
) (صحیح بخاری، کتاب ایمان جلد،
1
صفحہ
13
، وزارت تعلیم) پس یہاں کل بدن کو بعض کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے (اور یہ اول سورة ) میں گزر چکا ہے، اور ال کیا نے کہا ہے : جب اس نے اس کا قصد کیا کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا اور شہادت کی ادائیگی زبان سے ترک کردی تو گناہ اکٹھا دونوں وجہوں کی طرف راجع ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” اثم قلبہ “ یہ مجاز ہے اور یہ حقیقۃ وعید پر دلالت کو پختہ کرنے والا ہے اور یہ معانی کے اعتبار سے بیان کی عمدگی اور اعراب کی لطافت میں سے ہے، کہا جاتا ہے : دل کا گناہ اسے مسخ کرنے کا سبب ہے اور اللہ تعالیٰ جب دل کو مسخ کردیتا ہے تو وہ اسے منافق بنا دیتا ہے اور اس پر مہر لگا دیتا ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔ (اور اس کا بیان سورت کی ابتدا میں آچکا ہے) اور قلبہ، اثم کی وجہ سے مرفوع ہے اور اثم ان کی خبر ہے اور اگر چاہے تو اثم کو مبتدا ہونے کے سبب رفع دے لے اور قلبہ فاعل سد مسد الخبر بن جائے گا اور پھر جملہ ان کی خبر ہوگا، اور اگر چاہے تو آثم کو رفع دے اس بنا پر کہ یہ مبتدا مؤخر کی خبر ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قلبہ اثم سے بدل بعض من الکل ہو، اور اگر چاہے تو اسے اثم کی ضمیر سے بدل بنا لے۔ چوبیس مسائل کی تکمیل اور تتمہ کین طور پر میں نے یہاں تین مسائل بیان کئے ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے شہادت اور کتابت کا جو حکم فرمایا ہے یہ دونوں فریقوں کی اصلاح اور منافع کے لئے ہے اور ایسے فساد اور تنازع کی نفی کے لئے ہے جو دونوں کو باہمی فساد اور خرابی تک پہنچانے والا ہے، تاکہ شیطان اسے حق کا انکار کرنے اور شریعت نے اس کے لئے جو حد مقرر کی ہے اس سے تجاوز کرنے یا مقدار مستحق پر اقتصار کو ترک کرنے پر نہ اکسائے اور اسی وجہ سے شریعت نے ان مجہول چیزوں کی بیع کرنے کو حرام قرار دیا ہے جن میں عادت اور رواج یہ ہو کہ وہ فریقین کو فساد اور اختلاف تک پہنچا دیتی ہوں اور وہ باہمی کینہ اور ایک دوسرے سے جدائی واقع کرنے والی ہوں، اور انہی میں سے وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ حرام قرار دیا ہے جوا اور شراب نوشی وغیرہ : (آیت) ” انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضآء فی الخمر والمیسر “۔ (المائدہ :
91
) ترجمہ : یہی تو چاہتا ہے شیطان کہ ڈال دے تمہارے درمیان عدوات اور بغض شراب اور جوئے کے ذریعہ۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے اوامروزواجر کے بارے میں اس کے ادب سکھانے کے ساتھ ادب سیکھ لیا اس نے دین اور دنیا کے منافع جمع کر لئے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولو انھم فعلوا اما یوعظون بہ لکان خیرا الھم “۔ الآیہ۔ (النسا :
66
) ترجمہ : اور اگر وہ کرتے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ان کے لئے بہتر ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے لوگوں کے اموال اس ارادہ سے لئے کہ وہ انہیں ادا کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا (یعنی ادائیگی کے اسباب مہیا فرما دے گا) اور جس نے انہیں ضائع کرنے کے ارادہ سے لئے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع کر دے گا (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، جلد
1
، صفحہ،
321
، ایضا، حدیث نمبر
2212
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور نسائی نے حضرت میمونہ زوج النبی ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے قرض لیا، تو انہیں کہا گیا : اے ام المومنین ! آپ قرض لے رہی ہیں اور آپ کے پاس اسے ادا کرنے کے وسائل نہیں ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” جس نے قرض لیا اور وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کی معاونت فرمائے گا (
1
) (سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
232
) اور طحاوی، ابو جعفر طبری اور حارث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم نفسوں کو ان کے امن کے بعد خوفزدہ نہ کرو۔ “ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے ؟ فرمایا : ” وہ قرض ہے (
2
) “ (مسند احمد بن حنبل، جلد
4
، صفحہ
146
) اور بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے دعا میں اس طرح ذکر کیا : اللہم انی اعوذ بک من الھم والحزن والعجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال) (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، جلد
2
، صفحہ
942
۔ ایضا، حدیث نمبر
5005
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور حزن سے، عجز اور سستی، غفلت سے، بزدلی اور بخل سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے) علماء نے کہا : ضلع الدین “ سے مراد یہ ہے کہ مقروض ایسے وسائل نہ پائے کہ وہ قرض ادا کرسکے، اور یہ عربوں کے اس قول سے بنایا گیا ہے : حمل مضدع “ یعنی بہت بھاری اور ثقیل بوجھ اور دابۃ مضدع یعنی ایسا جانور جو بوجھ اٹھانے کی قوت نہ رکھتا ہو۔ صاحب العین نے یہی کہا ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : الدین شین الدین (
4
) (کنز العمال، جلد
6
، صفحہ
231
) (قرض دین کے لئے عیب ہے) اور آپ سے ہی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : الدین ھم باللیل ومذلۃ بالنھار “۔ (
5
) (قرض رات کا غم ہے اور دن کی ذلت ہے) ہمارے علماء نے کہا ہے بلاشبہ یہ عیب اور ذلت ہے کیونکہ اس میں دال و دماغ مشغول رہتے ہیں اور دائیگی کا غم اور فکرلازم رہتا ہے۔ اور مقروض کے لئے ملاقات کے وقت ذلت اور پستی کا سامنا ہوتا ہے اور اسے اپنے وقت تک مؤخر کرکے اس کا احسان برداشت کرنا ہے۔ اور بسا اوقات وہ اپنی طرف سے اسے پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر اس کے خلاف کرتا ہے یا مقروض اس کے سبب سے گفتگو کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے یا وہ اس کے لئے قسم کھاتا ہے اور اسے توڑ دیتا ہے، وغیر ذالک۔ اسی وجہ سے حضور ﷺ گناہ اور قرض سے پناہ مانگتے تھے۔ اور المغرم سے مراد قرض ہے، آپ ﷺ سے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ کیونکر آپ قرض سے اس قدر پناہ مانگتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک آدمی جب قرض ادا کرتا ہے تو وہ گفتگو کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وہ وعدہ کرتا ہے اور اس کا خلاف کرتا ہے۔ (
6
) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، جلد
1
، صفحہ
322
) اور یہ بھی کہ بسا اوقات وہ مر جاتا ہے اور وہ قرض ادا نہیں کرچکا ہوتا، پس وہ اس کے عوض گروی ہوجاتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” بندہ مومن کی روح اپنی قبر میں اس کے قرض کے عوض گروی ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے اسے ادا کردیا جائے۔ (
7
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، جلد
1
، صفحہ
176
، ایضا حدیث
2403
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ تمام کے تمام اسباب دین میں عیب ہی ہیں ان سے دین کا حسن و جمال ضائع ہوجاتا ہے اور اس کا کمال کم ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
3
) جب اللہ تعالیٰ نے لکھنے، گواہ بنانے اور کوئی شے بطور گروی لینے کا حکم ارشاد فرمایا تو یہ اموال کی حفاظت اور انہیں بڑھانے کا لحاظ رکھنے پر نص قطعی ہے۔ اور یہ جاہل متصوفہ اور ان کی رعایت کرنے والے وہ لوگ جو اس کا لحاظ نہیں رکھتے ان کا رد ہے کہ وہ اپنے تمام اموال سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ (یعنی وہ غربا و مساکین وغیرہ کو دے دیتے ہیں) اور وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی کفایت اور حاجت کے لئے بھی کچھ نہیں چھوڑتے، پھر جب وہ محتاج ہوتے ہیں اور ان کے گھر والے فقیر ہوتے ہیں تو پھر یا تو وہ بھائیوں کے احسانات یا ان کے صدقات کا طالب ہوتا ہے یا پھر وہ دنیاداروں اور ان میں سے ظلم کرنے والوں سے کچھ لیتا ہے اور یہ فعل مذموم اور ممنوع ہے۔ ابو الفرج جوزی نے کہا ہے : مجھے ان زہد و ورع اختیار کرنے والوں سے زیادہ تعجب نہیں جنہوں نے اپنی کم علمی سبب ایسا کیا، بلکہ زیادہ تعجب ان اقوام کے بارے ہے جو صاحب علم و وعقل ہیں انہوں نے اس پر کیسے برانگیختہ کیا، اور انہوں نے اس کے بارے حکم دیا باوجود اس کے کہ شرع اور عقل اس کے خلاف ہیں۔ پس محاسبی نے اس بارے میں بہت زیادہ کلام کیا ہے اور ابو حامد طوسی نے اسے پختہ اور مضبوط کیا ہے، اور ان کی مدد کی ہے اور میرے نزدیک حارث ابو حامد کی نسبت زیادہ معذور ہے، کیونکہ ابو حامد زیادہ فقیہ ہے مگر ان کے تصوف میں داخل ہونے نے ان پر ان کی مدد و نصرت لازم کردی جو اس میں پہلے داخل ہوچکے ہیں۔ محاسبی نے اپنے کلام میں کہا ہے : تحقیق مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا وصال ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے کہا : بلاشبہ ہم عبدالرحمن پر اس مال کے بارے میں خوف کھا رہے ہیں جو انہوں نے چھوڑا تو حضرت کعب نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیا تم عبدالرحمن ؓ پر خوف کھا رہے ہو ؟ انہوں نے پاکیزہ مال کمایا، پاکیزہ اور طیب مال خرچ کیا اور حلال وطیب مال چھوڑا۔ پس یہ خبر حضرت ابو ذر ؓ کے پاس پہنچی، تو وہ حضرت کعب کو تلاش کرنے کے ارادہ سے غصے کی حالت میں نکلے اور اونٹ کے جبڑے کی ہڈی کے پاس سے گزرے تو اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا اور پھر حضرت کعب کی تلاش میں نکل پڑے، تو حضرت کعب ؓ کو بتایا گیا کہ ابوذر ؓ آپ کو تلاش کر رہے ہیں تو وہ بھاگتے ہوئے نکل گئے یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ کے پاس پہنچ گئے ان سے مدد لینے لگے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ پس حضرت ابو ذر ؓ حضرت کعب کی تلاش میں نشانات کی اتباع کرتے ہوئے آئے یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ کے دار پر آکر رک گئے، جب اندر داخل ہوئے تو حضرت کعب ؓ اٹھے اور حضرت ابو ذر ؓ سے بھاگتے ہوئے حضرت عثمان ؓ کے پیچھے جا کر بیٹھ گئے، تو حضرت ابوذر ؓ نے انہیں کہا : اے یہودیہ کے بیٹے ! تو یہ گمان رکھتا ہے کہ جو کچھ حضرت عبدالرحمن ؓ نے چھوڑا ہے اس کے بارے کوئی حرج نہیں ہے، تحقیق رسول اللہ ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور فرمایا : ” کثر مال و دولت والے ہی قیامت کے دن قلیل مال و دولت والے ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے اس اس طرح خرچ کیا (
1
) (مسند احمد حنبل، جلد
5
، صفحہ
152
، ایضا صحیح بخاری کتاب الاستقراض واداء الدیون والحجر والتتفلیس، حدیث نمبر
2213
) (یعنی نیکی اور صدقہ میں وافر مال خرچ کیا) محاسبی نے کہا ہے : پس یہ عبدالرحمن اپنی فضیلت کے باوجود قیامت کے دن میدان حشر میں روک لیے جائیں گے اس حلال مال کے سبب جو انہوں نے پاکدامنی اور نیکی کرنے کے لئے کمایا اور انہیں فقراء کے ساتھ جنت کی طرف دوڑ کر جانے سے روک دیا جائے گا اور وہ ان کے نشانات پر گھسٹنے لگیں گے، علاوہ ازیں بھی انہیں نے کلام کیا ہے (٭) (یہ محاسبی کی رائے ہو سکتی ہے ورنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں) ابو حامد نے اس کا ذکر کیا ہے اور حدیث ثعلبہ کے ساتھ اسے پختہ اور قوی کیا ہے، وہ یہ کہ اسے مال عطا کیا گیا تو اس نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا، ابو حامد نے کہا ہے : جس نے انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علہیم کے احوال اور ان کے اقوال میں گہری غور وفکر کی ہے تو اسے اس میں کوئی شک نہیں کہ مال کا نہ ہونا اس کے وجود سے افضل ہے، اگرچہ وہ صدقہ و خیرات میں خرچ ہو، کیونکہ وہ کم سے کم شے جو اس میں حاصل ہوتی ہے وہ مال کی اصلاح کے لئے ہمت و کوشش ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مشغول رکھتی ہے پس مرید کر چاہئے کہ وہ اپنا مال نکال دے یہاں تک کہ بقدر ضرورت کے سوا کچھ بھی اس کے پاس باقی نہ رہے۔ پس جو ایک درہم بھی اس کے پاس باقی ہوگا اس کا دل اس کی طرف متوجہ ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے حجاب اور پردہ بن جائے گا۔ علامہ جوزی نے کہا ہے : یہ سب کا سب خلاف شرع اور خلاف عقل ہے اور کوتاہ فہمی ہے اس میں جو مال سے مراد لیا گیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ نے اسے شرف عطا فرمایا ہے، اس کی قدر و مرتبہ کو عظمت عطا فرمائی ہے اور اس کی حفاظت کا حکم ارشاد فرمایا ہے، کیونکہ اسے آدمی کے لئے باعث قوت و طاقت بنایا گیا ہے اور وہ شے جو شریف آدمی کے لئے باعث قوت و طاقت بنائی گئی ہے تو وہ یقینا شریف ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولا تؤتوا السفھآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما ‘۔ (النسائ :
5
) ترجمہ : اور نہ دے دو نادانوں کو اپنے مال جنہیں بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری (زندگی کے لئے) سہارا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مال احمق اور بیوقوف انسان کے حوالے کرنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا : (آیت) ” فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم “۔ (النسائ :
6
) ترجمہ : پس اگر محسوس کرو تم ان میں دانائی تو لوٹا دو انہیں ان کے مال۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو فرمایا : بیشک تیرا اپنے ورثاء کو غنی اور دولتمند چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں اس حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، جلد،
2
، صفحہ
943
) اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ما نفعنی مال کمال ابی بکر (
2
) (سنن ابن ماجہ، مقدمہ جلد
1
صفحہ
10
، ترمذی شریف، حدیث
94
35
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (مجھے کسی مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر صدیق ؓ کے مال نے دیا) اور آپ ﷺ نے حضرت عمر و بن العاص ؓ کو فرمایا : ” صالح آدمی کے لئے صالح اور پاکیزہ مال نعمت ہے (
3
) “ اور آپ نے حضرت انس ؓ کے لئے دعا فرمائی۔ اور آپ ﷺ کی دعا کے آخر میں یہ تھا۔ ’ اللھم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ فیہ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد
2
، صفحہ
298
، صحیح بخاری، حدیث نمبر
4868
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اے اللہ ! اس کے مال واولاد میں کثرت فرما اور اس کے لئے اس میں برکت عطا فرما) اور حضرت کعب ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بلاشبہ میری توبہ یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ؓ کے لئے اپنا سارا مال صدقہ کر دوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اپنے لئے کچھ مال روک لے یہ تیرے لئے بہتر ہے (
2
) (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، جلد
2
، صفحہ
362
، صحیح بخاری تفسیر سورة البراۃ حدیث نمبر
4308
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) علامہ جوزی نے کہا : یہ احادیث کتب صحاح میں نقل کی گئی ہیں اور یہ اس عقیدہ اور نظریہ کے خلاف ہیں جو متصوفہ رکھتے ہیں کہ مال کی کثرت حجاب اور سزا ہے اور یہ کہ اسے محفوظ رکھنا توکل کے منافی ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس کے فتنہ اور آزمائش سے ڈرا جاتا ہے اور بلاشبہ خلق کثیر نے اس کے خوف کی وجہ سے اس سے اجتناب کیا ہے اور یہ کہ اسے جمع کرنا من وجہ کمزور کردیتا ہے اور یہ کہ دل بہت کم فتنوں سے سلامت اور محفوظ رہتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے دل کا ذکر آخرت میں مشغول ہونا نایاب ہوجاتا ہے سو اسی وجہ سے اس کے فتنہ سے ڈرایا گیا ہے۔ اور جہاں تک مال کمانے کا تعلق ہے تو اگر کوئی صرف گزر اوقات کے لئے حلال کمانے پر اکتفا کرلے تو یہ ایک ایسا امر ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اور رہا وہ جس نے مال جمع کرنے اور حلال مال کثرت سے طلب کرنے کا قصد کیا تو اس کے مقصود اور مدعی میں دیکھا جائے گا، پس اگر اس نے فخرومباہات کا قصد کیا تو یہ مقصود بہت برا ہے اور اگر اس نے اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کی پاکدامنی کا قصد کیا اور اس نے حوادثات زمانہ کے لئے مال ذخیرہ کیا اور اس نے بھائیوں کی خوشحالی، فقراء کو غنی بنانے اور نیکی کے کام کرنے قصد کیا اور اس نے حوادثات زمانہ کے لئے مال ذخیرہ کیا اور اس نے بھائیوں کی خوشحالی، فقراء کو غنی بنانے اور نیکی کے کام کرنے کا قصد کیا تو اسے اس ارادہ پر ثواب واجر عطا کیا جائے گا اور اس نیت کے ساتھ مال جمع کرنا کثیر طاعات وریاضات سے افضل ہے اور صحابہ کرام میں سے کثیر مخلوق کی نیتیں مال جمع کرنے میں سلیم اور حسین تھیں کیونکہ مال جمع کرنے سے ان کے مقاصد حسین تھے، پس وہ اس کے حریص ہوئے اور انہوں نے اس میں زیادتی اور کثرت کی دعائیں گیں، اور جب ایک مضبوط آدمی کو حضور نبی مکرم ﷺ نے تیز رفتار گھڑ دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا، اس نے گھوڑا دوڑایا یہاں تک کہ وہ کھڑا ہوگیا پھر اس نے اپنا کوڑا پھینک دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے اتنی (جگہ) دے دو جہاں اس کا کوڑا پہنچا ہے۔ (
3
) (مسند احمد بن حنبل، جلد
2
، صفحہ
156
، ابی داؤد، باب فی اقطاع الارضین، حدیث نمبر
2870
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “۔ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے : اسے اللہ ! مجھے وسعت و خوشحالی عطا فرما، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا : (آیت) ” ونزداد کیل بغیر، (یوسف :
65
) ترجمہ : اور ہم زیادہ لیں گے ایک اونٹ کا بوجھ۔ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا : (آیت) ” فان اتممت عشرا فمن عندک “۔ (القصص :
27
) ترجمہ : پھر اگر تم پورے کرو دس سال تو یہ تمہاری اپنی مرضی۔ اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کو جب صحت عطا فرما دی گئی تو ان پر سونے کی مکڑیوں کا بہت بڑا گلہ اڑایا گیا تو آپ پکڑ کر اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے اور ان میں کثرت و زیادتی کی طلب کرنے لگے تو آپ کو کہا گیا : کیا آپ سیر نہیں ہوئے ہیں ؟ تو آپ نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! کیا فقیر بھی تیرے فضل سے سیر ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک ایسا امر ہے جس کا انحصار طبائع اور مزاجوں پر ہے۔ اور جہاں تک محاسبی کے کلام کا تعلق ہے تو وہ غلط ہے وہ علم سے نابلد ہونے پر دلالت کرتا ہے اور انہوں نے حضرت کعب ؓ اور حضرت ابوذر ؓ کی جو حدیث ذکر کی ہے وہ محال ہے، وہ جہال کی وضع کردہ ہے، اور متصوفہ کے ساتھ ان کے ملنے کی وجہ سے حدیث کی عدم صحت ان پر مخفی رہی ہے اور بعض نے اس کے بارے روایت کیا ہے کہ اگرچہ اس کی سند ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے اور وہ مطعون راوی ہے۔ یحیٰ نے کہا ہے اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا اور تاریخ میں صحیح یہ ہے کہ حضرت ابو ذر ؓ کا وصال
25
ھ میں ہوا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا وصال
32
ھ میں ہوا، تحقیق وہ حضرت ابو ذر ؓ کے وصال کے بعد بھی سات برس تک زندہ رہے، پھر وہ لفظ جو انہوں نے اپنی حدیث میں ذکر کئے ہیں وہ اس دلالت کرتے ہیں کہ ان کی حدیث موضوع ہے، پھر صحابہ کرام یہ کیسے کہہ سکتے ہیں : ہم عبدالرحمن پر خوف کھا رہے ہیں ! کیا حلال مال جمع کرنے کی اباحت پر اجماع منعقد نہیں ہوا ہے پھر اباحت کے ساتھ خوف کی کیا وجہ ہے ؟ کیا شریعت ایک شے کے بارے میں اجازت دیتی ہے پھر اسی پر سزا دیتی ہے ؟ یہ فہم وادراک کی قلت کی وجہ سے ہے، پھر کیا حضرت ابو ذر ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ پر اعتراض کرسکتے ہیں، حالانکہ حضرت عبدالرحمن ؓ حضرت ابو ذر ؓ سے ایسی چیزوں کے سبب بہتر اور افضل ہیں جن کے سبب وہ ایک دوسرے کے قریب بھی نہیں ہو سکتے ؟ پھر ان کا اکیلے عبد الرحمن ؓ کے ساتھ تعلق ہونا اس پر دلیل ہے کہ انہوں نے سیرت صحابہ کو آزمایا اور اس کا تجربہ کیا ہی نہیں، کیونکہ حضرت طلحہ ؓ نے تین سو بہار چھوڑے تھے اور ہر بہار میں تین قنطار تھے ! اور البھار کا معنی بوجھ ہے۔ اور حضرت زبیر ؓ کا مال دو لاکھ پچاس ہزار تھا اور حضرت ابن مسعود ؓ نے نوے ہزار ترکے میں چھوڑے اور اکثر صحابہ کرام نے مال کمایا اور اسے پیچھے چھوڑا اور ان میں سے کسی نے بھی کسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور رہا یہ قول : ان عبدالرحمن یحبو حبوا یوم القیامۃ “ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ انہوں نے حدیث کو پہنچانا اور سمجھا ہی نہیں۔ اور میں تو اللہ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ عبدالرحمن قیامت کے دن گھسٹ کر چلیں، کیا آپ انہیں جانتے نہیں ہیں جو (اسلام قبول کرنے میں) سبقت لے جانے والے ہیں اور آپ ان دس صحابہ کرام میں سے ایک ہیں جن کے لئے جنت کی بشارت دی گئی ہے اور آپ اہل بدر میں سے ہیں اور مجلس شوری کے ممبر ہیں تو کیا آپ گھسٹ کر چلیں گے ؟ پھر حدیث عمارہ ابن زاذان رویت کرتے ہیں اور امام بخاری نے کہا ہے : بسا اوقات ان کی حدیث مضطرب ہوتی ہے، اور امام احمد نے کہا ہے : یہ حضرت انس ؓ سے منکر احادیث روایت کرتا ہے اور ابو حاتم رازی نے کہا ہے : یہ قابل حجت نہیں ہے اور دارقطنی نے کہا ہے : یہ ضعیف ہے۔ اور آپ کا یہ قول : ترک المال الحلال افضل من جمعہ (مال حلال کو چھوڑ دینا اسے جمع کرنے سے افضل ہے) اس طرح نہیں ہے اور جب نیت وقصد صحیح ہو تو بلا اختلاف علماء کے نزدیک اسے جمع کرنا افضل ہے۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ کہتے تھے : اس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں جو مال طلب نہیں کرتا وہ اس کے ساتھ اپنا قرض ادا کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی عزت محفوظ ہو سکتی ہے اور اگر وہ مر جائے تو وہ اسے اپنے بعد والوں کے لئے بطور میراث چھوڑ دے اور حضرت ابن مسیب ؓ نے چار سو دینار پیچھے چھوڑے اور حضرت سفیان ثوری ؓ نے دو سو دینار پیچھے چھوڑے اور وہ کہتے تھے : المال فی ھذا الزمان سلاح اس زمانے میں مال ہتھیار ہے اور اسلام ہمیشہ مال کی تعریف کرتے رہے اور حوادثات زمانہ اور فقراء کی امداد کے لئے اسے جمع کرتے رہے، البتہ ان میں سے ایک گروہ نے عبادات میں مشغول ہونے اور یکسوئی کو ترجیح دیتے ہوئے مال سے پرہیز کی ہے، پس انہوں نے تھوڑے مال پر ہی قناعت کی، پس اگر قائل یہ کہے : بیشک مال کو کم کرنا قرب امر کے لئے اولی ہے لیکن وہ مرتبہ اثم کو اس کے ساتھ تنگ کرنے والا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اموال کی حفاظت اور ان لحاظ رکھنے پر جو روایات دلالت کرتی ہیں ان میں سے گھٹیا مال اور اعلی مال کے لئے قتال کو مباح قرار دینا بھی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : من قتل دون مالہ فھو شھید (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الدیات، جلد
1
، صفحہ
170
، صحیح بخاری، باب من قاتل دون مالہ، حدیث نمبر
2300
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (جو اپنے حقیر اور گھٹیا مال (کی حفاظت) میں قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہے) اس کا بیان سورة المائدہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top