Al-Qurtubi - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
مسئلہ نمبر : (29) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “۔ ظاہر یہ ہے کہ وہ اس سود کو باطل کر دے جس پر قبضہ نہیں ہوا ہے، اگرچہ آیت تحریم کے نازل ہونے سے پہلے اس کا عقد ہوچکا ہو، اور جب اس پر قبضہ ہوچکا ہو تو پھر اس کے فسخ کے پیچھے نہ پڑے۔ تحقیق کہا گیا ہے کہ یہ آیت بنی ثقیف کے سبب نازل ہوئی، انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ اس پر معاہدہ کیا تھا کہ انکے سود کا مال جو لوگوں پر ہے تو وہ انہیں کے لئے ہے اور جو لوگوں کا ان پر ہے تو وہ ان سے ختم کردیا گیا ہے، پھر جب ان کے سود کی مقررہ مدتیں آپہنچیں تو انہوں نے اہل مکہ کی طرف تقاضا کے لئے (پیغام) بھیجا، قرضے بنی عبدہ کے تھے اور وہ بنو عمرو بن عمیر ثقیف میں سے تھے اور یہ بنی مغیرہ مخزومیوں پر تھے، اور بنو مغیرہ نے کہا : ہم کوئی شے نہیں دیں گے کیونکہ ربا ختم کردیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنا معاملہ حضرت عتاب بن اسید ؓ کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے یہ معاملہ رسول اللہ ﷺ کی طرف لکھا، اور یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حضرت عتاب ؓ کی طرف لکھ بھیجا اور ثقیف نے بھی اس کے بارے جان لیا اور وہ (سود کا مطالبہ کرنے) سے رک گئے، یہی آیت کا سبب نزول ہے اور یہ اس مجموعے کا اختصار ہے جو ابن اسحاق، ابن جریج اور سیدی وغیرہم نے روایت کیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ بنا لو اپنے ما بقی ربا کو چھوڑ کر اور اس سے درگزر کرکے۔ مسئلہ نمبر : (30) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان کنتم مؤمنین “۔ یہ اس بنا پر ثقیف کے حق میں شرط محض ہے کیونکہ یہ حکم ان کے اسلام میں داخل ہوتے ہی پہلے پہل نازل ہوا اور جب ہم آیت کو ان کے بارے میں مقدر قرار دیں جن کا ایمان پختہ ہوچکا تھا تو پھر یہ مبالغہ کی جہت پر شرط مجازی ہے جیسا کہ تو اس کے بارے میں کہتا ہے جس کی ذات کو تو ابھارنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر تو مرد ہے تو تو اس طرح کر “۔ اور نقاش نے مقاتل بن سلیمان سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اس آیت میں ان بمعنی اذ ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ مردود ہے اور لغت میں معروف نہیں ہے، اور ابن فورک نے کہا ہے : یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ سے مراد حضور ﷺ “ سے پہلے دیگر انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ایمان لانا ہو اور (آیت) ” ذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “ میں حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ ایمان لانا مراد ہو، کیونکہ اس کے بغیر پہلا ایمان نفع نہیں دے گا اور یہ اس کے سبب مردو ہے جو آیت کے سبب نزول میں بیان کیا گیا ہے۔
Top