Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 265
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَمَثَلُ
: اور مثال
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُنْفِقُوْنَ
: خرچ کرتے ہیں
اَمْوَالَھُمُ
: اپنے مال
ابْتِغَآءَ
: حاصل کرنا
مَرْضَاتِ
: خوشنودی
اللّٰهِ
: اللہ
وَتَثْبِيْتًا
: اور ثبات و یقین
مِّنْ
: سے
اَنْفُسِهِمْ
: اپنے دل (جمع)
كَمَثَلِ
: جیسے
جَنَّةٍۢ
: ایک باغ
بِرَبْوَةٍ
: بلندی پر
اَصَابَهَا
: اس پر پری
وَابِلٌ
: تیز بارش
فَاٰ تَتْ
: تو اس نے دیا
اُكُلَهَا
: پھل
ضِعْفَيْنِ
: دوگنا
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يُصِبْهَا
: نہ پڑی
وَابِلٌ
: تیز بارش
فَطَلٌّ
: تو پھوار
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِمَا
: جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرٌ
: دیکھنے والا
اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلیے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو (جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے
آیت نمبر :
265
: قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومثل الذین ینفقون اموالھم ابتغآء مرضات اللہ وتثبیتا من انفسھم “۔ اس میں ابتغاء مفعول من اجلہ ہے، اور تثبیتا من انفسھم “ اس پر معطوف ہے اور مکی نے المشکل میں کہا ہے : یہ دونوں مفعول من اجلہ ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ مردود ہے اور تثبیتا ‘ کو مفعول من اجلہ بنانا صحیح نہیں ہے، کیون کی انفاق (خرچ کرنا) تثبیت (پختہ ہوجانا) کی وجہ سے نہیں ہے : اور ابتغآء کو حال کے محل میں مصدر ہونے کی بنا پر نصب دی گئی ہے اور اس میں نصب مفعول من اجلہ کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن مصدر کی بنا پر نصب دینا اس وجہ سے درست ہے کہ اس پر (آیت) ” تثبیتا “ مصدر کا عطف ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے صدقات کا حال بیان کیا جن کے صدقات کا خیر وبھلائی میں کوئی بڑا حصہ نہیں اور مومنین کو ان مواقع سے منع فرمایا جو من وجہ اس سے مشابہت رکھتے ہیں تو اس کے بعد اس آیت میں اس قوم کے نفقات کا ذکر فرما رہا ہے جنہوں نے اپنے صدقات کو پاک کیا کیونکہ وہ شریعت کے موافق اور اس کی طرز پر تھے۔ اور ” ابتغآء “ کا معنی طلب ہے اور ” مرضات “ یہ رضی یرضی سے مصدر ہے، اور ” تثبیتا “ کا معنی ہے کہ وہ پختہ ہوجائیں جہاں وہ اپنے صدقات کو رکھیں، یہ مجاہد اور حسن رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے، حسن نے کہا ہے : آدمی جب صدقہ کا قصد کرے تو وہ ثابت ہوجاتا ہے پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہو تو وہ اسے ادا کر دے اور اگر اس میں شک کی آمیزش ہوجائے تو اسے روک لے۔ اور بعض نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تصدیق اور یقین کرتے ہوئے، کہ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے : اپنے دلوں میں ثواب کی نیت کرتے ہوئے، اور حضرات شعبی، سدی قتادہ نے بھی، ابن زید اور ابو صالحرحمۃ اللہ علہیم وغیرہم نے کہا ہے : وتثبیتا کا معنی وتیقنا ہے یعنی کہ ان کے دلوں کو بصیرت حاصل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرنے پر ان کے پختہ ہونے کا یہی مفہوم ہے۔ یہ تینوں اقوال حضرت حسن اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علہیم کے قول کی نسبت زیادہ صحیح اور درست ہیں، کیونکہ وہ معنی جسے ان دونوں نے اختیار کیا ہے اس کی عبارت میں ” وتثبیتا “ مصدر غیر پر محمول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے اور یہ جائز نہیں ہوتا مگر مصدر کے ذکر کے ساتھ اور فعل متقدم کی فصاحت وبیان کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” واللہ انبتکم من الارض نباتا (نوح) ترجمہ اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے عجب طرح اگایا ہے۔ اور (آیت) ” وتبتل الیہ تبتیلا “۔ (المزمل) ترجمہ ؛ اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو “ لیکن جب فعل کے ساتھ وضاحت نہ ہو تو ایسا مصدر لانا جائز نہیں جائز نہیں ہوتا جو اس کا ہم معنی نہ ہو، پھر تو کہے گا : میں اسے فلاں فلاں معنی پر محمول کرتا ہوں اس فعل کے لئے جن کا ذکر پہلے نہیں ہوا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ کلام عرب کا وسیع راستہ ہے جس کے بارے تو نے جان لیا ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : اگر ایسا ہوتا جیسا کہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے تو پھر ” وتثبیتا تثبت “ سے ہوتا جیسا کہ تکزمت تکرما ہے، اور حضرت قتادہ ؓ کا قول کہ یہ ” احتسابا “ کے معنی میں ہے، یہ نہیں پہچانا جاسکتا مگر اس طرح کہ اس سے مراد یہ لیا جائے کہ ان دلوں نے احتساب کرتے ہوئے ان کی خوب چھان بین کی اور یہ بعید ہے اور حضرت شعبی کا قول اچھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرنے پر اپنے دلوں کو پختہ رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے : ثبت فلانا فی ھذا الامر میں نے فلاں کو اس کام میں پختہ کردیا۔ یعنی میں نے اس کے عزم اور ارادہ کی تصحیح کی اور میں نے اس میں اس کی رائے کو قوی کردیا، اثبتہ تثبیتا اور میں نے اسے بہت پختہ کردیا۔ یعنی ان کے دل اللہ تعالیٰ کے وعدے کے ساتھ یقین رکھتے ہوئے اس میں بہت پختہ ہوگئے۔ اور بعض نے کہا ہے (آیت) ’ وتثبیتا من انفسھم “۔ یعنی وہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر پختہ کر دے گا ای وتثبیتا من انفسھم لثوابھا، یعنی تاکہ اس کے ثواب کے بارے میں ان کے دل پختہ ہوجائیں بخلاف اس منافق کے جو ثواب کا گمان بھی نہیں رکھتا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” کمثل جنۃ بربوۃ “۔ اس میں جنۃ کا معنی باغ ہے اور یہ وہ قطعہ زمین ہوتا ہے جس میں میں درخت اگائے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسے ڈھانپ لیتے ہیں، اور یہ لفظ جن اور جنین سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ چھپے ہوتے ہیں اور اس کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے۔ اور ربوۃ کا معنی ہے : ایسی بلند جگہ جس میں بلندی تھوڑی ہو اور اغلبا اس کے ساتھ مٹی کی کثافت اور کثرت بھی ہو۔ اور جو زمین اس طرح ہوتی ہے اس کی پیداوار اور نباتات اچھی ہوتی ہے۔ اسی لئے خاص طور پر ربوۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اور ریاض الحزن اس میں سے نہیں ہے جیسا کہ طبری نے گمان کیا ہے، بلکہ یہ وہ ریاض ہے جو نجد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ تہامہ کے ریاض سے بہتر ہے اور نجد کی نباتات زیادہ زیادہ معطر اور خوشبودار ہوتی ہیں، اور اس کی ہوا زیادہ ٹھنڈی اور راحت بخش ہوتی ہے اور نجد کو ہی حزن کہا جاتا ہے، اور تہامہ کی ہوا سوائے رات کے بہت کم صحتمند اور نفع بخش ہوتی ہے۔ اسی لئے ایک اعرابیہ عورت نے کہا ہے : زوجی کلیل تھا مۃ (میرا خاوند تہامہ کی رات کی مثل ہے) (
1
) (صحیح بخاری، باب حسن المعاشرۃ مع الاھل، حدیث نمبر،
4790
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور سدی نے کہا :” بربوۃ “ بمعنی برباوۃ ہے یعنی زمین کا وہ حصہ جو پست ہو، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قلقلہ (دشواری، پریشانی) سے عبارت ہے اور ربوۃ کا لفظ ربایوبو سے ماخوذ ہیں جب وہ بڑھ جائے اس میں اضافہ ہوجائے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : سدی کی عبارت کوئی شے نہیں ہے کیونکہ رب و کی بناء کا معنی کلام عرب میں زیادتی اور اضافہ کرنا ہے اور اسی سے الربوبلند نفس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ربایربو، جب ربو (زیادتی) اسے آلے اور رباالفرس جب دوڑنے یا گھبراہٹ کے سبب گھوڑے کی سانس پھول جائے، اور فراء نے اس قول باری تعالیٰ میں کہا ہے : (آیت) ” اخذھم اخذۃ رابیۃ “ کہ یہ بمعنی زائدہ ہے۔ (یعنی اس نے انہیں سخت مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا) جیسے کہ تیرا یہ قول ہے : اربیت جب تو اس سے زیادہ لین جو تو نے دیا ہو۔ اور ربوت فی بنی فلان وربیت ای نشات فیھم۔ (میں نے ان میں نشوونماپائی) اور خلیل نے کہا ہے : ” الربوۃ “ بلند زمین جو اچھی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ذکر کے ساتھ خاص کیا ہے جس میں بلاد عرب میں عرف کے اعتبار سے پانی جاری نہیں ہوتا اور ان کے لئے اس کی مثال بیان فرمائی جسے وہ محسوس کرسکتے ہیں اور اس کا۔۔۔۔ کرسکتے ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے کا ہ : ربوۃ سے مراد وہ بلند جگہ ہے جس میں نہریں جاری نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” اصابھا وابل “۔ آخر آیت تک اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں جاری پانی نہیں ہے اور نہ ہی اس زمین کی جنس کا ارادہ کیا ہے، جس میں نہریں جاری ہو سکتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ربوۃ ذات قرار ومعین کا ذکر کیا ہے اور کلام عرب میں معروف یہ ہے کہ ربوہ سے مراد وہ جگہ ہے جو اپنے آس پاس سے بلند ہو چاہے اس میں پانی جاری ہو یا نہ جاری ہو۔ اور اس میں پانچ لغات ہیں، ربوۃ راء کے ضمہ کے ساتھ، ابن کثیر، حمزہ، کسائی، نافع اور ابو عمرو رحمۃ اللہ علہیم نے پڑھا ہے۔ اور ربوۃ عاصم، ابن عامر اور حسن رحمۃ اللہ علہیم نے راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ربوۃ حضرت ابن عباس ؓ اور ابو اسحاق سبیعی نے را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور رباوۃ ابو جعفر اور ابو عبدالرحمن نے اس طرح پڑھا ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : من منزل فی روضۃ بریاوۃ بین النخیل الی بقیع الغرقد ؟ اور ریاوۃ اشہب نے اسے را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے فراء نے کہا ہے : اور کہا جاتا ہے : بریاوۃ اور بریاوۃ اور یہ سب الرابیہ سے ہیں اور اس کا فعل ریایربو ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” اصابھا “ اس میں ہاضمیر کا مرجع ربوۃ ہے۔ (آیت) ” وابل “ اس کا معنی ہے : شدید بارش، شاعر نے کہا ہے : ما روضۃ من ریاض الحزن مغشبۃ خضراء جادعلیھا وابل ھطل “۔ اس میں وابل ھطل موسلادھار بارش کے معنی میں ہی مذکور ہے۔ فاتت، ای اعطت تو لایا ہوا اکلھا ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ۔ مراد وہ پھل ہے جو کھایا جاتا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” تؤتی اکلھا کل حین (ابراہیم :
25
) ہر شے میں سے کھائی جانے والی شے کو اکل کہا جاتا ہے اور الاکلۃ سے مراد لقمہ ہے اور اسی معنی میں حدیث طیبہ ہے : فان کان للطعام مشفوھا قلیلا فلیضع فی یدہ منہ اکلۃ او اکلتین “۔ (اگر کھانا بہت تھوڑا رہ جائے تو چاہیے کہ اپنے ہاتھ میں اس سے ایک یا دو لقمے رکھ لے) اسے مسلم نے روایت کیا ہے (
1
) (صحیح بخاری، باب اذا اتاہ خادمہ بطعامہ، حدیث نمبر
2370
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اس کی اضافت باغ کی طرف یہ اضافت اختصاص ہے، جیسا کہ سرج الفرس اور باب الدار میں اضافت اختصاص ہے ورنہ پھل اس میں سے نہیں ہے جسے باغ کہا جاتا ہے۔ نافع، ابن کثیر اور ابو عمرو نے اکلھا ہمزہ کو ضمہ اور کاف کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اسی طرح ہر وہ جو مؤنث کی طرح مضاف ہو، اور ابو عمرو نے ان دونوں کا فرق بیان کیا ہے کہ جب اسے مذکر کی طرف مضاف کیا جائے مثلا اکلہ یا کسی بھی شے کی طرف مضاف نہ ہو مثلا ” اکل خمط “۔ (سبا :
16
) تو ابو عمرو نے اسے مثقل پڑھا ہے اور دوسرے دونوں نے مخفف پڑھا ہے۔ اور عاصم، ابن عامر، حمزہ اور کسائی نے ان تمام صورتوں میں جو ہم نے ذکر کی ہیں اسے مثقل پڑھا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اکل اور اکل دونوں ہم معنی ہیں۔ ضعفین : یعنی وہ دوسری زمین کے مقابلہ میں دو گنا پھل لایا، اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ وہ سال میں دو بار پھل لایا۔ اور پہلا قول زیادہ ہے۔ یعنی اس نے اپنی پیداوار ایک سال میں دی جتنی پیداوار دوسری زمین دو سالوں میں دیتی ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” فان لم یصبھا وابل فطل “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس بلند زمین کی مدح کی تاکید کے لئے ہے۔ اس طرح کہ اگر اسے موسلادھار بارش نہ بھی پہنچے تو اسے شبنم ہی کافی ہوجاتی ہے۔ اور یہی دوگنا پھل نکالنے میں شدید بارش کے قائم مقام ہوجاتی ہے اور یہ زمین کے زرخیز اور طیب ہونے کی وجہ سے ہے۔ مبرد وغیرہ نے کہا ہے : تقدیر کلام میں طفل یکفیھا۔ (پس شبنم ہی اسے کافی ہوجائے) اور زجاج نے کہا ہے : فالذی یصیبھا طل
0
اور وہ جس پر سبنم برسے) اور طل سے مراد کمزور سی بارش ہے جس کے قطرے باریک اور بالکل خفیف سے ہوں، حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے یہی کہا ہے اور یہ اس کی مشہور لغت ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے جن میں سے حضرت مجاہد ہیں کہ الطل کا معنی شبنم ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ مجاز اور تشبیہ ہے، نحاس نے کہا ہے اور اہل لغت نے بیان کیا ہے : وبلت اور اوبلت، طلت اور اطلت اور الصحاح میں ہے : الطل سے مراد انتہائی ضعیف اور کمزور بارش اور اس کی جمع الطلال ہے۔ اسی سے آپ کہتے ہیں : طلت الارض واطلھا الندی زمین پر شبنم پڑی فھی مطلولۃ۔ ماوردی نے کہا ہے : شبنم کی کھیتی بارش کی کھیتی سے دگنی ہوتی ہے اور پیداوار کے لحاظ سے کم ہوتی ہے اور اس میں ہے۔ اور اگرچہ پیداوار اور نفع کم ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے اور تقدیم وتاخیر کی کوئی حاجت نہیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان مخلص بندوں کے خرچ کئے ہوئے مال کے بڑھنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو بلند جگہ پر واقع ہو بخلاف اس چکنی چٹان کے جس کی مٹی بہہ گئی اور وہ خالص پتھر باقی رہ گیا۔ اور مسلم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی بھی جو اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور صدقہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے قدرت کے ساتھ لے لیتا ہے اور پھر اس کی نشوونما کرتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے اور اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ کی مثل یا اس سے بھی بڑی ہوجاتی ہے “ اسے مؤطا نے بھی روایت کیا ہے۔ (
1
) (صحیح بخاری کتاب الزکوۃ ،: حدیث نمبر :
1321
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قولہ تعالیٰ (آیت) ” واللہ بما تعملون بصیر “۔ یہ وعدہ اور وعید ہے۔ زہری نے یعملون یاء کے ساتھ پڑھا ہے گویا وہ اس سے تمام لو مراد لیتے ہیں یا پھر صرف خرچ کرنے والے مراد لیتے ہیں تو اس صورت میں یہ صرف وعدہ ہے۔
Top