Al-Qurtubi - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا آپ نے اِلَى : طرف الَّذِيْ : وہ شخص جو حَآجَّ : جھگڑا کیا اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم فِيْ : بارہ (میں) رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَنْ : کہ اٰتٰىهُ : اسے دی اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : بادشاہت اِذْ : جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّيَ : میرا رب الَّذِيْ : جو کہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے قَالَ : اس نے کہا اَنَا : میں اُحْيٖ : زندہ کرتا ہوں وَاُمِيْتُ : اور میں مارتا ہوں قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ :ابراہیم فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْتِيْ : لاتا ہے بِالشَّمْسِ : سورج کو مِنَ : سے الْمَشْرِقِ : مشرق فَاْتِ بِهَا : پس تو اسے لے آ مِنَ : سے الْمَغْرِبِ : مغرب فَبُهِتَ : تو وہ حیران رہ گیا الَّذِيْ كَفَرَ : جس نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ناانصاف لوگ
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔ یہ سن کر کافر حیران رہ گیا۔ اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
آیت : نمبر 258۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) الم تر “۔ یہ الف توقیفی ہے اور کلام میں تعجب کا معنی ہے یعنی انہوں نے اس کو تعجب میں ڈال دیا اور فراء نے کہا ہے : (آیت) ” الم تر “ بمعنی ھل رایت ہے یعنی کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور کیا آپ نے اسے دیکھا جو بستی کے پاس سے گزرا اور وہ نمروذ بن کوش بن کنعان بن سام بن نوح اپنے زمانے کا بادشاہ اور آگ اور مچھر والا تھا۔ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ حضرت مجاہد، حضرت قتادہ، حضرت ربیع، حضرت سدی، حضرت ابن اسحاق اور حضرت زید بن اسلم وغیرہم (رح) کا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 345 دارالکتب العلمیہ) اور اسے ہلاک کرنے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ لڑنے کا قصد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر مچھروں کا ایک باب کھول دیا، پس انہوں نے سورج کو ڈھانپ لیا اور اس کے لشکر کو کھانے لگے اور انہوں نے سوائے ہڈیوں کے اور کچھ نہ چھوڑا اور ان میں سے ایک اس کے دماغ میں داخل ہوگیا اور اسے کھا ڈالا یہاں تک کہ وہ چوہیا کی مثل ہوگیا اور اس کے بعد اس کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے معزز وہ تھا جو اس کے دماغ پر بھاری ہتھوڑے کے ساتھ مارتا تھا، پس چالیس دن تک وہ اس آزمائش اور مصیبت میں مبتلا رہا۔ ابن جریج نے کہا ہے : زمین میں وہ پہلا بادشاہ تھا، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول مردود ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : وہ پہلا حکمران ہے جس نے جبر و استبداد اور رعونت وسرکشی اختیار کی اور وہی بابل میں صاحب الصرح (محل کا مالک) تھا اور کہا گیا ہے کہ یہ پوری دنیا کا حکمران تھا اور یہ دو کافر بادشاہوں میں سے ایک ہے اور دوسرا بخت نصر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا وہ نمروذ بن فالخ بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام تھا، اس تمام کو ابن عطیہ نے بیان کیا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 345 دارالکتب العلمیہ) اور سہلی نے بیان کیا ہے وہ نمروذبن کوش بن کنعان بن حام نوح تھا اور وہ سواد عراق کا بادشاہ تھا اور اسے اس ضحاک نے حکمران بنایا تھا جو ازدھاق سے معروف تھا اور اس کا نام بیوراسب بن اندراست تھا اور وہ تمام سلطنتوں کا بادشاہ تھا اور یہ وہی ہے جسے افریدون بن اثفیان نے قتل کیا تھا اور اس بارے میں حبیب کہتا ہے : وکانہ الضحاک من فتکاتہ فی العالمین وانت افریدون “۔ ضحاک سرکش اور جابر حکمران تھا اور اس کی حکومت ہزار برس تک رہی جس بارے میں انہوں نے ذکر کیا ہے اور یہ پہلا حکمران ہے جس نے سولی دی اور پہلا حکمران ہے جس نے ہاتھ اور پاؤں کاٹے اور نمروذ کا صلبی بیٹا تھا اس کا نام ” کوش “ تھا یا اس نام کی طرح کا کوئی نام تھا اور اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام نمروذ الاصغر تھا اور نمروذ الاصغر ایک سال تک حاکم رہا، اور نمروذ الاکبر کی حکومت چار سو برس تک رہی جیسا کہ اس کے بارے ذکر کیا گیا ہے۔ اس جھگڑے کے قصص میں دو روایتیں ہیں : انمین سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے میلے کی طرف نکلے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انکے بتوں کے پاس گئے اور انہیں توڑ دیا جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں کہا : کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو (ٹوٹ کر) گر جاتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : تو کسی کی عبادت کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں اپنے اس رب کی عبادت کرتا ہوں جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : بیشک نمروذ طعام (اناج) ذخیرہ کرلیتا تھا اور جب انہیں طعام کی حاجت ہوتی تھی تو وہ اس سے اسے خریدتے تھے اور جب وہ اس کے پاس آتے تھے تو اسے سجدہ کرتے تھے، پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے پاس گئے تو آپ نے اسے سجدہ نہ کیا تو اس نے کہا : تجھے کیا ہے تو مجھے سجدہ نہیں کرتا ؟ آپ نے فرمایا : میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا، نمروذ نے آپ کو کہا تیرا رب کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا : میرا رب وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ حضرت زید بن اسلم (رح) نے بیان کیا ہے کہ یہ نمروذ بیٹھ گیا اور لوگوں کو اہل و عیال کے لئے طعام لے جانے کا حکم دینے لگا، پس جب بھی کوئی قوم آتی یہ ان سے پوچھتا : تمہارا رب اور تمہارا الہ کون ہے، ؟ تو یہ کہتے : تو ہے، تو ہے یہ کہتا، تو انہیں طعام دے دو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اپنے اہل و عیال کو طعام مہیا کرنے کے لئے اس کے پاس آئے تو اس نے آپ سے کہا : تمہارا رب اور تمہارا معبود کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جب نمروذ نے یہ سنا تو اس نے کہا : میں بھی جلا سکتا ہوں اور مار سکتا ہوں، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج کے معاملہ کے ساتھ اس کا معارضہ کیا تو وہ کفر اختیار کرنے والا متحیر ہوگیا اور اس نے کہہ دیا : تم اسے اناج نہ دو ۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بغیر کسی شے کے واپس اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ گئے۔ راستے میں آپ ریت کے ٹیلے کے پاس سے گزرے جو آٹے کی مثل تھا، تو آپ نے اپنے دل کہا : اگر میں اسے اپنا بورا بھر لوں تو جب میں اسے لے کر گھر داخل ہوں گا تو بچے خوش ہوجائیں گے یہاں تک کہ میں انہیں دیکھ لوں گا، پس آپ وہ لے گئے، جب آپ اپنے گھر پہنچے تو بچے خوش ہوگئے اور وہ دونوں بوروں کے اوپر کھیلنے لگے اور آپ تھکاوٹ کی وجہ سے سو گئے، تو آپ کی زوجہ محترمہ نے کہا : اگر میں آپ کے لئے کھانا تیار کر دوں جب آپ بیدار ہوں گے تو آپ اسے موجودہ پائیں گے (اور تناول فرمالیں گے) چناچہ اس نے ایک بورا کھولا تو انہوں نے اسے اس سے بھی اچھا پایا جتنا سفید آٹا ہوتا ہے اور پھر اس کی روٹیاں پکادیں اور جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اس نے وہ کھانا آپ کے سامنے رکھ دیا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : یہ کہاں سے آیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : یہ وہی آٹا ہے جو آپ لائے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جان گئے کہ اللہ تعالیٰ نے انکے لئے آسانی پیدا فرما دی ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 345 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابو صالح سے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) طعام لانے کے لئے چلے اور آپ اس پر قادر نہ ہو سکے، تو آپ سرخ موٹی ریت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس سے بورے بھر لیے اور پھر اپنے گھروں والوں کی طرف واپس لوٹ آئے، تو انہوں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ سرخ گندم ہے پس انہوں نے اسے کھولا تو اسے سرخ گندم ہی پایا اور جب اس میں سے کچھ کاشت کی تو جڑ سے شاخ کے سرے تک سٹہ نکلا جو دانوں سے بھرا ہوا تھا (2) (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 6، صفحہ 330، حدیث نمبر 31819، الزمان للشقافۃ والعلوم مدینہ منورہ) اور ربیع وغیرہ نے ان قصص میں کہا ہے کہ نمروذ نے جب کہا میں جلاتا بھی ہو اور مارتابھی ہوں تو اس نے دو آدمیوں کو حاضر کیا، ان میں سے کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہا : تحقیق میں نے اسے زندہ کردیا اور اسے مار دیا، اور جب آپ نے اس پر سورج کا معامہ لوٹایا تو وہ مبہوت اور متحیر ہوگیا (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 346 دارالکتب العلمیہ) اور الخبر میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میں سورج کو مغرب سے طلوع کروں گا تاکہ وہ جان لے کہ میں اس پر قادر ہوں (4) (صحیح بخاری، کتاب تفسیر القران، حدیث نمبر 4269، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پھر نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے حکم دیا تو انہیں آگ میں پھینک دیا گیا اور اسی طرح جابر حکمرانوں کی عادت ہے کہ جب کسی سے کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے اور دلیل لانے سے عاجز ہوجائیں تو وہ سزا دینے میں لگ جاتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگ سے نجات عطا فرمائی، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور سدی نے کہا ہے : جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلے تو انہوں نے آپ کو بادشاہ کے پاس پیش کردیا۔ اور اس سے پہلے آپ کو اس پر پیش نہیں کیا گیا تھا۔۔۔۔ اور نے آپ سے گفتگو کی، اور آپ کو کہا : تیرا رب کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : میرا رب وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا ہے۔ نمروذ نے کہا : میں بھی زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں، میں چار آدمیوں کو پکڑوں گا اور انہیں ایک کمرے میں بند کردوں گا اور وہ کوئی شے کھا پی نہیں سکیں گے یہاں تک کہ جب وہ بھوک سے نڈھال ہوجائیں گے تو میں انہیں نکال دوں گا اور دو کو کھانا وغیرہ کھلاؤں گا۔ پس وہ دونوں زندہ رہیں گے اور دو کو چھوڑ دوں گا اور وہ مر جائیں گے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور معارضہ سورج کا معاملہ پیش کردیا (کہ اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو وہ سورج کو مغرب سے طلوع کرے) تو وہ متحیر ومبہوت ہوگیا۔ علمائے اصول نے اس آیت میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب رب کا کریم کا وصف بیان کیا ایسی شے کے ساتھ جو اس کی صفت ہے یعنی احیاء (جلانا) اور اماتۃ (مارنا) لیکن یہ ایسا امر ہے جس کے لئے حقیقت اور مجاز دونوں ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حقیقت کا قصد کیا۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 346 دارالکتب العلمیہ) اور نمروذ نے مجاز کی پناہ لی اور اپنی قوم پر جھوٹا امر پیش کردیا۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے بطور قیاس جدلی کے تسلیم کرلیا اور آپ اس کے ساتھ مثال سے منتقل ہوگئے اور اس کے سامنے ایک ایسا امر رکھ دیا جس میں مجاز نہیں ہے۔ (آیت) ” فبھت الذی کفر “۔ یعنی اس کی دلیل اور حجت حکم سے کٹ گئی، ختم ہوگئی اور اس کیلئے یہ کہنا ممکن نہ رہا کہ میں سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہوں کیونکہ صاحب عقل وفہم اس کی تکذیب کردیں گے۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ کافر کو بادشاہ (ملک) کا نام دینا جائز ہے جب اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے بادشاہی، عزت اور بلندی عطا کر دے اور یہ مناظرہ، مجادلہ اور حجت قائم کرنے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے۔ قرآن وسنت میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس پر کثیر دلائل موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین “۔ (البقرہ) ترجمہ : آپ (انہیں) فرمائیے لاؤ اپنی کوئی دلیل اگر تم سچے ہو۔ ” ان عندکم من سلطان “ یعنی تمہارے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے ساتھ جھگڑا اور بتوں کی عبادت کے بارے میں آپ کی جانب سے ان کا رد بھی بیان فرمایا ہے جیسا کہ سورة الانبیاء وغیرہ میں ہے۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : (آیت) ” قالوا ینوح قد جدلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین، قال انما یاتیکم بہ اللہ ان شآء وما انتم بمعجزین، ولاینفعکم نصحی ان اردت ان انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم ھو ربکم والیہ ترجعون، ام یقولون افترہ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی وانا بریء مماتجرمون، (ہود) ترجمہ : وہ، (بروفروختہ ہو کر) بولے اے نوح ! تو نے ہم نے جھگڑا کیا اور اس جھگڑے کو بہت طول دیا، اور میں بری الذمہ ہوں ان گناہوں سے جو تم کرتے ہو، اور طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے ساتھ مجادلہ ہے اس کا کئی آیات میں ذکر ہے، پس یہ سب کی سب اللہ کی جانب سے دین کے بارے میں سوال و جواب اور مجادلہ کی تعلیم ہے، کیونکہ حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہی نہیں ہوتا مگر تبھی جب حق کی دلیل ظاہر اور غالب ہو اور باطل کی دلیل فاسد ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب سے مجادلہ کیا اور حجت قائم کرنے کے بعد ان سے مباہلہ کیا، جیسا کہ اس کا بیان : آل عمران “ میں آئے گا اور حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں مکالمہ ہوا اور آدم (علیہ السلام) حجت کے ساتھ ان پر غالب آگئے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سقیفہ کے دن جھگڑتے رہے ایک دوسرے کو دور ہٹاتے رہے، تقرر کرتے رہے اور باہم مناظرہ کرتے رہے یہاں تک کہ حق اس کے بارے میں ظاہر ہوگیا جو اس کے اہل تھا اور انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت کرلینے کے بعد مرتدین کے بارے میں مناظرہ کیا، علاوہ ازیں کثیر ایسے واقعات ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “۔ میں اس پر دلیل ہے کہ علم کے ساتھ حجت پیش کرنا، احتجاج کرنا مباح ہے اور غور وفکر کرنے والوں کے درمیان شائع ہے، مزنی صاحب شافعی نے کہا ہے : مناظرہ کے حقوق میں یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کیا جائے اور اس سے جو شے واضح ہو اسے قبول کرلیا جائے۔ اور بعض نے کہا ہے : مناظرہ صحیح نہیں ہوتا اور مناظرہ کرنے والوں کے درمیان حق ظاہر اور واضح ہوجاتا ہے جبکہ وہ دین، عقل، فہم اور انصاف میں ایک دوسرے کے قریب ہوں یا ایک ہی مرتبہ میں مساوی اور برابر ہوں، مگر اس میں ریاکاری اور باہمی عداوت، مخالفت اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش ہوتی ہے۔ قرات ،: حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ” الم تر “ را کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور جمہور نے اسے متحرک پڑھا ہے اور یا جزم کے لئے حذف کردی گئی ہے۔ اور (آیت) ” ان اتہ اللہ الملک “ محل نصب میں ہے یعنی لان اتاہ اللہ، یامن اجل ان اتاہ اللہ اور جمہور قراء نے ان احی یعنی وصل کلام میں انا سے نون کے بعد الف کو گرا کر پڑھا ہے اور نافع اور ابن ابی اویس نے اسے ثابت رکھا ہے، جب بھی پورے قرآن میں ہمزہ اس کے ساتھ ملا ہے سوائے اس قول کے : (آیت) ” ان انا الا نذیر “ کیونکہ وہ اسے اس جگہ میں اس کی قتل کے سبب تمام قراء کی طرح گرا دیتے ہیں، کیونکہ یہ قرآن کریم میں صرف تین مقامات پر واقع ہوا ہے اور یہ اپنے قلیل ہونے کی وجہ سے اس کے قائم مقام ہے جس کے بعد ہمزہ نہ ہو لہذا الف کو وصل کلام میں بھی حذف کردیا گیا۔ علمائے نحو نے کہا ہے : متکلم کی ضمیر اسم ہے اس میں ہمزہ اور نون ہے، اور جب تو کہے : انا یا انہ تو الف اور باء وقف میں حرکت کو بیان کرنے کے لئے ہیں اور جب کلمہ کسی شے سے متصل ہو تو وہ دونوں ساقط ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ شے جس کے ساتھ کلمہ متصل ہوتا ہے وہ قائم مقام الف کے ہوتا ہے، پس یہ نہیں کہا جائے گا : انا فعلت الف کے اثبات کے ساتھ مگر شعر میں یہ شاذ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : انا سیف العشیرۃ فاعرفونی حمیدا قد تذریت السناما : نحاس نے کہا ہے : اس بنا پر کہ نافع نے الف کو ثابت رکھا ہے اور پڑھا ہے ” انا احی وامیت “ اس کی کوئی وجہ اور علت نہیں ہے، مکی نے کہا ہے : بصریوں کے نزدیک الف زائدہ ہے اور ان کے نزدیک اہم مضمر ہمزہ اور نون ہیں اور الف کو تقویت کے لئے زائد کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ وقف کے لئے زائد کیا گیا ہے تاکہ نون کی حرکت ظاہر ہو۔ اور کو فیوں کے نزدیک انا مکمل طور پر اسم ہے پس نافع نے انکے قول کے مطابق اصل کی بنا پر الف کو ثابت رکھا ہے اور جنہوں نے الف کو حذف کیا ہے تو انہوں نے تخفیف کے لئے اسے حذف کیا ہے کیونکہ فتحہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : اور رہا ان کا قول انا تو یہ اسم کنایہ ہے اور یہ اکیلا متکلم کے لئے ہے اور یہ مبنی برفتحہ ہے تاکہ اس کے اور ان حرف ناصب کے درمیان فرق ہو سکے اور آخر میں الف حالت وقف میں حرکت کے بیان کے لئے ہے اور اگر درمیان کلام میں ہو تو یہ گر جاتا ہے سوائے لغت رویئہ کے، جیسا کہ شاعر نے کہا : انا سیف العشیرۃ فاعرفونی حمیدا قد تذریت السناما : اور بھت الرجل وبھت وبھت کا معنی ہے جب آدمی کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے اور وہ متحیر ہو کر خاموش ہوجائے یہ نحاس وغیرہ سے منقول ہے۔ اور علامہ طبری (رح) نے کہا ہے اور انہوں نے بعض عربوں سے اس معنی میں بھت یعنی با اور ہا کے فتحہ کے ساتھ بھی بیان کیا ہے (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ، 23 داراحیاء التراث العربیۃ) ابن حیی نے کہا ہے : ابو حیوہ نے (آیت) ” فبھت الذی کفر “ یعنی با کے فتحہ اور ہا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی بھت میں ایک لغت ہے، فرمایا : اور ابن السمیقع نے فبھت باء اور ہاء کے فتحہ کے ساتھ اس معنی پر پڑھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے متحیر کردیا جس نے کفر کیا، پس الذی محل نصب میں ہے۔ فرمایا : اور یہ بھی جائز ہے کہ بھت فتحہ کے ساتھ بھت میں ہی ایک لغت ہو۔ فرمایا : ابو الحسن اخفش نے فبھت کی قرات بیان کی ہے جیسا کہ غرق اور دھش۔ مزید کہا : اکثر نے ہا میں ضمہ پڑھا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ایک قوم نے اس کی قرات کی تاویل کی ہے جنہوں نے اسے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ بمعنی سب (گالی گلوچ دینا) اور قذف (تہمت لگانا) ہے۔ اور بلاشبہ نمروذ وہی ہے جس نے اس وقت گالیاں دیں جب اس کے دلائل ختم ہوگئے اور اس کے پاس کوئی حیلہ نہ رہا (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 347 دارالکتب العلمیہ)
Top