Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ
: کیا نہیں دیکھا آپ نے
اِلَى
: طرف
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
حَآجَّ
: جھگڑا کیا
اِبْرٰھٖمَ
: ابراہیم
فِيْ
: بارہ (میں)
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَنْ
: کہ
اٰتٰىهُ
: اسے دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: بادشاہت
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّيَ
: میرا رب
الَّذِيْ
: جو کہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
قَالَ
: اس نے کہا
اَنَا
: میں
اُحْيٖ
: زندہ کرتا ہوں
وَاُمِيْتُ
: اور میں مارتا ہوں
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
:ابراہیم
فَاِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْتِيْ
: لاتا ہے
بِالشَّمْسِ
: سورج کو
مِنَ
: سے
الْمَشْرِقِ
: مشرق
فَاْتِ بِهَا
: پس تو اسے لے آ
مِنَ
: سے
الْمَغْرِبِ
: مغرب
فَبُهِتَ
: تو وہ حیران رہ گیا
الَّذِيْ كَفَرَ
: جس نے کفر کیا (کافر)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
: ناانصاف لوگ
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔ یہ سن کر کافر حیران رہ گیا۔ اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
آیت : نمبر
258
۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ (آیت) الم تر “۔ یہ الف توقیفی ہے اور کلام میں تعجب کا معنی ہے یعنی انہوں نے اس کو تعجب میں ڈال دیا اور فراء نے کہا ہے : (آیت) ” الم تر “ بمعنی ھل رایت ہے یعنی کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور کیا آپ نے اسے دیکھا جو بستی کے پاس سے گزرا اور وہ نمروذ بن کوش بن کنعان بن سام بن نوح اپنے زمانے کا بادشاہ اور آگ اور مچھر والا تھا۔ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ حضرت مجاہد، حضرت قتادہ، حضرت ربیع، حضرت سدی، حضرت ابن اسحاق اور حضرت زید بن اسلم وغیرہم (رح) کا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
345
دارالکتب العلمیہ) اور اسے ہلاک کرنے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ لڑنے کا قصد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر مچھروں کا ایک باب کھول دیا، پس انہوں نے سورج کو ڈھانپ لیا اور اس کے لشکر کو کھانے لگے اور انہوں نے سوائے ہڈیوں کے اور کچھ نہ چھوڑا اور ان میں سے ایک اس کے دماغ میں داخل ہوگیا اور اسے کھا ڈالا یہاں تک کہ وہ چوہیا کی مثل ہوگیا اور اس کے بعد اس کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے معزز وہ تھا جو اس کے دماغ پر بھاری ہتھوڑے کے ساتھ مارتا تھا، پس چالیس دن تک وہ اس آزمائش اور مصیبت میں مبتلا رہا۔ ابن جریج نے کہا ہے : زمین میں وہ پہلا بادشاہ تھا، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول مردود ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : وہ پہلا حکمران ہے جس نے جبر و استبداد اور رعونت وسرکشی اختیار کی اور وہی بابل میں صاحب الصرح (محل کا مالک) تھا اور کہا گیا ہے کہ یہ پوری دنیا کا حکمران تھا اور یہ دو کافر بادشاہوں میں سے ایک ہے اور دوسرا بخت نصر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا وہ نمروذ بن فالخ بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام تھا، اس تمام کو ابن عطیہ نے بیان کیا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
345
دارالکتب العلمیہ) اور سہلی نے بیان کیا ہے وہ نمروذبن کوش بن کنعان بن حام نوح تھا اور وہ سواد عراق کا بادشاہ تھا اور اسے اس ضحاک نے حکمران بنایا تھا جو ازدھاق سے معروف تھا اور اس کا نام بیوراسب بن اندراست تھا اور وہ تمام سلطنتوں کا بادشاہ تھا اور یہ وہی ہے جسے افریدون بن اثفیان نے قتل کیا تھا اور اس بارے میں حبیب کہتا ہے : وکانہ الضحاک من فتکاتہ فی العالمین وانت افریدون “۔ ضحاک سرکش اور جابر حکمران تھا اور اس کی حکومت ہزار برس تک رہی جس بارے میں انہوں نے ذکر کیا ہے اور یہ پہلا حکمران ہے جس نے سولی دی اور پہلا حکمران ہے جس نے ہاتھ اور پاؤں کاٹے اور نمروذ کا صلبی بیٹا تھا اس کا نام ” کوش “ تھا یا اس نام کی طرح کا کوئی نام تھا اور اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام نمروذ الاصغر تھا اور نمروذ الاصغر ایک سال تک حاکم رہا، اور نمروذ الاکبر کی حکومت چار سو برس تک رہی جیسا کہ اس کے بارے ذکر کیا گیا ہے۔ اس جھگڑے کے قصص میں دو روایتیں ہیں : انمین سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے میلے کی طرف نکلے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انکے بتوں کے پاس گئے اور انہیں توڑ دیا جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں کہا : کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو (ٹوٹ کر) گر جاتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : تو کسی کی عبادت کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں اپنے اس رب کی عبادت کرتا ہوں جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : بیشک نمروذ طعام (اناج) ذخیرہ کرلیتا تھا اور جب انہیں طعام کی حاجت ہوتی تھی تو وہ اس سے اسے خریدتے تھے اور جب وہ اس کے پاس آتے تھے تو اسے سجدہ کرتے تھے، پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے پاس گئے تو آپ نے اسے سجدہ نہ کیا تو اس نے کہا : تجھے کیا ہے تو مجھے سجدہ نہیں کرتا ؟ آپ نے فرمایا : میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا، نمروذ نے آپ کو کہا تیرا رب کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا : میرا رب وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ حضرت زید بن اسلم (رح) نے بیان کیا ہے کہ یہ نمروذ بیٹھ گیا اور لوگوں کو اہل و عیال کے لئے طعام لے جانے کا حکم دینے لگا، پس جب بھی کوئی قوم آتی یہ ان سے پوچھتا : تمہارا رب اور تمہارا الہ کون ہے، ؟ تو یہ کہتے : تو ہے، تو ہے یہ کہتا، تو انہیں طعام دے دو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اپنے اہل و عیال کو طعام مہیا کرنے کے لئے اس کے پاس آئے تو اس نے آپ سے کہا : تمہارا رب اور تمہارا معبود کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جب نمروذ نے یہ سنا تو اس نے کہا : میں بھی جلا سکتا ہوں اور مار سکتا ہوں، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج کے معاملہ کے ساتھ اس کا معارضہ کیا تو وہ کفر اختیار کرنے والا متحیر ہوگیا اور اس نے کہہ دیا : تم اسے اناج نہ دو ۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بغیر کسی شے کے واپس اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ گئے۔ راستے میں آپ ریت کے ٹیلے کے پاس سے گزرے جو آٹے کی مثل تھا، تو آپ نے اپنے دل کہا : اگر میں اسے اپنا بورا بھر لوں تو جب میں اسے لے کر گھر داخل ہوں گا تو بچے خوش ہوجائیں گے یہاں تک کہ میں انہیں دیکھ لوں گا، پس آپ وہ لے گئے، جب آپ اپنے گھر پہنچے تو بچے خوش ہوگئے اور وہ دونوں بوروں کے اوپر کھیلنے لگے اور آپ تھکاوٹ کی وجہ سے سو گئے، تو آپ کی زوجہ محترمہ نے کہا : اگر میں آپ کے لئے کھانا تیار کر دوں جب آپ بیدار ہوں گے تو آپ اسے موجودہ پائیں گے (اور تناول فرمالیں گے) چناچہ اس نے ایک بورا کھولا تو انہوں نے اسے اس سے بھی اچھا پایا جتنا سفید آٹا ہوتا ہے اور پھر اس کی روٹیاں پکادیں اور جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اس نے وہ کھانا آپ کے سامنے رکھ دیا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : یہ کہاں سے آیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : یہ وہی آٹا ہے جو آپ لائے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جان گئے کہ اللہ تعالیٰ نے انکے لئے آسانی پیدا فرما دی ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
345
دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابو صالح سے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) طعام لانے کے لئے چلے اور آپ اس پر قادر نہ ہو سکے، تو آپ سرخ موٹی ریت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس سے بورے بھر لیے اور پھر اپنے گھروں والوں کی طرف واپس لوٹ آئے، تو انہوں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ سرخ گندم ہے پس انہوں نے اسے کھولا تو اسے سرخ گندم ہی پایا اور جب اس میں سے کچھ کاشت کی تو جڑ سے شاخ کے سرے تک سٹہ نکلا جو دانوں سے بھرا ہوا تھا (
2
) (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد
6
، صفحہ
330
، حدیث نمبر
31819
، الزمان للشقافۃ والعلوم مدینہ منورہ) اور ربیع وغیرہ نے ان قصص میں کہا ہے کہ نمروذ نے جب کہا میں جلاتا بھی ہو اور مارتابھی ہوں تو اس نے دو آدمیوں کو حاضر کیا، ان میں سے کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہا : تحقیق میں نے اسے زندہ کردیا اور اسے مار دیا، اور جب آپ نے اس پر سورج کا معامہ لوٹایا تو وہ مبہوت اور متحیر ہوگیا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
346
دارالکتب العلمیہ) اور الخبر میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میں سورج کو مغرب سے طلوع کروں گا تاکہ وہ جان لے کہ میں اس پر قادر ہوں (
4
) (صحیح بخاری، کتاب تفسیر القران، حدیث نمبر
4269
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پھر نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے حکم دیا تو انہیں آگ میں پھینک دیا گیا اور اسی طرح جابر حکمرانوں کی عادت ہے کہ جب کسی سے کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے اور دلیل لانے سے عاجز ہوجائیں تو وہ سزا دینے میں لگ جاتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگ سے نجات عطا فرمائی، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور سدی نے کہا ہے : جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلے تو انہوں نے آپ کو بادشاہ کے پاس پیش کردیا۔ اور اس سے پہلے آپ کو اس پر پیش نہیں کیا گیا تھا۔۔۔۔ اور نے آپ سے گفتگو کی، اور آپ کو کہا : تیرا رب کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : میرا رب وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا ہے۔ نمروذ نے کہا : میں بھی زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں، میں چار آدمیوں کو پکڑوں گا اور انہیں ایک کمرے میں بند کردوں گا اور وہ کوئی شے کھا پی نہیں سکیں گے یہاں تک کہ جب وہ بھوک سے نڈھال ہوجائیں گے تو میں انہیں نکال دوں گا اور دو کو کھانا وغیرہ کھلاؤں گا۔ پس وہ دونوں زندہ رہیں گے اور دو کو چھوڑ دوں گا اور وہ مر جائیں گے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور معارضہ سورج کا معاملہ پیش کردیا (کہ اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو وہ سورج کو مغرب سے طلوع کرے) تو وہ متحیر ومبہوت ہوگیا۔ علمائے اصول نے اس آیت میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب رب کا کریم کا وصف بیان کیا ایسی شے کے ساتھ جو اس کی صفت ہے یعنی احیاء (جلانا) اور اماتۃ (مارنا) لیکن یہ ایسا امر ہے جس کے لئے حقیقت اور مجاز دونوں ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حقیقت کا قصد کیا۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
346
دارالکتب العلمیہ) اور نمروذ نے مجاز کی پناہ لی اور اپنی قوم پر جھوٹا امر پیش کردیا۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے بطور قیاس جدلی کے تسلیم کرلیا اور آپ اس کے ساتھ مثال سے منتقل ہوگئے اور اس کے سامنے ایک ایسا امر رکھ دیا جس میں مجاز نہیں ہے۔ (آیت) ” فبھت الذی کفر “۔ یعنی اس کی دلیل اور حجت حکم سے کٹ گئی، ختم ہوگئی اور اس کیلئے یہ کہنا ممکن نہ رہا کہ میں سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہوں کیونکہ صاحب عقل وفہم اس کی تکذیب کردیں گے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ کافر کو بادشاہ (ملک) کا نام دینا جائز ہے جب اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے بادشاہی، عزت اور بلندی عطا کر دے اور یہ مناظرہ، مجادلہ اور حجت قائم کرنے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے۔ قرآن وسنت میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس پر کثیر دلائل موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین “۔ (البقرہ) ترجمہ : آپ (انہیں) فرمائیے لاؤ اپنی کوئی دلیل اگر تم سچے ہو۔ ” ان عندکم من سلطان “ یعنی تمہارے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے ساتھ جھگڑا اور بتوں کی عبادت کے بارے میں آپ کی جانب سے ان کا رد بھی بیان فرمایا ہے جیسا کہ سورة الانبیاء وغیرہ میں ہے۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : (آیت) ” قالوا ینوح قد جدلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین، قال انما یاتیکم بہ اللہ ان شآء وما انتم بمعجزین، ولاینفعکم نصحی ان اردت ان انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم ھو ربکم والیہ ترجعون، ام یقولون افترہ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی وانا بریء مماتجرمون، (ہود) ترجمہ : وہ، (بروفروختہ ہو کر) بولے اے نوح ! تو نے ہم نے جھگڑا کیا اور اس جھگڑے کو بہت طول دیا، اور میں بری الذمہ ہوں ان گناہوں سے جو تم کرتے ہو، اور طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے ساتھ مجادلہ ہے اس کا کئی آیات میں ذکر ہے، پس یہ سب کی سب اللہ کی جانب سے دین کے بارے میں سوال و جواب اور مجادلہ کی تعلیم ہے، کیونکہ حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہی نہیں ہوتا مگر تبھی جب حق کی دلیل ظاہر اور غالب ہو اور باطل کی دلیل فاسد ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب سے مجادلہ کیا اور حجت قائم کرنے کے بعد ان سے مباہلہ کیا، جیسا کہ اس کا بیان : آل عمران “ میں آئے گا اور حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں مکالمہ ہوا اور آدم (علیہ السلام) حجت کے ساتھ ان پر غالب آگئے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سقیفہ کے دن جھگڑتے رہے ایک دوسرے کو دور ہٹاتے رہے، تقرر کرتے رہے اور باہم مناظرہ کرتے رہے یہاں تک کہ حق اس کے بارے میں ظاہر ہوگیا جو اس کے اہل تھا اور انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت کرلینے کے بعد مرتدین کے بارے میں مناظرہ کیا، علاوہ ازیں کثیر ایسے واقعات ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “۔ میں اس پر دلیل ہے کہ علم کے ساتھ حجت پیش کرنا، احتجاج کرنا مباح ہے اور غور وفکر کرنے والوں کے درمیان شائع ہے، مزنی صاحب شافعی نے کہا ہے : مناظرہ کے حقوق میں یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کیا جائے اور اس سے جو شے واضح ہو اسے قبول کرلیا جائے۔ اور بعض نے کہا ہے : مناظرہ صحیح نہیں ہوتا اور مناظرہ کرنے والوں کے درمیان حق ظاہر اور واضح ہوجاتا ہے جبکہ وہ دین، عقل، فہم اور انصاف میں ایک دوسرے کے قریب ہوں یا ایک ہی مرتبہ میں مساوی اور برابر ہوں، مگر اس میں ریاکاری اور باہمی عداوت، مخالفت اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش ہوتی ہے۔ قرات ،: حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ” الم تر “ را کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور جمہور نے اسے متحرک پڑھا ہے اور یا جزم کے لئے حذف کردی گئی ہے۔ اور (آیت) ” ان اتہ اللہ الملک “ محل نصب میں ہے یعنی لان اتاہ اللہ، یامن اجل ان اتاہ اللہ اور جمہور قراء نے ان احی یعنی وصل کلام میں انا سے نون کے بعد الف کو گرا کر پڑھا ہے اور نافع اور ابن ابی اویس نے اسے ثابت رکھا ہے، جب بھی پورے قرآن میں ہمزہ اس کے ساتھ ملا ہے سوائے اس قول کے : (آیت) ” ان انا الا نذیر “ کیونکہ وہ اسے اس جگہ میں اس کی قتل کے سبب تمام قراء کی طرح گرا دیتے ہیں، کیونکہ یہ قرآن کریم میں صرف تین مقامات پر واقع ہوا ہے اور یہ اپنے قلیل ہونے کی وجہ سے اس کے قائم مقام ہے جس کے بعد ہمزہ نہ ہو لہذا الف کو وصل کلام میں بھی حذف کردیا گیا۔ علمائے نحو نے کہا ہے : متکلم کی ضمیر اسم ہے اس میں ہمزہ اور نون ہے، اور جب تو کہے : انا یا انہ تو الف اور باء وقف میں حرکت کو بیان کرنے کے لئے ہیں اور جب کلمہ کسی شے سے متصل ہو تو وہ دونوں ساقط ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ شے جس کے ساتھ کلمہ متصل ہوتا ہے وہ قائم مقام الف کے ہوتا ہے، پس یہ نہیں کہا جائے گا : انا فعلت الف کے اثبات کے ساتھ مگر شعر میں یہ شاذ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : انا سیف العشیرۃ فاعرفونی حمیدا قد تذریت السناما : نحاس نے کہا ہے : اس بنا پر کہ نافع نے الف کو ثابت رکھا ہے اور پڑھا ہے ” انا احی وامیت “ اس کی کوئی وجہ اور علت نہیں ہے، مکی نے کہا ہے : بصریوں کے نزدیک الف زائدہ ہے اور ان کے نزدیک اہم مضمر ہمزہ اور نون ہیں اور الف کو تقویت کے لئے زائد کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ وقف کے لئے زائد کیا گیا ہے تاکہ نون کی حرکت ظاہر ہو۔ اور کو فیوں کے نزدیک انا مکمل طور پر اسم ہے پس نافع نے انکے قول کے مطابق اصل کی بنا پر الف کو ثابت رکھا ہے اور جنہوں نے الف کو حذف کیا ہے تو انہوں نے تخفیف کے لئے اسے حذف کیا ہے کیونکہ فتحہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : اور رہا ان کا قول انا تو یہ اسم کنایہ ہے اور یہ اکیلا متکلم کے لئے ہے اور یہ مبنی برفتحہ ہے تاکہ اس کے اور ان حرف ناصب کے درمیان فرق ہو سکے اور آخر میں الف حالت وقف میں حرکت کے بیان کے لئے ہے اور اگر درمیان کلام میں ہو تو یہ گر جاتا ہے سوائے لغت رویئہ کے، جیسا کہ شاعر نے کہا : انا سیف العشیرۃ فاعرفونی حمیدا قد تذریت السناما : اور بھت الرجل وبھت وبھت کا معنی ہے جب آدمی کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے اور وہ متحیر ہو کر خاموش ہوجائے یہ نحاس وغیرہ سے منقول ہے۔ اور علامہ طبری (رح) نے کہا ہے اور انہوں نے بعض عربوں سے اس معنی میں بھت یعنی با اور ہا کے فتحہ کے ساتھ بھی بیان کیا ہے (
1
) (جامع البیان للطبری، جلد
3
، صفحہ،
23
داراحیاء التراث العربیۃ) ابن حیی نے کہا ہے : ابو حیوہ نے (آیت) ” فبھت الذی کفر “ یعنی با کے فتحہ اور ہا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی بھت میں ایک لغت ہے، فرمایا : اور ابن السمیقع نے فبھت باء اور ہاء کے فتحہ کے ساتھ اس معنی پر پڑھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے متحیر کردیا جس نے کفر کیا، پس الذی محل نصب میں ہے۔ فرمایا : اور یہ بھی جائز ہے کہ بھت فتحہ کے ساتھ بھت میں ہی ایک لغت ہو۔ فرمایا : ابو الحسن اخفش نے فبھت کی قرات بیان کی ہے جیسا کہ غرق اور دھش۔ مزید کہا : اکثر نے ہا میں ضمہ پڑھا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ایک قوم نے اس کی قرات کی تاویل کی ہے جنہوں نے اسے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ بمعنی سب (گالی گلوچ دینا) اور قذف (تہمت لگانا) ہے۔ اور بلاشبہ نمروذ وہی ہے جس نے اس وقت گالیاں دیں جب اس کے دلائل ختم ہوگئے اور اس کے پاس کوئی حیلہ نہ رہا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
347
دارالکتب العلمیہ)
Top