Al-Qurtubi - Al-Baqara : 253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا١۫ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ الرُّسُلُ : رسول (جمع) فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَھُمْ : ان کے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض مِنْھُمْ : ان سے مَّنْ : جس كَلَّمَ : کلام کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَھُمْ : ان کے بعض دَرَجٰتٍ : درجے وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کا بیٹا الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَاَيَّدْنٰهُ : اور اس کی تائید کی ہم نے بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرائیل) سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ اقْتَتَلَ : باہم لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ بَعْدِ : بعد ھِمْ : ان مِّنْ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَتْھُمُ : جو (جب) آگئی ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَلٰكِنِ : اور لیکن اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فَمِنْھُمْ : پھر ان سے مَّنْ : جو۔ کوئی اٰمَنَ : ایمان لایا وَمِنْھُمْ : اور ان سے مَّنْ : کوئی کسی كَفَرَ : کفر کیا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا اقْتَتَلُوْا : وہ باہم نہ لڑتے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتا) بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے بعض ایسے ہیں جن سے خدا نے گفتگو فرمائی اور بعض کے (دوسرے امور میں) مرتبے بلند کئے اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس سے ان کو مدد دی اور اگر خدا چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاش کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے لیکن خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
آیت نمبر : 253۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” تلک الرسل “۔ یہاں تلک فرمایا ہے۔ ذلک نہیں فرمایا تو یہ لفظ جمع کی تانیث کی رعایت کرتے ہوئے کہا ہے۔ اور یہ مبتدا ہونے کے سبب محل رفع میں ہے اور ” الرسل “ اس کی صفت ہے اور مبتدا کی خبر مابعد جملہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرسل عطف بیان ہے اور (آیت) ” فضلنا “۔ خبر ہے، یہ مشکل آیت ہے اور احادیث ثابت ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا تخیروا مابین الانبیائ (1) (مشکوۃ المصابیح، باب بدء الخلق ذکر الانبیاء جلد 1، صفحہ 1، 507) (تم انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان کسی کو دوسرے پر ترجیح نہ دو ) اور مزید فرمایا : ” لا تفضلوا بین انبیاء اللہ (2) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء جلد 1، صفحہ 485، وزارت تعلیم) (تم اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے درمیان کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دو ) انہیں ائمہ ثقات نے روایت کیا ہے، یعنی تم یہ نہ کہو، فلاں فلاں سے بہتر ہے اور نہ یہ کہو : فلاں فلاں سے افضل ہے۔ کہا جاتا ہے : خیر فلاں بین فلاں وفلاں (فلاں نے فلاں فلاں کے درمیان ایک کو بہتر قرار دیا) اور فضیلت دی جب اس نے یہ کہا تو اس میں (فضل) مشدد ہوگا۔ اس معنی کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ پس ایک قوم نے کہا ہے : یہ حکم آپ ﷺ کی طرف تفضیل کے بارے وحی نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور آپ کے یہ جاننے سے پہلے کا ہے کہ آپ ﷺ اولاد آدم کے سردار ہیں، اور بلاشبہ قرآن کریم فضیلت دینے روکنے والے حکم کے لئے ناسخ ہے۔ اور ابن قتیبہ (رح) نے کہا ہے : آپ ﷺ کے ارشاد انا سید ولد آدم (3) سنن ابن ماجہ کتاب الزہد، جلد 1، صفحہ 329، وزارت، صحیح بخاری، کتاب التفسیر سورة بنی اسرائیل، حدیث 4343، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (میں اولاد آدمی کا سردار ہوں) سے مراد قیامت کا دن ہے (یعنی قیامت کے دن آپ اولاد آدم کے سردار ہوں گے) کیونکہ اس دن آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے اور لواء الحمد اور حوض کوثر آپ ہی کے لئے ہوگا۔ اور آپ ﷺ نے تواضع اور انکساری کے طور پر یہ ارشاد فرمایا : لاتخیرونی علی موسیٰ (1) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الانبیاء جلد 1، صفحہ 481، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، کتاب الخصومات حدیث نمبر 2235، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تم مجھے موسیٰ (علیہ السلام) سے بہتر اور برتر قرار نہ دو ) جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اس قول میں تواضع مراد ہے : ولیتم ولست بخیرکم “۔ (مجھے تمہارا والی بنایا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں) اور اسی طرح آپ ﷺ کے اس ارشاد کا معنی ہے لا یقل احد انا خیر من یونس بن متی (2) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء جلد 1، صفحہ 481، وزارت تعلیم، صحیح بخاری کتاب الخصومات، حدیث نمبر 2235، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (کوئی یہ نہ کہے کہ میں حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں) یعنی یہ تواضع اور انکساری کی بنا پر ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : (آیت) ” ولا تکن کصاحب الحوت “۔ (قلم : 48) ترجمہ : اور تم مچھلی والے کی طرح نہ ہوجاؤ۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے افضل ہیں، کیونکہ رب العالمین فرما رہا ہے : ولا تکن مثلہ (اور تم ان کی مثل نہ ہوجاؤ) اور یہ اس پر دلیل ہے کہ آپ کا ارشاد ’‘ ولا تفضلونی علیہ “۔ (3) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الانبیاء جلد 1 صفحہ 507) (تم مجھے ان پر فضیلت نہ دو ) یہ بطریق تواضع ہے، اور یہ معنی مراد لینا بھی جائز ہے کہ تم مجھے ان پر عمل میں فضیلت نہ دو ، شاید وہ عملا مجھ سے افضل ہوں اور نہ ہی آزمائش اور امتحان میں مجھے فضیلت دو کیونکہ وہ آزمائش کے اعتبار سے مجھ سے اعظم ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبی ﷺ کو قیامت کے دن تمام انبیاء (علیہم السلام) پر سرداری اور فضیلت عطا فرمائی ہے وہ آپ کے عمل کے سبب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے آپ کو فضیلت دینے کے سبب ہے اور اپنے لئے آپ کو خاص کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس تاویل کو مہلب نے اختیار کیا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : اس میں گہری غور وخوض سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ گہری غور وخوض اس میں جھگڑے تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور وہ یہاں تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں وہ کچھ کہے جو اسے نہیں کہنا چاہیے اور مقابلے کے وقت ان کا احترام کم ہوجاتا ہے ہمارے شیخ نے کہا ہے : پس یہ نہیں کہا جائے گا : نبی مکرم ﷺ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے افضل ہیں اور نہ یہ کہا جائے گا : وہ فلاں سے افضل ہیں اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ وہ بہتر ہیں، جیسا کہ نہی کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے مفضول میں نقص اور عیب کا وہم ہوجاتا ہے، کیونکہ نہی لفظ کے اطلاق سے روکنے کا تقاضا کرتی ہے نہ کہ اس معنی کا اعتقاد رکھنے سے روکنے کا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کردیا ہے کہ رسل (علیہم السلام) کو ایک دوسرے پر فضیلت دی گئی ہے، پس آپ یہ نہیں کہیں گے : ہمارے نبی ﷺ انبیاء (علیہم السلام) سے بہتر ہیں اور نہ یہ کہ آپ فلاں نبی (علیہ السلام) سے بہتر ہیں، اس سے اجتناب کرتے ہوئے جس سے منع کردیا گیا ہے اور اس کی اقتدا کرتے ہوئے اور اس اعتقاد کے مطابق عمل کرتے ہوئے جس تفضیل کو قرآن متضمن ہے اور حقائق امور کو اللہ تعالیٰ ہی جاننے والا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ان اقوال میں سے احسن قول اس کا ہے جس کے یہ کہا ہے : بلاشبہ فضیلت دینے سے روکنا خالصۃ اس نبوت کی جہت سے ہے جو ایک خصلت ہے جس میں کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں، بلکہ یہ فضیلت احوال و خصوصیات، کرامات والطاف میں زیادتی اور متفرق معجزات کی بنا پر ہے اور رہی نبوت فی ذا تھا تو اس میں کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں، بلکہ یہ تفاضل دوسرے امور کے سبب ثابت ہوتا ہے جو اس پر متزاد ہیں، اسی وجہ سے ان میں سے بعض رسل اولو العزم ہیں اور انمیں سے وہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے اور وہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی عطا فرمایا اور انمیں سے بعض کے درجات بلند کردیے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض واتینا داؤد زبورا “۔ (بنی اسرائیل : 55) ترجمہ : اور تحقیق ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔ اور مزید فرمایا (آیت) ” تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض “۔ ترجمہ : یہ سب رسول ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں ‘ یہ اچھا قول ہے، کیونکہ اس نے بغیر نسخ کے آیات اور احادیث کے درمیان تطبیق کردی ہے اور بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا قول ان فضائل کی بنا پر ہے جو انہیں عطا فرمائے گئے اور ان وسائل کی وجہ سے ہے جو انہیں دیے گئے، اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو انبیاء (علیہم السلام) پر اور اہل آسمان پر فضیلت دی ہے تو صحابہ نے پوچھا : اے ابن عباس ؓ کیونکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان والوں پر فضیلت دی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ومن یقل منھم انی الی من دونہ فذلک نجزیہ جھنم کذلک نجزی الظلمین (الانبائ :) اور جو ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا تو اسے ہم سزا دیں گے جہنم کی، یونہی ہم سزا دیا کرتے ہیں ظالموں کو۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت ﷺ کے لئے فرمایا ہے : (آیت) ” انا فتحنالک فتحا مبینا، لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “۔ (الفتح) ترجمہ : یقینا ہم نے آپ کو شاندار فتح عطا فرمائی ہے تاکہ دور فرما دے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو ہجرت کے بعد لگائے گئے۔ پھر انہوں نے کہا : انبیاء (علیہم السلام) پر آپ کی فضیلت کیسی ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم (ابراہیم : 4) ترجمہ : اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ کھول کر بیان کرے ان کے لئے (احکام الہی کو) اور اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت ﷺ کے لئے ارشاف فرمایا : (آیت) ” وما ارسلنک الا کافۃ للناس “۔ (السبا : 28) ترجمہ : اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام انسانوں کی طرف۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو جن وانس کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ اسے ابو محمد الدارمی نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا ہے : خیر بنی آدم نوح وابراھیم وموسی ومحمد ﷺ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 338 دارالکتب العلمیہ) کہ بنی آدم میں سے افضل اور بہتر حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، اور حضرت محمد ﷺ ہیں اور یہی رسولوں میں سے اولوالعزم ہیں، پس یہ تعییں میں حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ﷺ کی جانب سے نص ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ جنہیں رسالت عطا فرمائی گئی ہے وہ ان سے افضل ہیں جنہیں رسالت نہیں دی گئی تو بلاشبہ جنہیں رسالت دی گئی ہے انہیں رسالت کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی گئی ہے اور وہ نبوت میں برابر ہیں، یہاں تک کہ رسولوں کو بھی اپنی امتوں کی جانب سے تکذیب اور انہیں قتل کرنے جیسی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچتی رہیں ہیں اور یہ ایسی شے ہے جس میں کوئی خفا نہیں ہے مگر ابن عطیہ ابو محمد عبدالحق نے کہا ہے : بلاشبہ قرآن کریم تفضیل کا تقاضا کرتا ہے۔ اور یہ فی الجملہ ہے اس میں کسی ایک مفضول کی تعیین نہیں ہے اور اسی طرح احادیث بھی ہیں اور اسی لئے حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : انا اکرم ولد آدم علی ربی (1) (مشکوۃ المصابیح، فضل سید المرسلین، جلد 1، صفحہ 514، ایضا ترمذی فی فضل النبی، حدیث نمبر 3543، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (میں اپنے رب کے نزدیک (تمام) اولاد آدم سے زیادہ معزز ہوں) اور فرمایا : ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں “۔ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، جلد 1، صفحہ 329، وزارت تعلیم) اور آپ نے تعیین نہیں فرمائی، اور حضور ﷺ نے فرمایا : ” کسی کے لئے یہ کہنا مناسب نہیں کہ حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں (3) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، جلد 1، صفحہ، 485 وزارت تعلیم) اور فرمایا : ” تم مجھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو (4) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، جلد 1، صفحہ، 485 وزارت تعلیم) اور ابن عطیہ نے کہا ہے : اس میں مفضول کی تعیین سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے، کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) نوجوان تھے اور آپ اعبائے نبوت کے نیچے دب گئے تو جب حضرت محمد ﷺ کے لئے یہ حیکم توفیقی ہے تو دوسروں کے لئے تو بدرجہ اولی ہوگا۔ (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 338 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : جو موقف ہم نے اختیار کیا ہے وہی اولی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ خبر دی ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضلیت دی ہے تو وہ بعض فضیلت والے انبیاء کو بیان بھی کرتا ہے اور ان احوال کا ذکر بھی کرتا ہے جن کے سبب انہیں فضلیت دی ہے، پس اس نے فرمایا ہے۔ (آیت) ” منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجت، واتینا عیسیٰ ابن مریم البنت “۔ (البقرہ : 253) ترجمہ : ان میں سے کسی سے کلام فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور بلند کیے ان میں سے بعض درجے اور دیں ہم نے عیسیٰ فرزند مریم کو کھلی نشانیاں۔ ) اور مزید فرمایا : (آیت) ” واتینا داؤد زبورا “۔ (بنی اسرائیل) ترجمہ : اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” ایتناہ الانجیل “۔ ترجمہ : اور ہم نے اسے انجیل عطا فرمائی۔ (آیت) ” ولقد اتینا موسیٰ وھرون الفرقان وضیآء وذکراللمتقین “۔ (الانبیائ) ترجمہ : اور یقینا ہم نے عطا فرمایا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو فرقان اور روشنی اور ذکر پرہیزگاروں کے لئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ولقد اتینا داؤد سلیمن علما “۔ (النمل : 15) ترجمہ : اور تحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا فرمایا۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” واذ اخذنا من النبین میثاقھم ومنک ومن نوح “۔ (احزاب : 7) ترجمہ : اور (اے حبیب) یاد کرو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے بھی نوح سے بھی۔ پس یہ عام بیان کیا پھر خاص بیان کیا اور آغاز حضور نبی رحمت ﷺ سے کیا اور یہ بالکل ظاہر ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح گفتگو صحابہ کام کے بارے میں بھی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ، وہ شرف صحبت میں تمام مشترک ہیں، پھر ان فضائل میں وہ متفرق اور جدا جدا ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں مواہب و رسائل میں سے عطا فرمائے ہیں پس وہ ان کے سبب ایک دوسرے پر فضلیت رکھتے ہیں اس کے باوجود ان تمام کو صحابیت، عدالت اور ان کی تعریف وغیرہ سب شامل ہیں، اور تجھے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہی کافی ہے : (آیت) ” محمد رسول اللہ، والذین معہ اشدآء علی الکفار “۔ (الفتح : 29) ترجمہ : (جان عالم) محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ (سعادتمند) جو آپ کے ساتھی ہیں کفار کے مقابلہ میں بہادر طاقتور ہیں۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” والزمھم کلمۃ التقوی وکانوا احق بھا واھلھا “۔ (الفتح : 26) ترجمہ : اور انہیں استقامت بخش دی تقوی کے کلمہ پر اور وہ اس کے حق دار بھی تھے اور اس کے اہل بھی تھے۔ اور فرمایا : (آیت) ” لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قتل “۔ (الحدید : 10) ترجمہ ؛ تم میں سے کوئی برابری نہیں کرسکتا انکی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہ خدا میں) مال خرچ کیا اور جنگ کی۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” لقد ؓ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ “۔ الفتح : 18) ترجمہ : یقینا راضی ہوگیا اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے جب وہ بیعت کر رہے تھے آپ کی اس درخت کے نیچے۔ پس یہ بھی عام اور خاص بیان ہے اور ان سے عیب اور نقص کی نفی کی ہے۔ ؓ اجمعین ونفعنا بحبھمہ آمین۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” منھم من کلم اللہ “۔ جس سے کلام کی گئی ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں، تحقیق رسول اللہ ﷺ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے عرض کی گئی : کیا وہ نبی مرسل تھے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں وہ نبی مکلم تھے “ (یعنی جن سے کلام کی گئی۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : بعض لوگوں نے تاویل یہ کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو شرف ہمکلامی جنت میں عطا ہوا، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت باقی رہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 338 دارالکتب العلمیہ) عبادت سے اسم کے طویل ہونے کے سبب ہاضمیر کو حذف کردیا گیا ہے، اصل عبارت ہے : من کلہ اللہ۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ورفع بعضھم درجت “۔ نحاس نے کہا ہے : حضرت ابن عباس ؓ حضرت شعبی اور حضرت مجاہد (رح) کے قول کے مطابق یہاں ” بعضھم “ سے مراد حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں سرخ و سیاہ کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری لئے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاکیزہ بنا دی گئی اور ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی اور میرے لئے غنائم حلال کردی گئیں۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد 1، صفحہ 199، وزارت تعلیم) اور مجھے شفاعت عطا کی گئی “۔ اور اسی سے قرآن کریم، چاند کا شق ہونا، درخت کا آپ سے کلام کرنا، چند کھجوروں سے آپ ﷺ کا بہت بڑی مخلوق کو کھلانا اور ام معبد کی بکری کے خشک ہونے کے بعد اسے دوہنا وغیرہ تمام معجزات آپ کے متعلق ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اور زائد یہ ہے کہ آپ ﷺ امت کے اعتبار سے تمام لوگوں سے عظیم تر ہیں اور آپ ﷺ پر سلسلہ انبیاء (علیہم السلام) کو ختم کیا گیا، علاوہ ازیں وہ خلق عظیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطا فرمایا۔ اور لفظ یہ احتمال رکھتا ہے کہ اس سے مراد حضور نبی رحمت ﷺ اور آپ کے سوا وہ ہوں جن کی آیات ومعجزات بڑے بڑے ہیں، اور کلام کا ذکر تاکیدا ہوسکتا ہے اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد حضرت ادریس (علیہ السلام) کو بلند مکان (آسمان) کی طرف اٹھانا ہو اور مراد آسمان میں انبیاء (علیہم السلام) کے مراتب ہوں جیسا کہ حدیث اسراء میں ہے۔ اس کا ذکر عنقریب آئے گا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہ ہیں : مردوں کو زندہ کرنا، مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفایاب کرنا اور مٹی سے پرندے بنانا وغیرہ جیسا کہ اس پر قرآن کریم میں نص موجود ہے۔ (آیت) ” وایدنہ “ اور ہم نے اسے قوت عطا فرمائی، (آیت) ” بروح القدس “ یعنی حضرت جبریل (علیہ السلام) سے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 339 دارالکتب العلمیہ، صحیح بخاری کتاب التیمم : حدیث نمبر : 323 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولو شآء اللہ ما اقتتل الذین من بعدھم “۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ جوان رسولوں کے بعد آئے یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ضمیر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہے اور تثنیہ کو جمع سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ قول بھی ہے۔ من بعد جمیع الرسل : یعنی تمام رسولوں کے بعد اور یہی لفظ کا ظاہر معنی ہے۔ اور کہا گیا ہے : بیشک یہ قتال اور جھگڑا ان لوگوں کی طرف سے واقع ہوا جو انکے بعد آئے اور معنی اس طرح نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگ ہر نبی کے بعد نہ لڑتے جھگڑتے، اور یہ اسی طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : اشتریت خیلا ثم بع تھا (میں نے گھوڑا خریدا پھر اسے بیچ دیا) پس اس عبارت میں تیرے لئے جائز ہے کہ تو ایک گھوڑا خریدے اور اسے بیچ دے پھر دوسرا خرید لے اور اسے بیچ دے پھر تیسرا خریدے اور اسے بیچ دے اور اسی طرح یہ نوازل (سخت مصیبتیں) بھی ہیں کہ لوگوں کا ہر نبی (علیہ السلام) کے بعد اختلاف ہوا، پس ان میں سے وہ بھی ہیں جو ایمان لائے اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے دنیوی سازو سامان کی طلب اور حسد میں کفر اختیار کیا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور قضا وقدر کے ساتھ ہوا اور اگر اللہ تعالیٰ اس کا خلاف اور برعکس چاہتا تو وہی ہوتا لیکن وہ اس فعل کو سرحکمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔ اور ” ولکن اختلفوا “ میں نون کو دو ساکن ملنے کی وجہ سے کسرہ دیا گیا ہے اور قرآن کے سوا اور کلام میں اس کا حذف بھی جائز ہوتا ہے اور سیبویہ نے شعر کہا ہے : فلست باتیہ ولا استطیعہ ولاک اسقنی ان کان ماؤک ذافضل : پس میں اس کی طرف آنے والا نہیں ہوں (جس کی طرف تو نے مجھے دعوت دی ہے) اور نہ میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں لیکن تو مجھے پانی سے سیراب کر اگر تیرے پاس فالتو پانی ہے۔ (آیت) ’ فمنھم من امن ومنھم من کفر “۔ اس میں من مبتدا ہونے اور صفت کے سبب محل رفع میں ہے۔
Top