Al-Qurtubi - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
آیت نمبر 187 اس میں چھتیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : احل لکم لفظ احل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے یہ عمل حرام تھا پھر منسوخ کیا گیا۔ ابوداؤد نے ابن لیلیٰ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہمارے اصحاب بت ہمیں بیان کیا، فرمایا : ایک شخص جب روزہ افطار کرتا تھا پھر کچھ کھانے سے پہلے سو جاتا تھا تو وہ صبح تک نہیں کھاتا تھا۔ فرمایا : حضرت عمر آئے اور اپنی بیوی سے حقوق زوجیت کا ارادہ کیا تو بیوی نے کہا : میں سوچکی تھی۔ حضرت عمر نے کہا : ویسے کہہ رہی ہے۔ حضرت عمر نے اس سے حقوق زوجیت ادا کئے۔ ایک انصاری آیا اس نے کھانے کا ارادہ کیا۔ گھر والوں نے کہا : ہم تیرے لئے کھانا گرم کرتے ہیں۔ وہ شخص سو گیا جب صبح ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں ہے : احل لکم لیلة الصیام الرفث الیٰ نسآیکم۔ بخاری نے حضرت براء سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت محمد ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا پھر افطاری کے وقت افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو وہ اس رات اگلے دن شام تک کچھ نہ کھاتا تھا، قیس بن صرمہ انصاری روزہ دار تھا۔۔ ایک روایت میں ہے وہ دن کے وقت کھجوروں کے باغ میں کام کرتا رہتا اور روزے سے تھا۔۔۔ وہ افطار کے وقت حاضر ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : کیا تیرے پاس کھانا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں لیکن میں جاتی ہوں اور تیرے لئے کھانا طلب کرتی ہوں۔ وہ سارا دن کام کرتا رہا تھا پس اسے نیند آگئی اس کی بیوی آئی تو اس نے اسے سویا ہوا دیکھا تو کہا : ہائے تیرے لئے خسارہ۔ جب آدھا دن گزرا تو اس پر غشی طاری ہوگئ۔ اس چیز کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی : احل لکم لیلة الصیام الرفث الیٰ نسآئکم۔ صحابہ کرام بہت خوش ہوئے اور یہ ارشاد نازل ہوا : وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسودمن الفجر۔ اور بخاری میں حضرت براء سے مروی ہے، فرمایا : جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو لوگ پورا رمضان عورتوں کے قریب نہ جاتے تھے چ اور کچھ لوگ اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا : علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم۔ کہا جاتا ہے : خان اور اختان، خیانۃ سے مشتق ہیں اور ہم معنی ہیں یعنی روزوں کی راتوں میں مباشرت کی وجہ سے اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے اور جس نے اللہ کہی نافرمانی کی اس نے اپنے نفس سے خیانت کی اپنے نفس کی طرف اس عذاب کو کھنچا۔ قتبی نے کہا : خیانت کی اصل یہ ہے کہ کسی کو کسی شے کا امین بنایا جائے اور وہ اس امانت کو صحیح ادا نہ کرے۔ طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر نبی کریم ﷺ کی بارگاہ سے واپس آئے اور حضرت عمر آپ کے پاس ایک رات دیر تک باتیں کرتے رہے۔ واپس آئے تو بیوی کو سویا ہوا پایا۔ حضرت عمر نے بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرنے کا ارادہ کیا تو بیوی نے حضرت عمر سے کہا : میں تو سو گئی تھی۔ حضرت عمر نے کہا : تو نہیں سوئی تھی۔ حضرت عمر نے حقوق زوجیت ادا کئے۔ حضرت کعب بن مالک نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ حضرت عمر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : میں اللہ تعالیٰ اور آپ کی بارگاہ میں معذرت کرتا ہوں، میں نفس کے دام میں پھنس گیا اور میں نے اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا کئے۔ کیا میرے لئے کوئی رخصت ہے ؟ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا : اے عمر ! تو اس کا حق نہیں رکھتا تھا جب حضرت عمر اپنے گھر پہنچے تو آپ ﷺ نے اس کو بلا بھیجا۔ پس آپ ﷺ نے اسے عذر کی قبولیت قرآن کی آیت کے ذریعے سنائی۔ نحاس اور مکی نے بھی یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔ حضرت عمر سو گئے پھر اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا کئے اور وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور اسکے متعلق خبر دی تو یہ آیت نازل ہوئی : علم اللہ انکم کنتم تختالون انفسکم فتاب علیکم وعفاعنکم فالن باشروھن (جانتا ہے اللہ تعالیٰ کہ تم خیانت کیا کرتے تھے اپنے آپ سے پس اسنے نظر کرم فرمائی تم پر اور معاف کردیا تمہیں سو اب تم انسے ملوملاؤ) مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیلة الصیام الرفث، لیلة کو نصب ظرف کی وجہ سے ہے۔ یہ اسم جنس ہے اسی وجہ سے مفرد ذکر کی گئی ہے۔ الرفث، یہ جماع سے کنایہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کریم ہے کنایہ فرماتا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس اور سدی نے کہا ہے اور زجاج نے کہا : الرفث ایک ایسا کلمہ ہے جو ہر اس عمل کا جامع ہے جس کا مرد اپنی بیوی سے ارادہ کرتا ہے۔ یہ الا زہری کا قول بھی ہے۔ ابن عرفۃ نے کہا : یہاں الرفث سے مراد جماع ہے۔ الرفث صراحة جماع کا ذکر کرنا ہے اور اس کا واضح ذکر کرنا ہے۔ شاعر نے کہا : و یرین من انس الحدیث زوانیا وبھن عن رفث الرجال نفار یہاں رفث کو شاعر نے صراحۃ جماع کے ذکر کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الرفث کا اصل معنی فحش کلام ہے۔ کہا جاتا ہے : رفث، ارفث جب کوئی قبیح کلام کرے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : و رب اسراب حجیج کظلم عن الغا و رفث التکلم یہاں رفث فحش کلام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الرفث اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں الی کے ساتھ متعدی ہے جبکہ تو رفثت الی النساء نہیں کہتا لیکن یہاں یہ الا فضاء پر محمول ہے جس سے مراد ملا بست لی جاتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقد افضٰی بعضکم الیٰ بعضٍ (النساء : 21) (مل جل چکے ہو تم تنہائی میں ایک دوسرے سے) اسی معنی سے ہے : واذا خلو الیٰ شیطینھم (البقرہ : 14) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : یوم یحمیٰ علیھا (توبہ :35) یہاں یحمی، یوقد پر محمول ہے کیونکہ تو کہتا ہے : احمیت الحدیدۃ فی النار۔ یعنی احمی کا صلہ فی استعمال ہوتا ہے جبکہ پہلی آیت میں علی استعمال ہوا ہے۔ مزید بیان آگے آئے گا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیحذرالدین یخالفون عن امرہٖ (النور :63) اس آیت میں یخالفون کو ینحرفون کے معنی پر محمول کیا گیا ہے جس کا صلہ عن استعمال ہوتا ہے یا یروغون عن امرہ کے معنی پر محمول ہے۔ کیونکہ تو کہتا ہے خالفت زید اً یعنی خالف کا صلہ استعمال ہی نہیں ہوتا اس کی مثل یہ ارشاد ہے : وکان بالمؤمنین رحیما۔ (احزاب) یہاں رحیم، رؤف کے معنی پر محمول ہے جیسے ارشاد ہے بالمؤمنین رءوف رحیم۔ (توبہ) کیا تو نے ملا حظہ نہیں کیا کہ تو کہتا ہے رؤفت به۔ یعنی رأف کا صلہ بااستعمال ہوتا ہے تو رحمت بهٖ نہیں کہتا جب اس کا معنی رؤف کے موافق ہو تو متعدی ہونے میں اس کے قائم مقام ہوا۔ اسی قسم سے ابو کبیر ہذلی کا قول ہے۔ حملت بهٖ فی لیة مزء ودۃ کرھا و عقد نطاقھا لم یحلل اس شعر میں حمل کو با کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے حالانکہ اس کا حق یہ ہے کہ بغیر صلہ کے متعدی ہو، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے حملته امه کرھًا ووضعته کرھا (احقاف :15) لیکن شاعر نے حملت به کہا کیونکہ یہ حبلت بهٖ کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھن لباس لکم یہ مبتدا خبر ہیں اور ھن میں نون کو مشدد کیا گیا ہے کیونکہ یہ مذکر میں جو واو اور میم ہے اس کے قائم مقام ہے وانتم لباس لھن، لباس اصل میں کپڑے میں استعمال ہوتا ہے پھر میاں، بیوی کے ملنے کو لباس کہا گیا کیونکہ ان کے جسم بھی آپس میں مل جاتے ہیں، کپڑے کے ساتھ انہیں تشبیہ دی گئی ہے۔ نابغہ جعدی نے کہا : اذا ما الضجیع ثنی جیدھا تداعت فکانت علیه لباسا جب پہلو میں سونے والے نے اس کی گردن دوہری کی اس نے اسے بلایا تو وہ اس پر لباس تھی۔ اور کہا : لبست أناسا فافنیتھم وافنیت بعد اناس اناساً میں کئی لوگوں سے ملا اور میں نے انہیں فنا کردیا اور لوگوں کے بعد کئی لوگوں کو فنا کردیا۔ بعض نے کہا : ہر اس چیز کو لباس کہا جاتا ہے جو کسی چیز کو ڈھانپ لے اور اس کا گھیراؤ کرلے۔ یہ بھی جائز ہے کہ میاں، بیوی میں سے ہر ایک ساتھی کے لئے حرام سے پردہ بن جاتا ہے جیسا کہ خبر میں وارد ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : میاں، بیوی میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے لئے حقوق زوجیت ادا کرنے کی صورت میں لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہوتا ہے۔ ابو عبیدہ وغیرہ نے کہا : عورت کو کہا جاتا ہے، یہ تیرا لباس ہے، تیرا بستر ہے اور تیرا ازار ہے، ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب سے کہا تھا۔ الا ابلغ ابا حفض رسولا فدی لک احی ثقة ازاری ابوعبیدہ نے کہا : اس شعر میں ازار سے مراد عورتیں ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد نفسی ہے۔ ربیع نے کہا ؛ یہ تمہارے لئے بچھونا ہیں اور تم ان کے لحاف ہو۔ مجاہد نے کہا ؛ تمہارے لئے سکون ہے یعنی بعض، بعض سے سکون حاصل کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم سونے کے بعد روزوں کی راتوں میں کھانے، پینے اور جماع جیسی ممنوع چیزوں میں مشورہ کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تقتلون انفسکم (البقرہ :85) یعنی ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مراد ہو کہ ہر ایک اپنے نفس سے خیانت کرتا ہے، اپنے نفس سے خیانت کرنے والا اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا نقصان اس کی اپنی طرف ہی لوٹنے والا ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فتاب علیکم یہ معانی کا احتمال رکھتا ہے : (1) اپنے نفسوں سے خیانت سے ان کی توبہ قبول کرنا (2) رخصت واباحت کے ساتھ ان سے تخفیف کرنا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم (مزمل :20) یعنی اس نے تم سے تخفیف فرمائی۔ یعنی قتل خطا کے بعد۔ فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین توبة من اللہ (النساء : 92) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف ہے۔ کیونکہ جو خطا قتل کرنے والا ہے اس نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے اسے توبہ لازم ہو اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لقد تاب اللہ علی النبی و المھٰجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعة العسرۃ (توبہ : 117) یہاں بھی تاب کا لفظ استعمال ہوا ہے اگرچہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے کوئی ایسی چیز واجب نہیں ہوئی تھی جو توبہ کا موجب تھی۔ وعفاعنکم یہ گناہ کو معاف کرنے کا بھی احتمال رکھتا ہے اور توسع و رسہیل کا بھی احتمال رکھتا ہے جیسے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اول وقت اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور آخر وقت اللہ تعالیٰ کا عفو ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے وسعت فرمائی اور آسانی فرمائی علم اللہ کا معنی تم سے اس کا وقوع مشاہدۃ جان لیا قتاب علیکم یعنی اس میں وقوع کے بعد اس نے تم پر تخفیف فرمائی۔ وعفا یعنی آسانی فرمائی۔ تختانون یہ خیانت سے ہے جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابن عربی نے کہا : علماء زہد نے فرمایا : عنایت اور شرف منزلت اس طرح ہوا کہ حضرت عمر نے اپنے نفس سے خیانت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شریعت بنا دیا اور ان کی وجہ سے پوری امت سے تخفیف فرمادی۔ ؓ وارضاہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فالن باشروھن یہ جماع سے کنایہ ہے یعنی جو تم پر حرام تھا اسے حلال کردیا۔ جماع کو مباشرت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں دو جلدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔ ابن عربی نے کہا : یہ دلیل ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب حضرت عمر کا حقوق زوجیت ادا کرنا ہے نہ کہ حضرت قیس کی بھوک ہے کیونکہ اگر حضرت قیس کی بھوک سبب ہوتی تو ارشاد ہوتا : فالآن کلوا یعنی اب کھاؤ۔ کلام اس سے فرمایا کیونکہ یہی اہم امر تھا جس کے لئے آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وابتغوا ما کتب اللہ لکم حضرت ابن عباس، مجاہد، حکم بن عیینۃ، عکرمہ، حسن، سدی، ربیع اور ضحاک نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھا وہ قرآن ہے۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے قرآن کو طلب کرو جو تمہارے لئے مباح کیا گیا ہے اور تمہیں جس کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے : لیلة القدر کو طلب کرو۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : رخصت اور وسعت طلب کرو۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول حسن ہے۔ بعض نے فرمایا : لونڈیاں اور بیویاں طلب کرو۔ حسن بصری اور حسن بن قرۃ نے کہا : اتباع طلب کرو۔ حضرت ابن عباس نے اس کو جائز قرار دیا اور ابتغوا کو الابتغاء سے ترجیح دی۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکلواوشربوا یہ جواب حضرت قیس کے بارے نازل ہوا اور پہلا حضرت عمر کا جواب تھا۔ پہلے حضرت عمر کا جواب نازل ہوا کیونکہ وہ زیادہ اہم تھا اور وہ مقدم تھا۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتی یتبین لکم الخیط الا بیض من الخیط الا سود من الفجر، حتی یہ تنیین کی غایت کے لئے ہے اور کسی ایک کے لئے ظہور کا وقوع صحیح نہیں ہے اور اس پر کھانا حرام نہیں ہے مگر فجر کے طلوع ہونے کی مقدار گزر چکی ہے اور اس حد میں اختلاف ہے جس کے ظہور کے ساتھ کھانے پینے سے رکنا واجب ہوجاتا ہے۔ جمہور نے کہا : وہ فجر جو افق میں دائیں بائیں پھیلی ہے اس کے متعلق اخبار آئی ہیں اور علماء اسی پر بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ مسلم نے حضرت سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حضرت بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ افق کی لمبی سفیدی جو اس طرح اوپر نیچے پھیلتی ہے۔ حماد نے ہاتھوں سے اشارہ کرکے اس کو حکایت کیا۔ حضرت ابن مسعود کی حدیث میں ہے : فجر وہ نہیں جو اس طرح ہوتی ہے اپنی انگلیوں کو جمع کیا پھر زمین کی طرف اس کو جھکایا۔ لیکن صبح وہ ہوتی ہے جو اس طرح ہوتی ہے۔ اپنی مسجہ انگلی کو دوسری مسبحہ انگلی پر رکھا اور اپنے ہاتھوں کو پھیلایا دارقطنی نے حضرت عبدالرحمن بن عباس سے روایت کیا ہے کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر کی دو قسمیں ہیں وہ جو اس طرح ہوتی ہے گویا بھیڑیے کی دم ہے وہ نہ تو کسی چیزکو حلال کرتی ہے اور نہ حرام کرتی ہے۔ اور وہ جو افق میں عرضاً پھیلتی ہے اس میں نماز حلال ہوتی ہے اور کھانا (روزوں میں) حرام ہوتا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ فجر کے طلوع ہونے کے بعد جس کے ساتھ راستوں اور گھروں میں روشنی ہوجاتی ہے۔ حضرت عمر، حضرت حذیفہ، حضرت ابن عباس، حضرت طلق بن علی، حضرت عطا بن ابی رباح اعمش سلیمان وغیرہم سے مروی ہے۔ راستوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر فجر کو شمار کرتے جو گھروں کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔ نسائی نے عاصم سے انہوں نے رز سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم نے حذیفہ سے کہا : تم نے رسول اللہ ﷺ کس وقت سحری کھائی ؟ فرمایا : وہ دن تھا مگر سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ دارقطنی سے حضرت طلق بن علی سے روایت کیا ہے کہ نبی نے فرمایا : کھاؤ م پیو اور تمہیں اوپر بلند ہونے والی صبح دھوکے میں نہ ڈالے۔ کھاؤ، پیوحتیٰ کہ تمہارے لئے سرخی عرضا پھیل جائے۔ دار قطنی نے کہا قیس بن طلق قوی نہیں ہے۔ ابو داؤد نے کہا اس میں اہل یمامہ منفرد ہیں۔ طبری نے کہا : وہ چیز جس نے اس جس نے اس کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ دن کے وقت ہے اور دن ان کے نزدیک سورج طلوع ہونے سے مشروع ہوتا ہے اور اس کا آخر اس کا غروب ہوتا ہے۔ لغوی علماء کے درمیان اس میں اختلاف گزرچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تفسیر بیان فرمائی کہ وہ رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی ہے۔ اس میں اور ایامًا معدودات میں یہی فیصل قول ہے۔ دار قطنی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جس نے فجر کے طلوع ہونے سے پہلے رات کو روزہ نہ رکھا اس کا روزہ نہیں۔ اس روایت میں عبداللہ بن عباد، حضرت مفصل بن فضالہ سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ اس سند کے ساتھ تمام راوی ثقہ ہیں۔ حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے اس مرفوع روایت کیا ہے۔ یہ ثقہ راویوں میں سے ہیں جو مرفوع روایت کرتے ہیں۔ حضرت حفصہ سے، مرفوعاً مروی ہے۔ ان دو حدیثوں میں فجر کے بارے میں جمہور کے قول کی دلیل ہے اور فجر طلوع ہونے سے پہلے نیت کے بغیر روزہ نہیں ہے جبکہ امام ابوحنیفہ کا قول اس کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر 8: روزہ جملہ عبادت سے ہے یہ بغیر نیت کے صحیح نہیں ہے۔ شارع (علیہ السلام) نے فجر سے پہلے اس کا وقت مقرر فرمایا۔ یہ کیسے کہا جائے گا کہ فجر کے بعد بھی کھانا، پینا جائز ہے ؟ بخاری اور مسلم نے حضرت سہل بن سعد سے روایت کیا ہے، فرمایا : پہلے جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو ان میں سے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگہ باندھ دیتا اور وہ اس وقت تک کھاتا، پیتا رہتا حتیٰ کہ ان دونوں کا دیکھنا اس کے لئے ظاہر ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد من الفجر کے الفاظ نازل کئے تو وہ جان گئے کہ اس سے مراد دن کی سفیدی ہے۔ اس کو بخاری نے نقل کیا ہے فجر کو خیط (دھاگہ) اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ ابتدا میں سفیدی لمبے دھاگے کی طرح ظاہر ہوتی ہے۔ شاعر ابو داؤد ابادی نے کہا : الخیط الابیض ضؤ الصبح منفلق والخیط الاسود جنح اللیل مکتوم خبط ابیض سے مراد صبح کی روشنی ہے جو پھوٹنے والی ہے اور خبط اسود سے مراد رات کا جھکاؤ ہے۔ عر بوں کے کلام میں خبط سے مراد رنگ ہے۔ الفجر، فجرت الماء افجرہ، فجرا کا مصدر ہے۔ پانی کا جاری ہونا اور پھوٹنا ہے۔ اس کا اصل معنی پھٹنا ہے۔ اسی وجہ سے سورج کی روشنی جو مطلع سے ظاہر ہوتی ہے اسے فجر کہتے ہیں۔ یہ دن کی سفیدی کا آغاز ہے جو افق میں دائیں بائیں پھیلتی ہے عربی میں اس کو خبط ابیض کہا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ ابوداؤد باری نے کہا : فلما اضاءت لنا سدفة ولاح من الصبح خبط انارا جب ہمارے لئے رات کی تاریکی روشن ہوئی اور صبح سے دھاگہ ظاہر ہوا۔ ایک اور شاعر نے کہا : قد کا د یبدو و بدت تباشرہ و سدف الیل البھیم ساترۃ قریب تھا کہ روشنی ظاہر ہو اور کالی رات کی تاریکی چھپانے والی تھی۔ فجر کو الصدیع بھی کہا جاتا ہے۔ اسی سے عرب کہتے ہیں۔ انصدع الفجر، فجر پھوٹی۔ بشر بن ابی خازم یا عمرو بن معدیکرب نے کہا : تری الرحان مفترشاً یدیه کان بیاض لبته صدیع تو نے بھیڑیئے کو دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے تھا اس کی گردن کی سفیدی دھاگے کی مانند تھی۔ شماخ نے سر کی مانگ کو فجر سے تشبیہ دی ہے : اذا ما اللیل کان الصبح فیه اشق کمفرق الراس الدھین جب رات میں صبح ہوتی ہے تو وہ اس طرح پھوٹتی ہے جس طرح تیل لگے ہوئے سر میں مانگ ہوتی ہے۔ واضح امر کو بھی الفجر کہتے ہیں۔ یہ صبح کے پھوٹنے کی طرح واضح ہے۔ شاعر نے کہا : فوردت قبل انبلاج الفجر و ابن ذکاء کا من فی کفر فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وارد ہوئی اور صبح تاریکی میں چھپنے والی تھی۔ مسئلہ نمبر 9: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اتموا الصیام الی الیل اللہ تعالیٰ نے رات کو کھانے، سونے اور جماع کے لئے ظرف بنایا اور دن کو روزے کے لئے ظرف بنایا۔ دونوں زمانوں کے احکام بیان فرمائے اور ان دونوں کے درمیان فرق کیا۔ دن کے وقت کوئی چیز جائز نہیں ہے جس کو رات کے وقت مباح فرمایا مگر مسافر اور مریض کے لئے جائز ہے۔ جیسا کہ بیان گزر چکا ہے۔ جس نے رمضان میں روزہ افطار کیا ( مسافر اور مریض کے علاوہ) تو پھر یا تو وہ جان بوجھ کر یا پھول کر توڑنے والا ہوگا۔ اگر پہلی صورت ہو تو امام مالک نے فرمایا : جس نے جان بوجھ کر کھایا، پیایا جماع کیا تو اس پر قضا اور کفارہ ہے۔ جیسا کہ امام مالک نے مؤطا میں روایت کیا ہے اور مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں افطار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو غلام آزاد کرنے یا وہ روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفارہ دینے کا حکم دیا۔ (الحدیث) یہی امام شعبی نے فرمایا : امام شافعی وغیرہ نے فرمایا : یہ کفارہ اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو جماع کے ساتھ روزے کو توڑے کیونکہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے، فرمایا : ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! میں ہلاک ہوگیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا : تجھے کس چیز نے ہلاک کیا، اس نے کہا : میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کیا ہے (الحدیث) اس میں کفارہ کا بیان ترتیب سے ہے۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے۔ یہ قضیہ پہلے قضیہ پر علماء نے محمول کیا ہے۔ انہوں نے کہا : یہ ایک واقعہ ہے اور یہ غیر مسلم ہے بلکہ یہ دو قضیے ہیں جو مختلف ہیں کیونکہ دونوں کا انداز مختلف ہے۔ جس نے افطار کیا کفارہ کو اس پر قیود سے معلق نہیں فرمایا تو مطلقاً لازم ہے۔ یہی قول امام مالک، ان کے اصحاب، اوازعی، اسحاق، ابوثور، طبری اور ابن منذر کا ہے۔ یہ ایک روایت میں عطا سے مروی ہے۔ حسن اور زہری سے مروی ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی قول لازم ہے۔ احوال کے تعارض کے باوجود تفصیل کا ترک کرنا حکم کے عموم پر دلالت کرتا ہے۔ امام شافعی نے اس پر قضا کے ساتھ عقوبت (سزا) کو واجب کیا کیونکہ اس نے رمضان کی حرمت کو توڑا۔ مسئلہ نمبر 10: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ عورت جس سے خاوند رمضان میں وطی کرے، امام مالک، امام ابو یوسف اور اصحاب رائے نے فرمایا : اس عورت پر بھی خاوند کی طرح کفارہ ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اس پر ایک کفارہ واجب ہے خواہ اس نے خوشی سے خاوند کی اطاعت کی ہو یا خاوند نے اسے مجبور کیا ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایک کفارہ کے ساتھ سائل کا جواب دیا اور تفصیل نہیں فرمائی۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے : اگر اس نے خوشی سے خاوند کی اطاعت کی ہوگی تو ہر ایک پر کفارہ ہوگا اور اگر خاوند نے اسے مجبور کیا ہو تو پھر صرف مرد پر کفارہ ہوگا۔ یہ سحنون بن سعید مالکی کا قول ہے۔ امام مالک نے فرمایا : اس پر دو کفارے ہیں۔ یہی امام مالک کے پیروکاروں کی جماعت کے نزدیک امام مالک کے مذہب کا ما حاصل ہے۔ مسئلہ نمبر 11: علماء کا اختلاف ہے جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر جماع کیا بھول کر کھایا۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ ان کے اصحاب اور اسحاق نے فرمایا : دونوں صورتوں میں اس پر کوئی چیز واجب نہیں نہ قضا ہے نہ کفارہ ہے۔ امام مالک، لیث اور امام اوزاعی نے کہا : اس پر کفارہ نہیں ہے، قضاء ہے۔ اس کی مثل عطا سے مروی ہے۔ اور عطا سے مروی ہے، اس پر کفارہ ہے اگر جماع کرے اور انہوں نے فرمایا : ایسی بات نہیں بھولتی۔ اہل ظاہر کی ایک قوم نے کہا : خواہ بھول کر وطی کی ہو یا جان بوجھ کر اس پر قضا اور کفارہ دونوں ہیں۔ یہ ابن ماجشون عبد الملک کا قول ہے۔ امام احمد بن حنبل کا نظریہ بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث کفارہ کو ثابت کرتی ہے اس میں بھولنے والے اور جان بوجھ کر توڑنے والے کے درمیان فرق نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا : اس پر کوئی شے نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 12: امام مالک، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب رائے نے کہا : جب بھول کر کھائے پھر یہ خیال کرے کہ روزہ تو ٹوٹ گیا ہے پھر جان بوجھ کر جماع کرلیا تو اس پر قضا ہے کفارہ نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا : ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ المذہب میں فرمایا : اس پر قضا اور کفارہ ہے اگر اس نے روزے کی حرمت کو توڑنے کا ارادہ کیا ہے۔ ابوعمر نے کہا : مالک کی اصل پر واجب ہے کہ وہ کفارہ نہ دے کیونکہ جس نے بھول کو کوئی چیز کھائی تو وہ ان کے نزدیک افطار کرنے والا ہے وہ اس دن کی قضا کرنے والا ہے۔ اس نے حرمت توڑنے کا ارادہ کیا ہے دراں حالیکہ وہ افطار کرنے والا ہے۔ امام مالک کے علاوہ علماء کے نزدیک جس نے بھول کر روزے میں کوئی چیز کھائی وہ افطار کرنے والا نہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے۔ یہی جمہور کا قول ہے جس نے بھول کر کھایا یا پیا تو اس پر قضا نہیں اور اس کا روزہ مکمل ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب روزہ دار بھول کر کھائے یا بھول کر پیئے تو وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا اور اس پر قضا نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے : وہ روزے کو مکمل کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا اور پلایا۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ فرمایا : اس کی سند صحیح ہے اور اس کی راوی تمام ثقہ ہیں۔ ابوبکر اثرم نے کہا : میں نے حضرت ابو عبد اللہ سے سنا ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بھول کر رمضان میں کچھ کھائے۔ انہوں نے فرمایا : حضرت ابوہریرہ کی حدیث کی بنا پر اس پر کچھ نہیں ہے پھر ابو عبد اللہ مالک نے فرمایا اور لوگوں نے کہا : امام مالک کہتے ہیں : اس پر قضا ہے اور ہنس پڑے۔ ابن منذر نے کہا : اس پر کوئی شے نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے بھول کر کھایا یا پیا، وہ اپنے روزے کو مکمل کرے اور جب فرمایا یتم صومہ (وہ روزہ مکمل کرے) پس اس نے روزہ مکمل کیا تو اس کا روزہ مکمل ہے۔ میں کہتا ہوں : جس بت بھول کر روزہ افطار کیا اس پر قضا نہیں ہے اور اس کا روزہ مکمل ہے اور جس نے جان بوجھ کر اجماع کیا اس پر قضاء اور کفارہ ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ اس طرح جس نے بھول کر افطار نہیں کیا ہمارے علماء نے قضا کے ایجاب پر اس طرح حجت پکڑی ہے کہ مطلوب پورا روزہ ہے جس میں کسی قسم کی دراڑ نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ پھر اتموا الصیام الی اللیل۔ رات تک روزہ مکمل کرو۔ یہ روزہ اس نے مکمل نہیں کیا۔ بس وہ اس پر باقی ہے۔ شاید یہ حدیث نفلی روزہ کے متعلق ہو کیونکہ اس میں تخفیف ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جو بھول گیا حالانکہ وہ روزہ سے تھا اس نے کھا، پی لیا تو وہ اپنے روزہ کو مکمل کرے۔ آپ ﷺ نے قضا کا تذکرہ نہیں فرمایا بلکہ آپ نے مؤاخذہ کے سقوط اور روزہ پر جاری رہنے اور اسے مکمل کرنے کا ذکر فرمایا۔ یہ اگرچہ واجب تھا۔ پس یہ قضا کی دلیل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ رہا نفلی روزہ تو اس میں قضا نہیں ہے جس نے بھول کر کھایا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس پر قضا نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : ہمارے علماء نے جس چیز سے حجت پکڑی ہے وہ صحیح ہے اگرچہ شارع (علیہ السلام) سے اس کا مروی ہونا صحیح نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ نص صریح میں آیا ہے اور اس کو حضرت ابوہریرہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : جس نے بھول کر رمضان کے مہینہ میں روزہ افطار کیا اس پر قضا اور کفارہ نہیں ہے۔ اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا : ابن مرزوق اس میں مفرد ہے اور وہ ثقہ ہے اس نے انصاری سے روایت کیا ہے۔ پس احتمال زائل ہوگیا اور اشکال اٹھ گیا۔ الحمدللہ ذی الجلال والکمال۔ مسئلہ نمبر 13: جب اللہ تعالیٰ نے روزے میں ممنوعہ چیزوں کا ذکر کیا وہ کھانا، پینا، جماع ہیں لیکن اس مباشرت کا ذکر نہیں فرمایا جس کا معنی ہے : جلد کا جلد سے مل جانا جیسے بوسہ دینا، چھونا وغیرہ۔ یہ دلیل ہے کہ جس نے بوسہ دیا اور جس کے ساتھ جسم ملایا اور اس کا روزہ صحیح ہے کیونکہ کلام کا اندازہ اس چیز کی حرمت پر دلالت کرتا ہے جس کو رات نے مباح کیا اور وہ تین چیزیں ہیں۔ اس میں کسی اور چیز پر دلالت نہیں ہے بلکہ یہ دلیل پر موقوف ہے۔ اسی وجہ سے اس میں اختلاف ہے۔ علماء متقدمین کا اختلاف ہے، اسی سے مباشرت ہے۔ ہمارے علماء نے کہا : جس کو اپنے نفس پر ضبط نہ ہو اس کے لئے مکروہ ہے تاکہ روزے کے فساد کا سبب نہ بن جائے۔ مالک نے نافع سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے روزہ دار کو بوسہ اور مباشرت سے منع فرمایا۔ یہ اس خوف کی وجہ سے ہے جو ان سے فساد پیدا ہوگا۔ اگر بوسہ دے اور سلامت رہے تو اس پر کوئی حرج نہیں اسی طرح اگر مباشرت کرے۔ بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : نبی کریم ﷺ بوسہ لیتے تھے اور مباشرت (جسم سے جسم ملانا) کرتے تھے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے تھے، جنہوں نے روزہ دار کے لئے بوسہ کو مکروہ کیا۔ ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عروہ بن زبیر بھی ہیں۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے، وہ ایک دن اس کی جگہ قضا کرے اور حدیث ان پر حجت ہے۔ ابو عمر نے فرمایا : میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس شخص کے لئے مباشرت اور بوسہ کی رخصت دی ہو جس پر روزے کا فساد پیدا ہوتا ہو اور جس نے بوسہ دیا اور اس کی منی نکل آئی تو اس پر قضا ہے کفارہ نہیں ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ، اور آپ کے اصحاب، ثوری، حسن اور امام شافعی کا قول ہے۔ ابن منذر نے اس کو پسند کیا ہے۔ اور فرمایا : جس نے کفارہ واجب کیا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ابو عمر نے کہا : اگر بوسہ دیا اور مذی نکل آئی تو ان کے نزدیک اس پر کچھ نہیں ہے۔ امام احمد نے فرمایا : جس نے بوسہ دیا اور اسے مذی آگئی یا منی نکل آئی تو اس پر قضا ہے کفارہ نہیں ہے مگر جس نے جماع کیا اور بھول کر یا جان بوجھ کر آلہ تناسل کو داخل کیا تو اس پر کفارہ بھی ہے۔ ابن قاسم نے مالک سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے بوسہ دیا، مباشرت کی۔۔۔۔ اس سے کوئی پانی نہ نکلا تو اس پر قضا ہے۔ ابن وہب نے مالک سے روایت کیا ہے کہ اس پر قضا نہیں ہے حتیٰ کہ اس سے مذی نکلے۔ قاضی ابو محمد نے فرمایا ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہے اگر منی نکلے تو کیا قضا کے ساتھ کفارہ لازم ہوگا۔ اس کی دو صورتیں ہیں : ایک : بوسہ دیا ہوگا، پھر انزال ہوگیا ہوگا یا اس نے بوسہ دیا ہوگا پھر اس نے لذت اٹھائی اور پھر دوبارہ بوسہ لیا پھر انزال ہوگیا۔ اگر اس نے ایک بوسہ دیا یا ایک مرتبہ مباشرت اور چھوا تو اشہب اور سحنون نے کہا : اس پر کفارہ نہیں ہے حتیٰ کہ وہ بار بار یہ عمل کرے ابن قاسم نے کہا : وہ تمام صورتوں میں کفارہ دے گا مگر نظر کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر کفارہ نہیں حتیٰ کہ بار بار یہ عمل کرے اور جنہوں نے کفارہ کے وجوب کا قول کیا ہے جب وہ بوسہ دے یا مباشرت کرے یا اپنی بیوی سے ملامست کرے یا فرج کے علاوہ میں جماع کرے پھر اسے منی آجائے۔ ان میں حسن بصری، عطا، ابن المبارک، ابو ثور اور اسحاق ہیں۔ یہ ” مدونہ “ میں امام مالک کا قول ہے اور اشہت کے قول کی حجت یہ ہے کہ چھونے، بوسہ دینے اور مباشرت فی نفسہا روزہ توڑنے والی چیزیں نہیں ہیں معاملہ کو اسی کی طرف پھیرا جائے گا جن سے افطار ہوتا ہے جب اس نے ایک مرتبہ یہ عمل کیا اور انزال اور فساد صوم کا ارادہ نہیں کیا تو اس پر کفارہ نہیں ہے جس طرح عورت کی طرف دیکھنا ہے۔ جب اس نے اس عمل کا تکرار کیا تو اس نے روزہ کے افساد کا قصد کیا پس اس پر کفارہ لازم ہے جیسا کہ اگر بار بار دیکھے۔ لخمی نے کہا : دیکھنے سے انزال کی صورت میں علماء کا اتفاق ہے کہ اس پر کفارہ نہیں مگر یہ کہ وہ بار بار کرے۔ اصل یہ ہے کہ کفارہ واجب نہیں مگر اس پر جس نے روزہ توڑنے کا قصد کیا اور روزہ کی حرمت تا تار کرنے کا ارادہ کیا۔ جب یہ صورت ہو تو جس کو انزال ہوجاتا ہو یا اس کی عادت مختلف ہو، کبھی انزال ہوتا ہو اور کبھی انزال نہ ہوتا ہو تو میں اس پر کفارہ دیکھتا ہوں کیونکہ ایسا کرنے والا روزہ توڑنے کا ارادہ کرنے والا ہے اور اگر اس کی عادت سلامتی ہو تو اندازہ کیا جائے گا کہ عادت کے خلاف ہو تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔ امام مالک کا قول کفارہ کے وجوب کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ یہ جاری نہیں ہوتا مگر اس سے جس کی یہ طبع ہو اور ظاہر پر اکتفا کیا۔ اشہب نے لوگوں کے غالب امر پر محمول کیا کہ وہ اس سے سلامت ہوتے ہیں اور نظر میں ان کا قول اس پر دلیل ہے۔ میں کہتا ہوں : نظر میں جو اتفاق حکایت کیا ہے اور اس کو اصل بنایا ہے، حقیقۃً اس طرح نہیں ہے۔ الباجی نے ” المنتقی “ میں حکایت کیا ہے۔ اگر ایک نظر دیکھا اس سے مقصود لذت تھی پھر اسے انزال ہوگیا تو شیخ ابو الحسن نے کہا : اس پر قضا اور کفارہ ہے۔ الباجی نے کہا : میرے نزدیک یہی صحیح ہے کیونکہ جب اس سے اس نے لطف اٹھانے کا قصد کیا تو وہ بوسہ ہے اور دوسری استمتاع کی قسموں کی طرح ہے۔ واللہ اعلم۔ جابر بن زید، ثوری، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب رائے نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے عورت کی طرف بار بار دیکھا حتیٰ کہ اس سے منی نکل آئی تو اس پر قضاء و کفارہ نہیں ہے۔ یہ ابن منذر کا قول ہے۔ الباجی نے کہا : مدینہ میں ابن نافع نے مالک سے روایت کیا ہے کہ اگر برہنہ عورت کو دیکھا پھر لذت محسوس کی اور انزال ہوگیا تو اس پر قضا ہے کفارہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 14: جمہور علماء کا قول ہے کہ جنبی حالت میں جس پر فجر طلوع ہو اس کا روزہ صحیح ہے۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : یہ بالاجماع جائز ہے۔ صحابہ کے درمیان اس میں کلام واقع ہوئی پھر اس پر معاملہ ٹھہر گیا کہ جو جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرے اس کا روزہ صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : صحابہ کے درمیان کلام کے وقوع کے متعلق جو ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح اور مشہور ہے۔ یہ حضرت ابوہریرہ کا قول ہے : جس نے جنبی ہونے کی حالت میں صبح کی اس کا روزہ نہیں اس کو مؤطا وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ نسائی کی کتاب میں ہے جب حضرت ابوہریرہ نے رجوع کیا تو فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے نہیں کہا یہ اللہ کی قسم ! حضرت محمد ﷺ نے کہا تھا۔ اس سے حضرت ابوہریرہ کے رجوع کے متعلق اختلاف ہے اہل علم کے نزدیک حضرت ابوہریرہ کا مشہور قول یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں۔ یہ ابن منذر نے حکایت کیا ہے۔ حسن بن صالح سے روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک تیسرا قول بھی مروی ہے، فرمایا : جب اسے جنابت کا علم ہو پھر سو جائے حتیٰ کہ صبح ہوجائے تو وہ افطار کرنے والا ہے اگر وہ نہ جانے حتیٰ کہ وہ صبح کرلے تو روزہ دار ہے۔ یہ عطا، طاؤس اور عروہ بن زبیر سے مروی ہے۔ حسن اور نخعی سے مروی ہے کہ یہ نوافل میں جائز ہوگا فرض میں قضا کرے گا۔ میں کہتا ہوں : یہ علماء کے اس شخص کے بارے میں چار اقوال ہیں جو جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرے ان میں سے صحیح قول جمہور علماء کا ہے حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بغیر احتلام کے جماع سے جنبی ہوتے تھے پھر روزہ رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ رمضان میں بغیر احتلام کے جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرتے تھے پھر غسل کرتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔ ان دونوں حدیثوں کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے فالئن باشروھن کے ارشاد سے ضرورۃً یہ مفہوم ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب طلوع ہوگی تو وہ جنبی ہوگا۔ غسل فجر کے بعد ہی ہوگا۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر ذکر عورت کی شرمگاہ میں داخل ہو وہ اسے فجر طلوع ہونے کے ساتھ نکالے تو اس پر قضا نہیں ہے۔ مزنی نے کہا : اس پر قضا ہے کیونکہ یہ مکمل جماع ہے۔ پہلا قول صحیح ہے اور وہی ہمارے علماء کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 15: علماء کا حیض والی عورت کے بارے میں اختلاف ہے جو فجر سے پہلے پاک ہوا اور پھر وہ غسل نہ کرے حتیٰ کہ صبح ہوجائے۔ جمہور علماء فرماتے ہیں : اس پر روزہ واجب ہے خواہ اس نے جان بوجھ کر روزہ ترک کیا ہو یا بھول کر جس طرح جنبی کا حکم ہے۔ یہ امام مالک اور ابن قاسم کا قول ہے۔ عبد الملک نے کہا : جب عورت فجر سے پہلے پاک ہو اور پھر وہ غسل کو مؤخر کرے حتیٰ کہ فجر طلوع ہوجائے تو اس کا وہ دن افطار کا دن ہے کیونکہ وہ دن کے بعض حصہ میں پاک نہیں تھی وہ جنبی کی طرح نہیں ہے کیونکہ احتلام روزے کو نہیں توڑتا جبکہ حیض کا خون روزے کو توڑ دیتا ہے۔ اسی طرح ابو الفرج نے اپنی کتاب میں عبد الملک سے روایت کیا ہے۔ اوازعی نے کہا : اس نے چونکہ غسل کرنے میں کوتاہی کی ہے اس لئے وہ قضا کرے گی۔ ابن الجلاب نے عبد الملک سے روایت کیا ہے کہ اگر وہ فجر سے پہلے ایسے قوت میں پاک ہوتی جس میں غسل کرنا اس کے لئے ممکن تھا پھر اس نے کوتاہی کی اور غسل نہ کیا حتیٰ کہ صبح ہوگئی تو اسے کچھ ضرر نہیں جیسے جنبی کا حکم ہے۔ اگر وقت تنگ ہو جس میں وہ غسل نہیں نہیں کرسکتی تو اس کا روزہ جائز نہیں اور اس کا وہ دن افطار کا دن ہے۔ یہی قول امام مالک کا ہے۔ یہ اس عورت کی مانند ہے جس پر فجر طلوع ہو جبکہ وہ حیض سے ہو۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے ایسی عورت کے بارے فرمایا وہ روزہ بھی رکھے اور قضا بھی کرے۔ جیسا کہ اوزاعی کا قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے اور ان کا یہ قول شاذ ہے۔ انہوں نے فجر سے پہلے پاک ہونے والی عورت پر کفارہ اور قضا کو واجب کیا ہے جبکہ اس نے سستی کی ہو اور صبح تک غسل نہ کیا ہو۔ مسئلہ نمبر 16: جب عورت رمضان میں رات کو پاک ہو اور اس کو معلوم نہ ہو کہ کیا اسے طہارت فجر سے پہلے ہوئی یا بعد تو وہ اس دن روزہ رکھے اور احتیاطاً اس دن کے روزہ کی قضا بھی کرے اور اس پر کفارہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 17: نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : پچھنے لگانے والا اور پچھنے لگوانے والا افطار کرے۔ یہ حضرت ثوبان کی حدیث، حضرت شداد بن اوس اور حضرت رافع بن خدیج کی حدیث سے ثابت ہے۔ یہی امام احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ احمد نے شداد کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور علی بن المدینی نے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور ثوری نے کہا : اس پر قضا نہیں ہے مگر یہ تغریر (کمزوری کے اندیشہ) کی بنا پر اس کے لئے مکروہ ہے۔ صحیح مسلم میں حجرت انس کی حدیث ہے کہ حضرت انس سے پوچھا گیا : کیا تم پچھنے لگوانے روزہ دار کے لئے مکروہ جانتے تھے ؟ حضرت انس نے فرمایا : نہیں مگر ضعف کی بناء پر۔ ابو عمر نے کہا : شداد اور رافع اور ثوبان کی حدیث ہمارے نزدیک منسوخ ہے اور اس کی ناسخ حضرت ابن عباس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزے اور احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ کیونکہ حضرت شداد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اٹھارہ رمضان کو پچھنے لگوا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پچھنے لگانے والا اور جس کی پچھنے لگائے گئے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے سال احرام اور روزہ کی حالت میں خود پچھنے لگوائے جب آپ ﷺ کا حج، حجۃ الوداع کا سال تھا تو یہ لا محالہ پہلی حدیث کی ناسخ ہے کیونکہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے رمضان پایا ہی نہیں تھا کیونکہ ربیع الاول میں آپ ﷺ کا وصال ہوگیا تھا۔ مسئلہ نمبر 18: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اتموا الصیام الی الیل یہ امر ہے اور وجوب کا مقتضا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور الیٰ غایت کے لئے ہے جب اس کا مابعد اس کے ماقبل کی جنس سے ہو تو وہ ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے جیسے تیرا قول ہے اشتریت الفدان الی حاشیتہ (میں نے چار سو مربع زمین حاشیہ سمیت خریدی) یا اشتریت منک من ھذہ الشجرۃ الی ھذہ الشجرۃ۔ مبیع شجر ہے اور آخری درخت بھی اس مبیع میں داخل ہے۔ بخلاف تیرے اس قول کے : اشتریت الفدان الی الدار۔ اس میں دار، مبیع میں داخل نہ ہوگا کیونکہ وہ زمین کی جنس سے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کے ظہور تک روزہ کو مکمل کرنے کی شرط رکھی ہے جیسا کہ کھانا جائز قرار دیا حتیٰ کہ دن ظاہر ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 19: روزے کی تکمیل میں سے نیت کا متصل ہونا بھی ہے۔ اگر دن کا بعض حصہ روزے کی نیت نہ کی اور فطر کی نیت کی مگر اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ تو ” مدونہ “ میں اسے افطار کرنے والا بنایا ہے اور اس پر قضا لازم ہے۔ ابن حبیب کی کتاب میں ہے کہ وہ اپنے روزے پر ہے اور روزے میں اسے کوئی چیز خارج نہیں کرتی مگر بالفعل افطار کرے اور نیت بھی نہ ہو۔ بعض علماء نے فرمایا : اس پر قضا اور کفارہ ہے۔ سحنون نے کہا : جس نے رات کو افطار کی نیت کی وہ کفارہ دے اور جس نے دن میں روزے کی نیت کی اسے کوئی نقصان نہیں لیکن وہ استحساناً قضا کرے۔ میں کہتا ہوں : یہ بہتر ہے۔ مسئلہ نمبر 20: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الی الیل جب رات ظاہر ہوجائے تو افطار کرنا شرعاً سنت ہے خواہ کچھ کھائے یا نہ کھائے۔ ابن عربی نے کہا : امام ابو اسحاق شیرازی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے تین طلاق کی قسم اٹھائی کہ وہ گرم، سرد چیز پر روزہ افطار نہیں کرے گا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ سورج کے غروب ہونے کے وقت افطار کرے گا تو اس پر کچھ واجب نہ ہوگا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قول سے حجت پکڑی ہے۔ جب رات ادھر سے آئے اور دن ادھر سے چلا جائے تو روزہ افطار کر دے۔ امام ابو نصر بن صباغ صاحب الشامل سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : اسے گرم یا سرد چیز پر افطار کرنا ضروری ہے اور امام ابو اسحاق نے جو جواب دیا وہ اولیٰ ہے کیونکہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے۔ مسئلہ نمبر 21: اگر کسی نے بادل کی وجہ سے یہ گمان کیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے، پھر اس نے روزہ افطار کردیا پھر سورج ظاہر ہوگیا تو اکثر علماء کے قول کے مطابق اس پر قضا ہے۔ بخاری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے مروی ہے، فرمایا : ہم نے بادل والے دن رسول اللہ ﷺ کے عہد میں روزہ افطار کردیا، پھر سورج طلوع ہوگیا۔ ہشام سے پوچھا گیا : انہیں قضا کا حکم دیا گیا تھا ؟ فرمایا : انہیں قضا لازم ہے۔ حضرت عمر نے اس مسئلہ میں فرمایا : مسئلہ آسان ہے۔ ہم نے وقت میں اجتہاد کیا۔ آپ نے قضا مراد لی۔ حضرت عمر سے مروی ہے، فرمایا : اس پر قضا نہیں ہے۔ حسن بصری کا بھی یہی قول ہے، فرمایا : اس پر بھولنے والے کی طرح قضا نہیں ہے۔ یہی قول اسحاق اور اہل ظاہر کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الی الیل اس قول کو رد کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 22: اگر روزہ افطار کیا دراں حالیکہ اسے سورج کے غروب ہونے میں شک تھا تو وہ قضا کے ساتھ کفارہ دے۔ یہ امام مالک کا قول ہے مگر یہ کہ اس کا غالب گمان سورج کے غروب ہونے کا ہو۔ اور جسے فجر کے طلوع ہونے کا شک ہو تو اسے کھانے، پینے سے رکنا لازم ہے۔ اگر اس نے شک کے ساتھ کھایا تو اس پر قضا ہوگی جیسے بھولنے والے کا حکم ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اہل مدینہ وغیرہ کے علماء میں سے بعض اس پر کوئی چیز نہیں دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے لئے فجر کا طلوع ہونا واضح ہوجائے۔ ابن منذر کا یہی قول ہے۔ ال کیا طبری نے کہا : ایک قوم نے گمان کیا کہ جب اس کے لئے اول فجر تک افطار مباح ہے جب اس نے اس گمان پر کھایا کہ فجر طلوع نہیں ہوئی تو اس نے شرع کی اجازت سے کھانے کے جواز کے وقت میں کھایا۔ پس اس پر قضا نہیں ہے۔ اسی طرح مجاہد اور جابر بن زید نے کہا ہے اور قضا کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جب رمضان کی پہلی رات میں چاند مطلع کے ابر آلود ہونے کی وجہ سے نظر نہ آئے پھر اس نے کھایا۔ اس کے بعد ظاہر ہوا کہ آج رمضان کا دن تھا ہم بھی اس جیسے مسئلہ میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اسی طرح دار الحرب میں قیدی نے جب شعبان کا دن گمان کرتے ہوئے کچھ کھایا پھر اس نے خلاف ظاہر ہوا۔ مسئلہ نمبر 23: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الی الیل اس میں صوم وصال سے نہی کا تقاضا پایا جاتا ہے کیونکہ رات روزے کی غایت ہے۔ یہ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر، ابراہیم التیمی، ابو الجوزا، ابو الحسن دینوری وغیرہم صوم وصال رکھتے تھے۔ حضرت ابن زبیر سات دن وصال کا روزہ رکھتے تھے۔ جب افطار کرتے تھے تو کبھی گھی اور مصبر پیتے تھے حتیٰ کہ انتڑیاں بھر جاتی تھیں۔ فرمایا : ان کی انتڑیاں خشک ہوتی تھیں۔ ابو الجوزاء سات دنوں اور سات راتوں کا صوم وصال رکھتے تھے، اگر وہ کسی سخت آدمی کے بازو کو پکڑتے تو اس کا بازو توڑ دیتے۔ قرآن و سنت کا ظاہر صوم و صال سے منع کا تقاضا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب سورج ادھر سے غروب ہو اور رات ادھر سے آجائے تو روزہ دار افطار کر دے۔ اس کو مسلم نے حضرت عبد اللہ بن اوفیٰ کی حدیث سے نقل کیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے صوم و صال سے منع فرمایا، جب انہوں نے صوم و صال سے رکنے سے انکار کیا تو کئی دن آپ ﷺ نے ان کے ساتھ صوم و صال رکھا پھر عید الفطر کا چاند نظر آگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاند نظر نہ آتا تو میں اور زیادہ تمہیں صوم و صال رکھواتا، یہ آپ ان پر انکار کے طور پر فرما رہے تھے جب انہوں نے صوم و صال سے رکنے سے انکار کیا۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ حضرت انس کی حدیث میں ہے : اگر ہمارے لئے مہینہ لمبا ہوتا تو ہم متواتر صوم وصال رکھتے رہتے تاکہ اعمال میں شدت کرنے والے شدت چھوڑ دیتے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : صوم و صال سے اجتناب کر وصوم وصال سے اجتناب کرو۔ یہ صوم و صال سے منع میں تاکید کے طور پر فرمایا : اور بخاری نے اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔ صوم و صال کو اس لئے ناپسند فرمایا کیونکہ اس میں قویٰ میں ضعف آجاتا ہے اور بدن کمزور ہوجاتا ہے۔ جمہور علماء میں سے بعض نے صوم و صال کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں ظاہر کی مخالفت ہے اور اہل کتاب سے مشابہت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق سحری کا کھانا ہے۔ اس حدیث کو مسلم اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ بخاری میں حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ صوم و صال نہ رکھو جو وصال کا ارادہ کرے وہ سحری تک وصال کرے۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری ہیئت کی طرح نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا کھلانے والا ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور میرا پلانے والا ہے جو مجھے پلاتا ہے۔ علماء نے کہا : سحری تک فطر کی تاخیر میں اباحت ہے اور یہ وصال کی غایت ہے جو وصال کرنا چاہے اور ایک دن کو دوسرے دن کے ساتھ ملانے سے منع ہے۔ یہی امام احمد، اسحاق، ابن وہب (جو مالک کے شاگرد ہیں کا قول ہے اور جنہوں نے وصال کے جواز پر حجت پکڑی ہے۔ انہوں نے کہا : وصال سے اس لئے نہی فرمائی تھی کہ لوگوں کا زمانہ اسلام قریب قریب تھا تو رسول اللہ ﷺ کو اندیشہ ہوا کہ وہ وصال کی تکلیف اٹھائیں گے اور اعلیٰ مقامات کی کوشش کریں گے اور جہاد اور دشمن پر قوت جو اس سے زیادہ نفع بخش ہے اس میں کمزور پڑجائیں گے اس وقت انہیں قوت و جہاد کی ضرورت ہے۔ جو نبی کریم ﷺ صوم و صال اور طاعات کے اعلیٰ مقام کو لازم پکڑتے تھے جب صحابہ نے وصال کے بارے میں پوچھا تو اپنے اور ان کے درمیان فرق ظاہر فرمایا اور انہیں بتایا کہ اس سلسلہ میں ان کی حالت، عام لوگوں کی حالت سے مختلف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری مثل نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے جب صحابہ کے دلوں میں ایمان مکمل ہوگیا اور ان کے سینوں میں مستحکم و راسخ ہوگیا اور مسلمانوں کی کثرت ہوگئی اور دشمنوں پر غالب آگئے تو اولیاء اللہ نے صوم و صال رکھا اور اپنے لئے اعلیٰ مقامات کو لازم پکڑا۔ میں کہتا ہوں : اسلام کے ظہور اور دشمنوں کے مغلوب ہونے کے باوجود صوم و صال کو ترک کرنا اولیٰ ہے اور یہ اعلیٰ درجہ اور ارفع مقام ہے۔ اس کی دلیل وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے اور رات صوم شرعی کا زمانہ نہیں ہے حتیٰ کہ اگر کوئی رات کو نیت کے ساتھ روزہ رکھے تو اسے اس پر ثواب نہ ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے متعلق خبر دی کہ آپ صوم و صال رکھتے ہیں۔ صحابہ نے یہ گمان کیا تو کہا : آپ نے صوم و صال رکھتے ہیں آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ کو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جنت کا کھانا، پینا دیا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ ان معانی اور لطائف پر محمول ہے جو آپ کے دل پر وارد ہوتے تھے۔ جب کوئی لفظ حقیقت و مجاز کا احتمال رکھتا ہو تو اصل حقیقت ہوتی ہے حتیٰ کہ کوئی دلیل وارد ہو جو حقیقت کو زائل کر دے پھر جب صحابہ نے صوم و صال سے رکنے سے انکار کیا تو آپ نے ان کے ساتھ صوم و صال رکھا آپ کی تو عادت تھی جیسا آپ نے اپنے متعلق خود خبر دی اور صحابہ ایسی عادت پر تھے حتیٰ کہ وہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کا صبر کم ہوگا تو وہ صوم و صال نہیں رکھیں گے۔ یہ ہے آپ کے انکار کی حقیقت تاکہ وہ تعمق (انتہائی گہرائی) کو چھوڑ دیں اور اس شدت کو ترک کردیں جس کا انہوں نے ارادہ کیا تھا۔ اگر ہم (میں کھلایا اور پلایا جاتا ہو) کا اپنا معنی مراد لیں تو آپ حکماً افطار کرنے والے ہوں گے جیسے جس نے روزے میں چغلی کھائی یا جھوٹ کی گواہی دی تو وہ حکما افطار کرنے والا ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا، پینا ترک کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر 24: روزہ دار کے لئے مستحب ہے کہ جب وہ افطار کرے تو کھجوروں، چھوہاروں اور پانی کے گھونٹوں سے افطار کرے جیسا کہ ابو داؤد نے حضرت انس سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے سے پہلے کھجوروں سے روزہ افطار کرتے تھے۔ اگر کھجوریں نہ ہوتیں تو چھوہاروں سے افطار کرتے اگر چھوہارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے گھونٹ بھرتے۔ اس حدیث کو دارقطنی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا مانگتے : لک صمنا وعلی رزقک افطرنا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ ” ہم نے تیری رضا کے لئے روزہ رکھا، تیرے رزق پر افطار کیا تو ہماری طرف سے قبول فرما بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے “۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ کہتے : پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں اور انشاء اللہ اجر ثابت ہے۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے بھی نقل کیا ہے۔ دار قطنی نے کہا : حسین بن واقد اس میں منفرد ہیں اس کی سند حسن ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ کے پاس روزہ افطار کیا تو یہ کہا افطر عند کم الصائمون واکل طعام الابرار وصلت علیکم الملائکۃ (تمہارے پاس روزہ داروں نے روزہ افطار کیا، تمہارا کھانا نیکوکاروں نے کھایا اور تم پر فرشتوں نے درود بھیجا) ۔ حضرت زید بن خالد جہنی سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کرایا اسے ان جیسا اجر ملے گا اور ان کے اجروں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے لئے افطار کے وقت کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کو یہ فرماتے سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا مانگتے۔ اللھم انی اسالک برحمتک التی وسعت کل شئ ان تغفرلی (اے اللہ ! میں تجھ سے تیری اس رحمت کے طفیل اپنی مغفرت کا سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے) ۔ صحیح مسلم میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے جب افطار کرتا ہے تو افطاری سے خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔ مسئلہ نمبر 25: شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے جیسا کہ مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے پیچھے شوال کے روزے رکھے اس کے لئے پورے زمانہ کے روزوں کے ثواب کی طرح ثواب ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حضرت سعد بن سعید انصاری مدنی کی حدیث ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن سے بخاری نے کوئی چیز نقل نہیں کی۔ اور ابو اسماء الرجی عن ثوبان مولی النبی ﷺ کے سلسلہ سے عمدہ سند کے ساتھ تفسیر سے یہ حدیث مروی ہے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کے بدلے دس نیکیاں رکھی ہیں، رمضان کا مہینہ دس مہینوں کا بدل ہے اور عید الفطر کے بعد چھ ایام پورے سال کا بدل ہیں۔ اس حدیث کو نسائی نے روایت کیا ہے۔ ان ایام کے روزوں میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں مکروہ کہا ہے اس خوف سے کہ جاہل لوگ رمضان کے ساتھ اس چیز کو نہ ملا دیں جو رمضان میں سے نہیں ہے اور جس کا خوف امام مالک نے کیا وہ واقع بھی ہوا حتیٰ کہ خراسان کے بعض شہروں میں رمجان کی عادت کے مطابق سحری کے وقت اٹھتے تھے۔ مطرف نے مالک سے روایت کیا ہے کہ امام مالک خود یہ روزے رکھتے تھے۔ امام شافعی نے ان روزوں کو مستحب کہا ہے، امام ابو یوسف نے ان کو مکروہ کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 26: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تباشروھن وانتم عکفون فی المسجد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جماع اعتکاف کو فاسد کردیتا ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ جو اعتکاب کی حالت میں جان بوجھ کر جماع کرے گا وہ اپنے اعتکاب کو فاسد کرنے والا ہوگا پھر جب کوئی ایسا کرے تو اس پر جو ہوگا اس میں اختلاف ہے۔ حسن بصری اور زہری نے کہا : ایسے شخص پر وہی ہوگا جو رمضان میں اپنی اہلیہ سے جماع کرنے والے پر ہوتا ہے اور رہی بغیر جماع کے مباشرت اگر اس سے تلذذ کا قصد کیا ہوگا تو یہ مکروہ ہے۔ اگر تلذذ کا قصد نہیں کیا تو مکروہ نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے سر کو کنگھی کرتی تھی جبکہ آپ معتکف ہوتے تھے لامحالہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بدن کو اپنے ہاتھ سے چھوتی ہوں گی۔ یہ دلیل ہے کہ بغیر شہوت کے مباشرت ممنوع نہیں ہے۔ یہ عطا، امام شافعی اور ابن منذر کا قول ہے۔ ابو عمر نے کہا : علماء کا اجماع ہے کہ معتکف نہ معاشرت کرے نہ بوسہ دے۔ اگر ایسا کرے تو اس پر حد ہے۔ اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام شافعی نے کہا : اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ یہ مزنی کا قول ہے۔ مسائل اعتکاف میں انہوں نے دوسری جگہ فرمایا : وطی سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر ایسی وطی جو حد کو واجب کرتی ہے، مزنی نے حج اور روزے میں اس کی اصل پر قیاس کرتے ہوئے یہ اختیار کیا۔ مسئلہ نمبر 27: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانتم عکفون یہ جملہ حال ہے۔ لغت میں اعتکاف کا معنی ملازمت ہے۔ کہا جاتا ہے : عکف علی الشئ جب کوئی کسی چیز کو لازم پکڑلے اور اس کی طرف متوجہ ہو۔ راجز نے کہا : عکف النبیط یلعبون الفنزجا (نبطی نے رقص، کھیل کا لازم پکڑا) ۔ ایک اور شاعر نے کہا : وظل بنات اللیل حولی عکفا عکوف البوا کی بینھن صریع خیالات میرے اردگرد جمے رہے، رونے والیوں کے بیٹھنے کی طرح جن کے درمیان قبر ہو۔ جب معتکف اعتکاب کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے عمل کو لازم پکڑتا ہے تو اسے یہ اسم لازم ہوتا ہے اور عرف شرع میں اعتکاب سے مراد مخصوص جگہ میں مخصوص شرط پر مخصوص وقت میں مخصوص اطاعت کو لازم پکڑنا ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ اعتکاب واجب نہیں ہے۔ یہ قربتوں میں سے ایک قربت ہے اور نوافل میں سے ایک نفل ہے۔ رسول اللہ ﷺ آپ کے اصحاب اور آپ کی ازواج مطہرات ؓ نے اعتکاف کا عمل کیا اور اگر اپنے نفس پر لازم کرے گا تو اس پر لازم ہوجائے گا۔ اس شخص کے لئے اعتکاف کرنا مکروہ ہے جسے اعتکاب کے حقوق پورے کرنے سے عجز کا اندیشہ ہو۔ مسئلہ نمبر 28: علماء کا اجماع ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فی المسجد پھر علماء کا مساجد کی مراد میں اختلاف ہے۔ ایک قوم کا خیال ہے کہ اس سے مراد مساجد کی ایک خاص قسم ہے اور وہ وہ ہے جسے کسی نبی نے تعمیر کیا ہو جیسے مسجد حرام، مسجد بنوی، مسجد ایلیاء (بیت المقدس) حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے۔ ان کے نزدیک اعتکاب ان مساجد کے علاوہ کسی مسجد میں جائز نہیں۔ دوسرے علماء نے کہا : اعتکاف صرف جامع مسجد میں جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک آیت میں اس جنس کی مساجد کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن مسعود سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ عروہ، حکم، حماد، زہری، ابو جعفر محمد بن علی کا قول ہے اور امام مالک کا ایک قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اعتکاف ہر مسجد میں جائز ہے۔ یہ قول سعید بن جبیر اور ابو قلابہ وغیرہم سے مروی ہے۔ یہ امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔ ان کی حجت آیت کو عموم پر محمول کرنا ہے ہر اس مسجد میں اعتکاف جائز ہے جس میں امام اور مؤذن ہو۔ امام مالک کا ایک قول بھی یہی ہے۔ ابن علیہ، داؤد بن علی طبری اور ابن منذر کا قول بھی یہی ہے۔ دار قطنی نے ضحاک سے انہوں نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : ہر وہ مسجد جس میں مؤذن اور امام ہو اس میں اعتکاف صحیح ہے۔ دار قطنی نے کہا : ضحاک نے حضرت حذیفہ سے نہیں سنا ہے۔ مسئلہ نمبر 29: امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کم از کم اعتکاف ایک دن اور ایک رات ہے۔ اگر کسی نے کہا : مجھ پر اللہ کیلئے اعتکاف ہے تو اس پر ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف لازم ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تو ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف لازم ہوگا۔ سحنون نے کہا : جس نے ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی اس پر کوئی چیز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : اگر ایک دن کی نذر مانی تو بغیر رات کے دن کا اعتکاف لازم ہوگا اور اگر رات کی نذر مانی تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں جیسا کہ سحنون نے کہا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اس پر وہی ہے جو اس نے نذر مانی اگر رات کی نذر مانی تو رات کا اعتکاف ہوگا، اگر دن کی نذر مانی تو دن کا اعتکاف ہوگا۔ امام شافعی نے فرمایا : کم از کم ایک لحظہ کا اعتکاف ہے اس کے اکثر کی کوئی حد نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے بعض اصحاب نے کہا : ایک ساعت (گھڑی) کا اعتکاف بھی صحیح ہے۔ اس قول کی بناء پر اعتکاف کی شرط سے روزہ نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل سے ایک قول مروی ہے اور یہی قول داؤد بن علی اور ابن علیہ کا ہے۔ ابن منذر اور ابن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اعتکاف رمضان میں ہوتا تھا اور یہ محال ہے کہ رمضان کا روزہ رمضان کے لئے اور دوسرے دنوں کے لئے ہو۔ اگر معتکف نے رمضان میں اپنے روزے سے نفل اور فرض روزے کی نیت کی تو اس کا روزہ امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک فاسد ہے۔ یہ معلوم ہے کہ معتکف کو اعتکاف کی رات میں عورتوں سے ت مباشرت سے اجتناب لازم ہے جس طرح دن میں اجتناب لازم ہے اور اعتکاف کی رات اس کے اعتکاف میں داخل ہے اور رات روزے کا محل نہیں ہے اسی طرح دن بھی روزے کا محتاج نہیں ہے۔ اگر وہ روزہ رکھے تو بہتر ہے۔ امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے اور مؤطا میں قاسم بن محمد اور نافع مولی حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اعتکاف روزے کے ساتھ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا کلوا واشربوا حتیٰ یتبین۔۔۔۔۔ فی المسجد۔ اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کا ذکر روزے کے ساتھ کیا ہے۔ یحییٰ نے کہا : امام مالک نے فرمایا : ہمارے نزدیک معاملہ اسی پر ہے اور انہوں نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو عبد اللہ بن بدیل نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات اور دن کے اعتکاف کی (کعبہ کے پاس) نذر مانی۔ پھر نبی کریم ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اعتکاف کر اور روزہ رکھ۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ دار قطنی نے کہا : ابن بدیل، عمرو سے روایت کرنے میں منفرد ہے اور یہ ضعیف ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اعتکاف بغیر روزے کے نہیں ہے۔ دار قطنی نے کہا : سوید بن عبد العزیز نے سفیان بن حسین سے انہوں نے زہری سے انہوں نے حضرت عروہ سے انہوں نے عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے کہا : ہمارے نزدیک روزے کی شرط سے نہیں ہے کہ وہ اعتکاف کے لئے ہو بلکہ اعتکاف کے لئے روزہ ہو، رمضان کے لئے ہو، نذر کے لئے ہو اور کسی اور وجہ سے ہو۔ صحیح یہ ہے کہ اگر نذر ماننے والے نے نذر مانی تو اس کی نذر کو اصل شرع میں اس کے مقتضا کی طرف پھیرا جائے گا۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے نماز کی نذر مانی تو وہ اس پر لازم ہے اس پر خاص اس نماز کے لئے پاک ہونا ضروری نہیں بلکہ جائز ہے کہ کسی دوسری چیز کے لئے کی گئی طہارت سے بھی اسے ادا کرنا جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 30: معتکف کے لئے اپنی اعتکاف کی جگہ سے نکلنا جائز نہیں مگر وہ کام جو اس کے لئے ضروری ہو جیسا کہ ائمہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کرتے تھے تو اپنے سر کو میرے قریب کرتے تھے میں آپ کو کنگھی کیا کرتی تھی اور گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے مگر حاجت انسانی کے لئے (یعنی پیشاب، پاخانہ کے لئے) ۔ اس مسئلہ میں ائمہ اور امت کا کوئی اختلاف نہیں جب معتکف ضرورت کے لئے باہر نکلے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد فوراً واپس آجائے اور اپنے سابقہ اعتکاف پر بنا کرے اور اسپر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اور ضرورت میں سے واضح مرض اور حیض ہے۔ ان کے علاوہ امور کے لئے نکلے گا تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک کے مذہب کو اسکے متعلق ہم ذکر کرچکے ہیں اسی طرح امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے۔ حضرت سعید بن جبیر، حسن، نخعی مریض کی عیادت کرتے تھے اور جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے، لیکن ان سے ثابت نہیں۔ اسحاق نے واجب اعتکاف اور نفل اعتکاف میں فرق کیا ہے۔ واجب اعتکاف کے بارے میں فرمایا : اس میں مریض کی عیادت نہ کرے اور جنازوں میں شرکت نہ کرے اور نفلی اعتکاف کے بارے میں فرمایا : وہ اعتکاف کی ابتدا میں جنازوں میں حاضر ہونے، مریضوں کی عیادت کرنے اور جمعہ پڑھنے کی شرط لگالے۔ امام شافعی نے فرمایا : مریض کی عیادت، جنازوں میں حاضری اور دوسری ضروریات کے لئے اعتکاف سے نکلنے کی شرط لگانا صحیح ہے۔ اس مسئلہ میں امام احمد نے مختلف روایات بیان کی ہیں کبھی منع فرمایا، کبھی فرمایا : مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام اوزاعی نے امام مالک کی طرف فرمایا ہے : اعتکاف میں شرط نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا : معتکف اعتکاف سے نہ نکلے مگر جس کے لئے نکلنا ضروری ہو۔ نبی کریم ﷺ حاجات ضروریہ کے لئے نکلتے تھے۔ مسئلہ نمبر 31: معتکف کا جمہ کے لئے نکلنا اس میں بھی اختلاف ہے۔ ایک جماعت نے کہا : جمعہ کے لئے نکلے اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی واپس آجائے کیونکہ وہ ایک فرض کے لئے نکلا تھا اور اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹا۔ یہ ابن الجہم نے امام مالک سے روایت کیا ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ ابن عربی اور ابن منذر نے اس کو اختیار کیا ہے۔ امام مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ جو دس دنوں کے اعتکاف کا ارادہ کرے یا دس دنوں کی نذر مانے تو وہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے جب وہ کسی دوسری مسجد میں اعتکاف کرے تو جمعہ کے لئے جانا اس کو لازم ہے اور اس کا اعتکاف باطل ہے۔ عبد الملک نے کہا : جمعہ کے لئے نکلے، جمعہ میں حاضر ہو اور پھر اپنی جگہ واپس آجائے اس کا اعتکاف صحیح ہوگا۔ میں کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وانتم عکفون فی المسجد یہ ارشاد عام ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف واجب نہیں سنت ہے اور جمہور کا اجماع ہے کہ جمعہ ذوات پر فرض ہے۔ جب دو واجب کسی پر جمع ہوجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے مؤکد ہو تو مؤکد کو مقدم کیا جاتا ہے۔ جب مندوب اور واجب جمع ہوں تو پھر کیا کیفیت ہوگی کسی نے بھی جمعہ کو ترک کرنے کا قول نہیں کیا۔ جمعہ کی طرف نکلنا یہ حاجت سے ہے۔ مسئلہ نمبر 32: معتکف جب کبیرہ گناہ کرے گا تو اسکا اعتکاف فاسد ہوجائے گا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے جس طرح کہ حدث، طہارت اور نماز کی ضد ہے۔ اور جن اعمال کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا ہے ان کا چھوڑنا اعتکاف کی عبادت میں اعلیٰ منازل میں سے ہے۔ یہ ابن خویز منداد نے مالک سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 33: مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھتے پھر اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے۔ (الحدیث) ۔ معتکف کے اعتکاف میں داخل ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام اوزاعی نے اس حدیث کے ظاہر کے مطابق کہا ہے، ثوری اور لیث سے ایک قول یہی مروی ہے۔ ابن منذر اور تابعین کے ایک طائفہ کا یہی قول ہے۔ ابو ثور نے کہا : یہ وہ شخص کرے جس نے دس دنوں کی نذر مانی ہو۔ اگر دس سے زیادہ کی نذر مانی ہو تو سورج غروب ہونے سے پہلے داخل ہوجائے۔ امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : جب اس نے ایک مہینہ کا اعتکاف اپنے اوپر واجب کیا ہو تو وہ اس دن کی رات سے سورج غروب ہونے سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے۔ امام مالک نے فرمایا : اسی طرح جس نے ایک دن یا زیادہ دنوں کے اعتکاف کی نیت کی ہو۔ یہی امام ابو حنیفہ، ابن ماجشون اور عبد الملک کا قول ہے کیونکہ پہلی رات اعتکاف کے دونوں میں داخل ہے وہ اعتکاف کا زمانہ ہے۔ دن کی طرح اس کا بعض حصہ چھوڑا نہیں جائے گا۔ امام شافعی نے فرمایا : جب کسی نے کہا مجھ پر اللہ کے لئے ایک دن (کا اعتکاف) ہے وہ طلوع فجر سے پہلے داخل ہو اور سورج غروب ہونے کے بعد نکلے۔ یہ ان کا قول مہینے والے اعتکاف کے بارے میں قول کے خلاف ہے۔ لیث نے ایک قول میں اور زفر نے کہا : فجر کے طلوع ہونے سے پہلے داخل ہو۔ مہینہ، اور ایک دن ان کے نزدیک حکم میں برابر ہیں اسی طرح امام ابو یوسف سے مروی ہے۔ قاضی عبد الوہاب کا بھی یہی قول ہے۔ رات اعتکاف میں تبعا داخل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اعتکاف بغیر روزے کے نہیں ہے اور رات روزے کا زمانہ نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ اعتکاف سے مقصود دن ہے رات نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں حضرت عائشہ کی حدیث ان اقوال کو رد کرتی ہے تنازع کے وقت یہ حجت ہے یہ ایسی حدیث ہے جو ثابت ہے اس کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ نمبر 34: امام مالک نے اس شخص کے لئے مستحب قرار دیا ہے کہ جو دس دنوں کا اعتکاف کرے وہ عید الفطر کی رات مسجد میں گزارے حتیٰ کہ صبح یہاں سے عید گاہ کی طرف جائے۔ یہی امام احمد کا قول ہے۔ امام شافعی اور امام اوزاعی نے کہا : جب سورج غروب ہو تو نکل جائے۔ یہ سحنون نے ابن القاسم سے روایت کیا ہے کیونکہ مہینہ کے ختم ہونے کے ساتھ دس دن بھی ختم ہوگئے اور رمضان شریف کے آخری دن کے سورج کے غروب ہونے کے ساتھ مہینہ ختم ہوجاتا ہے۔ سحنون نے کہا : یہ وجوب کے طور پر ہے۔ پس جو عید الفطر کی رات نکلے گا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔ ابن ماجثون نے کہا : ہم نے جو مہینہ کے ختم ہونے کے متعلق کہا ہے وہ اس قول کا رد کرتا ہے اگر عید الفطر کی رات ٹھہرنا اعتکاف کی شرط سے ہوتا تو وہ اعتکاف صحیح نہ ہوتا جو فطر کی رات سے متصل نہ ہوتا اور اس کے جواز پر اجماع ہے کہ عید الفطر کی رات ٹھہرنا معتکف کے لئے اعتکاف کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے۔ یہ روزے کے احکام اور اعتکاف جو آیات کے متعلق تھے کافی وشافی ہیں، جو ان پر انحصار کرنے والا ہے اس کے لئے کفایت ہے اور اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دینے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 35: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تلک حدود اللہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں پس ان کی مخالفت نہ کرو۔ تلک، ان اوامرو نواہی کی طرف اشارہ ہے۔ الحدود سے مراد رکاوٹیں ہیں اور الحد سے مراد منع کرنا ہے۔ اسی وجہ سے لوہے کو حدید کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہتھیار کو بدن تک پہنچنے سے روکتا ہے، چوکیدار اور جیل کے داروغے کو حداد کہا جاتا ہے کیونکہ جو گھر کے اندر ہوتے ہیں ان کو نکلنے سے روکتا ہے اور باہر والوں کو اندر جانے سے روکتا ہے۔ ان احکام کو اللہ کی حدود اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ ان چیزوں کو داخل ہونے سے روکتے ہیں جو ان میں سے نہیں ہوتے اور جو ان سے ہوتے ہیں ان کو خروج سے روکتے ہیں۔ اسی سے گناہوں کی حدود ہیں جو گناہ کرنے والوں کو دوبارہ گناہ کرنے سے روکتی ہیں۔ اسی طرح عدت والی عورت کو حاد کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زیب وزینت سے رک جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر 36: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کذلک یبین اللہ ایتہ للناس یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو بیان فرمایا اسی طرح تمام احکام کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان سے تجاوز کرنے سے بچو۔ الایات سے مراد وہ علامات ہیں جو حق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ لعلھم لوگوں کے حق میں ترجی (امید) ہے اس کا ظاہر عموم ہے اور اسکا معنی اس شخص میں خاص ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ ہدایت کو آسان فرماتا ہے ان آیات کی دلالت کی وجہ سے جن کے ضمن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔
Top