Al-Qurtubi - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں
آیت نمبر 186 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا سالک اس کا معنی ہے جب یہ آپ سے معبود کے بارے میں پوچھیں تو انہیں بتاؤ کہ وہ قریب ہے وہ اطاعت پر ثواب دیتا ہے اور دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے اور بندہ جو صوم و صلاۃ میں سے کرتا ہے اسے وہ جانتا ہے۔ اس آیت کے سبب نزول میں اختلاف ہے۔ مقاتل نے کہا : حضرت عمر ؓ نے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا کئے تو اس پر بہت شرمندہ ہوئے اور رونے لگے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور صورت حال عرض کی اور پریشان ہو کر واپس آئے اور رخصت کے نزول سے پہلے یہ مسئلہ تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی : واذا سالک عبادی عنی فانی قریب مسئلہ نمبر 2: بعض علماء نے فرمایا : جب ابتدا میں سونے کے بعد کھانا ترک کرنا واجب ہوا تو بعض نے سونے کے بعد کھانا کھالیا پھر پریشان ہوا تو توبہ کی قبولیت میں یہ آیت نازل ہوئی اور پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ کلبی نے ابو صالح عن ابن عباس کے سلسلہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : یہود نے کہا ہمارا رب ہماری دعا کیسے سنتا ہے جبکہ تمہارا خیال ہے کہ ہمارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور پھر ہر آسمان کی موٹائی بھی اتنی ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حسن نے کہا : اس کا سبب یہ ہے کہ ایک قول نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے مناجات کریں یا دور ہے کہ ہم اسے پکاریں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ عطا اور قتادہ نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی وقال ربکم ادعونی استجب لکم (غافر : 60) تو ایک قوم نے کہا ہم کس وقت اسی سے دعا مانگیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اجیب دعوۃ الداع اذا دعان یعنی جو میری عبادت کرتا ہے میں اس کی عبادت قبول کرتا ہوں۔ دعا بمنعی عبادت ہے، اجابت کا معنی قبول کرنا ہے۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے حضرت نعمان بن بشیر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ فرمایا : دعا عبادت ہے تمہارے رب نے فرمایا : تم میری عبادت کرو میں تمہاری عبادت قبول کروں گا۔ دعا کو عبادت کہا جاتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین یستکبرون۔۔۔۔ دخرین (غافر) (جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہوکر) ۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا حکم دیا اور اس پر ابھارا اور اس کو عبادت فرمایا اور دعا مانگنے والوں کی دعا کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لیث نے شہر بن حوشب سے انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا : میری امت کو تین چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو کسی کو عطا نہیں کی گئیں سوائے انبیاء کرام کے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کوئی نبی مبعوث فرمایا تو ارشاد فرمایا : تو مجھ سے دعا کر میں تیری دعا قبول کروں گا اور اس امت کو بھی یہی فرمایا : ادعونی استجب لکم (غافر : 60) تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، جب بھی کوئی نبی مبعوث فرمایا تو ارشاد فرمایا تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور اس امت کو بھی فرمایا تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور جب اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث فرمایا تو اسے اپنی قوم پر گواہ بنایا اور اس امت کو تمام لوگوں پر گواہ بنایا۔ خالد الربعی فرماتے تھے اس امت کے لئے ادعونی استجب لکم میں میں تعجب کرتا ہوں۔ خود ہی اللہ نے انہیں دعا کا حکم فرمایا اور خود ہی قبولیت کا وعدہ فرمایا اور ان کے درمیان کوئی شرط نہیں ہے۔ کسی کہنے والے نے اسن سے کہا اس کی مثل کیا ہے۔ فرمایا : اس کی مثال یہ ارشاد ہے : وبشر الذین امنوا وعملوا الصلحت (البقرہ : 25) یہ شرط ہے اور وبشر الذین امنوا ان لھم قدم صدق (یونس :2) میں عمل کی شرط نہیں ہے۔ اور فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین (غافر : 14) یہاں شرط ہے اور ادعونی استجب لکم میں شرط نہیں ہے۔ پہلی امتیں اپنی ضروریات میں اپنے انبیاء کی بارگاہ میں پناہ لیتی تھیں حتیٰ کہ ان کے انبیاء ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے سوال کرتے تھے۔ اگر کہا جائے کہ بہت سے دعا کرنے والے مانگتے ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان اجیب اور استجب ہر دعا مانگنے والے کی دعا کو مطلقاً قبول کرنے کا تقاضا نہیں کرتا اور ہر مطلوب کو عطا کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا : ادعوا ربکم۔۔۔۔۔ المعتدین (اعراف) (دعا کرو اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ بیشک اللہ نہیں دوست رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو) ہر وہ شخص جو جانتے ہوئے گناہ کبیرہ پر مصر ہے یا جہالت کی وجہ سے گناہ کبیرہ کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پس اس کی دعا کیسے قبول کرے گا اور حد سے تجاوز کرنے کی بہت سی اقسام ہیں۔ ان کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة اعراف میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے اگر میں چاہوں گا تو قبول کروں گا جیسے ارشاد فرمایا : فیکشف ما تدعون الیہ ان شآء (انعام : 41) (تو دور کر دے گا وہ تکلیف پکارا تھا تم نے جس کے لئے اگر چاہے) پس یہ مطلق و مقید کے باب سے ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے تین دعائیں مانگیں اور دو آپ کو عطا کی گئیں اور ایک سے روکا گیا۔ اس کا بیان انشاء اللہ سورة انعام میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان اخبار کا مقصود تمام مومنین کی تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ وہ فی الجملہ دعا کرنے والوں کی دعا کو قبول فرماتا ہے، وہ اپنے بندے کے قریب ہے، اس کی دعا کو سنتا ہے اور اس کے اضطرار کو جانتا ہے اور جو چاہتا ہے قبول فرماتا ہے اور جیسے چاہتا ہے۔ ومن اضل ممن۔۔۔۔ لہ (احقاف : 5) (اور کون زیادہ گمراہ ہے اس (بدبخت) سے جو پکارتا ہے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود کو جو قیامت تک اس کی فرماید قبول نہیں کرسکتا) ۔ مالک اپنے غلام کی بات کبھی قبول کرتا ہے، والد اپنے بیٹے کی بات کبھی قبول کرتا ہے پر اس کا سوال اسے عطا نہیں کرتا۔ پس دعا کے پائے جانے کے وقت قبولیت لامحالہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ أجیب اور استجب خبر ہیں اور خبر منسوخ نہیں ہوتی ورنہ مخبر جھوٹا ہوجائے گا۔ اس تاویل پر حضرت عبد اللہ کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے لئے دعا میں (دروازہ) کھولا گیا اس کے لئے قبولیت کے دروازے کھولے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ تم میرے بندوں میں سے ظالموں کو کہو مجھ سے مت مانگو کیونکہ میں نے اپنے اوپر واجب کر رکھا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں گا جو مجھ سے دعا مانگے گا اور میں جب ظالموں کی دعا قبول کروں گا تو میں ان پر لعنت کروں گا ایک قوم نے کہا : اللہ تعالیٰ ہر دعا قبول فرماتا ہے یا تو اس کی قبولیت دنیا میں ظاہر فرماتا ہے یا اس دعا کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ کردیتا ہے۔ کیونکہ حضرت ابو سعید خدری نے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان دعا مانگتا ہے جب کہ اس میں گناہ اور قطع رحمہ کا سوال نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تین چیزوں میں سے ایک چیز عطا فرماتا ہے یا تو جلدی اس کی دعا کو (قبول فرما کر) پورا کردیتا ہے یا اس کے لئے اسے ذخیرہ فرما دیتا ہے یا اس سے اس کی مثل تکلیف کو دور کردیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی : پھر تو ہم زیادہ دعا کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ اس سے زیادہ قبول کرنے والا ہے اور عطا کرنے والا ہے۔ ابو عمر بن عبد البر نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابو محمد عبد الحق نے اسے صحیح کہا ہے اور موطا میں یہ منقطع ہے۔ ابو عمر نے کہا یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارشاد ادعونی استجب لکم (غافر :60) کی تفسیر میں نقل کی جاتی ہے۔ یہ سب اجابت (قبولیت) پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جو بندہ دعا کرتا ہے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ اگر جو دنیا میں اپنے لئے رزق کی دعا کرتا ہے تو وہ اسے عطا کیا جاتا ہے اگر اسے دنیا میں نہیں دیا جاتا تو اس کے لئے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : ابو سعید کی حدیث اگرچہ تین صورتوں میں سے ایک صورت میں قبولیت کی دلیل ہے لیکن گزر چکا ہے کہ وہ حد سے تجاوز کرنے سے اجتناب کرنے والا ہو جو قبولیت سے مانع ہے۔ ارشاد فرمایا : جب وہ گناہ یا قطع رحمی کا سوال نہ کرے۔ اور مسلم میں یہ زائد ہے کہ جب وہ جلدی نہ کرے۔ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ سے نبی کریم ﷺ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ مانگے، جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ جلدی کرنے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا بندہ کہے میں نے دعا کی اور میں نے دعا کی میں نے تمہیں دیکھا کہ میری دعا قبول ہوئی پس وہ اس دعا کو نہیں مانگتا اور دعا چھوڑ دیتا ہے۔ بخاری، مسلم اور ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ کہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ہمارے علماء نے فرمایا : حدیث کے الفاظ یستجاب لاحدکم (ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے) قبولیت کے وقوع کے وجوب کے متعلق خبر دینے اور قبولیت کے وقوع کے جواز کے متعلق خبر دینے کا احتمال رکھتے ہیں۔ جب وجوب کے متعلق خبر دینے کا معنی ہو تو قبولیت مذکور تین چیزوں کے مفہوم کے ساتھ ہوگی۔ جب وہ کہے : میں نے دعا مانگی اور قبول نہیں ہوئی تو ان تین چیزوں میں سے ایک کا وقوع باطل ہوا اور دعا سب چیزوں سے خالی ہوگئی اور اگر قبولیت کے جواز کے معنی میں ہو تو جو اس نے مانگا اس کے فعل کے ساتھ خاص ہوگی اور دعا کرنے والے کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی اسے مانع ہے کیونکہ مایوسی ضعف، تعیین اور ناراضگی کے باب سے ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی طرح دعا کی قبولیت سے حرام کا کھانا بھی مانع ہے اور جو چیز حرام کے مفہوم میں ہو وہ بھی دعا کی قبولیت سے مانع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بال اور پراگندہ حال وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتا ہے (عرض کرتا ہے) یا رب یا راب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور اس کا لباس حرام ہے اور اسے حرام کے ساتھ غذا دی گئی ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی ؟ سوالیہ انداز میں فرمایا کہ جو اس صفت پر ہو اس کی دعا کا قبول ہونا بہت بعید ہے کیونکہ دعا کی قبولیت کے لئے داعی (دعا کرنے والا) میں یہ شرط ہے کہ وہ جاننے والا ہو کہ اس کی حاجت پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے اور سارے وسائط اس کے قبضہ میں ہیں اور اس کی تسخیر کے ساتھ مسخر ہیں اور وہ سچی نیت اور حضور قلب کے ساتھ دعا مانگے کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا اور وہ حرام کھانے سے اجتناب کرنے والا ہو اور دعا سے اکتا نے والا نہ ہو اور جو چیز مانگی جا رہی ہے اس کی شرط سے یہ ہے کہ ایسے امور سے ہو جس کا مطلب کرنا جائز ہو اور وہ فعل شرعی ہو جیسے ارشاد فرمایا جب تک وہ گناہ اور قطعی رحمی کا سوال نہ کرے۔ پس گناہ میں ہر گناہ داخل ہے جس کے ساتھ انسان گنہگار ہوتا ہے اور قطع رحمی میں مسلمانوں کے تمام حقوق اور مظالم داخل ہیں۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : دعا کی سات شرائط ہیں (1) تضرع (2) خوف (3) امید (4) ہمیشگی (5) خشوع (6) عموم (7) حلال کھانا۔ ابن عطا نے کہا : دعا کے ارکان، پر اسباب اور اوقات ہیں اگر اس کے ارکان پائے جائیں تو وہ قوی ہوجاتی ہے۔ اگر اسے پر مل جائیں تو وہ آسمان کی طرف اڑ جاتی ہے، اگر اسے وقت سے موافقت ہوجائے تو کامیاب ہوجاتے ہے، اگر اسباب سے موافقت کر جائے تو کامیاب ہوجاتی ہے، دعا کے ارکان حضور قلب، رأفت، عجز اور خشوع ہے اس کے پر سچائی ہے، اس کا وقت سحری کا وقت ہے اس کے اسباب حضرت محمد ﷺ پر درودو پڑھنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی چار شرائط ہیں (1) تنہائی کے وقت، دل کی حفاظت کرنا، مخلوق کے ساتھ ہوتے ہوئے زبان کی حفاظت کرنا اور اسی چیزوں کی طرف دیکھنے سے آنکھ کی حفاظت کرنا جن کا دیکھنا حلال نہیں اور حرام چیز سے پیٹ کی حفاظت کرنا۔ بعض علماء نے فرمایا : دعا کی شرائط میں سے ہے کہ وہ غلطی سے سلامت ہو۔ بعض نے کہا : ینادی ربہ باللحن لیث کذالک اذا دعاہ لا یجیب لیث اپنے رب سے غلطی کے ساتھ دعا مانگتا ہے اس طرح جو وہ دعا مانگتا ہے تو وہ قبول نہیں کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم سے پوچھا گیا : کیا وجہ ہے کہ ہم دعا مانگتے ہیں اور ہماری دعا قبول نہیں کی جاتی ؟ فرمایا : اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا لیکن تم نے اس کی اطاعت نہ کی، تم نے رسول کریم ﷺ کو پہچانا اور اس کی سنت کی اتباع نہ کی، تم نے قرآن کو پہچانا اور اس کے مطابق عمل نہ کیا، تم نے اللہ کی نعمتوں کو کھایا اور ان کا شکر ادا نہیں کیا، تم نے جنت کو پہچانا اور اس کو طلب نہیں کیا۔ تم نے آگ کو پہچانا اور اس سے بھاگے نہیں ہو، تم نے شیطان کو پہچانا اور اسے سے تم نے جنگ نہیں کی ہے بلکہ تم نے اس سے موافقت کی ہے، تم نے موت کو پہچانا اور تم نے اس کے لئے تیاری نہیں کی، تم نے مردوں کو دفن کیا اور تم نے عبرت حاصل نہیں کی، تم نے اپنے عیوب کو ترک کیا اور لوگوں کے عیوب کے ساتھ مشغول ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے نوف البکالی کو کہا : اے نوف ! اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو وحی کی تھی کہ بنی اسرائیل کو کہو کہ وہ میرے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہ ہوں مگر پاک دلوں کے ساتھ، جھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ، پاک ہاتھوں کے ساتھ، میں ان میں سے کسی کی دعا قبول نہیں کروں گا جب تک میری مخلوق میں سے کسی کے لئے ظلم موجود ہوگا۔ اے نوف ! نہ تو پیغام پہنچانے والا بن، نہ سپاہی بن، نہ ٹیکس وصول کرنے والا بن اور نہ عشر وصول کرنے والا بن کیونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) رات کی ایک گھڑی میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ ایسا وقت ہے جو بندہ دعا مانگتا ہے اس کے لئے دعا قبول کی جاتی ہے مگر یہ کہ وہ بادشاہوں کو پیغام پہنچانے والا ہو یا سپاہی ہو یا ٹیکس وصول کرنے والا ہو یا عشر وصول کرنے والا ہو یا طنبور بجانے والا ہو یا طبل بجانے والا ہو۔ ہمارے علماء نے فرمایا : دعا کرنے والا یہ نہ کہے، اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر، اسے اللہ ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت کر اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر بلکہ اپنی دعا اور اپنے رسول کو چاہنے کے قول سے خالی کرے۔ اور اس شخص کے سوال کی طرح سوال کرے جو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں کرتا مگر جو چاہتا ہے (اگر تو چاہے) کے قول میں اس کی مغفرت، عطا اور رحمت سے استغنا کی ایک قسم ہے جیسے کوئی کہنے والا کہتا ہے اگر تو چاہے کہ مجھے عطا کر تو ایسا کر۔ یہ استغنا اور عدم ضرورت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مجبور شخص تو اپنے سوال میں عزم و یقین رکھتا ہے وہ اس فقیر کی طرح سوال کرتا ہے جو اپنے سوال کی طرف مجبور ہوتا ہے۔ ائمہ نے روایت کیا ہے، یہ بخاری کے الفاظ کا ترجمہ ہے حضرت انس بن مالک نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی دعا مانگے توعزم کے ساتھ سوال کرے۔ یہ نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔ مؤطا میں ہے یہ نہ کہے : اے اللہ ! میری مغفرت فرما اگر تو چاہے ! اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما اگر تو چاہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : (عزم سے سوال کرے) یہ قول دلیل ہے کہ مومن کو دعا میں کوشش کرنی چاہئے اور وہ قبولیت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ وہ کریم ذات سے دعا مانگ رہا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا : کسی کو کسی دعا سے منع نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے بدترین ابلیس کی دعا کو بھی قبول فرمایا۔ اس نے عرض کی تھی : انظرنی الیٰ یوم یبعثون (اعراف : 14) مہلت دے مجھے اس دن تک جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انک من المنظرین (اعراف :15) بیشک تو مہلت دیئے ہوؤں میں سے ہے) دعا کے لئے اوقات اور احوال ہیں جن میں غالب طور پر قبول ہوتی ہے جیسے سحری کا وقت، افطاری کا وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، بدھ کے روز ظہر اور عصر کے درمیان، اضطرار کے وقت ، سفر اور مرض کی حالت میں بارش کے نزول کے وقت اور اللہ کے راستہ میں مجاہدین کی صف میں کھڑے ہونے کے وقت ان اوقات میں سے ہر وقت کے بارے میں آثار مروی ہیں ان کا بیان اپنے مقام پر آئے گا۔ حضرت شہر بن حوشب نے روایت کیا ہے کہ حضرت ام الدرداء نے انہیں کہا : اے شہر ! کیا تم کپپ کی کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت جابر عبداللہ نے فرمایا : مسجد الفتح میں تین دن دعا مانگی، سوموار، منگل اور بدھ اور بدھ کے روز دو نمازوں (ظہر اور عصر) کے درمیان آپ کی دعا قبول کی گئی میں نے آپ کے چہرہ اقدس میں خوشی دیکھی۔ حضرت جابر نے فرمایا : مجھ پر کبھی انتہائی مشکل امر نازل نہیں ہوا مگر میں نے اس گھڑی کی کوشش کی پھر میں نے اس میں دعا مانگی تو میں قبولیت کو جان گیا۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیستجیبوالی ابو جاخراسانی نے کہا : اس کا معنی ہے مجھ سے مانگو۔ ابن عطیہ نے کہا : اس کا معنی ہے انہیں طلب کرنا چاہیے کہ ان کی دعا قبول کرتا ہوں۔ یہ باب استفعال سے ہے یعنی اس نے چیز کو طلب کیا مگر جو سخت تھی جیسے استغنیٰ اللہ۔ مجاہد وغیرہ نے کہا : اس کا معنی ہے وہ قبول کریں ایمان جس کی طرف میں نے انہیں بلایا ہے یعنی اطاعت اور عمل۔۔۔ کہا جاتا ہے اجاب اور استجاب ہم معنی ہیں۔ شاعر کا قول ہے۔ فلم یستجبه عند ذالک مجیب۔ اس وقت قبول کرنے والے نے اس کی بات قبول نہ کی۔ سین زائدہ ہے لام، لام امر ہے اسی طرح ولیؤمنوا لام امر نے فعل کو جزم دی کیونکہ یہ فعل کو مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے۔ پس یہ ان شرطیہ کے مشابہ ہے۔ بعض نے فرمایا کیونکہ یہ صرف فعل پر واقع ہوتا ہے۔ الرشاد، یہ الغی (گمراہی) کا متضاد ہے۔ وقد رشد یرشد رشد اور رشد یرشد رشداً اس میں ایک لغت ہے اور ارشدہ اللہ، المراشد، مقاصد الطرق۔ راستوں کے مقاصد۔ الطریق الارشد جیسے الطریق الاقصد ہے۔ تو کہتا ہے ھولرشدۃ تیرے قول زنیة کے خلاف ہے، ام راشد، چوہیا کی کنیت ہے۔ بنورشد ان عربوں کے قبائل۔ جوہری کے قبائل۔ جوہری سے مروی ہے، ہر وی نے کہا : الرشد، الرشد والرشاد سب کا معنی ہدایت و استقامت ہے اسی سے ہے : لعلھم یرشدون۔
Top