Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
سَاَلَكَ
: آپ سے پوچھیں
عِبَادِيْ
: میرے بندے
عَنِّىْ
: میرے متعلق
فَاِنِّىْ
: تو میں
قَرِيْبٌ
: قریب
اُجِيْبُ
: میں قبول کرتا ہوں
دَعْوَةَ
: دعا
الدَّاعِ
: پکارنے والا
اِذَا
: جب
دَعَانِ
: مجھ سے مانگے
ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا
: پس چاہیے حکم مانیں
لِيْ
: میرا
وَلْيُؤْمِنُوْا
: اور ایمان لائیں
بِيْ
: مجھ پر
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَرْشُدُوْنَ
: وہ ہدایت پائیں
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں
آیت نمبر
186
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا سالک اس کا معنی ہے جب یہ آپ سے معبود کے بارے میں پوچھیں تو انہیں بتاؤ کہ وہ قریب ہے وہ اطاعت پر ثواب دیتا ہے اور دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے اور بندہ جو صوم و صلاۃ میں سے کرتا ہے اسے وہ جانتا ہے۔ اس آیت کے سبب نزول میں اختلاف ہے۔ مقاتل نے کہا : حضرت عمر ؓ نے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا کئے تو اس پر بہت شرمندہ ہوئے اور رونے لگے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور صورت حال عرض کی اور پریشان ہو کر واپس آئے اور رخصت کے نزول سے پہلے یہ مسئلہ تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی : واذا سالک عبادی عنی فانی قریب مسئلہ نمبر
2
: بعض علماء نے فرمایا : جب ابتدا میں سونے کے بعد کھانا ترک کرنا واجب ہوا تو بعض نے سونے کے بعد کھانا کھالیا پھر پریشان ہوا تو توبہ کی قبولیت میں یہ آیت نازل ہوئی اور پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ کلبی نے ابو صالح عن ابن عباس کے سلسلہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : یہود نے کہا ہمارا رب ہماری دعا کیسے سنتا ہے جبکہ تمہارا خیال ہے کہ ہمارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور پھر ہر آسمان کی موٹائی بھی اتنی ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حسن نے کہا : اس کا سبب یہ ہے کہ ایک قول نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے مناجات کریں یا دور ہے کہ ہم اسے پکاریں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ عطا اور قتادہ نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی وقال ربکم ادعونی استجب لکم (غافر :
60
) تو ایک قوم نے کہا ہم کس وقت اسی سے دعا مانگیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اجیب دعوۃ الداع اذا دعان یعنی جو میری عبادت کرتا ہے میں اس کی عبادت قبول کرتا ہوں۔ دعا بمنعی عبادت ہے، اجابت کا معنی قبول کرنا ہے۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے حضرت نعمان بن بشیر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ فرمایا : دعا عبادت ہے تمہارے رب نے فرمایا : تم میری عبادت کرو میں تمہاری عبادت قبول کروں گا۔ دعا کو عبادت کہا جاتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین یستکبرون۔۔۔۔ دخرین (غافر) (جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہوکر) ۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا حکم دیا اور اس پر ابھارا اور اس کو عبادت فرمایا اور دعا مانگنے والوں کی دعا کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لیث نے شہر بن حوشب سے انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا : میری امت کو تین چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو کسی کو عطا نہیں کی گئیں سوائے انبیاء کرام کے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کوئی نبی مبعوث فرمایا تو ارشاد فرمایا : تو مجھ سے دعا کر میں تیری دعا قبول کروں گا اور اس امت کو بھی یہی فرمایا : ادعونی استجب لکم (غافر :
60
) تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، جب بھی کوئی نبی مبعوث فرمایا تو ارشاد فرمایا تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور اس امت کو بھی فرمایا تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور جب اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث فرمایا تو اسے اپنی قوم پر گواہ بنایا اور اس امت کو تمام لوگوں پر گواہ بنایا۔ خالد الربعی فرماتے تھے اس امت کے لئے ادعونی استجب لکم میں میں تعجب کرتا ہوں۔ خود ہی اللہ نے انہیں دعا کا حکم فرمایا اور خود ہی قبولیت کا وعدہ فرمایا اور ان کے درمیان کوئی شرط نہیں ہے۔ کسی کہنے والے نے اسن سے کہا اس کی مثل کیا ہے۔ فرمایا : اس کی مثال یہ ارشاد ہے : وبشر الذین امنوا وعملوا الصلحت (البقرہ :
25
) یہ شرط ہے اور وبشر الذین امنوا ان لھم قدم صدق (یونس :
2
) میں عمل کی شرط نہیں ہے۔ اور فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین (غافر :
14
) یہاں شرط ہے اور ادعونی استجب لکم میں شرط نہیں ہے۔ پہلی امتیں اپنی ضروریات میں اپنے انبیاء کی بارگاہ میں پناہ لیتی تھیں حتیٰ کہ ان کے انبیاء ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے سوال کرتے تھے۔ اگر کہا جائے کہ بہت سے دعا کرنے والے مانگتے ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہوتی۔ پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان اجیب اور استجب ہر دعا مانگنے والے کی دعا کو مطلقاً قبول کرنے کا تقاضا نہیں کرتا اور ہر مطلوب کو عطا کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا : ادعوا ربکم۔۔۔۔۔ المعتدین (اعراف) (دعا کرو اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ بیشک اللہ نہیں دوست رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو) ہر وہ شخص جو جانتے ہوئے گناہ کبیرہ پر مصر ہے یا جہالت کی وجہ سے گناہ کبیرہ کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پس اس کی دعا کیسے قبول کرے گا اور حد سے تجاوز کرنے کی بہت سی اقسام ہیں۔ ان کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة اعراف میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے اگر میں چاہوں گا تو قبول کروں گا جیسے ارشاد فرمایا : فیکشف ما تدعون الیہ ان شآء (انعام :
41
) (تو دور کر دے گا وہ تکلیف پکارا تھا تم نے جس کے لئے اگر چاہے) پس یہ مطلق و مقید کے باب سے ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے تین دعائیں مانگیں اور دو آپ کو عطا کی گئیں اور ایک سے روکا گیا۔ اس کا بیان انشاء اللہ سورة انعام میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان اخبار کا مقصود تمام مومنین کی تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ وہ فی الجملہ دعا کرنے والوں کی دعا کو قبول فرماتا ہے، وہ اپنے بندے کے قریب ہے، اس کی دعا کو سنتا ہے اور اس کے اضطرار کو جانتا ہے اور جو چاہتا ہے قبول فرماتا ہے اور جیسے چاہتا ہے۔ ومن اضل ممن۔۔۔۔ لہ (احقاف :
5
) (اور کون زیادہ گمراہ ہے اس (بدبخت) سے جو پکارتا ہے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود کو جو قیامت تک اس کی فرماید قبول نہیں کرسکتا) ۔ مالک اپنے غلام کی بات کبھی قبول کرتا ہے، والد اپنے بیٹے کی بات کبھی قبول کرتا ہے پر اس کا سوال اسے عطا نہیں کرتا۔ پس دعا کے پائے جانے کے وقت قبولیت لامحالہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ أجیب اور استجب خبر ہیں اور خبر منسوخ نہیں ہوتی ورنہ مخبر جھوٹا ہوجائے گا۔ اس تاویل پر حضرت عبد اللہ کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے لئے دعا میں (دروازہ) کھولا گیا اس کے لئے قبولیت کے دروازے کھولے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ تم میرے بندوں میں سے ظالموں کو کہو مجھ سے مت مانگو کیونکہ میں نے اپنے اوپر واجب کر رکھا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں گا جو مجھ سے دعا مانگے گا اور میں جب ظالموں کی دعا قبول کروں گا تو میں ان پر لعنت کروں گا ایک قوم نے کہا : اللہ تعالیٰ ہر دعا قبول فرماتا ہے یا تو اس کی قبولیت دنیا میں ظاہر فرماتا ہے یا اس دعا کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ کردیتا ہے۔ کیونکہ حضرت ابو سعید خدری نے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان دعا مانگتا ہے جب کہ اس میں گناہ اور قطع رحمہ کا سوال نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تین چیزوں میں سے ایک چیز عطا فرماتا ہے یا تو جلدی اس کی دعا کو (قبول فرما کر) پورا کردیتا ہے یا اس کے لئے اسے ذخیرہ فرما دیتا ہے یا اس سے اس کی مثل تکلیف کو دور کردیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی : پھر تو ہم زیادہ دعا کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ اس سے زیادہ قبول کرنے والا ہے اور عطا کرنے والا ہے۔ ابو عمر بن عبد البر نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابو محمد عبد الحق نے اسے صحیح کہا ہے اور موطا میں یہ منقطع ہے۔ ابو عمر نے کہا یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارشاد ادعونی استجب لکم (غافر :
60
) کی تفسیر میں نقل کی جاتی ہے۔ یہ سب اجابت (قبولیت) پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جو بندہ دعا کرتا ہے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ اگر جو دنیا میں اپنے لئے رزق کی دعا کرتا ہے تو وہ اسے عطا کیا جاتا ہے اگر اسے دنیا میں نہیں دیا جاتا تو اس کے لئے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : ابو سعید کی حدیث اگرچہ تین صورتوں میں سے ایک صورت میں قبولیت کی دلیل ہے لیکن گزر چکا ہے کہ وہ حد سے تجاوز کرنے سے اجتناب کرنے والا ہو جو قبولیت سے مانع ہے۔ ارشاد فرمایا : جب وہ گناہ یا قطع رحمی کا سوال نہ کرے۔ اور مسلم میں یہ زائد ہے کہ جب وہ جلدی نہ کرے۔ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ سے نبی کریم ﷺ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ مانگے، جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ جلدی کرنے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا بندہ کہے میں نے دعا کی اور میں نے دعا کی میں نے تمہیں دیکھا کہ میری دعا قبول ہوئی پس وہ اس دعا کو نہیں مانگتا اور دعا چھوڑ دیتا ہے۔ بخاری، مسلم اور ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ کہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ہمارے علماء نے فرمایا : حدیث کے الفاظ یستجاب لاحدکم (ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے) قبولیت کے وقوع کے وجوب کے متعلق خبر دینے اور قبولیت کے وقوع کے جواز کے متعلق خبر دینے کا احتمال رکھتے ہیں۔ جب وجوب کے متعلق خبر دینے کا معنی ہو تو قبولیت مذکور تین چیزوں کے مفہوم کے ساتھ ہوگی۔ جب وہ کہے : میں نے دعا مانگی اور قبول نہیں ہوئی تو ان تین چیزوں میں سے ایک کا وقوع باطل ہوا اور دعا سب چیزوں سے خالی ہوگئی اور اگر قبولیت کے جواز کے معنی میں ہو تو جو اس نے مانگا اس کے فعل کے ساتھ خاص ہوگی اور دعا کرنے والے کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی اسے مانع ہے کیونکہ مایوسی ضعف، تعیین اور ناراضگی کے باب سے ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی طرح دعا کی قبولیت سے حرام کا کھانا بھی مانع ہے اور جو چیز حرام کے مفہوم میں ہو وہ بھی دعا کی قبولیت سے مانع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بال اور پراگندہ حال وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتا ہے (عرض کرتا ہے) یا رب یا راب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور اس کا لباس حرام ہے اور اسے حرام کے ساتھ غذا دی گئی ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی ؟ سوالیہ انداز میں فرمایا کہ جو اس صفت پر ہو اس کی دعا کا قبول ہونا بہت بعید ہے کیونکہ دعا کی قبولیت کے لئے داعی (دعا کرنے والا) میں یہ شرط ہے کہ وہ جاننے والا ہو کہ اس کی حاجت پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے اور سارے وسائط اس کے قبضہ میں ہیں اور اس کی تسخیر کے ساتھ مسخر ہیں اور وہ سچی نیت اور حضور قلب کے ساتھ دعا مانگے کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا اور وہ حرام کھانے سے اجتناب کرنے والا ہو اور دعا سے اکتا نے والا نہ ہو اور جو چیز مانگی جا رہی ہے اس کی شرط سے یہ ہے کہ ایسے امور سے ہو جس کا مطلب کرنا جائز ہو اور وہ فعل شرعی ہو جیسے ارشاد فرمایا جب تک وہ گناہ اور قطعی رحمی کا سوال نہ کرے۔ پس گناہ میں ہر گناہ داخل ہے جس کے ساتھ انسان گنہگار ہوتا ہے اور قطع رحمی میں مسلمانوں کے تمام حقوق اور مظالم داخل ہیں۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : دعا کی سات شرائط ہیں (
1
) تضرع (
2
) خوف (
3
) امید (
4
) ہمیشگی (
5
) خشوع (
6
) عموم (
7
) حلال کھانا۔ ابن عطا نے کہا : دعا کے ارکان، پر اسباب اور اوقات ہیں اگر اس کے ارکان پائے جائیں تو وہ قوی ہوجاتی ہے۔ اگر اسے پر مل جائیں تو وہ آسمان کی طرف اڑ جاتی ہے، اگر اسے وقت سے موافقت ہوجائے تو کامیاب ہوجاتے ہے، اگر اسباب سے موافقت کر جائے تو کامیاب ہوجاتی ہے، دعا کے ارکان حضور قلب، رأفت، عجز اور خشوع ہے اس کے پر سچائی ہے، اس کا وقت سحری کا وقت ہے اس کے اسباب حضرت محمد ﷺ پر درودو پڑھنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی چار شرائط ہیں (
1
) تنہائی کے وقت، دل کی حفاظت کرنا، مخلوق کے ساتھ ہوتے ہوئے زبان کی حفاظت کرنا اور اسی چیزوں کی طرف دیکھنے سے آنکھ کی حفاظت کرنا جن کا دیکھنا حلال نہیں اور حرام چیز سے پیٹ کی حفاظت کرنا۔ بعض علماء نے فرمایا : دعا کی شرائط میں سے ہے کہ وہ غلطی سے سلامت ہو۔ بعض نے کہا : ینادی ربہ باللحن لیث کذالک اذا دعاہ لا یجیب لیث اپنے رب سے غلطی کے ساتھ دعا مانگتا ہے اس طرح جو وہ دعا مانگتا ہے تو وہ قبول نہیں کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم سے پوچھا گیا : کیا وجہ ہے کہ ہم دعا مانگتے ہیں اور ہماری دعا قبول نہیں کی جاتی ؟ فرمایا : اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا لیکن تم نے اس کی اطاعت نہ کی، تم نے رسول کریم ﷺ کو پہچانا اور اس کی سنت کی اتباع نہ کی، تم نے قرآن کو پہچانا اور اس کے مطابق عمل نہ کیا، تم نے اللہ کی نعمتوں کو کھایا اور ان کا شکر ادا نہیں کیا، تم نے جنت کو پہچانا اور اس کو طلب نہیں کیا۔ تم نے آگ کو پہچانا اور اس سے بھاگے نہیں ہو، تم نے شیطان کو پہچانا اور اسے سے تم نے جنگ نہیں کی ہے بلکہ تم نے اس سے موافقت کی ہے، تم نے موت کو پہچانا اور تم نے اس کے لئے تیاری نہیں کی، تم نے مردوں کو دفن کیا اور تم نے عبرت حاصل نہیں کی، تم نے اپنے عیوب کو ترک کیا اور لوگوں کے عیوب کے ساتھ مشغول ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے نوف البکالی کو کہا : اے نوف ! اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو وحی کی تھی کہ بنی اسرائیل کو کہو کہ وہ میرے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہ ہوں مگر پاک دلوں کے ساتھ، جھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ، پاک ہاتھوں کے ساتھ، میں ان میں سے کسی کی دعا قبول نہیں کروں گا جب تک میری مخلوق میں سے کسی کے لئے ظلم موجود ہوگا۔ اے نوف ! نہ تو پیغام پہنچانے والا بن، نہ سپاہی بن، نہ ٹیکس وصول کرنے والا بن اور نہ عشر وصول کرنے والا بن کیونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) رات کی ایک گھڑی میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ ایسا وقت ہے جو بندہ دعا مانگتا ہے اس کے لئے دعا قبول کی جاتی ہے مگر یہ کہ وہ بادشاہوں کو پیغام پہنچانے والا ہو یا سپاہی ہو یا ٹیکس وصول کرنے والا ہو یا عشر وصول کرنے والا ہو یا طنبور بجانے والا ہو یا طبل بجانے والا ہو۔ ہمارے علماء نے فرمایا : دعا کرنے والا یہ نہ کہے، اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر، اسے اللہ ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت کر اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر بلکہ اپنی دعا اور اپنے رسول کو چاہنے کے قول سے خالی کرے۔ اور اس شخص کے سوال کی طرح سوال کرے جو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں کرتا مگر جو چاہتا ہے (اگر تو چاہے) کے قول میں اس کی مغفرت، عطا اور رحمت سے استغنا کی ایک قسم ہے جیسے کوئی کہنے والا کہتا ہے اگر تو چاہے کہ مجھے عطا کر تو ایسا کر۔ یہ استغنا اور عدم ضرورت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مجبور شخص تو اپنے سوال میں عزم و یقین رکھتا ہے وہ اس فقیر کی طرح سوال کرتا ہے جو اپنے سوال کی طرف مجبور ہوتا ہے۔ ائمہ نے روایت کیا ہے، یہ بخاری کے الفاظ کا ترجمہ ہے حضرت انس بن مالک نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی دعا مانگے توعزم کے ساتھ سوال کرے۔ یہ نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔ مؤطا میں ہے یہ نہ کہے : اے اللہ ! میری مغفرت فرما اگر تو چاہے ! اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما اگر تو چاہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : (عزم سے سوال کرے) یہ قول دلیل ہے کہ مومن کو دعا میں کوشش کرنی چاہئے اور وہ قبولیت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ وہ کریم ذات سے دعا مانگ رہا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا : کسی کو کسی دعا سے منع نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے بدترین ابلیس کی دعا کو بھی قبول فرمایا۔ اس نے عرض کی تھی : انظرنی الیٰ یوم یبعثون (اعراف :
14
) مہلت دے مجھے اس دن تک جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انک من المنظرین (اعراف :
15
) بیشک تو مہلت دیئے ہوؤں میں سے ہے) دعا کے لئے اوقات اور احوال ہیں جن میں غالب طور پر قبول ہوتی ہے جیسے سحری کا وقت، افطاری کا وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، بدھ کے روز ظہر اور عصر کے درمیان، اضطرار کے وقت ، سفر اور مرض کی حالت میں بارش کے نزول کے وقت اور اللہ کے راستہ میں مجاہدین کی صف میں کھڑے ہونے کے وقت ان اوقات میں سے ہر وقت کے بارے میں آثار مروی ہیں ان کا بیان اپنے مقام پر آئے گا۔ حضرت شہر بن حوشب نے روایت کیا ہے کہ حضرت ام الدرداء نے انہیں کہا : اے شہر ! کیا تم کپپ کی کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت جابر عبداللہ نے فرمایا : مسجد الفتح میں تین دن دعا مانگی، سوموار، منگل اور بدھ اور بدھ کے روز دو نمازوں (ظہر اور عصر) کے درمیان آپ کی دعا قبول کی گئی میں نے آپ کے چہرہ اقدس میں خوشی دیکھی۔ حضرت جابر نے فرمایا : مجھ پر کبھی انتہائی مشکل امر نازل نہیں ہوا مگر میں نے اس گھڑی کی کوشش کی پھر میں نے اس میں دعا مانگی تو میں قبولیت کو جان گیا۔ مسئلہ نمبر
4
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیستجیبوالی ابو جاخراسانی نے کہا : اس کا معنی ہے مجھ سے مانگو۔ ابن عطیہ نے کہا : اس کا معنی ہے انہیں طلب کرنا چاہیے کہ ان کی دعا قبول کرتا ہوں۔ یہ باب استفعال سے ہے یعنی اس نے چیز کو طلب کیا مگر جو سخت تھی جیسے استغنیٰ اللہ۔ مجاہد وغیرہ نے کہا : اس کا معنی ہے وہ قبول کریں ایمان جس کی طرف میں نے انہیں بلایا ہے یعنی اطاعت اور عمل۔۔۔ کہا جاتا ہے اجاب اور استجاب ہم معنی ہیں۔ شاعر کا قول ہے۔ فلم یستجبه عند ذالک مجیب۔ اس وقت قبول کرنے والے نے اس کی بات قبول نہ کی۔ سین زائدہ ہے لام، لام امر ہے اسی طرح ولیؤمنوا لام امر نے فعل کو جزم دی کیونکہ یہ فعل کو مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے۔ پس یہ ان شرطیہ کے مشابہ ہے۔ بعض نے فرمایا کیونکہ یہ صرف فعل پر واقع ہوتا ہے۔ الرشاد، یہ الغی (گمراہی) کا متضاد ہے۔ وقد رشد یرشد رشد اور رشد یرشد رشداً اس میں ایک لغت ہے اور ارشدہ اللہ، المراشد، مقاصد الطرق۔ راستوں کے مقاصد۔ الطریق الارشد جیسے الطریق الاقصد ہے۔ تو کہتا ہے ھولرشدۃ تیرے قول زنیة کے خلاف ہے، ام راشد، چوہیا کی کنیت ہے۔ بنورشد ان عربوں کے قبائل۔ جوہری کے قبائل۔ جوہری سے مروی ہے، ہر وی نے کہا : الرشد، الرشد والرشاد سب کا معنی ہدایت و استقامت ہے اسی سے ہے : لعلھم یرشدون۔
Top